- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- 2022/12/15
- 0 رائ
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ لبنان نے قانا اور کاریش کے علاقوں کے گیس فیلڈز پر تسلط پا کر در حقیقت قدرتی وسائل سے مالامال علاقے کے تین چوتھائی حصے کو آزاد کرا لیا ہے اور یہ ملک بحیرہ روم (Mediterranean) کے علاقے کا گیس کا نقطۂ ارتکاز بن چکا ہے۔ یہ وہی منصوبہ تھا جو صہیونیوں نے اپنے لئے مد نظر رکھا تھا اور اب لبنانیوں کے ہاتھ میں آیا ہے۔
“لبنان نے گیس کے تنازعے میں وہ سب کچھ حاصل کیا جو وہ حاصل کرنا چاہتا تھا”۔ گذشتہ سنیچر (مورخہ 29 اکتوبر 2022ع) کو – 2011 کے بعد سے “کاریش” اور “قانا” کے دو علاقوں میں گیس کی کھوج اور تلاش کے معاملات کے سلسلے میں حزب اللہ لبنان کے قائد جناب سید حسن نصر اللہ کے تفصیلی خطاب کا ایک حصہ تھا۔ بحیرہ روم میں گیس کا مسئلہ لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان سرحدوں – خاص کر آبی سرحدوں – کے تعین کے مسئلے سے جڑا ہؤا تھا۔ لہذا اس مسئلے کا ایک پہلو جغ سیاسی (Geo-political) اور ارضی معاملات سے تعلق رکھتا تھا؛ اور اس دوران صہیونی ریاست نے مکارانہ انداز سے، امریکہ کی مدد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لبنان میں سیاسی بدامنیوں، اور شام کی سلامتی کے تحفظ میں حزب اللہ کے کردار اور لبنان کے سلامتی کے معاملات میں حزب اللہ پر الزامات سے فائدہ اٹھا کر بحیرہ روم میں موجود گیس فیلڈز پر مکمل قبضہ کرنے کی کوشش کی۔
بحیرہ روم میں واقع قانا اور کاریش کے دو علاقے لبنان کی عملداری میں ہیں اور کاریش کا کچھ حصہ مقبوضہ فلسطین کی قلمرو میں شامل ہے۔ اس علاقے میں شامات کے علاقے کی گیس کے عظيم ترین ذخائر موجود ہیں۔ گیس کے دو میدانوں کا تین چوتھائی حصہ لبنان کے ساحلی پانیوں میں اور ایک چوتھائی فلسطینی پانیوں میں واقع ہؤا ہے۔ جعلی صہیونی ریاست سمجھتی تھی کہ طاقت اور لبنان کے اندرونی اختلافات سے فائدہ اٹھا کر اس علاقے پر قبضہ کرکے اسے اپنے لئے گیس کے نقطۂ ارتکاز میں تبدیل کرکے افریقی، یورپی اور ایشیائی ممالک کو گیس فروخت کر سکے گی اور یوں وہ جنوبی سواحل کے مغرب میں واقع ممالک نیز بحیرہ روم کے مشرقی ممالک اور مغرب میں یورپی ممالک کو گیس کی منتقلی کا کام اپنے ہاتھ میں لے کر ان کی معیشت پر اثر ڈال سکے گی اور یوں اپنی بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورت حال کو سنبھالا دے سکے گی۔ اگر جعلی ریاست اپنے عزائم میں کامیاب ہوتی تو اس ریاست کی سلامتی بحیرہ روم کے ساحلی ممالک کے اقتصادی استحکام اور سلامتی کا حصہ بن جاتی اور یہ ممالک اس ریاست کی سلامتی کو اپنی معاشی سلامتی کا لازمہ قرار دیتے اور اس کو ضروری قرار دیتے اور فلسطینی مقاومت سمیت ہر اس قوت کی مخالفت کرتے جو اس ریاست اور ان کے استحکام کو خطرے میں ڈالتی۔ علاوہ ازیں، گیس کے ان دو میدانوں پر تسلط جما کر صہیونی ریاست – جس کی معیشت شدت سے بیرونی امداد پر انحصار کرتی ہے – خود مکتفی (self sufficient) معیشت میں بدل جاتی، اور یہ مسئلہ اس ریاست کے لئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ گیس کا مسئلہ، گیس فیلڈ اور گیس سے متعلق پالیسیاں اس ریاست کے لئے انتہائی تزویراتی اور حیاتی اہمیت رکھتی تھیں چنانچہ اس نے گیس کے ان ذخائر تک رسائی کے لئے خصوصی کوششیں کیں۔
لیکن دوسری طرف سے کاریش اور قانا کے آبی علاقے اور ان میں موجودہ گیس کے ذخائر صہیونی ریاست سے زیادہ لبنان کے لئے اہم ہیں، کیونکہ ایک طرف سے گیس کے ان بحری میدانوں پر تسلط بحیرہ روم میں غاصب ریاست کی پوزیشن مستحکم ہو جاتی اور وہ ایک خصوصی پوزیشن حاصل کرتی، جس کی وجہ سے لبنان کے قومی مفادات، سیاسی حیات کا مستقبل اور سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا، اور دوسری طرف سے لبنان کی معیشت کمزور ہے، اس کو میسر سابقہ معاشی مواقع کم ہوچکے ہیں اور سیاحت کا شعبہ ماضی کی طرح آمدنی کا بڑا ذریعہ نہیں رہا ہے، بیرونی معاشی حمایتیں کم ہو چکی ہیں، اور یوں اس کو معاشی اور مالی بحران کا سامنا ہے یہاں تک کہ عین اسی وقت بھی یہ ملک دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکا ہے اور یہاں عمومی خدمات کافی حد تک خلل سے دوچار ہیں۔ چنانچہ قانا اور کاریش کے گیس فیلڈ لبنان کی معیشت ہی کے لئے نہیں بلکہ سیاسی مسائل کے حل، اندرونی یکجہتی اور سلامتی کے معاملات کی بہتری کے لئے ایک دروازے کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسی بنا پر لبنانی عوام دشوار معاشی صورت حال کو برداشت کرتے ہوئے، ان دو میدانوں سے گیس نکالنے کے منصوبے پر عملدرآمد کے لئے چشم براہ ہیں۔ یہاں تک کہ لبنان کی سیاسی-مقاومتی جماعت حزب اللہ نے ایک سال قبل اعلان کیا تھا کہ:
“حتیٰ اگر جنگ بھی لڑنا پڑے، ہم اپنے ملک کے ان دو معاشی میدانوں کا دفاع کریں گے اور دشمن کو تجاوز کی اجازت نہیں دیں گے”۔
لبنان کی قدرتی گیس کا مسئلہ 2011ع کے وسط سے میں، اس وقت شروع ہؤا جب عرب ممالک میں بیداری کی لہر دوڑ گئی تھی [جسے منحرف کرنے کے لئے شام کو بیچ میں گھسیٹا گیا] اور شام میں سلامتی کا بحران شروع ہؤا تھا۔ اسی وقت جعلی صہیونی ریاست نے اعلان کیا کہ وہ بحیرہ روم میں ایندھن کے ذخائر تلاش کر رہی ہے، لیکن تفصیلات ظاہر کرنے سے گریز کیا جبکہ خفیہ طور پر یورپی کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات کر رہی تھی کہ وہ آکر رأس ناقورہ کے ساحلی علاقے میں اسرائیل کے گیس اور تیل کے ذخائر دریافت کریں۔ یہودی ریاست کی سرگرمیاں جاری تھیں اور یونانی-برطانوی کمپنی اینرجیئن (Energean) نے 2015ع میں تیل دریافت کرنے کا کام شروع کیا اور صہیونی محافل کے مطابق اس کمپنی کا کام 5 سال تک طویل ہؤا اور اس ریاست کو معلوم ہؤا کہ یہاں کے گیس کے ذخائر کی مقدار کا تخمینہ کیا ہے۔ لیکن اسرائیلی غاصبوں نے اس تخمینے کا اعلان نہیں کیا لیکن کچھ دبی آوازیں ان کے اندر سے سنائی دینے لگی تھیں کہ وہ عنقریب بحیرہ روم میں قدرتی گیس کا نقطۂ ارتکاز معرض وجود میں لا رہے ہیں، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ یہاں گیس کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ بعض تحقیقات کے مطابق کاریش اور قانا میں موجودہ گیس کے ذخائر کی مقدار 60 ٹریلین مکعب فٹ (Sixty trillion cubic feet) ہیں؛ اور امریکی ذرائع نے کہا ہے کہ مشرقی بحیرہ روم میں مجموعی طور پر 122 ٹریلین مکعب فوٹ گیس اور 17 ارب بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں؛ گوکہ زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اعداد و شمار مبالغہ آمیز ہیں۔
لبنان میں 2011ع سے 2020ع تک کم مدت کے لئے بننے والی حکومتوں میں بھی کسی حد تک یہ مسئلہ زیر بحث تھا۔ لیکن غیر مستحکم حکومتیں، اندرونی اختلافات، سلامتی کے مسائل اور سیاسی چیلنج اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دینے میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ اس کے باوجود سنہ 2012ع میں لبنانی پارلیمان کے سربراہ “نبیہ بری” گیس کے مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ انھوں نے لبنان کی صورت حال کے پیش نظر، ایک منصوبہ تیار کیا جس کے تحت لائن 23 قانا اور کاریش کو لبنان کی حدود کے ابتدائی نقطے کے طور پر متعین کیا گیا۔ اسی اثناء میں لبنان کی حکومت میں حدود کو اس سے کم رکھا گیا تھا اور لائن 29 کو حدود کا ابتدائی نقطہ قرار دیا گیا تھا جس پر صہیونی ریاست اور امریکی نمائندے (ثالث) نے بھی زور دیا تھا۔ البتہ لبنان کا سرکاری موقف ہنوز نامعلوم تھا اور صدر لبنان نے اس منصوبے پر دستخط نہیں کئے تھے؛ چنانچہ یہ مسئلہ لبنان کی حکومت اور پارلیمان کے سربراہ کے درمیان لبنان کی آبی حدود کے ابتدائی نقطے کے تعین کے اوپر بحث جاری تھی، اور اس اثناء میں حزب اللہ لبنان کا کہنا تھا کہ وہ لبنان کی آبی حدود اور کاریش اور قانا میں لبنان کے حصے کے تعین کے سلسلے میں اسے لبنان کے سرکاری موقف کا انتظار ہے۔
صہیونی ریاست لائن 29 پر زور دے رہی تھی حالانکہ اس صورت میں لبنان کا حصہ بھی اور شبعا کی کھیتیوں اور لبنان کی زمینی سرحد کا مسئلہ بھی متاثر ہوتا اور یوں یہ لبنان کو ایک ارضی خطرہ بھی لاحق ہوتا۔ اسی اثناء میں یہ کیس حکومت اور پارلیمان سے صدر جمہوریہ کو منتقل ہؤا، اور ان ہی کو اس مسئلے پر اظہار خیال کا اختیار دیا گیا۔ صدر میشل عون نے اندرون ملک مذاکرات کا آغاز کیا اور لبنان کی تجویز کردہ لائن 23 پر لبنانی سرحد کے تعین کا اعلان کیا۔
صدر لبنان کا موقف سامنے آیا تو صہیونیوں نے بحیرہ روم میں فوجی نقل و حرکت کا آغاز کرکے اعلان کیا کہ وہ لبنان کو لائن 29 سے آگے نہیں جانے دیں گے، جس کے جواب میں حزب اللہ نے بھی مورچہ بندی کا آغاز کیا اور کچھ سراغ رساں ڈرون طیارے – انتباہ کے طور پر – متنازعہ علاقے میں روانہ کئے، اور بحیرہ روم کے پانیوں کے اوپر گشت زنی کا اہتمام کیا۔ صہیونیوں نے ان طیاروں کو مار گرایا مگر یہ مسئلہ حزب اللہ کے لئے اہمیت نہیں رکھتا تھا، کیونکہ علاوہ ازیں کہ طیاروں نے علاقے کی تصاویر براہ راست لبنان تک پہنچا دی تھیں، اپنا مشن بھی پورا کیا تھا اور دشمن کو تنبیہ کی جا چکی تھی؛ جیسا کہ صہیونی ذرائع نے لکھ ڈالا کہ حزب اللہ نے اپنی فوجی دھمکی کی سنجیدگی کو ثابت کرکے دکھایا ہے۔
بعدازاں، امریکی ثالث لبنان پہنچا اور کہا: لائن 29 بھی نہیں لائن 23 بھی نہیں بلکہ ان لائنوں کی ایک درمیان لائن کو نقطۂ آغاز قرار دیا جائے! کہ اگر لبنان اس کی اسرائیل نوازانہ تجویز کو قبول کرتا تو اپنے پانیوں میں سے 2500 کلومیٹر کا علاقہ کھو دیتا؛ چنانچہ حزب اللہ نے مضبوط موقف اپنایا اور اعلان کیا کہ “ثالث کی تجویز ناقابل قبول ہے”، چنانچہ لبنانی حکومت کو بھی ہمت ہوئی اور اس نے صدر اور حزب اللہ کے موقف پر اصرار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ لبنان کے مفادات سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ادھر یہودی ریاست کے عبوری وزیر اعظم نے قسمت آزمائی کا فیصلہ کرکے اعلان کیا کہ وہ تیل تلاش کرنے والے عملے کو لائن 29 میں داخل کرے گا، اور اگر حزب اللہ نے مداخلت کی تو جوابی کاروائی کرے گا۔ حزب اللہ نے فوری طور پر فوجی صف آرائی کی، اور آخرکار غاصب ریاست کو حزب اللہ کے آگے جھکنا پڑا اور لائن 23 کو لبنانی آبی سرحد کے ابتدائی نقطے کے طور پر تسلیم کیا۔
قانا اور کاریش گیس فیلڈز کی اہمیت اور اس کے سیکورٹی، سیاسی، معاشی اور جغ سیاسی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ حزب اللہ اور لبنان کی اس کامیابی کا موازنہ صرف سنہ 2000ع کے واقعے سے کرایا جا سکتا ہے، جب صہیونیوں کو 18 سال تک لبنان میں موجودگی کے بعد – حزب اللہ کی تاریخی کاروائی کے نتیجے میں – اس سرزمین سے بھاگنا پڑا تھا۔ چنانچہ اس میدان میں لبنان کی فتح سنہ 2006ع کی 33 روزہ جنگ میں صہیونیوں کے خلاف عظیم فتح سے کئی گنا بڑی، اس سے زیادہ نمایاں، زیادہ اہم اور تزویراتی اور زیادہ پائیدار ہے۔ اسی بنا پر، جس طرح کہ سید حسن نصر اللہ نے حالیہ نشری خطاب کے ضمن میں بیان کیا:
“یہ لبنان کے لئے ایک قومی جشن ہے”۔
اس تاریخی فتح اور اس کی حصول یابیوں (Achievements) کے سلسلے میں ذیل کے نکات کی صرف اشارہ کیا جا سکتا ہے:
1۔ اس واقعے سے ثابت ہؤا کہ جو چیز کسی ملک کے قومی مفادات اور سلامتی کی ضمانت دے سکتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ملک اپنے حقوق، مفادات اور تشخص کے تحفظ پر جم جانا اور استقامت کرنے سے عبارت ہے۔ قدرتی گیس کا موجودہ تزویراتی منظر، ایک ایسی قوم کی 10 سالہ استقامت کا نتیجہ ہے جو معیشت، سلامتی اور سیاست کے شعبوں میں مختلف مسائل کا شکار رہی ہے، اور اس نے اپنے حقوق پر ثابت قدم رہ کر انہیں حاصل کر لیا ہے۔ حالانکہ اگر بین الاقوامی معاملات پر مسلط رویوں کی پیروی کو مطمع نظر رکھا جاتا – جن کا تقاضا کمزوروں پر طاقتوروں کا تسلط تسلیم کرنے کے سوا کچھ نہيں ہے – تو لبنانیوں کو مسلط طاقتوں کے پاس جانا پڑتا اور آخرکار لائن 29 کو اپنی آب سرحدوں کے نقطہ آغاز کے طور پر قبول کرنا پڑتا؛ کیونکہ اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون (Ban Ki-moon) نے اپنے دور میں ایک امریکی ثالث کو لبنان پر ٹھونس لیا اور ان دونوں نے لبنان کو تجویز دی کہ وہ لائن 29 کو سرحدی نقطے کے طور پر تسلیم کرے؛ اور لگتا تھا کہ لبنان کے پاس ان کی تجویز قبول کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے؛ کیونکہ پوری دنیا میں کوئی بھی لبنان کے موقف کی حمایت نہیں کرتا تھا۔
2۔ لبنان نے لائن 23 تک رسائی پاکر ایک عظیم کامیابی رقم کی ہے یہاں تک کہ لبنان کے سیاسی مخالفین کو بھی – شدید عداوت کے باوجود – اب اس کے رقم کردہ کارنامے کو سراہنا پڑ رہا ہے، اس کا ساتھ دے رہے ہیں اور البتہ اس فتح سے فائدہ بھی اٹھانا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ لبنان کے دہشت پسند عیسائی راہنما اور دوروز
اور انتہاپسند جماعت القوات اللبنانیہ کے راہنما سمیر جعجع (Samir Geagea) اور حزب التقدمی الاشتراکی (Progressive Socialist Party) کے راہنما ولید جنبلاط (Walid Junblatt) نے علی الاعلان اعتراف کیا کہ یہ واقعہ لبنان کے لئے ایک بڑی کامیابی ہے اور اس کا اصل بانی حزب اللہ کی مقاومت ہے۔ یہ سب کا ماننا ہے کہ حزب اللہ کی یہ کامیابی لبنانی معاشرے کو ایک بار پھر متحد کرے گی اور سیاسی اختلافات بہت جلد حل ہو جائیں گے۔ سید حسن نصر اللہ اس نکتے سے آگاہ تھے چنانچہ انھوں نے اپنے خطاب کو “لبنان کی وحدت” کے عنوان سے مُعَنوَن کیا اور لبنان کے تمام سیاسی فریقوں سے مطالبہ کیا کہ باہمی اختلافات کو بھول جائیں اور حکومت کو اس عظیم کامیابی سے عملی فوائد اور مفادات حاصل کرنے اور لبنان کو معاشی بحران سے نکالنے کا موقع فراہم کریں۔
3۔ لبنان نے قانا اور کاریش کے گیس کے میدانوں پر تسلط پا کر، درحقیقت قدرتی ذخائر سے مالامال بحری علاقے کے تین چوتھائی حصے کو اپنے اندر ضم کر لیا ہے، اور اب وہ بحیرہ روم کے مشرق میں قدرتی گیس کے نقطۂ ارتکاز میں تبدیل ہو سکتا ہے، یعنی جو کچھ غاصب صہیونی ریاست اپنے لئے چاہتی تھی، اب لبنانیوں کے پاس ہے۔ لبنان قدرتی گیس کا محور بن کر اپنے تعلقات شمالی افریقہ کے مسلم ممالک اور جنوبی یورپ کے عیسائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے مرتب کر سکتا ہے؛ اور یوں لبنان کی معاشی ناکہ بندی کا خاتمہ ہو سکتا ہے، یہ ملک علاقائی تنہائی سے نکل سکتا ہے اور ایک بار پھر عالمی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرا سکتا ہے۔ اور دلچسپ امر یہ ہے کہ حزب اللہ نے ایک بار اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے، اور لبنان بھی بحیرہ روم کے پانیوں کے اوپر سے افریقی، ایشیائی اور یورپی ممالک کے ساتھ، مستحکم، پر امن اور کم خرچ معاشی تعلقات قائم کر سکتا ہے۔
4۔ اس کامیابی کے بعد، لبنان میں طویل عرصے تک اس جماعت کے اسلحے کے بارے میں کوئی مسئلہ نہیں اٹھایا جاسکے گا، کیونکہ لبنانی اس حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں کہ یہ کامیابی حزب اللہ کی مقاومت کے مرہون منت ہے اور مقاومت کا دارومدار ہتھیاروں پر ہے، اور یہ کہ حزب اللہ کے ہتھیار اندرونی ملک سیاسی تنازعات کے لئے نہیں بلکہ قومی مفادات کے تحفظ کا وسیلہ ہیں اور حزب اللہ نے اپنے ہتھیاروں کی بنیاد پر لبنان کے قدرتی وسائل کو امریکہ اور اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ صہیونی مگرمچھ کے گلے سے نکال کر نجات دلائی ہے۔ چنانچہ حزب اللہ کے ہتھیاروں کی موجودگی بھی مستحکم ہوئی گوکہ حزب اللہ کے دشمنوں اور صہیونیوں کے زیر سرپرستی رہنے والے لوگوں کی خباثت اس عظیم کامیابی سے ختم نہيں ہوتی، لیکن فی الحال برسوں تک ہتھیاروں کا مسئلہ نہیں اٹھایا جاسکے گا کیونکہ تمام شیعہ اور سنی مسلمان اور عیسائی اور دوسرے فرقوں سے وابستہ لبنانی عوام حزب اللہ اور اس کے ہتھیاروں کو لبنان کی ضرورت سمجھتے ہیں۔
5۔ حزب اللہ نے لائن 23 کو صہیونیوں سے تسلیم کروا کر اسے لبنان کے حقوق اور زمینی موجودگی تسلیم کرنے پر مجبور کیا ہے؛ سمندر میں صہیونیوں نے حزب اللہ کے آگے سر خم کر لیا ہے اور یہ زمین پر بھی اس کے سامنے سر جھکانے کے مترادف ہے؛ کیونکہ بحری کامیابی نے در حقیقت 1996ع، 2000ع اور 2006ع میں حزب اللہ کی بری اور زمینی کامیابیوں سے ہی جنم لیا ہے۔
صہیونیوں پر اس ملک کا اثر یہ ہے کہ اس نے اپنے دشمن کے آگے سر جھکایا ہے اور یوں یہودی ریاست پہلے سے کہیں زیادہ چھوٹی ہو گئی ہے اور اس کو قبول کرنا ہوگا کہ یہ سمجھوتہ حزب اللہ کے ہتھیاروں کے بھاری سائے میں منعقد ہؤا ہے، اور اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپ اس کی مدد کو نہیں آسکے ہیں، اور اس سمجھوتے پر تھوڑا سا اثر بھی نہیں ڈال سکے ہیں۔ اور یہ حقیقت صہیونیوں کو جتاتی ہے کہ اس کے بعد انہیں زیادہ روادار رہنا پڑے گا، جبکہ فریق مقابل کو اس طرح کے تحفظات کا سامنا نہیں ہے۔
اور بالآخر یہ کہ حزب اللہ اور لبنان کی یہ فتح الفتوح علاقے کے نئی صورت حال میں داخل کرتی ہے۔ یہودی ریاست عسکری اور سیاسی میدان میں – حتیٰ کہ معاشی شکل میں بھی – اپنے مفادات حاصل نہیں کرسکی ہے، جس کی وجہ سے صہیونیوں کے علاقائی مخالفین اپنے مفادات کے حصول کے لئے زیادہ پرعزم ہونگے؛ سب جانتے ہیں کہ شامات کا علاقہ مقاومت اور مزاحمت کا خطہ ہے۔ حزب اللہ کی فتح اور صہیونیوں کی شکست نے ایک بار پھر مقاومت کا پلڑا بھاری کر دیا ہے؛ جس سے صہیونیوں کے ساتھ عربوں کے تعلقات کی بحالی سمیت دوسرے مسائل پر اثر پڑے گا، اور یہ تل ابیب کے لئے بہت نقصان دہ ہے، یہ مسئلہ شام کے خلاف صہیونی خطرات کو بھی کم کرے گا اور دمشق کی پوزیشن مضبوط ہوگی اور انتقامی اقدامات کے لئے شام کے عزم و ہمت کو تقویت پہنچے گی۔
https://ur.abna24.com/story/1322502