- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/04/16
- 0 رائ
ایک انسان جب کسی عمل کو انجام دینا چاھتا ھے تو اسے یہ حق حاصل ھوتا ھے کہ وہ اس عمل کی غرض و غایت، فلسفہ و حکمت اور اسرار سے واقف ھو، کیوں کہ اسکی عقل کسی ایسے عمل کو انجام دینے سے منع کرتی ھے جس کی غرض وغایت اور حکمت معلوم نہ ھو۔ حکمت جانے بغیر یا تو وہ سرے سے عمل ھی انجام نھیں دیتا یا پھر کسی جاذبہ اور خوف مثلاً جاذبہٴ بھشت اور خوف عذاب کی بناء پر عمل تو انجام دیتا ھے لیکن اسکے تحت الشعور میں یہ نکتہ بار بار ابھرتا ھے کہ کیا یہ ممکن نھیں تھا کہ اس عمل کو انجام دیے بغیرھی مورد نظرھدف حاصل ھو جاتا اوراس خوف سے نجات مل جاتی۔ در حقیقت اگر انسان کسی عمل کے اسرار سے واقف نہ ھو تو اسکی دلی تمنّا یہ ھوتی ھے کہ اس عمل کے انجام دئے بغیر ھی اسے بھشت اپنے تمام لوازمات کے ساتھ حاصل ھو جائے اور عذاب جھنّم سے بھی نجات مل جائے۔
یہ بھی ممکن ھے کہ حکم خدا کا احترام کرتے ھوئے کوئی کسی عمل کو تعبّداً انجام دے لیکن اس طرح تعبّداً عمل انجام دینے کے لئے بھی شرط ھے کہ عمل کرنے والا ذات خدا کی عمیق معرفت رکھتا ھو ورنہ اس کے تعبّد میں دوام اور تسلسل پیدا نھیں ھو سکتا۔ خدا کی معرفت اگرچہ انسان کے لئے باعث بنتی ھے کہ وہ احکام الٰھی کی تعمیل کرے تاکہ حرمت الٰھی ٹوٹنے نہ پائے لیکن اگر خود عمل پر نظر کریں تو جب تک اسکا فلسفہ اور راز معلوم نہ ھو وہ فقط ایک بے کیف، بے جان اور بے روح عمل ھوتا ھے۔ انسان تعبّداً ایک عمل کو انجام ضرور دے لیتا ھے لیکن اس عمل کے ثمرات اور اثرات سے محروم رھتا ھے۔
یہ نکتہ انسان کے لئے بھت اھم ھے کہ جب وہ کسی عمل کو انجام دے رھا ھو مثلاً نماز پڑھ رھا ھو، روزہ رکھ رھا ھو، انفاق کر رھا ھو، حج، جھاد، امرباالمعروف و نھی عن المنکر جیسے اھم فرائض کو انجام دے رھا ھو تو وہ ان اعمال کے اثرات، ثمرات اور برکات سے بھی واقف ھو۔ وہ یہ جانتا ھو کہ یہ عمل مثلاً نماز اگر اپنے اسرار کے ساتھ پڑھی جائے تو یہ اس کی زندگی میں کتنا بڑا تحوّل و تغیر ایجاد کر سکتی ھے۔ اسرار سے واقفیت انسان کے اندر تحریک ایجاد کرتی ھے اور اس کی ھمّت کو بلند کر دیتی ھے، پھر وہ کسی بھی حال میں اس عمل کو ترک کرنے پر راضی نھیں ھوتا کیونکہ وہ اس کے ثمرات سے محروم نھیں ھونا چاھتا۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں :
”قَدرُ الرَّجُلِ عَلَی قَدْرِ همَّتِه“
انسان کی قدروقیمت اور اسکی شناخت خود اسکی ھمتوں کے ذریعے کی جا سکتی ھے۔ وہ جتنی بلند ھمّت کرتا ھے اتنا ھی بڑا اور قیمتی انسان ھوتا ھے۔ چھوٹے، معمولی اور پست انسانوں کی ھمّتیں بھی چھوٹی اور پست ھوتی ھیں، جو نہ صرف یہ کہ بڑی ھمّتیں نھیں کر سکتے بلکہ اگر اسکا تذکرہ بھی سنتے ھیں تو خوفزدہ ھو جاتے ھیں اوراپنے دل میں تنگی کا احساس کرنے لگتے ھیں مثلاً بعض افراد اتنے کم ھمّت ھوتے ھیں کہ وہ روزہ رکھنے کی ھمّت ھی نھیں کر پاتے، بعض ھمّت تو کر لیتے ھیں لیکن اگر صبح میں ارادہ کرتے ھیں تو شام میں ٹوٹ جاتا ھے، اور اگر شام میں ارادہ کرتے ھیں تو سحر تک ٹوٹ جاتا ھے۔
بعض افراد تھوڑی بلند ھمت کرتے ھیں اور روزہ رکھ لیتے ھیں لیکن ذرا سا حلق میں خشکی کا احساس ھوتا ھے اور انھیں یہ فکر لاحق ھو جاتی ھے کہ کسی طرح کوئی ایسا بھانہ ھاتھ آجائے جس کی وجہ سے یہ روزہ توڑا جاسکے، خواہ وہ حلق کی خشکی سحر کے وقت زیادہ کھا لینے یا زیادہ دیر تک سو لینے کی وجہ سے ھی کیوں نہ ھو۔
بعض دیگر افراد ذرا اورھمت بلند کرتے ھیں اور اپنا روزہ کامل کر لیتے ھیں لیکن دو چار روزے گزرنے کے بعد ھمّت ھار جاتے ھیں، بعض افراد سردیوں کے موسم کو دیکھ کر اپنی ھمّت کو بلند کرتے ھیں اور پورے مھینے کا روزہ رکھ لیتے ھیں، لیکن گرمیوں میں ھمّت جواب دے جاتی ھے، ایسی ھمّت رکھنے والے انسان کو ایک بلند ھمّت انسان نھیں کھا جا سکتا۔ کم سے کم امام علی علیہ السلام کی نظرمیں یہ ایک کم ھمّت انسان ھوگا کیوں کہ آپ(ع) کو گرمیوں کے روزے زیادہ عزیز تھے۔
ایک انسان مزید ھمّت کرتا ھے اور اپنے اوپر فرض تمام روزوں کو گرمی و سردی کی پرواہ کئے بغیر رکھتا ھے لیکن روزے کے آداب و اسرار سے بے خبر ھوتا ھے، اسکی قسمت میں بھی بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نھیں آتا جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: کَم مِن صَائِمٍ لَیسَ لَه مِنْ صِیَامِه اِلّا الْجُوع وَالظَّمَاء۔ ۔ ۔ ۔ کتنے روزہ دار ایسے ھیں جن کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نھیں ملتا‘۔
ایک انسان آداب روزہ کی بھی رعایت تو کرتا ھے لیکن اسرار روزہ سے باخبر نھیں ھے لھٰذا اسے بھی ایک بلند ھمّت انسان نھیں کھا جا سکتا، اگرچہ اس کی ھمّت دوسروں کی نسبت کافی بلند ھے لیکن اس کی زندگی روزہ کے اثرات و ثمرات سے بے بھرہ ھے۔ اس کے نصیب میں فقط روزہ کا ثواب آتا ھے، اسے جنّت تو ضرور مل جاتی ھے لیکن خدا نھیں ملتا، اس کی زندگی پر روزے کا کوئی اثر نھیں ھوتا لھٰذا جس طرح ایک نمازی مسجد سے نکل کر فحشاء و منکر کا مرتکب ھوتا ھے اور اپنے آپ کو طرح طرح کی برائیوں سے آلودہ کر لیتا ھے، کیوں کہ وہ نماز کے اسرار سے واقف نھیں ھے اور نماز اس کی زندگی پر کوئی اثر نھیں ڈالتی اسی طرح یہ روزہ د ار بھی ماہ رمضان کے بعد یا ممکن ھے خود روزہ ھی کی حالت میں بڑے سے بڑے فردی یا اجتماعی جرم و گناہ کا مرتکب ھو اور اس کی پرواہ بھی نہ کرے کیونکہ وہ فلسفہٴ روزہ سے بے خبر ھے اور اس نے اسرار روزہ کو درک کرنے کی کوشش نھیں کی، حتیٰ ممکن ھے وہ شب قدر میں بھی کسی بڑے جرم یا خیانت کا مرتکب ھو جائے کیوں کہ وہ اسرار شب قدر سے بے خبر تھا۔
رمضان کے باب میں ایک بلند ھمّت انسان وہ ھے جو روزے کو اس کے آداب اور اسرار کے ساتھ رکھے لیکن یہ آخری حد نھیں ھے، مقام انسان اتنا بلند ھے کہ اس کی کوئی حد معیّن نھیں کی گئی ھے، وہ اس سے بھی زیادہ اپنی ھمّت کو بلند کر سکتا ھے اور وہ اس طرح کہ روزے کو اس کے پورے آداب و اسرار کے ساتھ کامل کرے اور جب افطار کا وقت آئے تو اپنی افطار کی روٹیاں فقیر کو دے کر پانی پر اکتفا کر لے اور یہ عمل تین دنوں تک جاری رھے —”و یطعمون الطعام علیٰ حبه مسکینا و یتیما و اسیرا“یھاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ اس عمل میں ایک غیر معصوم کنیز(فضه) بھی شریک ھے جو اس بات کی علامت ھے کہ ایک غیر معصوم انسان بھی اپنے آپ کو ایسے بلند مقام تک پھونچا سکتا ھے جھاں وہ ایک ایسا عمل انجام دے جو معصوم کے لئے بھی فضیلت شمار کیا جاتا ھو۔ یہ کسی بھی انسان کے لئے ایک بھت بڑا مقام ھے اور اس اطعام کی لذّت ان روٹیوں کے کھانے سے کھیں زیادہ ھے۔
روزہ کا ظاھر و باطن
انسان جسم اور روح سے مرکّب ھے، جسم روح کی فعّالیت کا وسیلہ اور روح جسم کی حیات ھے۔ اگر جسم سے روح نکل جائے تو جسم مردہ اور بے حرکت ھو جاتا ھے، اور دوسری طرف روح کی فعّالیت کا سلسلہ متوقّف ھو جاتا ھے۔ انسان کے اعمال وعبادات بھی بالکل انسان کے مانند ھیں، ان میں بھی ایک جنبہٴ ظاھری و جسمانی ھے یعنی پیکر عمل، اور ایک جنبہٴ باطنی و روحانی ھے یعنی فلسفہ و اسرار عمل۔ جس طرح انسان کی زندگی اس کی روح میں ھے اسی طرح عمل کی حیات بھی اسکے اسرار اور فلسفہ میں ھے اور جس طرح روح کے بغیر انسان مردہ ھے اسی طرح اسرار و فلسفہ کے بغیر اعمال مردہ ھیں، لیکن اکثر انسانوں کی مشکل یہ ھے کہ وہ جسم پرست اور ظاھر بین ھیں، وہ جسم کی زینت اور خدمت میں خود کو اتنا مشغول کر لیتے ھیں کہ انھیں روح کی طرف توجہ دینے کی فرصت ھی نھیں ملتی۔ یہ پوری انسانیت کی مشکل ھے، آج کا انسان روح اور روح کے تقاضوں سے بے خبر صرف جسم کی خدمت میں لگا ھوا ھے اور بغیر روح کے جسم کتنا ھی قوی کیوں نہ ھو جائے مردہ ھے۔ آج کے انسانی معاشروں نے بڑی مضحکہ خیز بلکہ بھیانک شکل اختیار کر لی ھے۔ شھر، سڑکیں، گلیاں، مکان سب سجے ھوئے ھیں لیکن ان میں حرکت کرنے والے انسان مردہ ھیں۔ جنکی حرکت ایک انسانی حرکت نھیں بلکہ ایک مشین یا روبوٹ کی حرکت کے مانند ھے، جن کی ساری بھاگ دوڑ اس لیے ھے کہ ان کے جسم کی تمام ضرورتیں اور خواھشیں پوری ھو جائیں لیکن اسکی کوئی فکر نھیں کہ روح کا کوئی تقاضا پورا ھو یا نہ ھو۔ تعجب اس بات پر ھے کہ پھر یھی انسان شکایت کرتا ھے کہ معاشرے میں فساد اور جرائم بڑھتے جا رھے ھیں جبکہ اسے معلوم ھے کہ مردہ جسم کو اگر دفن نہ کر دیا جائے تو اس میں تعفّن اور فساد کا پیدا ھونا لازمی ھے۔
ایک سنجیدہ مسئلہ
انسانوں ھی کی طرح انسانی اعمال اور عبادتیں بھی اگر بغیر روح کے انجام دی جائیں تو نہ صرف یہ کہ ان کا انسانی زندگی پر کوئی مثبت اثر نھیں پڑتا بلکہ در حقیقت وہ مزید فساد کا باعث بنتی ھیں۔ تصنّع، ریا کاری، فریب، تکبّر اور خود نمائی جیسے اخلاقی مفاسد بعض اوقات انھیں بے روح عبادتوں کے نتیجے میں پیدا ھوتے ھیں جن میں اکثر عباد ت گزار مبتلا ھو جاتے ھیں۔ عبادتوں کے ان نتائج کو دیکہ کر ایک بڑا طبقہ ان سے دور ھو جاتا ھے اور دور ھونا بھی چاھیے کیونکہ مردہ چیزوں سے ھر شخص دوری اختیار کرتا ھے۔ پھر یہ شکایت کی جاتی ھے کہ جوان نسل مسجد میں نھیں آتی، جوان روزہ نھیں رکھتے اور یہ درست بھی ھے لیکن وہ مسجد میں اس لئے نھیں آتے کیوں کہ انھیں اسرار نماز نھیں معلوم، وہ روزہ اسلئے نھیں رکھتے کیوں کہ انھیں فلسفه روزہ نھیں بتایا گیا ھے۔
راہ حل
آج جب کہ پوری بشریت شدّت سے اپنے اندر معنویت اور روحانیت کا خلا محسوس کر رھی ھے اور دوسری طرف ان بے روح عبادتوں کو قبول بھی نھیں کیا جا سکتا تو ضرورت اس بات کی ھے کہ ان تمام عبادتوں کے اسرار و فلسفے بیان کیے جائیں، لوگوں کو جتنے احکام بتائے جائیں اس سے کھیں زیادہ ان کے اسرار بتائے جائے، احکام کا فلسفہ بیان کیا جائے۔
ممکن ھے کوئی یہ راہ حل پیش کرے کہ جو چیز بے روح ھو جائے اسے ترک کردیا جائے لھٰذا یہ بے روح نمازیں، بے روح روزے، بے روح حج، بے روح عبادات، بے روح عزاداری، حتّیٰ بے روح دین ان سب کو ترک کر دیا جائے۔ اگر اس ترک کرنے سے مراد یہ ھو کہ ان بے روح عبادتوں اور اعمال کو ترک کر کے زندہ عبادات، زندہ اعمال اور زندہ دین کو اپنایا جائے تو یہ وھی راہ حل ھے جو پھلے بیان کیا گیاھے یعنی ان میں روح پیدا کی جائے ان کے اسرار و فلسفے بیان کئے جائیں، لیکن اگر اس سے مراد یہ ھو کہ سرے سے دین کو ترک کر دیا جائے، سرے سے عبادات ھی نہ انجام دی جائے، سرے سے عزاداری ھی نہ کی جائے تو یہ راہ حل ایسا ھے جیسے کوئی کھے کہ آج اکثر انسان اور انسانی معاشرے روحانیت اور معنویت سے خالی ھیں لھٰذا ان سب کا خاتمہ کر دیا جائے۔ یہ کوئی راہ حل نھیں ھے کہ ابرو سنوارنے میں آنکھیں پھوڑ دی جائیں۔
اھل مغرب کی روش اور اس کا انجام
اھل مغرب نے بجائے اصلاح کے ترک کی روش کو اختیار کیا یعنی انھیں منحرف شدہ عیسائی مذھب، ساکت، جامد، بے ھدف اور بے روح نظر آیا تو بجائے اسکے کہ وہ دین کو زندہ، متحرک اور باھدف بناتے انھوں نے اسے ھی ترک کر دیا۔ انھیں مسیحی عبادتيں کھوکھلی اور بے جان نظر آئیں تو بجائے اسکے کہ وہ عبادتوں کوغنی کرتے انھیں سرے سے ترک کر دیا، انھیں کلیسا کی روحانیت میں خرافات نظر آئے تو بجائے اسکے کہ خرافات کو ھٹا کر اسکی جگہ عمیق معنویت کو جاگزیں کرتے انھو ں نے سرے سے کلیسا اور روحانیت کو ترک کر دیا جس کے نتیجے میں اب وہ ایک متمدّن حیوان بن کر مادّیت کے پیچھے تیزی سے بھاگ رھے ھیں۔ انھوں نے شکم پرستی، جسم پرستی اور شھوت رانی کا مقابلھ(Competition)شروع کر رکھا ھے اور بشریت کو ایک ایسے موڑ پر پھونچا دیا ھے کہ اس کی ھلاکت کے آثار بھت صاف نظر آنے لگے ھیں اگرچہ علوم وفنون میں آج کے انسان کی ترقی بھی بھت صاف نظر آتی ھے لیکن دین و معنویت سے خالی اس ترقی کے تحفے بھت جانسوز اور دردناک ھیں۔ پھلی اور دوسری جنگ عظیم سے لیکر فلسطین، افغانستان اور عراق میں ھونے والی بربریت اور درندگی کے تمام مناظراسی ترقی کے مرهون منت ھیں۔
اھل مغرب نے جس راہ حل کا انتخاب کیا آج دنیائے انسانیت کو اس کی بھت بڑی قیمت ادا کرنی پڑرھی ھے اور ابھی مزید تلخ سے تلخ ترحالات سے دو چار ھونا پڑے گا، جس کی وجہ یہ ھے کہ انھوں نے قرون وسطیٰ middle ages) کی بے جان مسیحیت سے تنگ آ کر جو طریقہ اپنایا وہ سرے سے راہ حل ھی نھیں تھا بلکہ وہ ایک مشکل سے فرار تھا جس نے اور بڑی مشکل میں گرفتار کر دیا۔
دین اور معنویت کے بغیر انسان اندر سے بالکل کھوکھلا ھو گیا ھے اگرچہ اسکا ظاھر بھت حسین ھے اور اب اس مشکل کا حل یہ ھے کہ انسان پھر دین کی طرف پلٹے لیکن ایک ایسے دین کی طرف جو زندہ ھو، جس کے پاس انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے لئے لائحہ عمل موجود ھو۔ آج انسان کی بھلائی اسمیں ھے کہ وہ پھر خدا کی طرف پلٹے لیکن ایسے خدا کی طرف جس نے اپنے تمام امور راھبوں اور راھب صفت ملّاؤں کے سپرد نھیں کر دیئے ھیں بلکہ تدبیر عالم اس کے ھاتھوں میں ھے، آج انسانیت کا سکون و اطمینان اسمیں ھے کہ وہ پھر سے عبادت خدا اور ذکر خدا کی طرف پلٹے”اَلا بِذِکْرِاللّٰه تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ“ (۴)لیکن ایسی عبادت اور ایسا ذکر جس میں اسرار، فلسفہ اور حکمت موجود ھو اور انسان اس کے اسرار و فلسفہ سے واقف بھی ھو ورنہ نادانی کی دینداری اور اسرار و فلسفہ سے خالی اعمال وعبادتیں بعض اوقات بے دینی اور بے عملی سے زیادہ مضر ثابت ھوتی ھیں۔
قرآن میں روزہ کا حکم
قرآن نے جس آیت کریمہ میں روزے کا حکم بیان فرمایا ھے اسی آیت میں دو مطلب کی اور بھی وضاحت کی ھے۔ اوّل یہ کہ روزہ ایک ایسی عبادت ھے جسے امّت مسلمہ سے قبل دیگر امّتوں کے لیے بھی فرض قرار دیا گیا تھا ”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“ یعنی روزہ کے ذریعے انسان کو جوھدف حاصل کرنا ھے وہ امّت مسلمہ سے مخصوص نھیں ھے بلکہ دیگر امتوں کے لیے بھی تھا۔
یھاں طبیعی طور پر انسان کے ذھن میں یہ سوال اٹھتا ھے کہ وہ ھدف کیا ھے؟ اور حکم روزہ کا فلسفہ کیا ھے؟ اسمیں کون سے اسرار اور رموز پوشیدہ ھیں جن کی بنا پر اسے نہ صرف امّت مسلمہ بلکہ اس سے قبل دیگر امتوں پر بھی واجب قرار دیا گیا؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے قرآن نے اس آیت کے آخری حصّہ میں روزہ کا فلسفہ بیان کیا ھے ۔” لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون “ تاکہ شاید تم صاحب تقویٰ بن جاوٴ۔ پس ایک ھی آیت میں قرآن نے تین چیزیں بیان کی ھیں :
ایک روزہ کا حکم کہ تم پر روزہ واجب ھے ”کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ“
دوسرے سابقہ امّتوں کا تذکرہ کہ ان پر بھی روزہ واجب تھا ”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“ تاکہ جن افراد کے لئے یہ حکم سخت اور ناگوار ھو وہ نفسیاتی طور پر اسے آسان اور قابل عمل محسوس کریں۔
تیسرے روزے کا فلسفہ ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون “ تاکہ انسان کی نظر فقط روزہ کے ظاھر پر نہ ھو بلکہ وہ اسکی حقیقت اور روح تک پھنچ سکے، روزے کے اسرار کو درک کرکے اس کے اھداف کو حاصل کر سکے۔
روزہ انسان کی روحانی اور جسمانی تربیت کے لیے ھے لھٰذا اس آیت کا لھجہ بھی نھایت مشفقانہ ھے ۔جس طرح ایک ماں اگر اپنے مریض بچّے کو کوئی ایسی تلخ دوا پلانا چاھے جس کے بغیر اسکا علاج ممکن نہ ھو تو وہ پھلے بچّے کو پیار سے بلاتی ھے پھر اسے نھایت نرمی کے ساتھ دوا پینے کو کھتی ھے، دوسرے بچّوں کی مثال دیتی ھے پھر اس کے فوائد بیان کرتی ھے کہ اگر دوا پی لو گے تو بالکل ٹھیک ھو جاؤ گے۔
قرآن نے فرمایا ”یَا اَیُّهاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا“صاحب ایمان کھہ کر ایک محترمانہ لھجے میں خطاب کیا، پھر نرمی سے حکم بیان کیا -” کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَام “تم پر روزہ لکھ دیا گیا ھے، ”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ “ جس طرح تم سے قبل دیگر امّتوں پر بھی فرض کیا جا چکا ھے، اس کے بعد روزے کی غرض، غایت اور فلسفہ بیان کیا ”لعلّکم تتّقون “( ۸)تاکہ انسان نہ صرف یہ کہ اس عمل میں تلخی محسوس نہ کرے بلکہ فلسفہ اور اسرار سے واقف ھونے کے بعد اسی سخت اور دشوار عمل میں اسے لذّت کا احساس ھونے لگے۔
منبع: https://erfan.ir/a14600