- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/04/16
- 0 نظر
جهاد و دفاع سے متعلق مسائل کے بارے میں گفتگو سے پھلے خود ان دو لفظوں کی تشریح و تفسیر ضروری ھے۔
دفاع سے مراد ھر اس چیز کی حفاظت کی خاطر جارح کو پیچھے ڈھکیلنا ھے جس کی حفاظت ضروری ھو، خواہ وہ چیز جان ھو یا مال، عقیدہ ھو یا آزادی، ناموس ھو یا شرف۔
قانونی( حقوقی ) نقطهٴ نظر سے دفاع ایک حق ھے جو انسان کو عطا کیا گیا ھے تاکہ قانون کو پس پشت ڈال کر تجاوز کرنے والے جارح کے شر سے اپنا دفاع کر سکے اور شر پسند افراد حکومت کی غیر حاضری سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ھوئے قانون شکنی کر کے عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو سے نہ کھیل سکیں۔
دفاع، ایک فطری حق ھے
اپنے جائز حق کا دفاع ایک ایسا فطری امر ھے جس سے صرف انسان ھی نھیں بلکہ ھر ذی روح بھرہ ور ھے کیونکہ ھر ذی روح اپنی بقا کی خاطر مجبور ھے کہ اپنی ضروریات زندگی کو دوسری مخلوقات میں پائے جانے والے امکانات سے پورا کرے اور ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرے جن سے اس کی زندگی و بقا خطرے میں پڑھ سکتی ھے۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کا دارو مدار ان افعال و انفعالات (عمل و رد ّ عمل) اور تاثیر و تاثر پر ھے جو نظام خلقت میں انجام پاتے ھیں۔ ایسے میں اختلاف اور ٹکراؤ قدرتی بات ھے۔ اگر کوئی ذی روح مخلوق دفاعی طاقت سے محروم ھو تو اس کی موت و تباھی یقینی ھے۔ اسی لئے خداوند عالم نے ھر مخلوق کو اس کی مناسبت سے دفاعی ہتھیار عطا کئے ھیں تاکہ اپنے جائز حق کا دفاع کر سکے۔ ھر حق کے ھمراہ حق دفاع کا فطری ھونا اس کی عام مقبولیت کا باعث ھے، ھر انسان اس فطری حق کو تسلیم کرتا ھے۔ ھر فرد، ھر معاشرہ، ھر مکتب اور ھر قانون جارح سے مقابلہ جائز قرار دیتا ھے۔ دنیا کا کوئی قانون مسلّمہ حقوق سے دفاع کو جرم نھیں سمجھتا۔ اسلام نے بھی انسانوں کے اس حق کو تسلیم کیا ھے، اس کے استعمال کو مذاھب توحیدی نیز انسانوں کی بقا کا ضامن قرار دیا ھے اور اس کے فطری ھونے کا اعلان کیا ھے : ” ولولا دفع الله الناس بعضهم ببعض لفسدت الارض “۱
اور اگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتا تو ساری زمین میں فساد پھیل جاتا۔
یہ آیت انسانوں کو شر پسندوں کی سر کوبی کی ھدایت کرتی ھے اور روئے زمین پر انسانوں کے بر پا کیے ھوئے فتنہ و فساد کی روک تھام کا حکم دیتی ھے۔ ایک دوسری آیت میں ھے : ” و لولا دفع الله الناس بعضهم ببعض لهدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیها اسم الله کثیرا “(۲)
اوراگر خدا بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ نہ روکتا، تو تمام گرجے اور یھودیوں کے عبادت خانے اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منھدم کردی جاتیں۔
قرآن مجید اس دفاع کو دینی مظاھر اور عبادتی مراکز کی بقا اور نتیجہ بقائے توحید کا باعث سمجھتا ھے۔
معنی جھاد
لفظ جھاد کے لغوی معنی ھیں طاقت و اختیار کے ساتھ جد و جھد، قرآن مجید میں بھی لفظ جھاد اسی معنی میں متعدد بار استعمال ھوا ھے۔ ” و الذین جاهدوا فینا لنهد ینّهم سبلنا “ (۳(اور جن لوگوں نے ھمارے حق میں جھاد کیا ھے ھم انھیں اپنے راستوں کی ھدایت کریں گے ۔
لیکن ثانوی طور پر اس سے مراد اسلام دشمنوں سے جنگ اور راہ خدا میں مال و جان کو قربان کر دینا ھے۔
”انّ الذین آمنوا و هاجروا و جاهدوا باموالهم و انفسهم فی سبیل الله “ (۴(
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ھجرت کی اور راہ خدا میں اپنے جان و مال سے جھاد کیا۔
فقہ میں جھاد کبھی دفاع کي جگہ استعمال ھوتا ھے یعنی کفار سے وہ ابتدائی جنگ جس کا مقصد یہ ھے کہ وہ کفر کو چھوڑ کر خدائے واحد پر ایمان لائیں اور نظام الٰھی کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔ اور ک بھی کفار سے مطلق جنگ کے لئے استعمال ھوتا ھے جس میں دفاع بھی شامل ھے۔ قرآن میں دفاع سے یھی عمومی معنی مراد ھیں اگر چہ اس کا اھم ترین مصداق دفاع ھے یا اس کے تمام مصداق دفاع پر بھی دلالت کرتے ھیں ۔
اقسام جھاد
جھاد کی متعدد قسمیں ھیں جو غالبا دفاع ھی کی حیثیت رکھتی ھیں اور قرآن مجید میں قتال و جھاد کے عنوان سے بیان ھوئی ھیں۔
۱۔ ان دشمنوں کے مقابلے میں اسلام کی عزت و وقار اور حیثیت و آبرو کا دفاع جو دین کی بنیادوں کو منھدم کر کے، الحاد و مجوسیت و نصرانیت و یھودیت وغیرہ کی شکل میں کفر و لا دینی پھیلانا چاھتے ھیں، جیسا کہ اسپین میں رونما ھوا۔
۲۔ مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو یا اسلامی سر زمین پر اس حملہ آور دشمن کے مقابلے میں دفاع جس کا مقصد اسلام کی تباھی تو نھیں لیکن جس کا ھدف مسلمانوں کی عزت و آبرو اور جان و مال ھو۔
۳۔ ان مسلمان بھائیوں کا دفاع جو کسی علاقے میں کافروں سے بر سر پیکار ھوں اور یہ خطرہ ھو کہ کفار ان پر غلبہ پالیں گے۔ ایسے موقع پر اتحاد و اخوت اسلامی کا تقاضا ھے کہ مسلمانوں کے دفاع کی خاطر دشمنوں سے جنگ کی جائے۔
۴۔ اسلامی علاقوں پر قابض یا مسلمانوں کے عقائد پر مسلّط غاصب دشمنوں کی پسپائی اور اخراج کے لئے جھاد، کیونکہ غیروں کے اقتدار سے نجات اور مسلمانوں کی عزت و آزادی کی بحالی تمام مسلمانوں کا فریضہ ھے۔
۵۔ کفار سے جھاد تاکہ باطل عقائد سے چھٹکارا دلا کر انھیں اسلامی تعلیمات سے آراستہ کیا جائے۔ اسے اصطلاحاً جھاد ابتدائی بھی کھا جاتا ھے۔ اس جھاد کے لئے کچھ خاص شرائط ھیں جن کے بارے میں بھت کچھ لکھا گیا ھے۔
اھمیت جھاد
ایک مختصر تحقیق کے مطابق قرآن مجید کے ۱۷ سوروں میں جھاد کا ذکر آیا ھے اور یہ سورے غالبا مدنی ھیں۔ ان کے نام یہ ھیں :
(۱) بقرہ (۲) آل عمران (۳) نساء(۴) مائدہ (۵) انفال (۶) توبه ( ۷) نحل (۸)نمل (۹)حج (۱۰) احزاب (۱۱) شوریٰ(۱۲) محمد(۱۳) فتح (۱۴)حدید ( ۱۵) حشر (۱۶) ممتحنه( ۱۷) صف
تقریبا ۴۰۴ آیتیں جھاد سے مخصوص ھیں (البتہ بعض دیگر موضوعات کی طرح آیات جھاد کا مکمل احصاء مشکل ھے، کیونکہ یہ عام طریقہ ھے کہ جب قرآن مجید کسی موضوع کو چھیڑتا ھے تو کچھ باتیں بطور مقدمہ بیان کرتا ھے اور کبھی کسی مناسبت سے بیچ میں کچھ دوسری باتیں بھی بیان ھو جاتی ھیں اور پھر تتمهٴ کلام میں بھی موضوع کی مناسبت سے کچھ دوسرے مسائل کا ذکر آجاتا ھے جیسا کہ جھاد و انفاق و ولایت سے متعلق آیتوں میں ابتداء یا وسط یا آخر میں کچھ دوسرے مسائل کا بھی تذکرہ ھوا ھے۔ لھذا ایسی صورت میں مسائل کے لحاظ سے آیات کی صحیح تدوین اور موضوعات کی مناسبت سے جدا گانہ عنوانوں کے تحت ان کی تقسیم و اصناف بندی مشکل ھے.
آیتوں کی یہ کثیر تعداد اور ان میں انتھائی سخت و لولہ انگیز اور حتمی گفتگو، سزا و جزا کے وعدے اور دھمکیاں اور طرح طرح کی تاکیدیں جھاد کی عظمت و اھمیت کی نشاندھی کرتی ھیں۔ بطور نمونہ حسب ذیل آیتوں کو ملاحظہ فرمایئے:
” ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء و لکن لا تشعرون“ (۵)
اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ھو جاتے ھیں انھیں مردہ نہ کھو بلکہ وہ زندہ ھیں لیکن تمھیں ان کی زندگی کا شعور نھیں ھے۔
”ام حسبتم ان تدخلوا الجنة و لما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مستهم الباساء و الضراء و زلزلوا حتیٰ یقول الرسول و الذین آمنوا معه متیٰ نصر الله “(۶)
کیا تمھارا خیال ھے کہ آسانی سے جنت میں داخل ھو جاوٴ گے جب کہ ابھی تمھارے سامنے سابق امتوں کی مثال پیش نھیں آئی جنھیں فقر و فاقہ اور پریشانیوں نے گھیر لیا اور اتنے جھٹکے دئے گئے کہ خود رسول اور ان کے ساتھیوں نے کھنا شروع کردیا کہ آخر خدائی مدد کب آئے گی۔
” ولا تهنوا و لا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مومنین۔ ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح مثله“(۷)
خبردار سستی نہ کرنا مصائب پر محزون نہ ھونا اگر تم صاحب ایمان ھو تو سربلندی تمھارے ھی لئے ھے۔ اگر تمھیں کوئی تکلیف چھو لیتی ھے تو قوم کو بھی اس سے پھلے ایسی ھی تکلیف ھوچکی ھے۔
ولاتهنوافی ابتغاء القوم ان تکونوا تالمون فانهم یالمون کما تالمون․․(۸)
اور خبردار دشمنوں کا پیچھا کرنے میں سستی سے کام نہ لینا کہ اگر تمھیں کوئی بھی رنج پھونچتا ھے تو تمھاری طرح کفار کو بھی تکلیف پھونچتی ھے۔
” یا ایها الذین آمنوا من یرتد منکم عن دینه فسوف یاتی الله بقوم یحبهم و یحبونه اذلة علی المومنین اعزة علی الکافرین یجاهدون فی سبیل الله و لا یخافون لومة لائم“(۹)
ایمان والوں تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا۔ تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی مومنین کے سامنے خاکسار اور کفار کے سامنے صاحب عزت، راہ خدا میں جھاد کرنے والی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والی ھوگی ۔
” الا تنفروا یعذبکم عذابا الیما و یستبدل قوما غیرکم “(۱۰)
اگر تم راہ خدا میں نہ نکلو گے تو خدا تمھیں درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور تمھارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا۔
جھاد کی تشریعی اور فطری حیثیت
جھاد کی مذکورہ بالا پانچ قسموں میں سے چار دفاعی حیثیت کی حامل ھیں اور قدرتی طور پر دفاع فطری حق ھے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نھیں۔ دنیا کی کوئی منطق مسلمانوں کو اس حق سے محروم نھیں کر سکتی، قرآن کریم بھی اس کی پر زور حمایت کرتا ھے، جھاد سے متعلق پھلی آیتیں جو نازل ھوئیں وہ سورہ حج کی آیتیں ھیں جو اس تعبیر سے شروع ھوتی ھیں:
” اذن للذین یقاتلون بانهم ظلموا و ان اللہ علیٰ نصرهم لقدیر۔ الذین اخرجوا من دیارهم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا الله و لو لا دفع الله الناس بعضهم ببعض لهدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیها اسم الله کثیرا “(۱۱)
جن لوگوں سے مسلسل جنگ کی جارھی ھے انھیں ان کی مظلومیت کی بناء پر جھاد کی اجازت دی گئ ھے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے والا ھے ۔ وہ لوگ جو اپنے گھروں سے بلا کسی حق کے نکال دئے گئے ھیں علاوہ اس کے کہ وہ یہ کھتے ھیں کہ ھمارا پروردگار اللہ ھے ۔۔۔
اس آیت میں مظلوم کو حملہ آور دشمن سے جنگ کی اجازت دی گئی ھے تاکہ وہ دشمن کو دفع کر کے توحید کے مظاھر اور آثار شریعت کی حفاظت کر سکے ۔ اسی طرح ایک دوسری آیت ھے ، جسے جھاد سے متعلق اولین آیتوں میں شمار کیا جاتا ھے بلکہ بعض مفسرین اسے جھاد کے سلسلے کی پھلی آیت قرار دیتے ھیں وہ یہ ھے:
” و قاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم “ (۱۲)
جو تم سے جنگ کرتے ھیں تم بھی ان سے را ہ خدا میں جھاد کرو۔
اس آیہ کریمہ میں جنگ کی آگ بھڑکانے والوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ھے۔ جھاد سے متعلق تقریبا تمام آیتیں اسی دفاعی جنگ کے بارے میں ھیں ، صرف ایک ایسی آیت ھے جو مطلق ھے اور اس سے ابتدائی جھاد مراد لیا جا سکتا ھے۔
حواله جات:
(۱) بقرہ / ۲۵۱
(۲) حج / ۴۰
(۳)عنکبوت / ۶۹
(۴) انفال/ ۷۲
(۵) بقرہ / ۱۵۴
(۶)بقرہ / ۲۱۴
(۷) آل عمران/ ۱۳۹۔ ۱۴۸
(۸) نساء/ ۱۴۰
(۹) مائدھ/ ۵۴
(۱۰) توبھ/ ۳
(۱۱)حج /۳۹۔۴۰
(۱۲) بقرھ/ ۱۹۰
source : alhassanain