- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 13 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2024/01/20
- 0 رائ
الذین یؤمنون بالغیب) جو غيب پر ايمان رکھتے ہیں(بقرہ/۳)
تمام نبوّتوں اور مذاہب حقہ کا مرکزی نقطہ اور انبیائے الٰہی کے دین کو دوسرے مذہبوں سے ممتاز کرنے والے عقیدے کا نام ”ایمان بالغیب ”ہے۔
انبیائےکرام عالم محسوس یا عالم ظاہر سے عالم معقول یا غیب کے درمیان موجود رابطے کو بیان کرتے ہیں اور اس طریقۂ کار کے ذریعہ بشریت کو عالم غیب کی تعلیم دیتے ہیں۔
غیب پر ایمان، یعنی ان چیزوں پر ایمان رکھنا جو ظاہری حواس سے پوشیدہ ہیں چاہے باطنی حواس اور عقل کے ذریعہ ان کا ادراک ممکن ہو(جیسے وجود خدا ، صفات ثبوتیہ و سلبیہ، قیامت، جنت ، دوزخ اور فرشتے وغیرہ) اور چاہے ممکن نہ ہو جیسے خدا کی ذات اورصفات کی اصل حقیقت، ملائکہ اور روح کی حقیقت، اور چاہے یہ ایمان ماضی یا مستقبل کے واقعات و حادثات کے بارے میں کیوں نہ ہو۔
خدا پر ایمان، ملائکہ پر ایمان، برزخ پر ایمان، جنت و جہنم پرایمان، یا وحی اور ان تمام چیزوں پر ایمان رکھنا جو انبیائے کرام(ع) نے ماضی یا مستقبل کے بارے میں ہمیں بتائی ہیں یہ سب ”غیب پر ایمان ”کی قسمیں ہیں۔
غیب پر ایمان یا توعقلی دلیل کے ذریعہ ثابت ہے یا اس کے بارے میں کوئی نقلی(منقولہ) دلیل ہے، البتہ اگر اس کی دلیل نقلی ہو تو پھر وہ غیب ایسا ہونا چاهئے کہ عقلی دلیلوں کے ذریعہ اس کا وجود محال نہ ہو اور عقل کے نزدیک اس کے وجود کا احتمال پایا جاتا ہو۔
جس وقت عقل کسی چیز کے موجود ہونے کی تصدیق کر دے یا اس کے محال ہونے کے بارے میں کوئی دلیل پیش نہ کر سکے تو نقلی(منقولہ) دلائل کے ذریعہ انہیں قبول کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ عقل کے حکم کے مطابق لازم اور ضروری ہے۔
تمام آسمانی مذاہب نے ”غیب پر ایمان” کو نیک اعمال کی قبولیت کی شرط قرار دیا ہے نیز اخلاقیات میں اعتدال اور انسانی فضائل و کمالات کی تکمیل کو اسی سے مربوط جانا ہے اور اصولی طور پر انبیا اور آسمانی ہادیوں کی تبلیغ کا اثر انہیں لوگوں پر زیادہ ہوتا ہے جو عالم غیب اور اس دنیا سے ما ورا ئ چیزوں کے موجود ہونے کا احتمال رکھتے ہوں، آخری زمانہ کے مصلح یعنی حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور پر ایمان رکھنا بھی انہیں غیبی باتوں کا حصہ ہے جن کے بارے میں پیغمبر اسلام(ص) نے ہمیں مطلع کیا ہے اور ان کی تصدیق واجب ہے ۔
جس طرح پیغمبر اکرم(ص) کی باتوں کی حقانیت اور سچائی کے بارے میں کوئی بھی مسلمان شک نہیں کرتا تھا اور سب لوگ اسے قبول کر لیتے تھے اسی طرح آپ کی نبوت کے بارے میں موجودہ دور کے مسلمانوں کا بھی بالکل یہی عقیدہ و ایمان ہے۔
پیغمبر اکرم(ص) نےحضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور سے زیادہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات کے بارے میں خبر دی ہے جیسے سورج کی چادر کا لپیٹ دیا جانا، دریاؤں کا پھٹ جانا ، ستاروں کا گر پڑنا اور منتشر ہو جانا، پہاڑوں کا حرکت میں آجانا، آسمانوں کا شگافتہ ہو جانا، دابۃ الارض کا خروج یا معاد اور قیامت۔
یہ سب غیب سے متعلق خبریں ہیں اور قرآن مجید میں مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی اور غیب سے متعلق خبریں کثرت سے موجود ہیں اور پیغمبر اکرم(ص) کے اوپر وحی نازل ہونے کا ایمان رکھنا ان تمام چیزوں پر ایمان (چاہے وہ اجمالی طور پر ہی کیوں نہ ہو) رکھنے سے الگ نہیں۔
ایک دن آئے گا کہ جب وہ تمام عجیب و غریب حادثات اور واقعات ضرور رونما ہوں گے جن کےبارے میں پیغمبر اکرم(ص) اور قرآن مجید نے ہمیں باخبر کیا ہے، اور اسی طرح جیسا کہ قرآن مجید نے بیان کیا ہے اور پیغمبر اکرم(ص) نیز ان کے جانشین(ائمہ علیہم السلام) نے ہمیں سینکڑوں روایات کے ذریعہ یہ بشارت دی ہے کہ ایک دن آخری زمانہ کے مصلح حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ظہور فرمائیں گے اور اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔
غیب کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ طاہرین(ع) نے جو پیشین گوئیاں کی ہیں وہ تواتر کی حد سے کہیں زیادہ ہیں اور تاریخ کی معتبر ترین اور کلیدی کتابیں اس کی بہترین سند ہیں۔
ہمارےلئے آج پیغمبر اکرم(ص) کی بعثت کے ابتدائی دور کے مقابلےمیں آنحضرت(ص) کی بیان کردہ غیبی خبروں کو قبول کر لینا نہایت آسان ہے کیونکہ اس وقت تک ان کے رونما نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی صداقت و حقانیت کی تائید ممکن نہیں تھی اسی طرح ہم پیغمبر اکرم(ص) کے دور کی طرف تاریخ کے جتنے اور اق پلٹتے چلے جائیں گے، اس بات کو قبول کرنے کے امکانات (وسائل) کم سے کمتر ہوتے چلے جائیں گے لیکن اس کے بر خلاف جتنا آگے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں اور تاریخ اسلام کو شروع سے آخر تک دیکھنا شروع کریں تو ہماری عقل اور ہمارا ضمیر اس کو آسانی کے ساتھ قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور ہمارا ایمان کامل تر ہو جاتا ہے۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ بخوبی واضح و روشن ہو گیا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے وحی الٰہی کی بنا پر مستقبل کے بارے میں پیشین گوئیاں کی تھیں اسی لئے (پیغمبر اکرم(ص) کے بعد جتنا زیادہ زمانہ گذر رہا ہے اس کی صداقت مزید آشکار ہوتی جا رہی ہے۔
جب آپ اس آیت کی تلاوت کرتے تھے:
(وان کنتم فی ریب مما نزّلنا علی عبدنا فأتوا بسورۃ من مثلہ و ادعوا شھدائَکم من دون اللہ ان کنتم صادقین فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھاالناس و الحجارۃ اعدّت للکافرین)(۱)
”اگر تمہیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنےبندے پر نازل کیا ہے تو اسکا جیسا ایک ہی سورہ لے آو ئ اور اللہ کے علاوہ جتنے تمہارے مدد گار ہیں سب کو بلالو اگر تم اپنے دعوے اور خیال میں سچے ہو اور اگر تم ایسا نہ کر سکے اور یقیناً نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جسکا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جسے کافرین کے لئے مہیا کیا گیا ہے۔”
اور جب آپ یہ پڑھتے تھے:
(قُل لئن اجتمعت الانسوالجنعلی ان یأتوا بمثل ھذا القرآن لا یأتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعض ظھیرا) (۲)
”آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لا سکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مدد گار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہو جائیں”۔
جس دن آنحضرت (ص) قرآن مجید کے ایک سو چودہ سوروں کو ایک سو چودہ زندہ و پائندہ معجزوں کے طور پر پیش کر رہے تھے اور لوگوں کو یہ بتا رہے تھے کہ تم ، ان میں سے کسی ایک سورے کا جواب بھی نہیں لاسکتے ہو اور جن و انس قرآن کا جواب لانے سے قاصر ہیں۔
جس دن پیغمبراکرم (ص) نے مسلمانوں سے فرمایا : تم کلمۂ توحید کا اقرار کرو اور وحدہ، لا شریک خدا کی عبادت کرو تاکہ تمام عرب تمہارے سامنے سر تسلیم خم کردیں اور قیصر و کسریٰ کے خزانوں پر تمھارا قبضہ ہو جائے اور تم ملکوں کو فتح کر لو۔
جس روز آپ یہ فرما رہے تھے کہ زمین میرے لئے سمیٹ دی گئی اور مشرق سے لے کر مغرب تک سب کچھ مجھے دکھا دیا گیا اور میرے لئے جو کچھ سمیٹا گیا ہے وہ میری امت کو مل کر رہے گا۔
جس دن آپ(ص) نے مکہ ،بیت المقدس ، یمن ، شام ، عراق، مصر اور ایران کے فتح ہونے کی خبر دی تھی اور جس دن آپ(ص) مکہ میں مشرکوں سے یہ فرما رہے تھے تمہارے جسم پرانے کنویں میں ڈال دئے جائیں گے۔ اور ابوسفیان کے بارے میں یوں مطلع کر دیا تھا کہ یہ جنگ احزاب کا فتنہ برپا کر ے گا۔
جس دن آپ(ص) حضرت علی (ع) کے ہاتھوں خیبرکے فتح ہونے کی خبر دے رہےتھے یا جناب ابوذر کو ان کے مستقبل سے یوں باخبر کر رہے تھے کہ تم تنہائی کی زندگی گذاروگے اور دنیا سے تنہا ہی جاؤ گے۔
جس دن جنگ بدر سےپہلے ہی اس جنگ میں قتل ہونے والے کفار کے فوجیوں کے نام بتاکر یہ فرما رہے تھے کہ یہاں فلاں قتل کیا جائے گا اور اس جگہ فلاں قتل ہوگا ، چنانچہ جنگ بدر میں جتنے کفار مارے گئے آپ(ص) نے ان سب کے نام پہلے ہی بتا دیئے تھے۔
جس دن آپ(ص) جناب عمار سے یہ فرما رہے تھے کہ: تمھیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور اپنی عزیز ترین اور با عظمت بیٹی جناب فاطمہ زہرا(س) سے یہ فرمایا تھا کہ: میرے اہل بیت میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملحق ہوگی اور اپنی ازواج سے یہ فرمایا تھا: تم میں سے کونسی خاتون ہے جس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے اور وہ اونٹ پر سوار ہوگی اس کے آس پاس بہت سارے لوگ قتل کئے جائیں گے اور حضرت عائشہ سے فرمایا تھا: خیال رکھنا کہ تم ہی وہ عورت نہ ہو جانا! بیہقی کی روایت (۳) کے مطابق ان سے فرمایا: اے حُمیرا اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب حوأب کے کتے تم پر بھونکیں گے اور تم اس چیز کا مطالبہ کروگی جس سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے!
آپ(ص) نے زبیر کو جنگ جمل اور حضرت علی (ع) کے خلاف اس کے خروج سےمطلع کیا۔
جس دن آپ(ص) نے حضرت علی (ع) اور امام حسن (ع) وحسین (ع) کی شہادت کا اعلان واضح لفظوں میں کر دیا اور جب آپ (ص) حضرت علی (ع) کے خلاف ناکثین (جنگ جمل) قاسطین(جنگ صفین) مارقین (جنگ نہروان) کےبارے میں مطلع کر رہے تھے اور جنگ نہروان میں ذو الثدیہ خارجی کے قتل ہونے کی تمام تفصیلات کی پیشین گوئی فرمار ہے تھے یا بنی امیہ اور بنی الحکم کے فتنوں اور ان کی حکومت اور اہل عذرا (جناب حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں) کی شہادت کی خبر دے رہے تھے.(۴)
مسلمانوں کو ان تمام پیشین گوئیوں کا بآسانی یقین ہو جاتا تھا کیونکہ ان کی اطلاع پیغمبر اکرم (ص) نے دی تھی اور مسلمان آپ کی رسالت پر ایمان رکھتے تھے اور رسالت و نبوت پر ایمان رکھنے کے معنی یہی ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) نے غیب کے بارے میں جو خبریں دی ہیں ان کی سچائی پر ایمان اور اعتماد ہو لیکن اسلام کی تاریخ جو آگے کی طرف بڑھتی گئی اور تاریخ کے صفحات میں اضافہ ہوتا رہا ان پیشین گوئیوں نے لوگوں کو اپنی طرف اور زیادہ متوجہ کر لیا اور جن لوگوں کے دلوں میں ان سے متعلق کوئی خاص اعتماد نہیں تھا ان کے یقین میں بھی اضافہ ہو گیا اور ان کا ایمان مزید مستحکم اور استوار ہو گیا۔
رسالت کے زمانہ کے فصحاء و بلغا ء قرآن مجید کے کسی سورے کا جواب لانے سے قاصر رہے اور آج قرآن مجید کو نازل ہوئے چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے اور ان چودہ صدیوں کے دوران ایک سے ایک مشہور ادیب، سخنور، اور صاحبان فصاحت و بلاغت دانشوروں کو دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور آج بھی اسلام کے مخالف بے شمار عیسائی ، یہودی نیز عربی زبان کے دوسرے ماہر ادباء اور اہل قلم موجود ہیں لیکن ان تمام لوگوں کے درمیان ایک شخص بھی قرآن مجید کے ایک سورے کا جواب پیش نہیں کر سکا جس سے قرآن مجید کے اعجاز اور پیغمبر اکرم (ص) کی پیشین گوئیوں کی صداقت آشکار ہو گئی کیونکہ اگر ان کے لئے ممکن ہوتا تو یہ اپنی حد درجہ اسلام دشمنی اور تعصب کی وجہ سے اب تک قرآن کے جیسی سینکڑوں کتابیں لکھ چکے ہوتے۔ یہی نہیں بلکہ اگر یہ ان کے بس کی بات ہوتی تو مشرق ومغرب کی تمام استعماری اور اسلام دشمن طاقتیں خاص طور سے عیسائی اپنی تمام تبلیغی مشینریوں کو اسی کے لئے وقف کر دیتے اور اس کے لئے عالمی مقابلے رکھے جاتے اور اس پر کروڑوں کے انعامات کا اعلان بھی کیا جاتا۔
غزوۂ بدر پیش آگیا اور پیغمبر اکرم (ص) نے جن لوگوں کا نام بتایا تھا وہ سب قتل کر دئے گئے اور ان کے جنازوں کو کنویں میں ڈال دیا گیا ابو سفیان نے جنگ احزاب کا فتنہ بر پا کیا ، پیغمبر اکرم (ص) نے مکہ کو فتح کر لیا ، خیبر حضرت علی (ع) کے ہاتھوں فتح ہوا، جناب ابوذر(رض) نے ربذہ میں حالت تنۂی میں انتقال کیا ، جناب عمار کو معاویہ کی فوج نے شہید کیا ، جناب حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو دمشق کے نزدیک ، عذرا کے مقام پر شہید کر دیا گیا پیغمبر اکرم (ص) کے بعد آپ کے اہل بیت(ع) کی جو شخصیت سب سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہوئی وہ جناب فاطمہ زہرا (ص) ہی تھیں، امیر المومنین (ع) امام حسن (ع) اور امام حسین(ع) کو بالکل اسی طرح شہید کیا گیا جس کی تفصیل پیغمبراکرم (ص) پہلے ہی بتا چکے تھے، حضرت علی(ع) نے ناکثین ، مارقین، قاسطین یعنی اہل جمل و صفین اور نہروان سے جنگ کی اور ذو الثدیہ جنگ نہروان میں مارا گیا، ام المومنین عائشہ نے جنگ جمل کی سر براہی کی اور حوأب کے کتے ان کے اوپر بھونکتے رہے اور انہوں نے ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اتروا دئے ، بنی امیہ اور بنی الحکم حکومت پر قابض ہو کر لوگوں کے سروں پر سوار ہو گئے اور جیسا کہ پیغمبراکرم (ص) نے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا اسلام کو ان کے ہاتھوں بہت ہی برے دن دیکھنا پڑے۔
یہ غیبی خبریں اور ان کے جیسی نہ جانے کتنی غیبی خبریں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سچ ثابت ہوئیں اس کے علاوہ آنحضرت(ص) کے وصی اور جانشین یعنی حضرت علی (ع) یا دوسرے ائمہ معصومین(ع) نے اسی قسم کی جو سینکڑوں پیشین گوئیاں کی تھیں وہ سب بالکل صحیح ثابت ہوئیں۔
اس تمہید کے بعد ہم با آسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ معتبر ترین تاریخی شواہد کی بنیاد پر پیغمبر اکرم(ص) کی ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں پیشین گوئیاں بالکل صحیح ثابت ہوئیں، اور اگر ایک عام آدمی ان کا دسواں حصہ ہی نہیں بلکہ ایک فیصد کے بارے میں ایسی اطلاع دیتا تو ہمیں اس کی کسی بھی پیشین گوئی کے بارے میں ذرہ برابر شک نہ ہوتا اور ہم اس پر بھی یقین کر لیتے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آخری زمانہ میں اس امت کو جن دشوار حالات اور شدید امتحانات سے گذرنا ہے اور حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے بعد ان کا خاتمہ ہوگا ان تمام باتوں سے متعلق آنحضرت(ص) کی پیشین گوئیوں کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا رہیں۔
ہم اپنے قارئین کرام کی مزید توجہ کے لئے اس بات کو دوبارہ بیان کر رہے ہیں کہ غیب سے متعلق آنحضرت(ص) کی پیشین گوئیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جو شخص بھی صحیح و سالم فکر اور عقل کی دولت سے بہرہ مند ہے اس کے لئے ان میں شک کرنا محال ہے اور جو شخص بھی اسلامی تاریخ سے واقفیت رکھنے یا اسکا مطالعہ کرنے والا ہے وہ خودبخود اس کی تصدیق کرے گا۔
ان تمام دلیلوں کے ہوتے ہوئے ہم حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کے بارے میں کیسے شک و شبہ کر سکتے ہیں جب کہ پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ معصومین(ع) نے اس سلسلہ میں بےحد تاکید فرمائی ہے اور متواتر روایات سے ہمیں اس کا بخوبی یقین ہو جاتا ہے۔
آپ کے ظہور پرایمان، آنحضرت(ص) کی نبوت، غیب کے بارے میں آپ(ص) کی پیشین گوئیوں کی صحت اور سچائی کا لازمہ ہے اور ان سے ہر گز جدا نہیں ہے۔
جن مسلمانوں نے بعثت کے آغاز میں ان واقعات کو سچ ہوتے نہیں دیکھا تھا اس کے با وجود انھیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں میں شک نہیں ہوتا تھا تو پھر ہم ان میں سے بہت سی خبروں کی سچائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے یا قابل اطمینان لوگوں سے ان کے سچ ہونے کی خبر سننے کے بعد ان میں کیوں شک کرتے ہیں؟ حتی کہ معاویہ اور عمرو عاص جیسے لوگ بھی ان باتوں کی حقانیت اور سچائی کا انکار نہیں کر سکتے تھے تو پھر اب جب کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے معصوم جانشینوں کی پیشین گوئیوں کے علاوہ ہمارے پاس اتنے مستحکم اور مضبوط شواہد اور قرائن موجود ہیں تو کیا ہم ان پر ایمان اور یقین نہ رکھیں؟ پیغمبر اکرم(ص) کی پیشین گوئیوں کی وجہ سے اسلام کے ابتدائی دور کے مسلمانوں کو جناب عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ اور آخری زمانہ کے فتنوں کے بارے میں کوئی شک نہیں تھا اور سب کو یقین تھا کہ یہ خبریں سو فیصدی سچ ہیں اس کے بعد جب حالات گذرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی ہر پیشن گوئی اپنے صحیح وقت پر سچ ثابت ہو چکی ہے تو اب مستقبل کے بارے میں جو پیشن گوئیاں باقی رہ گئی ہیں ان کے بارے میں بھی کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔
اگر کوئی شخص آج آپ کو یہ اطلاع دے کہ کل فلاں صاحب، فلاں شہر سے جن کے یہ خصوصیات ہیں، یہاں آئیں گے اور ایک مہینہ بعد اس قسم کے دس آدمی آئیں گے اور پانچ مہینے کے بعد پانچ سو آدمی آئیں گے اور ایک سال بعد ایک ہزار لوگ آئیں گے اور دو سال بعد اس شہر میں انقلاب آجائے گا اور حکومت بدل جائے گی یا بیس سال کے بعد وہاں جنگ ہو گی، پچاس سال کے بعد وہاں کا حاکم قتل کر دیا جائے گا اور سو سال کے بعد ۔۔۔۔ اور دو سوسال کے بعد۔۔۔۔۔۔آ پهنچا ہے
ان تمام خبروں کی تصدیق نہ کریں مگر آپ ان کی تکذیب بھی نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی تصدیق یا تکذیب کے تمام احتمالی راستے آپ کے اوپر بند ہیں لہٰذا آپ کل تک انتظار کرین گے چنانچہ اگر پہلا شخص انہیں علامتوں اور خصوصیات کے ساتھ آگیا تو آپ کو اس سے حیرت ضرور ہوگی مگر اس کی بقیہ خبروں پر اعتماد میں اضافہ ہو جائے گا۔
ایک مہینہ بعد وہ دس آدمی بھی آ گئے اب اس کی باتوں پر آپ کو مکمل یقین اور اطمینان ہو جائے گا تیسری خبر سچ ثابت ہونے کے بعد آپ کا یقین بالکل پختہ ہوجائے گا۔
چوتھی اور پانچویں خبر کے سچ ثابت ہونے کے بعد اگر کوئی شخص ان کی صداقت کا انکار کرے اور انہیں نا ممکن سمجھے تو آپ اس کو شکی مزاج قرار دیدیں گے۔
چنانچہ جتنی پیشین گوئیاں صحیح ہوتی جائیں گی چھٹی، ساتویں، آٹھویں اور نویں پیشین گوئی کے بارے میں آپ کے یقین و اطمینان اور ایمان میں اتنا ہی استحکا م پیدا ہو جائے گا ۔
اب ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جو پیغمبر(ص) صادق و مصدق ہیں اور ان کی نبوت متعدد معجزات اور دوسری عقلی دلیلوں کےذریعہ ثابت ہے، وہ پیغمبر(ص) جن کی سینکڑوں پیشین گوئیاں اب تک صحیح ثابت ہو چکی ہیں اور ان سب کو سنی اور شیعوں کی معتبر کتابوں نے نقل کیا ہے نیز یہ کہ ان بزرگوں نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ” اگر دنیا کی عمر ایک دن سے زیادہ بھی باقی نہ رہے توبھی خدا وند عالم اس دن کو اتنا طولانی کر دے گا کہ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ظہور فرما کر دنیا کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی”۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس ظہور کی علامتوں کو بھی بیان فرمایا ہے۔
اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ پیغمبر اکرم(ص) اور ان کے جانشینوں کی پیشین گوئی سچ نہیں ہے یا اسے اس میں شک ہو تو پھر وہ پیغمبر اکرم(ص) کی نبوت کی گواہی اور اس کے ثبوت کے لئے اتنے معجزات اور علمی دلیلوں کے اقرار کرنے کا کیا جواب دے سکتا ہے؟
پیغمبراکرم(ص) اور دوسرے انبیاء کی نبوت پر ایمان کا کیا جواز پیش کرے گا؟ کیونکہ دوسرے انبیاء نے بھی آخری زمانہ کے مصلح کے بارے میں بشارتیں دی ہیں۔
ان تمام پیشین گوئیوں کا کیا جواب دے گا جو پیغمبر اکرم(ص) نے کی تھیں اور گذشتہ چودہ سو سال کے اندر ان میں سے بہت ساری پیشین گوئیاں صحیح ثابت ہو چکی ہیں؟
اب اگر وہ یہ بہانہ بنائے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ایسی کوئی بشارت نہیں دی تھی تو ہم اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے شیعہ اور سنی کتب خانوں میں لے جائیں گے اور یہ کہیں گے کہ ذرا ان کتابوں کو ملاحظہ کرو جو ایک ہزار سال پہلے سے آج تک لکھی گئی ہیں، اب ذرا آپ بھی ملاحظہ کریں کہ اس بشارت کا تذکرہ کتنی روایتوں میں ہے اور ان کی تعداد کتنی ہے؟
…………………
حواله جات
۱)۔ سورۂ بقرہ آیت۲۳،۲۴۔
۲)۔ سورۂ اسراء آیت ۸۸ ۔
۳)۔ المحاسن والمساوی ج۱ ص۷۶۔
۴)۔ غیب کےبارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک بالکل سچی اور مسلّم خبر سر زمین حجاز سے آگ کا ظاہر ہونا بھی ہے جس کے ظاہر ہونے سے دو تین صدی پہلے تالیف شدہ کتابوں میں اسکا تذکرہ درج تھا اس حدیث میں آپ نے سر زمین حجاز سے ایک ایسی آگ ظاہر ہونے کی پیشین گوئی فرمائی تھی جس کے اثرات بصریٰ اور شام سے دکھائی دینگے آپ کی اس پیشین گوئی کو صحابہ نے نقل کیا ہے اور جو کتابیں تیسری صدی ہجری میں تالیف ہوئی تھیں ان میں اس کا تذکرہ موجود ہے:
جیسے صحیح بخاری(متوفیٰ ۲۵۶)، طبرانی(متوفیٰ۲۶۱)، مسند احمد بن حنبل (متوفیٰ ۲۴۱) مسند حاکم (متوفیٰ ۴۰۵)، طبرانی(متوفیٰ۳۶۰) چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس آگ کےبارے میں جو تفصیلات بیان کی تھیں بعینہ بالکل اسی طرح تیسویں جمادی الآخر ۶۵۴ ہجری میں یہ آگ مدینہ کے نزدیک ظاہر ہوئی اور کئی دنوں کی مسافت کے فاصلے سے بالکل صاف دکھائی دیتی تھی اور ۵۲، دنوں تک اسی طرح باقی رہی اور اسی سال ۲۷/ رجب کو ختم ہوئی (یعنی بخاری و مسلم کے انتقال کے تقریباً چار سو سال بعد )جسکی تفصیل مندرجہ ذیل کتب تاریخ میں درج ہے”سیرت نبویہ” سیرت حلبیہ کے حاشیہ پر مولفہ سید احمد زینی دحلان ج۳ ص۲۲۳”التذکرہ” مولفہ: قرطبی ص ۲۵۰ ”الاذاعہ ” ص۸۴ ”الاشاعہ” ص۳۷ ”تاریخ الخلفاء ”ص ۳۰۹ ”صحیح مسلم ج۸ص۱۸۰”صحیح بخاری” کتاب فتن ج۴ ص۱۴۲ ”وفاء الوفاء ” مولفہ سمہودی ج۱فصل ۱۶ص۱۵۲-۱۳۹،” ۱۳۹،”الفتوحات الاسلامیہ”ج۲ ص۶۲-۶۷ ”عمدۃ الاخبار فی تاریخ المدینۃ المختار ص ۱۲۵-۲۷ا،۱ور”فصل فی ظھورنار الحجاز۔