حضرت علی (ع) کا اسلام کا اظہار اور قبولیت میں سبقت

حضرت علی (ع) کا اسلام کا اظہار اور قبولیت میں سبقت

کپی کردن لینک

قرآن مجید میں حضرت علی (ع) کو سابقون میں شمار کیا گیا ہے اور آپ کے مقام و منزلت کو اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کرنے کی بنا پر سب سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ اسلام کا اظہار ایک دن یوں ہوا کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے علی العلان نبوت کا دعویٰ کیا، اور اس سے اگلے ہی روز حضرت علی (ع) نے آپ پر ایمان لاتے ہوئے اسلام کا اظہار کیا۔ یہ واقعہ اسلام کا اظہار کرنے والے سب سے اولین اور عظیم ترین لمحات میں شمار کیا جاتا ہے۔

اعلان نبوت کے بعد پہلا مسلمان

حضرت علی (ع) کی زندگی کا دوسرا دور بعثت کے بعد اور ہجرت سے پہلے کا ہے۔ اس وقت آپ کی عمر 13 سال سے زیادہ نہیں تھی حضرت علی (ع) اس پوری مدت میں پیغمبر اسلام ﷺ کے ہمراہ تھے اور تمام ذمہ داریوں کو تحمل کئے ہوئے تھے، اس زمانے کی بہترین اور حساس ترین چیز ایک ایسی قابل افتخار شئ ہے جو امام کو نصیب ہوئی اور پوری تاریخ میں یہ سعادت و افتخار مولائے کائنات کے علاوہ کسی کو نصیب نہ ہوا۔

آپ کی زندگی کا پہلا افتخار اس عمر میں سب سے پہلے اسلام کا اظہار کرنا ہے، بلکہ بہترین لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اپنی دیرینہ آرزو یعنی اسلام کا اظہار اور اعلان کرنا تھا۔ اسلام کے قبول کرنے میں سبقت کرنا اور قوانین توحید کا ماننا ان امور میں سے ہے جس پر قرآن نے بھروسہ کیا ہے، اور جن لوگوں نے اسلام کے قبول کرنے میں سبقت کی ہے صریحاً ان کا اعلان کیا ہے۔

خدا فرماتا ہے: ’’وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ‘‘[1] ‎اور وہ لوگ خدا کی مرضی اور اس کی رحمت قبول کرنے میں بھی سبقت حاصل کرتے ہیں۔

قرآن کریم نے اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کرنے والوں پر اس حد تک خاص توجہ دی ہے کہ وہ لوگ جو فتح مکہ سے بھی پہلے ایمان لائے اور اپنے جان و مال کو خدا کی راہ میں قربان کیا ہے، ان لوگوں پر جو فتح مکہ کی کامیابی کے بعد ایمان لائے ہیں اور جہاد کیا برتری اور فضیلت دی ہے۔[2]

یہ بات واضح ہے کہ آٹھویں ہجری میں مکہ فتح ہوا ہے اور پیغمبر ﷺ نے بعثت کے اٹھارہ سال بعد بت پرستوں کے مضبوط قلعے اور حصار کو بے نقاب کر دیا، فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کے ایمان کی فضیلت و برتری کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اس زمانے میں ایمان لائے جبکہ اسلام کی حکومت شبہ جزیرہ پر نہیں پہونچی تھی، اور ابھی بھی بت پرستوں کا مرکز ایک محکم قلعے کی طرح باقی تھا اور مسلمانوں کی جان و مال کا بہت زیادہ خطرہ تھا۔

اگرچہ مسلمان، مکہ سے پیغمبر اسلام ﷺ کی ہجرت کی وجہ سے، اور گروہ اوس و خزرج اور وہ قبیلے جو مدینے کے آس پاس تھے ایک طاقتور گروہ سمجھے جاتے تھے اور بہت سی لڑائیوں میں کامیاب بھی ہوئے تھے لیکن خطرات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے تھے۔

اس وقت جبکہ اسلام کا اظہار کرنا اور جان و مال کا خرچ کرنا اہمیت رکھتا ہو، قطعی طور پر ابتدائی زمانے میں ایمان کا ظاہر کرنا اور قبول اسلام کا اظہار و اعلان کرنا جب صرف قریش اور دشمنوں کی ہی طاقت و قوت تھی ایسے مقام پر اس کی اہمیت و فضیلت اور بڑھ جاتی ہے اس بنا پر مکہ میں پیغمبر ﷺ کے صحابیوں کے درمیان اسلام کا اظہار اورقبول کرنے میں سبقت حاصل کرنا ایک ایسا افتخار ہے جس کے مقابلے میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔

عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک دن ’’خباب‘‘ سے جس نے اوائل اسلام میں بہت زیادہ زحمتیں برداشت کی تھیں، پوچھا کہ مشرکین مکہ کا برتاؤ تمہارے ساتھ کیسا تھا؟ اس نے اپنے بدن سے پیراہن کو جدا کرکے اپنی جلی ہوئی پشت اور زخموں کے نشان خلیفہ کو دکھایا اور کہا: اکثر و بیشتر مجھے لوہے کی زرہ پہنا کر گھنٹوں مکہ کے تیز اور جلانے والے سورج کے سامنے ڈال دیتے تھے اور کبھی کبھی آگ جلاتے تھے اور مجھے آگ پر لے جاکر بیٹھاتے تھے یہاں تک کہ آگ بجھ جاتی تھی۔[3]

جی ہاں! مسلّم و عظیم فضیلت اور معنوی برتری ان افراد سے مخصوص ہے جن لوگوں نے اسلام کی راہ میں ہر طرح کے ظلم و ستم کو برداشت اور صمیم قلب کے ساتھ اسے قبول کیا۔

حضرت علی (ع) سے پہلے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا

اکثر محدثین و مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ: ’’بعث النبي يوم الإثنين و أسلم علي يوم الثلاثا‘‘ پیغمبر اسلام ﷺ پیر کو منصب رسالت پر فائز ہوئے اور اس کے دوسرے دن (منگل) حضرت علی (ع) ایمان لائے[4] تمام لوگوں سے پہلے اسلام کا اظہار اور قبول کرنے میں حضرت علی (ع) نے سبقت کی، اور پیغمبر ﷺ نے اس کی تصریح کرتے ہوئے صحابہ کے مجمع عام میں فرمایا: ’’أولكم واردا على الحوض أولكم إسلاما علي بن أبي طالب‘‘[5] قیامت کے دن سب سے پہلے جو حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرے گا جس نے اسلام لانے میں تم سب پر سبقت حاصل کی ہے وہ علی ابن ابی طالب (ع) ہے۔

پیغمبر اسلام ﷺ، حضرت امیر المو منین (ع) اور بزرگان دین سے منقول حدیثیں اور روایتیں مولائے کائنات (ع) کے اسلام کا اظہار اور قبول کرنے میں سبقت سے متعلق اس قدر زیادہ ہیں کہ سب کو اس مقالے میں نقل کرنا ممکن نہیں ہے۔ مرحوم علامہ امینی نے اس سلسلے کی تمام روایتوں اور حدیثوں کے متون اور مورخین کے اقوال کو الغدیر کی تیسری جلد ص 191 سے 213 پر نقل کیا ہے۔

اس سلسلے میں امام (ع) کا صرف ایک قول اور ایک واقعہ پیش کر رہے ہیں امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں:

’’أَنَا عَبْدُ اللهِ وَأَخُو رَسُولِهِ ﷺ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَذَّابٌ صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِ سِنِينَ وَاَنَا اَوَّلُ مَنْ صَلَّی مَعَه‘‘[6]

میں خدا کا بندہ، پیغمبر ﷺ کا بھائی اور صدیق اکبر ہوں۔ میرے بعد یہ دعوی صرف جھوٹا شخص ہی کرے گا، تمام لوگوں سے سات سال پہلے میں نے رسول خدا ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں جس نے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑھی۔

امام علی (ع) ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: اس وقت اسلام صرف پیغمبر ﷺ اور خدیجہ کے گھر میں تھا اور میں اس گھر کا تیسرا فرد تھا۔ [7]

ایک اور مقام پر امام (ع) سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئےفرماتے ہیں: ’’اللّهم إنّي أول مَن أناب وسمع وأجاب، لم يسبقني إلّارسول اللَّه صلى الله عليه و آله بالصلاة‘‘[8]

پروردگارا، میں پہلا وہ شخص ہوں جو تیری طرف آیا اور تیرے پیغام کو سنا اور تیرے پیغمبر ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا اور مجھ سے پہلے پیغمبر ﷺ کے علاوہ کسی نے نماز نہیں پڑھی۔

عفیف کندی کا بیان

عفیف کندی کہتے ہیں: ایک دن میں کپڑا اور عطر خریدنے کے لئے مکہ گیا اور مسجد الحرام میں عباس بن عبدالمطلب کے بغل میں جاکر بیٹھ گیا، جب سورج اوج پر پہونچا تو اچانک میں نے دیکھا کہ ایک شخص آیا اور آسمان کی طرف دیکھا پھر کعبہ کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوا، کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک نوجوان آیا اور اس کے داہنے طرف کھڑا ہوگیا پھر ایک عورت آئی اور مسجد میں داخل ہوئی اور ان دونوں کے پیچھے آکر کھڑی ہوگئی۔

پھر وہ تینوں نماز و عبادت میں مشغول ہو گئے، میں اس منظر کو دیکھ کر بہت متعجب ہوا کہ مکہ کے بت پرستوں سے ان لوگوں نے خود کو دور کر رکھا ہے اور مکہ کے خداؤں کے علاوہ دوسرے خدا کی عبادت کررہے ہیں۔ میں حیرت میں تھا، میں عباس کی طرف مخاطب ہوا اور ان سے کہا۔ ’’أَمْرٌ عَظِيمٌ‘‘ عباس نے بھی اسی جملے کو دہرایا اور فرمایا: کیا تم ان تینوں کو پہچانتے ہو؟

میں نے کہا: نہیں! انہوں نے کہا: سب سے پہلے جو مسجد میں داخل ہوا اور دونوں آدمیوں سے آگے کھڑا ہوا وہ میرا بھتیجا محمد بن عبداللہ ہے اور دوسرا شخص جو مسجد میں داخل ہوا وہ میرا دوسرا بھتیجا علی ابن ابی طالب ہے اور وہ خاتون محمد کی بیوی ہے اور اس کا دعوی ہے کہ اس کے تمام قوانیں خداوند عالم کی طرف سے اس پر نازل ہوئے ہیں، اور اس وقت کائنات میں ان تینوں کے علاوہ کوئی بھی اس دین الہی کا پیرو نہیں ہے۔[9]

ممکن ہے یہاں پر سوال کیا جائے کہ اگر حضرت علی (ع) پہلے وہ شخص ہیں جو بعثت پیغمبر ﷺ کے بعد ان پر ایمان لائے تو بعثت سے پہلے حضرت علی (ع) کی وضعیت کیا تھی؟

اس سوال کا جواب بحث کے شروع میں بیان کیا گیا ہے جس سے واضح اور روشن ہوتا ہے کہ یہاں پر ایمان سے مراد، اپنے دیرینہ اسلام کا اظہار کرنا ہے جو بعثت سے پہلے حضرت علی کے دل میں موجزن تھا، اور ایک لمحہ کے لئے بھی حضرت علی (ع) سے دور نہ ہوا، کیونکہ پیغمبر ﷺ کی مسلسل تربیت و مراقبت کی وجہ سے حضرت علی (ع) کے روح و دل کی گہرائیوں میں ایمان رچ بس گیا تھا اور ان کا مکمل وجود ایمان و اخلاص سے مملو تھا۔

ان دنوں جبکہ پیغمبر ﷺ مقام رسالت پر فائز نہ ہوئے تھے، حضرت علی (ع) پر لازم تھا کہ رسول اسلام ﷺ کے منصب رسالت پر فائز ہونے کے بعد پیغمبر ﷺ سے اپنے رشتے کو اور مستحکم کرتے اور اپنے دیرینہ ایمان اور اقرار رسالت کو ظاہر اور اعلان کرتے، قرآن مجید میں ایمان و اسلام کا استعمال اپنے دیرینہ عقیدے کے اظہار کے متعلق ہوا ہے۔ مثلاً خداوند عالم نے جناب ابراہیم کو حکم دیا کہ اسلام لاؤ؛ جناب ابراہیم کہتے ہیں: میں سارے جہان کے پروردگار پر ایمان لایا۔

ایمان کے معنی

قرآن مجید نے پیغمبر ﷺ کے جملے کو نقل کیا ہے، پیغمبر ﷺ خود اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ‘‘[10] اور مجھے تو یہ حکم ہوچکا ہے کہ اپنے بارے میں سارے جہان کے پالنے والے کا فرماںبردار بنوں۔

حقیقتاً ان موارد اور ان سے مشابہت رکھنے والے تمام موارد میں اسلام سے مراد، خدا کے سامنے اپنی سپردگی اور اسلام کا اظہار کرنا اور اپنے ایمان کو ظاہر کرنا ہے، جو انسان کے دل میں موجود تھا، اور اصلاً اسلام کا اظہار کا مطلب ایمان کا حاصل کرنا یا ایمان لانا نہیں ہے، کیونکہ پیغمبر اسلام ﷺ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بلکہ بعثت سے پہلے موحد اور خدا کی بارگاہ میں خود کو تسلیم کرنے والے تھے، اس بنا بر ثابت ہے کہ ایمان کے دو معنی ہیں:

پہلا معنی

اپنے باطنی ایمان و اسلام کا اظہار کرنا جو پہلے سے ہی انسان کے قلب و روح میں موجود تھا، حضرت علی (ع) کا بعثت کے دوسرے دن ایمان لانے کا مقصد اور ہدف بھی یہی تھا اس کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔

دوسرا معنی

ایمان کا قبول کرنا اور ابتدائی گروہ کا اسلام لانا پیغمبر ﷺ کے بہت سے صحابیوں اور دوستوں کا ایمان تھا (جو پہلے والے معنی کے بر عکس ہے)۔

اسحاق سے مامون کا مناظرہ

مامون نے اپنی خلافت کے زمانے میں چاہے سیاسی مصلحت کی بنیاد پر یا اپنے عقیدے کی بنیاد پر،

مولائے کائنات کی برتری کا اقرار کیا اور اپنے کو شیعہ ظاہر کیا۔ ایک دن ایک علمی گروہ جس میں اس کے زمانے کے (40) چالیس دانشمند اور خود اسحاق بھی انھیں کے ہمراہ تھے، کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:

جس دن پیغمبر خدا ﷺ رسالت پر مبعوث ہوئے اس دن بہترین عمل کیا تھا؟ اسحاق نے جواب دیا: خدا اور اس کے رسول ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا۔ مامون نے دوبارہ پوچھا: کیا اسلام قبول کرنے میں اپنے حریفوں کے درمیان سبقت حاصل کرنا بہترین عمل نہ تھا؟ اسحاق نے کہا: کیوں نہیں۔ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں۔ ’’وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ‘‘ اور اس آیت میں سبقت سے مراد وہی اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنا ہے۔

مامون نے پھر سوال کیا: کیا علی (ع) سے پہلے کسی نے اسلام اظہار اور قبول کرنے میں سبقت حاصل کی ہے؟ یا علی (ع) وہ پہلے شخص ہیں جو پیغمبر ﷺ پر ایمان لائے ہیں؟

اسحاق نے جواب دیا، علی (ع) ہی وہ ہیں جو سب سے پہلے پیغمبر ﷺ پر ایمان لائے لیکن جس دن وہ ایمان لائے، بچے تھے اور بچے کے اسلام کی کوئی اہمیت نہیں ہے، لیکن ابو بکر اگر چہ وہ بعد میں ایمان لائے اور جس دن خدا پرستوں کی صف میں کھڑے ہوئے وہ بالغ و عاقل تھے لہٰذا اس عمر میں ان کا ایمان اور عقیدہ قابل قبول ہے۔

مامون نے پوچھا: علی (ع) کس طرح ایمان لائے؟ کیا پیغمبر ﷺ نے انھیں اسلام کی دعوت دی یا خدا کی طرف سے ان پر الہام ہوا کہ وہ آئیں اور توحید اور اسلام کو قبول کریں؟

یہ بات کہنا بالکل صحیح نہیں ہے کہ حضرت علی (ع) کا اسلام لانا خداوند عالم کی طرف سے الہام کی وجہ سے تھا، کیونکہ اگر ہم یہ فرض کر لیں تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ علی (ع) کا ایمان پیغمبر ﷺ کے ایمان سے زیادہ افضل ہو جائے گا اس کی دلیل یہ ہے کہ علی (ع) کا پیغمبر ﷺ سے وابستہ ہونا جبرئیل کے توسط اور ان کی رہنمائی سے تھا نہ یہ کہ خدا کی طرف سے ان پر الہام ہوا تھا۔

بہرحال اگر حضرت علی (ع) کا ایمان لانا پیغمبر ﷺ کی دعوت کی وجہ سے تھا تو کیا پیغمبر ﷺ نے خود ایمان کی دعوت دی تھی یا خدا کا حکم تھا؟ یہ کہنا بالکل صحیح نہیں ہوگا کہ پیغمبر خدا ﷺ نے حضرت علی (ع) کو بغیر خدا کی اجازت کے اسلام کی دعوت دی تھی بلکہ ضروری ہے کہ یہ کہا جائے کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے حضرت علی (ع) کو اسلام کی دعوت، خدا کے حکم سے دی تھی۔

کیا خداوند عالم اپنے پیغمبر ﷺ کو حکم دے گا کہ وہ غیر مستعد (آمادہ) بچے کو جس کا ایمان لانا اور نہ لانا برابر ہو اسلام کی دعوت دے؟ (نہیں)، بلکہ یہ ثابت ہے کہ امام (ع) بچپن میں ہی شعور و ادراک کی اس بلندی پر فائز تھے کہ ان کا ایمان بزرگوں کے ایمان کے برابر تھا۔[11]

اسحاق کے بعد جاحظ نے کتاب العثمانیہ میں اشکال کیا ہے اور ابوجعفر اسکافی نے کتاب نقض العثمانیہ میں اس اعتراض کا تفصیلی جواب دیا ہے اور ان تمام بحثوں کو ابن ابی الحدید نے بھی لکھا ہے۔[12]

اولیاء الہی اور انبیاء کی فوق العادہ استعداد

یہاں مناسب تھا کہ مامون اس کے متعلق دوسرا بھی جواب دیتا کیونکہ یہ جواب ان لوگوں کے لئے مناسب ہے جن کی معلومات بحث ولایت و امامت میں بہت زیادہ ہو اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اولیائے الہی کا کبھی بھی ایک عام آدمی سے مقابلہ نہیں کرنا چاہئے اور نہ ان کے بچپن کے دور کو عام بچوں کے بچپن کی طرح سمجھنا چاہئے اور نہ ہی ان کے فہم و ادراک کو عام بچوں کے فہم و ادراک کے برابر سمجھنا چاہیے۔

پیغمبروں کے درمیان بعض ایسے بھی پیغمبر تھے جو بچپن میں ہی فہم و کمال اور حقایق کے درک کرنے میں منزل کمال پر پہونچے تھے، اور اسی بچپن کے زمانے میں ان کے اندر یہ لیاقت موجود تھی کہ پروردگار عالم نے حکمت آمیز سخن اور بلند معارف الہیہ ان کو سکھایا، قرآن مجید میں جناب یحییٰ (ع) کے متعلق بیان ہوا ہے:

’’يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّاً‘‘[13] اے یحییٰ کتاب (توریت) مضبوتی کے ساتھ پکڑ لو اور ہم نے انھیں بچپن ہی میں اپنی بارگاہ سے حکمت عطا کی جبکہ وہ بچے تھے۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس آیت میں حکمت سے مراد نبوت ہے اور بعض لوگوں کا احتمال یہ ہے کہ حکمت سے مراد معارف الہی ہے۔ بہرحال جو بھی مراد ہو لیکن آیت کے مفہوم سے واضح ہے کہ انبیاء اور اولیاء الہی ایک خاص استعداد اور فوق العادہ قابلیت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، اور ان کا بچپن دوسروں کے بچپن سے الگ ہوتا ہے۔

حضرت عیسیٰ (ع) اپنی ولادت کے دن ہی خدا کے حکم سے لوگوں سے گفتگو کی اور کہا: بے شک میں خدا کا بندہ ہوں، مجھے اُسی نے کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھے نبی بنایا۔[14]

معصومین (ع) کے حالات زندگی میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ ان لوگوں نے بچپن کے زمانے میں عقلی، فلسفی اور فقہی بحثوں کے مشکل سے مشکل مسئلوں کا جواب دیا ہے۔ بطور مثال وہ مشکل سوالات جو ابوحنیفہ نے امام موسیٰ کاظم سے اور یحییٰ ابن اکثم نے امام جواد (ع) سے کئے تھے۔ اور جو جوابات ان لوگوں نے سنا وہ آج بھی حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔

جی ہاں! نیک لوگوں کے کاموں کو اپنے کاموں سے قیاس نہ کریں۔ اور اپنے بچوں کے فہم و ادراک کو پیغمبروں اور اولیاء الہی کے بچپن کے زمانے سے قیاس نہ کریں۔

امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں: ’’لایقاس بآل محمد من هذه الامّة أحد‘‘[15] اس امت کے کسی بھی فرد کو پیغمبر اسلام ﷺ کے فرزندوں اور خاندان سے موازنہ نہ کرو۔

 

خاتمہ

حضرت علی (ع) کی جہاں دیگر افراد سے ممتاز ہونے کی کئی وجوہات ہیں ان میں سے ایک وجہ آپ کا سب سے پہلے اسلام کا اظہاراور قبول کرنا ہے۔ اور کئی مقامات پر اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ اسلام کا اظہار اور قبول کرنے میں سب سے پہلے سبقت حضرت علی (ع) کو حاصل ہے۔

 

حوالہ جات

[1]۔ سورہ: واقعہ، آیت 10 و 11۔

[2]۔ سورہ: حدید، آیت 10۔

[3]۔ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج2 ص99۔

[4]۔ حاکم نیشابوری، مستدرک حاکم، ج2 ص112، ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج3 ص 32۔

[5]۔ حاکم نیشابوری، مستدرک حاکم، ج3، ص136۔

[6]۔ طبری، تاریخ طبری، ج2، ص213؛ ابن ماجه، سنن ابن ماجہ، ج1، ص75۔

[7]۔ عبده، شرح نهج‌البلاغه، خطبہ187۔

[8]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ 127۔

[9]۔ تاریخ طبری، ج2، ص212؛ کامل ابن اثیر ج2، ص22؛ استیعاب ج3، ص330۔

[10]۔ سورہ: مومن، آیت 66۔

[11]۔ ابن عبد ربه، عقد الفرید، ج3، ص43۔

[12]۔ نہج البلاغہ کی شرح، ج13، ص218 تا ص 295۔

[13]۔ سورہ: مریم، آیت 12۔

[14]۔ سورہ: مریم، آیت 30۔

[15]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ 2۔

 

کتابیات

1۔ قرآن مجید۔

2۔ ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابة في معرفة الصحابة، بیروت، دار ابن حزم، ۱۴۳۳ھ ق۔

3۔ ابن اثیر، علی بن محمد، الكامل في التاريخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ھ ق۔

4۔ ابن عبد ربه، احمد بن محمد، العقد الفرید، بیروت، دار الکتب العلمية، ۱۴۰۷ھ ق۔

5۔ ابن عبدالبر، یوسف بن عبدالله، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، بيروت، دارالجیل، ۱۴۱۲ھ ق۔

6۔ ابن ماجه، محمد بن یزید، سنن ابن ماجة، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۸ھ ق۔

7۔ حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، المکتبة العصرية، ۱۴۲۰ھ ق۔

8۔ شریف رضی، محمد بن حسین، نهج البلاغه، تہران،مطبوعات النجاح، ۱۴۰۲ھ ق۔

9۔ طبری، محمد بن جریر، تاريخ الأمم و الملوك، بیروت، مؤسسة عزالدين، ۱۴۱۳ھ ق۔

10۔ عبده، محمد، شرح نهج‌البلاغه، قاھرہ، مطبعہ الاستقامہ۔

 

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

سبحانی، جعفر، فروغ ولايت؛ ترجمہ، سید حسین اختر رضوی، دوسرا باب، پہلی فصل، ص23 تا 31، قم، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام، ۱۴۲۹ھ ق۔

 

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے