- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- 2022/02/23
- 0 نظر
یہ بھی ان مسائل میں سے ہے جن پر شیعوں اورسنیوں میں اختلاف ہے اس سے قبل کہ ہم کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کریں ، خمس کے موضوع پرمختصر بحث ضروری ہے ،جس کی ابتدا ہم قرآن کریم سے کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔:
“وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ “اور یہ جان لو کہ جو مال تمھیں حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول ص کے لیے ، رسول ص کے قرابتداروں کے لیے اور یتیموں ناداروں اورمسافروں کے لیے ہے ۔(سورہ انفال ۔ آیت 41)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :” أمركم بأربعٍ :الأيمان بالله وإقام الصّلاة وإيتاء الزكاة وصيام رمضان وأن تؤدّوا الله خمس ما غنمتم .”
اللہ تعالی نے تمھیں چار چیزوں کا حکم دیا ہے : ایمان با اللہ کا ، نماز قائم کرنے کا، زکات دینے کا اور اس کا کہ تم جو کچھ کماؤ اس کا پانچواں حصہ اللہ کو ادا کرو۔(1)
چنانچہ شیعہ تو ائمہ اہل بیت ع کی پیروی کرتے ہوئے جو مال انھیں سال بھر میں حاصل ہوتا ہے اس کا خمس نکالتے ہیں ۔ اور غنیمت کی تشریح یہ کرتے ہیں کہ اس سے مراد نفع ہے جو آدمی کو عام طور پر حاصل ہوتا ہے۔
اس کے برخلاف اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ خمس (2) اس مال غنیمت سے مخصوص ہے جو کفار سے جنگ کے دوران میں حاصل ہو ۔ ان کے نزدیک “ماغنمتم من شیء ” کے معنی ہیں کہ جو کچھ تمھیں جنگ کے دوران میں لوٹ کے مال سے حاصل ہو(جبکہ آیت میں دارالحرب کا خصوصیت سے ذکر نہیں اور من شیء کے الفاظ عمومیت کے حامل ہیں )
یہ خلاصہ ہے خمس کے بارے میں فریقین کے اقوال کا ۔ میں حیران ہوں کہ کیسے میں خود کو یاکسی اور کو اہل سنت کے قول کی صحت کیایقین دلاؤں جب کہ میرا خیال ہے کہ اس بارے میں اہل سنت نے اموی حکمرانوں کے قول پر اعتماد کیا ہے خصوصا معاویہ بن ابی سفیان کی رائے پر ۔جب کہ معاویہ بن ابی سفیان نے مسلمانوں کے اموال پر قبضہ کرکے سب سونا چاندی اپنے لیے اور اپنے مقربین کے لیے مخصوص کرلیا تھا اور اس کا نگران اپنے بیٹے یزید کوبنالیا تھا جو بندروں اور کتوں کو سونے کے کنگن پہنا تا تھا جب کہ بعض مسلمان بھوکے مرتے تھے ۔
اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اہل سنت خمس کو دارالحرب سے مخصوص کرتے ہیں کیونکہ یہ آیت ان آیات کے درمیان واقع ہوئی ہے جن کا تعلق جنگ سے ہے ۔ ایسی بہت سی آیات ہیں جن کی تفسیر اہل سنت اگر کوئی مصلحت اس کی مقتضی ہو تو ان سے پہلی یا بعد کی آیات کے معنی کی مناسبت سے کرتے ہیں ۔مثلا وہ کہتے ہیں کہ آیہ تطہیر ازواج رسول ص سے مخصوص ہے کیونکہ اس سے پہلے اور بعد کی آیات میں ازواج رسول ص ہی کا ذکر ہے ۔اسی طرح اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ اہل کتاب سے مخصوص ہے :
” وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ”
جو لوگ سونا چاندی جوڑ کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری دیدیجیے ۔(سورہ توبہ ۔آیت 34)
اس سلسلے میں ابوذرغفاری رض کے معاویہ اور عثمان سے اختلاف کا اور ابوذر کا ربذہ میں شہر بدر کیے جانے کا قصہ مشہور ہے ۔ابو ذر جو سونا چاندی جمع کرنے پر اعتراض کرتے تھے ۔ وہ اسی آیت سے استدلال کرتے تھے ۔ لیکن عثمان نے کعب الاحبار سے مشورہ کیا تو کعب الاحبار نے کہا کہ یہ آیت اہل کتاب سے مخصوص ہے ۔ اس پر ابوذر غفاری رض غصّے سے بولے : یہودی کے بچے ! تیری ماں تجھے روئے اب تو ہمیں ہمار دین سکھائے گا ؟اس پر عثمان ناراض ہوگئے اور ابوذر کو ربذہ میں شہر بدر کردیا ۔ وہ وہیں ! کیلے پڑے پڑے کس مپرسی کی حالت میں خالق حقیقی سے جاملے ۔ان کی بیٹی کو کوئی ایسا شخص بھی دستیاب نہ ہوسکا جو ان کو غسل وکفن دے سکتا ۔
اہل سنت نے آیات قرآنی اوراحادیث نبوی کی تاویل کو ایک فن بنا دیا ہے۔ ان کی فقہ اس سلسلے میں مشہور ہے۔ اس معاملے میں وہ ان خلفائے اولین اور مشاہیر صحابہ کا اتباع کرتے ہیں ۔ جو نصوص صریحہ کی تاویل کرتے ہیں (3)
اگر ہم ایسے تمام نصوص گنوانے لگیں تو ایک الگ کتاب کی ضرورت ہوگی تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے کے لیے کافی ہے کہ وہ النص والاجتہاد نامی کتاب کا مطالعہ کرے تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ تاویل کرنے والوں نے کس طرح اللہ کے احکام کو کھیل بنادیا ۔
اگر میرا مقصد تحقیق ہے تو پھر مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں آیات قرآنی اور احادیث نبوی کی اپنی خواہش کے مطابق یا جس مذہب کی طرف میرا رجحان ہے اس کے تقاضوں کے مطابق تاویل کرنے لگوں ۔
لیکن اس کا کیا علاج کہ اہل سنت نے خود ہی اپنی صحاح میں وہ روایات بیان کی ہیں جن کے مطابق دارالحرب سے باہر خمس کی فرضیت کا ثبوت ملتا ہے اور اس طرح اپنے مذہب اور اپنی تاویل کی خود ہی تغلیط اور تردید کردی ہے ۔مگر معما پھر بھی حل نہیں ہوتا ۔
معما یہ ہے کہ آخر اہل سنت ایسی بات کیوں کہتے ہیں جس پر عمل نہیں کرتے ۔وہ اپنی حدیث کی کتابوں میں وہی اقوال بیان کرتے ہیں جن کے شیعہ قائل ہیں ۔ لیکن ان کا عمل سراسر مختلف ہے ۔آخر کیوں؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ۔ خمس کا موضوع بھی ان ہی مسائل میں سے ہے جن کےبارے میں سنی خود اپنی روایات پر عمل نہیں کرتے ۔
حواله جات
(1) صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 44
(2) خمس کے موضوع پر صحیح بخاری کے علاوہ صحیح مسلم ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ،سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسالتمآب نے نماز اور زکواۃ کے ساتھ خمس کی ادائیگی کو بھی واجب قراردیا تھا ۔
اختصار کے پیش نظر ہم یہاں صرف صحیح مسلم سے ایک روایت کامتن درج کررہے ہیں ۔طالبان تفصیل علامہ سید ابن حسن نجفی صاحب کی کتاب مسئلہ خمس ملاحظہ فرمائیں ۔
“ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبدالقیس کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! ہم ربیعہ کے قبیلے سے ہیں اور ہمارے دور آپ کے درمیان مضر کا کافر قبیلہ حائل ہے اور حرمت والے مہینوں کے علاوہ دوسرے زمانے میں ہم آپ تک نہیں پہنچ سکتے ! لہذا آپ ہمیں کوئی ایسی ہدایت فرمائیں جس پر ہم خود بھی عمل پیراہوں اوراپنے دوسرے لوگوں کو بھی اس پر عمل کرنے کی دعوت دیں ۔ آپ نے فرمایا : تم کو حکم دیتاہوں چار باتوں کے لیے اور منع کرتا ہوں چارباتون سے ۔پھر آپ نے تو ضیح کرتے ہوئے فرمایا کہ گواہی دو اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے خداکے اور محمد ص اس کے رسول ہیں ۔ نیز نماز قائم کرو ، زکواۃ دو اور اپنی کمائی میں سے خمس اداکرو ۔(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 93 مطبوعہ لاہور) (ناشر)
(3) علامہ شرف الدین اپنی کتاب النص والاجتھاد میں نصوص صریحہ میں تاویل کی سور سے زیادہ مثالیں جمع کی ہیں جسے تحقیق مقصود ہو وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے