- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- 2022/02/23
- 0 نظر
کیا اغنیاء کے مال اور دانشوروں کے علم کی اس کمیّت و کیفیت کے ساتھ عطا و بخشش کے ذریعے معاشرے سے مادی و معنوی فقر کی بنیادوں کو نھیں ڈھایا جاسکتا؟!
یہ فرد و معاشرے کی سعادت کے لئے نماز و زکات کی حکمت و اثر کا نمونہ تھا۔ لہٰذا جس دین نے ھر حرکت و سکون اور فعل و ترک میں انسان کی کچھ ذمہ داریاں معیّن کی هوں جو واجبات، محرمات، مستحبات، مکروھات اور مباحات کے مجموعے کو تشکیل دیتی ھیں اور افراد کی جان، عزت و آبرو اور مال کی حفاظت کے لئے جو قوانین، حقوق اور حدود معیّن کئے گئے ھیں، ان پر عمل کرنے سے کیسا مدینہ فاضلہ تشکیل پاسکتا ھے؟
مثال کے طور پر وہ حیوان جس سے انسان کام لیتا ھے، اس کے حقوق کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح و روشن هو جاتی ھے کہ اس دین مبین میں انسانی حقوق کی کس طرح ضمانت دی گئی ھے۔
جس جانور پر انسان سوار هوتا ھے، اس کے حقوق یہ ھیں: منزل پر پھنچنے کے بعد، اپنے کھانے کا انتظام کرنے سے پھلے، اس کے لئے چارہ مھیا کرے، جب کھیں پانی کے پاس سے گزرے اسے پانی پلائے تاکہ پیاسا نہ رھے، اس کے منہ پر تازیانہ نہ مارے، اس کی پیٹھ پر میدان جھاد میں ضرورت کے وقت کے علاوہ، کھڑا نہ هو، اس کی طاقت سے زیادہ سنگین وزن نہ لادے اور کام نہ لے، اسے بُرا بھلا نہ کھے، اس کے چھرے کو بدصورت نہ بنائے، خشک زمین پر تیز اور علف زار میں آھستہ چلائے اور اس کی پیٹھ پر گفتگو کی محفل نہ جمائے۔
اور اگر دریا کے کنارے دسترخوان لگائے، باقی بچنے والی غذا کو پانی میں ڈال دے تا کہ دریائی جانور اس کی ھمسائیگی سے بے بھرہ نہ رھیں۔
اور جس زمانے میں پانی میں موجود خورد بین سے نظر آنے والے جانداروں کی کسی کو خبر تک نہ تھی، حکم دیا کہ پانی میں پیشاب نہ کریں کہ پانی کی بھی کچھ مخلوق ھے۔
حیوانات کے بعض حقوق اور ان کے بارے میں انسانی ذمہ داریوں کو ذکر گیا گیا، جس سے اجتماعی عدالت اور انسانی حقوق کے سلسلے میں دین اسلام کا آئین واضح هوتا ھے۔
دین ِ اسلام کا مقصد دنیا و آخرت کو آباد کرنا اور انسان کے جسم و جان کو قوت و سلامتی عطا کرنا ھے<رَبَّنَا آتِنَا فِیِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَاعَذَابَ النَّارِ>[۱]
دنیا و آخرت اور جسم و روح کی ایک دوسرے سے وابستگی اور عدل و حکمت کے تقاضے کے مطابق انسان کی مادی و معنوی زندگی میں سے ھر زندگی کی جتنی اھمیت و ارزش تھی، اتنی ھی اس کی جانب توجہ دلائی اور فرمایا: <وَابْتَغِ فِیْمَا آتَاکَ اللّٰہُ الدَّارَالْآخِرَةَ وَلَا تَنْسِ نَصِےْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا>[۲]
دنیا کو آباد کرنے اور انسان کی آسودگی و آرام پر مکمل توجہ رکھی، دنیا و آخرت کو ان کی خلقت کے تقاضے کے مطابق بالترتیب ثانوی و طفیلی اور بنیادی و مرکزی حیثیت دیتے هوئے، دنیا و آخرت میں نیکی و حسنات کو انسان کی درخواست اور دعا قرار دیا کہ کلام امام معصوم(ع) میں دنیا کے حسنہ کو رزق و معاش میں وسعت اور حسنِ خلق، جبکہ آخرت کے حسنہ کو رضوان خدا و بھشت بتلایا گیا ھے۔ اقتصادی ترقی بالخصوص زراعت و تجارت کو اھمیت دی اور <وَلِلّٰہِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِہ وَلِلْمُوٴْمِنِیْنَ>[۳] کے حکم کے مطابق مؤمن کو سخاوت اور بے نیازی کی بدولت عزیز جانا۔ امام جعفر صادق(ع) سے روایت نقل هوئی ھے: ((و ما فی الاٴعمال شیٴ اٴحب إلی اللّٰہ من الزراعة)) [۴]۔ امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع) نخلستان میں کاشتکاری و آبیاری کیا کرتے تھے۔
ایک دوسری روایت میں ھے کہ امام جعفر صادق(ع)نے بازار سے کنارہ گیری کرنے والے سے فرمایا: ((اٴغد إلی عزّک))[۵] اور ایک روایت میں امیرالمومنین(ع) فرماتے ھیں: ((تعرضوا للتجارات))[۶]
اسلام میں بازار و تجارت کی بنیاد هوشیاری، امانت، عقل ، درایت اور احکام تجارت کا خیال رکھنے پر ھے((لایقعدن فی السوق إلامن یعقل الشراء و البیع)) [۷] ((الفقہ ثم المتجر))[۸]
لیکن دین کے لئے اسلام میں واجبات و مستحبات اور محرمات و مکروھات مقرر کئے گئے ھیں، یھاں ان کی تفصیل ذکر کرنا تو ممکن نھیں ھے، البتہ ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ھیں:
ھر قسم کے لین دین میں سود، قسم کھانا، بیچنے والے کا اپنی چیز کی تعریف کرنا، خریدار کا خریدی جانے والی چیز میں عیب نکالنا، عیب کو چھپانا، دھوکہ دینا اور ملاوٹ کرنا ممنوع قرار دیا گیا ھے۔
تاجر کو چاھیے کہ حق دے اور حق لے، خیانت نہ کرے۔ اگر مد مقابل پشیمان هو تو سودا کالعدم کر دے اور اگر تنگدستی و مشکل میں گرفتار هو جائے تو اسے مھلت دے، اگر کوئی شخص کسی چیز کے خریدنے کو کھے جو کچھ اس کے پاس هو اس سے اسے نہ بیچے، اور اگر کسی چیز کے فروخت کرنے کو کھے اسے اپنے لئے نہ خریدے، ترازو ھاتھ میں لینے والا کم لے اور زیادہ دے، چاھے اس کی نیت یہ هو کہ اپنے فائدے سے کچھ کم یا زیادہ نہ کرے۔ اپنی گفتار میں سچے تاجر کے علاوہ باقی سب تاجر، فاجر ھیں۔
اور جس سے یہ کھے: ”سودے اور لین دین میں تم سے احسان و اچھائی کروں گا ،“اس سے منافع نہ لے، کسی رابطے کا خیال کئے بغیر تمام خریداروں کو برابر سمجھے اور جس چیز کی قیمت معلوم و معین هو، قیمت کم کر وانے والے اور خاموش شخص کو ایک ھی قیمت پر بیچے، حساب اور لکھنا جانتا هو کہ حساب اور لکھائی سیکھے بغیر سودا نہ کرے، لوگوں کو جس چیز کی ضرورت ھے اسے ذخیرہ نہ کرے، لین دین میں نرمی سے پیش آئے، آسانی کے ساتھ خرید و فروخت کرے، سهولت کے ساتھ لوگوں کو ان کا حق دے اور ان سے اپنا حق لے، مقروض پر سختی نہ کرے، لین دین طے هونے کے بعد قیمت کم کرنے کو نہ کھے، مؤذن کی آواز سن کر بازار سے مسجد کی طرف جانے میں جلدی کرے، اپنے دل کو ذکر خدا کے ذریعے صفا عطا کرے اور نماز کے ذریعے عالم طبیعت سے ماوراء طبیعت کی جانب پرواز کرے<فِیْ بُیُوْتٍ اٴَذِنَ اللّٰہُ اٴَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہ یُسَبِّحَ لَہ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَاْلآصَالِ ة رِجَالٌ لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَةٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَ إِقَامِ الصَّلوٰةِ وَ إِیْتَاءِ الزَّکَاةِ یَخَافُوْنَ یَوْماً تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَ اْلاٴَبَصَارُ>[۹]
حواله جات
[۱] سورہٴ بقرہ، آیت ۲۰۱۔”پروردگار ھمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرما اور آخرت میں بھی اور ھم کو عذاب جھنم سے محفوظ فرما“۔
[۲] سورہٴ قصص، آیت ۷۷۔”اور جو کچھ خدا نے دیا ھے اس سے آخرت میں گھر کا انتظام کرو اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جاوٴ“۔
[۳] سورہٴ منافقون، آیت ۸۔”عزت فقط خدا کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور مومنین کے لئے ھے“۔
[۴] وسائل الشیعہ، ج۱۷، ص۴۲، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب۱۰،حدیث۳۔”خدا کے نزدیک زراعت سے محبوب تر کوئی کام نھیں ھے“۔
[۵] وسائل الشیعہ، ج۱۷، ص۱۰، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب۱،حدیث۲۔”اپنی عزت کے ساتھ سویرا کرو۔“
[۶] وسائل الشیعہ، ج۱۷، ص۱۱، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب۱،حدیث۶۔”تجارت کی طرف توجہ کرو“۔
[۷] وسائل الشیعہ، ج۱۷، ص۳۸۲، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب۱،حدیث۳۔”بازار میں نہ بیٹھو مگر یہ کہ خریدو فروش کی عقل رکھتے هو“۔
[۸] وسائل الشیعہ، ج۱۷، ص۳۸۱، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب۱،حدیث۱۔”اور فقاہت بعد تجارت“۔
[۹] سورہٴ نور ، آیت ۳۶۔۳۷۔ ”یہ چراغ ان گھروں میں ھے جن کے بارے میں خدا کا حکم ھے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے کہ ان گھروں میں صبح و شام اس کی تسبیح کرنے والے ھیں“۔