- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- 2023/06/01
- 0 رائ
ہیری پوٹر کے عنوان سے چھپنے والی پہلی چھ کتابوں کے ساڑھے بتیس کروڑ نسخے بک گئے تھے۔ یہ کتاب ان رنگوں سے خصوصی تعلق رکھتی ہے جنہیں مخملی انقلابات میں بروئے کار لایا جاتا ہے اور ذہنوں کو بنیادی تبدیلی کے لئے آمادہ کرتی ہے۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ مؤرخ، یہودی امور کے ماہر و تجزیہ کار جناب عبداللٰہی کا کہنا ہے کہ گذشتہ 15 برسوں میں – جب سے ہیری پوٹر کی کہانیاں عالمی ادب میں جا گزیں ہوئی ہیں – یہ کہانیاں سائنس فکشن پر مبنی داستانوں میں عظیم تبدیلی کا باعث بنی ہیں اور ہر روز اس کتاب کی مصنفہ برطانوی مصنفہ جے۔کے۔ رولنگ (J. K. Rowling) کی لکھی ہوئی کتابوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ رولنگ کی کتابوں کا مختلف ملکوں – بشمول مسلم ممالک – میں، عربی، فارسی، اردو اور دوسری سمیت دنیا کی 72 زبانوں میں ترجمہ ہؤا ہے۔ ان کتابوں کا وسیع پیمانے پر خیر مقدم ہؤا ہے لیکن کسی نے ان کے نقصانات کو توجہ نہیں دی گئی ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین امیر عباس عبداللٰہی ان علماء میں سے ہیں جنہوں نے ہیری پوٹر کے نام سے چھپنے والی تمام کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور ان کتابوں کی بننے والی تمام فلموں کو بھی دیکھ لیا ہے۔ کئی لوگ ان کہانیوں کو مصنفہ جے۔کے۔ رولنگ کے خیالات و توہمات کا زائیدہ سمجھتے ہیں لیکن جناب عبداللٰہی اس تصور سے متفق نہیں ہیں بلکہ انہیں یقین ہے کہ یہ رولنگ کی کاوشیں نہیں ہیں، بلکہ یہ پس پردہ قلم کاروں کا کام ہے جو ان کتابوں کو لکھتے ہیں اور ان کے نام پر شائع کرتے ہیں۔
ہیری پوٹر کے بارے میں جناب عبداللٰہی کے انٹرویو کا حصۂ اول:
پہلی بات: ہیری پوٹر نامی کتابیں جے کے رولنگ نے نہیں لکھی ہیں
مجھے یقین ہے کہ ہیری پوٹر کے نام پر شائع ہونے والی کتابوں کو ایک شخص نے نہیں لکھا کیونکہ جب ہم مصنفہ کی یادداشتوں سے رجوع کرتے ہیں تو وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ایک ریل گاڑی میں سفر کے دوران ایک کتاب لکھنے کا سوچا تھا؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اس سے قبل کبھی بھی قلم فرسائی نہیں کی تھی اور اس اچانک ایک کتاب لکھنے میں مصروف ہوئی ہیں۔
اس کتاب کو کئی زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے: مذہبی عمرانیات، ثقافت، نسل نگاری (Ethnography) داستانی ادبیات کا صنفیاتی مطالعہ۔
ان امور کی روشنی میں ہیری پوٹر کی کاوشوں کے مطالعے سے حاصل ہونے والے نکات کی آمیزش سے کچھ خاص نکات ہاتھ آتے ہیں۔ مثال کے طور پر “ہیری پوٹر اور مخلوط نسل کا شہزادہ” (Harry Potter and the Half-Blood Prince) (1) کے کچھ حصے ایسے ہیں جن کو سنہ 2009ع کے صدارتی انتخابات کے بعد کے چند مہینوں میں مغربی فتنہ انگیزیوں سے جوڑا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف سے جب ہم مغرب کے مشہور مصنفین اور ادبی شاہکاروں کے خالقوں کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی عمر کے چھٹے عشرے میں بام شہرت تک پہنچے ہیں؛ لیکن اس مصنفہ کو پچاس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی عالمی سطح کے ادبی انعامات سے نواز گیا!
1۔ Half-Blood کا لفظ جادو کی دنیا میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کی نسل جادوگروں اور غیر جادوگروں سے چلی آئی ہے، مخلوط نسل کے لوگ۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ایک مصنف پانچ سال میں سات کتابیں لکھنے اور شائع کرنے پر قادر نہیں ہو ہوتا اور پھر یہ بات اس وقت اور بھی ناممکن نظر آتی ہے جب ہم دیکھتے ہيں کہ تصنیف و تالیف کے میدان میں جے۔کے۔ رولنگ کا کوئی پس منظر نہیں ہے اور ہیری پوٹر سے پہلے ان کے قلم سے ایک لفظ مکتوب بھی منظر عام پر نہیں آیا ؛ چنانچہ یہ بات ذہن میں ابھرتی ہے کہ ایک کہنہ مشق فنی اور ماہر ٹیم نے بیٹھ کر اس کتاب کی تحریر کا اہتمام کیا ہے گوکہ یہ کاوش جے۔کے۔ رولنگ کے نام پھر چھپتی رہی ہے۔
* کتاب میں بیان شدہ رنگوں کا تعلق مخملی انقلابات
گوکہ جے۔کے۔ رولنگ کا دعویٰ ہے کہ یہ کتاب ان کے اپنے خیالات کا زائیدہ ہے مگر جب ہم اس کے متن پر غور کرتے ہیں تو بہت سے تاریخی حوالے بھی نظر آتے ہیں۔ بعض ناقدین اس کتاب کو پہلی اور دوسری عالمی جنگوں اور جرمنی اور برطانیہ کے باہمی تنازعات کی روئیدادوں سے جوڑتے ہیں اور اس کتاب میں بعض تاریخی نکات و حقائق بھی پائے جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں اس کتاب نے سنہ 1990ع کے عشرے کے وسط سے مختلف ممالک میں ہونے والے انتخابات کے بعد کے واقعات میں بھی اپنے اثرات دکھائے ہیں؛ مثال کے طور پر اس کتاب میں زیر بحث آنے والے رنگوں کا تعلق مخملی انقلابات کے فکری پس منظر سے بنتا ہے۔ یقینا کتاب کے مصنف یا مصنفین کا تعلق یہودیت اور ماسونیت سے ہے۔ آپ جب اس کہانی کے بعض اجزاء کو ایک ساتھ رکھتے ہیں، تو بہ آسانی دیکھ سکتے ہیں کہ لکھنے والے آپ کے لئے ہالوکاسٹ کا واقعہ بیان کر رہے ہیں۔ یہ واقعات کتاب کے پانچویں اور چھٹے حصوں میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔
* جے۔ کے۔ رولنگ کو صہیونیوں کی حمایت حاصل ہے / 72 زبانوں میں ترجمہ!
اگر ہم ان سارے مسائل کو ایک طرف رکھ دیں، تو بھی اس حقیقت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے کہ یہودی ریاست کے سرغنوں نے اس کتاب کی [مبینہ] مصنفہ کو خصوصی انعام سے نوازا ہے؛ جس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ جو کتاب “ادب” کے میدان میں لکھی گئی ہے، اسے اتنی ساری توجہ کیوں دی جاتی رہی ہے؟ سنہ 2010ع کے عشرے کے آغاز تک اس کتاب کی پہلی چھ کہانیوں کے خریداروں کی تعداد – پوری دنیا میں 32 کروڑ 25 لاکھ تک پہنچی تھی، اور دنیا کے مختلف ممالک میں اس کا 72 زبانوں میں ترجمہ ہؤا ہے جس میں عربی، فارسی اور اردو زبانیں بھی شامل ہیں۔ اس کتاب میں رنگوں کا تذکرہ مخملی انقلابات کے لئے ماحول سازی سے تعلق رکھتا ہے اور متعلقہ اقتباسات ذہنوں کو بنیادی تبدیلیوں کے لئے تیار کرتے تھے۔
* ہیری پوٹر کی کتابوں میں یہودیوں – صہیونیوں کی علامت سازی (Symbolization)
اس کہانی کی ماجرائیں صہیونی اور یہودی افکار اور نظریات کی ترویج کی خدمت پر مبنی ہیں۔ کہانی اس طرح سے شروع ہوتی ہے کہ ہزاروں سال قبل ایک معاشرے میں چار جادوگر، جادو اور سِحر کی تعلیم کے لئے ایک اسکول کی بنیادی رکھی۔ بعد میں ان کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہوتا ہے؛ اور اختلاف کی وجہ یہ ہوتی ہے۔ اختلاف اس ضابطے پر سامنے آیا کہ “اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے افراد کو شریف زادہ ہونا چاہئے”۔ تین افراد اس قانون سے اتفاق کرتے ہیں اور چوتھا مخالفت پر اتر آتا ہے۔ پہلے تین افراد کہتے ہیں کہ “اسکول کے ہر شاگرد کے باپ کو بھی ماں کو بھی شریف زادہ ہونا چاہئے”، اور چوتھا شخص کہتا ہے کہ “ماں اصیل زادی ہو تو کافی ہے”۔ عجب یہ ہے کہ یہودیوں کا شجرۂ نسب ماں سے چلتا ہے اور یہودی صرف وہ ہے جس کی ماں یہودی ہو۔ یہ ایک باریک و ظریف نکتہ ہے، جسے عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی۔
کہانی کا تسلسل:
یہی چوتھا شخص محل میں ایک ہال بنا دیتا ہے، اس لئے کہ اس کا پوتا [یا نواسہ] آکر جادوگری کی بساط لپیٹ لے۔ طویل عرصہ بعد ایک جادوگر اسکول میں داخل ہوتا ہے جو بہت زیادہ باصلاحیت ہے۔ وہ [چوتھا شخص] سمجھ لیتا ہے کہ اس باصلاحیت جادوگر کی ماں تو جادوگرنی تھی مگر اس کا باپ جادوگر نہیں تھا۔۔۔ یہ اس یہودی مفروضے سے قریب تر ہے کہ ماں کو یہودی ہونا چاہئے،۔۔۔ وہ لڑکا بھی آخرکار سمجھ لیتا ہے کہ باپ کے جادوگر نہ ہونے کے باوجود بھی وہ اس صلاحیت کا حامل ہے، چنانچہ اب وہ پراسرار ہال میں داخل ہو سکتا ہے۔ وہ ہال کا دروازہ کھول دیتا ہے لیکن چونکہ وہ شریف زادہ نہیں تھا [اور اس کے ماں باپ دونوں جادوگر نہیں تھے] ہال میں موجود جانور کے حملے کا نشانہ بنتا ہے۔۔۔ یہ کہانی جاری رہتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ “ایک بچہ آئے گا اس جادوگر کو نابود کرے گا جس نے پوری دنیا کو سیاہ کر لیا ہے۔
یہاں بھی یہودیوں کے اس مشہور تاریخی جملے کی نقل اتاری گئی ہے کہ “ایک بچہ پیدا ہوگا جو فرعون کو نیست و نابود کرے گا”۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ کہانی کے بہت سارے مندرجات یہودی اور یہودی تعلیمات پر مبنی ہیں۔
* ہیروی پوٹر کی کتابوں میں سحر، جادو، ہم جنس پرستی، فیمینزم
کہانی کا تسلسل:
پیدا ہونے والے بچے کا نام ہیری پوٹر ہے۔ شیطان کی طاقت اس کے ماں باپ کو مار دیتی ہے لیکن ایک طلسم کی وجہ سے، موت اس بچے کو نہیں مار سکتی۔ یہ بچہ ماں باپ کے مارے جانے کے بعد خالہ کے سپرد کیا جاتا ہے۔۔۔ یہاں بھی ایک یہودی قضئے کی تصویر ملتی ہے: حضرت موسیٰ کی ولادت اور قصر فرعون میں منتقلی، زوجۂ موسیٰ کی آغوش میں پرورش۔
یہ کتاب پڑھتے ہوئے آپ ایک خاص ذہنی ماحول میں ڈوب جاتے ہیں۔ اس کتاب پر پہلی نگاہ سے ہم سمجھ لیتے ہیں کہ اس کتاب کا اصل مدار و محور سحر اور جادو ہے، جبکہ یہودی تعلیمات میں بھی سحر و جادو کی حیثیت بنیادی ہے اور اس کو بہت توجہ دی جاتی ہے۔ وہ بہت سے ما وراء الطبیعی اور خلاف معمول وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا بہت سہارا لیتے ہیں جس کا سیدھا مطلب ہے “بے خدائی” اور “قادر متعال” کی نفی۔
اس کتاب ایک اہم نکتہ ہم جنس پرستی کی ترویج ہے۔ نیز اس کتاب میں حقوق نسوان کے نام پر سرگرم انتہاپسندانہ فیمنزم کی خطوط بہت شدید ہیں۔
اس کتاب میں خیر و شر کا تقابل اور خیر مطلق تک پہنچنے کا دعوٰی بہت نمایاں ہے یہاں تک کہ اس میں خیر و شر کی یہودی علامتی کہانی “آرمیگڈون” (یا ہرمجدون = Armageddon) کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ نجات دہندہ اس کہانی میں، ہیری پوٹر ہے، جو آتا ہے اور آشفتہ حالی کا شکار ہونے والی دنیا کو نجات دلاتا ہے۔
اس کتاب میں پیار و محبت نیز پیار میں ناکامی کی طرف بھی اشارے پائے جاتے ہیں۔ ایک کہانی میں ہیری پوٹر ایک مشرقی لڑکی کی محبت میں مبتلا ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد اس کی یہ محبت مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے اور یہ مشرقی لڑکی کہانی سے غائب ہو جاتی ہے۔
* ہیری پوٹر کی کتابوں میں روز جمعہ کی توہین!
اس کتاب میں مسلمانوں کے عقائد کی توہین سے بھی غفلت نہیں برتی گئی ہے۔ کہانی کے ایک واقعے میں جمعہ کے دن لوگ سیڑھیوں پر چڑھنے لگتے ہیں تو راستے الٹ جاتے ہیں، جو مسلمانوں کے عقائد سے متصادم ہے کیونکہ جمعہ مسلمانوں کے ہاں عید کا دن اور مقدس ہے اور ہیری پوٹر کی کتاب کی اس کہانی سے یہ تلقین ہوتی نظر آ رہی ہے کہ اس دن کوئی کام انجام نہیں دینا چاہئے۔ اس کہانی میں کہا جا رہا ہے کہ روز جمعہ راستے سب بدل جاتے ہیں اور لوگ حیران و پریشان ہو جاتے ہیں، یعنی یہ کہ سوموار سے جمعرات تک سب کچھ معمول کے مطابق ہے لیکن جمعہ کے روز سیڑھیاں چلنا شروع کر دیتی ہیں اور لوگوں کو دوسرے راستوں کی طرف لے جاتی ہیں!
اس عجیب کہانی کا ضمنی مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جمعہ کے روز کوئی عبادت انجام نہیں دینا چاہئے، بصورت دیگر گمراہ ہو جاؤگے۔ روز جمعہ مسلمانوں کی عید ہے اور اس کے لئے خاص عبادی اعمال قرار دیئے گئے ہیں۔ یہ کتاب ان عبادات کی تنقیض کرتی ہے۔ ایک مسلم نوجوان بھی جب اس کتاب کا مطالعہ کرتا ہے، تو ممکن ہے کہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ روز جمعہ سیڑھیوں کی سمت بدل جاتی ہے اور جو اعمال ہم بجا لاتے ہیں، وہ بھی الٹ جاتے ہیں!
یہ کہانی اگرچہ بظاہری ایک خیالی داستان ہے لیکن اس کی تہہوں میں عجیب معانی اور مفاہیم مضمر ہیں۔ اس کی سطحی ترین اور آشکار ترین تہہ میں ہمیں قوم یہود کے افسانوی تصورات اور کردار نظر آتے ہیں۔ یہ کتاب ایک نا آگاہ قاری کو اس سمت میں آگے لے جاتی ہے کہ وہ مستقبل میں قوم یہود اور اس کے کردار پر ہاتھ نہ اٹھائے، اس کے مظالم اور عالمی سازشوں اور ریشہ دوانیوں اور انسانیت دشمنیوں پر انگلی نہ اٹھائے۔ یہ کتاب قوم یہود کی مبینہ مظلومیتوں اور خون خواہیوں کی عکاس ہے، اور ہالوکاسٹ کی [جعلی سیاسی] داستان کو کھلے لفظوں میں بیان کرتی ہے۔
اور ہاں! جس طرح کہ شیطان پرستی کے بارے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مغربی معاشرے کے آج اور کل کے احوال و کیفیات کی طرف اشارہ ہؤا اور شیطان پرستی کو مغرب کا مستقبل قرار دیا گیا، ہیری پوٹر کی کتابوں میں بھی آج اور آنے والے کل کے مغرب کی تصویر نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔
————————————————-
انٹرویو از: حجت الاسلام و المسلمین امیرعباس عبداللٰہی، مؤرخ، یہودی امور کے ماہر و تجزیہ کار
انٹرویو کا اہتمام از: مصطفی وثوق کیا، فارس خبر رسان ایجنسی کے رکن ادارتی ٹیم
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی