قرآن کی حاکمیت اور گمراہ کن افکار کی پہچان کی ضرورت

قرآن کی حاکمیت اور گمراہ کن افکار کی پہچان کی ضرورت

کپی کردن لینک

قرآن کریم کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے معاشرے کا کلچر قرآنی ہدایات کے مطابق تشکیل پاتا ہے، جس سے لوگ گمراہی سے محفوظ رہتے ہیں۔ تاہم، قرآن کی حاکمیت اور اس کے اثرات کو برقرار رکھنے کے لیے گمراہ کن افکار کی شناخت اور اس کے خلاف بیداری اور مقابلہ بھی ضروری ہے۔

قرآن کریم انسانیت کے لیے ہدایت، نجات اور سعادت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ قرآن کی حاکمیت کو معاشرے میں قائم کرنا اور اس کی ہدایات پر عمل پیرا ہونا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ تاہم، قرآن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ گمراہ کن افکار اور شیطان کی مکر آمیز چالیں ہیں، جو انسانوں کو قرآن و دین سے دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

قرآن کی حاکمیت اور باطل کی پہچان کی ضرورت

ان گمراہ کن افکار کی شناخت اور ان کا مقابلہ کرنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ باطل کی پہچان کے بغیر حق کو پانا ممکن نہیں۔ اس متن میں قرآن کی حاکمیت، گمراہ کن افکار کے خلاف بیداری، اور شیطان کی چالوں سے آگاہی جیسے اہم موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مخالفان قرآن کریم کے گمراہ کن افکار کی شناخت کے بغیر، آشکارا طور پر ان کا مقابلہ کئے بغیر اور ان کی فکری سازشوں کو برملا کئے بغیر، معاشرہ کی ہدایت اور قرآن کریم کے مکتب فکر کو حاکم کرنا دینی اعتقادات و اقدار کی بنیاد پر کچھ آسان کام نہیں ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے اکثر مواقع پر غفلت برتی جاتی ہے۔

اس بنا پر قرآن کریم کے سمجھنے اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے میں مسلسل کوشش کے ذریعہ کسی وقت بھی قرآن کریم کے دشمنوں اور مخالفوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

قرآن کریم سے تمسک کرنا اوراس آسمانی کتاب کو حَکَم قرار دینا، قرآن کریم کے خلاف گمراہ کن افکار کی شناخت اور ان سے مقابلہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

حق و باطل جس طرح کہ مقام شناخت میں متضایف ہیں اسی طرح مقام عمل میں بھی متضایف ہیں، یعنی آپ اگر حق کو پہچان لیں گے تو باطل کو بھی پہچان لیں گے، باطل کی شناخت آپ کو حق کی شناخت میں مدد دیتی ہے۔

قرآن کریم کو عملی طور پر معاشرہ میں حاکم قرار دینا، مخالفین اور ان کے گمراہ کن افکار کی شناخت کے بغیر نیز لوگوں کے دینی کلچر کو کمزور کرنے میں ان کی شیطانی سازشوں سے مقابلہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

 نہج البلاغہ کی نظر میں مخالفین قرآن کی شناخت

ہم اس سلسلہ میں پہلے نہج البلاغہ میں مذکور حضرت علی (ع) کے ارشاد کو پیش کرتے ہیں پھر معاشرہ کے افکار کو منحرف کرنے میں مخالفین قرآن کریم کی کارستانیوں اور ملحدین کے شبہوں کو بیان کر کے تمام لوگوں کو خصوصاً معاشرہ کے جوان اور تعلیم یافتہ طبقہ کو دشمنوں کے شیطانی مکر و فریب سے آشنا کریں گے۔

قرآن کی حاکمیت اور دینی مکتب فکر کے مخالفین اور دشمنوں کی شناخت اس قدر اہم ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ہیں:

 ”وَ اعْلَمُوْا إنّکُم لَن تَعرِفُوا الرُّشدَ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی تَرَکَهُ، وَ لَن تَأخُذُوا بِمِیثَاقِ الکِتَابِ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی نَقَضَهُ، وَ لَن تَمَسَّکُوا بِهِ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی نَبَذَهُ فَالْتَمِسُوا ذٰلِکَ مِن عِندِ اَهلِهِ فَإنّهُم عیَشُ الْعِلمِ وَ مَوتُ الجَهلِ”[1]

تم جان لو! کہ ہدایت کو اس وقت تک نہیں پہچان سکتے جب تک اسے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور کتاب خدا کے عہد و پیمان کے پابند اس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک کہ اس کے توڑنے والوں کی شناخت نہ کرلو اور اس سے تمسک اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسے نظر انداز کرنے والوں کی معرفت حاصل نہ کرلو۔

پھر فرماتے ہیں: قرآن کریم ، اس کی تفسیر اور اس کے معارف کو اہل قرآن (اہل بیت طاہرین) سے حاصل کرو اس لئے کہ یہی حضرات الٰہی علوم و معارف کی زندگی اور جہل و نادانی کی موت ہیں۔

امیرالمومنین حضرت علی (ع) کا یہ روشن بیان جو کہ دشمن شناسی، گمراہ کن افکار سے آشنائی کے لزوم اور گمراہوں کے پہچاننے کی ضرورت پر مبنی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی علماء اور الٰہی علوم و معارف کے مبلغین کا فریضہ دوگنا ہے، اس لئے کہ گمراہ کن فکروں اور ملحدین کے شبہوں کو لوگوں کے افکار سے خصوصاً ان جوانوں کے افکار سے دور کرنا، جو کہ دینی علوم و معارف کے اعتبار سے کافی علمی سطح کے حامل نہیں ہیں، تبلیغ اور قرآنی و دینی مکتب فکر کو حاکمیت بخشنے کے بنیادی کاموں میں سے ہے اور اس کے بغیر مطلوب اور لازمی نتیجہ کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔

اس بات کی وضاحت تین حصوں میں بیان کرتے ہیں:

۔ مخالفین کے شبہات۔

۔ مخالفین کی سازشیں۔

۔ ان شبہات کے پیش کرنے کا مقصد۔

اگر چہ قرآن کریم ایسی عظیم نعمت ہے جو خداوند متعال نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے اور اگرچہ خدا نے خود، شیطانوں کی دستبرد اور شیطان صفت انسانوں کی تحریف سے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے.

قرآن کی حاکمیت اور شیطان کی مکر آمیز چالیں

لیکن داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی، اولاد آدم کا یہ قسم خوردہ دشمن، شیطان بھی ہر زمانہ میں ان لوگوں پر حاکم حالات، روحیات و نفسیات کے مطابق، جو کہ اجتماعی حیثیتوں کے اعتبار سے لوگوں کے ذہنوں پر اثر ڈالنے کی قدرت رکھتے ہیں، نفسانی خواہشات کے حصول کے لئے ان کے دلوں میں شک پیدا کر دیتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ تمام لوگوں کواپنے پیچھے کھینچ لے اور قرآن و دین سے منحرف کر دے، چونکہ قرآن کی حاکمیت انسانوں کی نجات، ہدایت اور سعادت کا سب سے بڑا وسیلہ ہے، اس لئے شیطان کی پوری آرزو لوگوں کو قرآن کریم و دین سے جدا کرنا ہے۔

اس راستے میں شیطان کا ایک کام ان لوگوں کو بہکانا اور ان کے اندر وسوسہ پیدا کرنا ہے جو کہ دین و قرآن کے متعلق شک و شبہہ پیدا کر کے لوگوں کے ایمان و اعتقاد میں خلل پیدا کرسکتے ہیں۔

شیطان اور شیطان صفت افراد کی فعالیت قرآن کریم سے مقابلہ کرنے میں نزول قرآن کریم کی ابتدا ہی سے پائی جاتی ہے یہ فعالیتیں آیات الٰہی کے سننے سے ممانعت اور کان میں روئی ڈالنے کی تاکید اور پیغمبر اکرم (ص) پر تہمت و افترا پردازی سے شروع ہوئیں اور آج بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں اور اس کے بعد بھی جاری رہیں گی۔

اس سلسلے میں پوری تاریخ میں قرآن کریم سے مقابلہ کی روش کے جزئیات ذکر کرنے سے صرف نظر کرتے ہیں اور بحث کے طولانی ہونے کے خوف سے ان بعض شبہوں کو ذکر کر کے، جو کہ آج معاشرہ کے درمیان دینی مکتب فکر اور لوگوں، خصوصاً جوانوں کے مذہبی عقائد کو کمزور کرنے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ قارئین اور جوانوں کے ذہنوں کو روشن کریں تاکہ ان شیطانی سازشوں سے آگاہ ہو کر دشمنوں کے ثقافتی حملوں کا مقابلہ کرسکیں۔

چونکہ قرآن کریم سے مقابلہ کرنے میں شیاطین، اس کو نابود اور فنا کرنے سے مایوس ہوگئے، لہٰذا طے کر لیا کہ لوگوں کو اس کے مطالب کی آشنائی سے محروم کر دیں۔

قرآن کی حاکمیت کے مخالفین کئی صدیوں سے مسلمانوں خصوصاً شیعوں کے درمیان ایسی تبلیغ کرتے رہے کہ ہمیں قرآن کریم سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے، اس لئے کہ قرآن کریم ہمارے لئے قابل فہم نہیں ہے اور ہم قرآن کریم کے باطن سے مطلع نہیں ہیں، اس بنا پر قرآن کریم کے ظاہر سے استناد نہیں کیا جاسکتا۔

وہ یہ فکر ایجاد کر کے کہ ہم قرآن کریم کے سمجھنے پر قادر نہیں ہیں، کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کو قرآن کریم کے استفادہ سے محروم کر دیں اور نتیجہ میں قرآن کریم کو مسلمانوں کی زندگی سے نکال دیں۔

اس کے دوران اگر چہ قرآن کریم کا ظاہری احترام، اس کی تلاوت و قرائت، اس کو بوسہ لینے اور مقدس و محترم سمجھنے کی صورت میں مسلمانوں کے درمیان رائج تھا، لیکن جو کچھ قرآن کریم کے دشمنوں اور مخالفوں کا مقصد ہے وہ لوگوں کو قرآن کریم کے مطالب سے اور اس آسمانی کتاب کی ہدایات پر عمل کرنے سے محروم کرنا ہے۔

آج روشن فکری کے دعویدار افراد جو کہ اسلامی علوم و معارف سے بالکل بے بہرہ ہیں سب سے زیادہ گمراہ کن ان شیطانی شبہات اور افکار کو جو کہ صدیوں پہلے سے مغرب میں دوسرے ادیان کی تحریف شدہ کتابوں کے متعلق پیش کئے گئے ہیں، نئی فکر کے نام سے ثقافتی اور علمی معاشروں میں پیش کرتے ہیں، اور علم و دانش کے پیاسے نیز تحصیل علم میں مشغول طبقہ کو تحت تاثیر قرار دیکر اپنے خیال میں ان کے اعتقادی ستون کو کمزور کرتے ہیں۔

وہ اس بات سے غافل ہیں کہ مسلمان خصوصاً تحصیل علم میں مشغول جوان اور ذہین و زیرک تربیت یافتہ افراد، ان کے بے بنیاد، عاریتی اور عقل و منطق سے دور افکار کے بطلان کو جان لیں گے۔

مسلمان اور دیندار تربیت یافتہ افراد کے عقائد و افکار عقل و منطق پر مبنی اور پیغمبر اکرم (ص) اور ائمۂ معصومین (ع) کے علوم سے اخذ شدہ ہیں ان کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے اور جب بھی کوئی مسلمان فکری اور اعتقادی شعبوں میں گمراہ کن افکار سے روبرو ہوتا ہے تو سب سے پہلے ان کو دینی علوم و معارف کے ماہرین اور علماء کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ ان سے صحیح اور منطقی جواب دریافت کرے۔

خاتمہ

قرآن کریم کی حفاظت اور اس کی ہدایات پر عمل درآمد کے لئے گمراہ کن افکار کی شناخت اور ان کے خلاف مستعدی ناگزیر ہے۔ شیطان اور اس کے پیروکاروں کی چالوں کو سمجھ کر ہی ہم قرآن کی حاکمیت کو معاشرے میں قائم کر سکتے ہیں۔ دینی علماء اور ماہرین کی رہنمائی میں، عقل و منطق کی بنیاد پر، ہم گمراہ کن افکار کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور قرآن و دین کی روشنی کو ہر دور میں زندہ رکھ سکتے ہیں.

حوالہ جات

[1] سید رضی، نہج البلاغۃ، خطبۃ ۱۴۷، قم، دار الهجرة، ۱۴۰۹ھ ق۔

 

 مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

مصباح یزدی، محمد تقی، قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں؛ مترجم: فیضی ہندی، ہادی حسن، قم، مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ص ۱۱۱ الی۱۱۶۔

 

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے