- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/11/04
- 0 رائ
مقدمه
قال رسول الله (ص) فاطمة بضعة منّي من آذاها فقد آذاني—(1)
ختمي مرتبت حضرت محمد مصطفٰي(ص) نےفرمايا :”فاطمہ ميرا پارۂ جگر ہے جو اس کو اذيت پہنچائے گا وہ ميري اذيت کا باعث بنے گا۔
گزشتہ چند سالوں سے، ايام فاطميہ خصوصا فاطميہ دوم کے موقع پراور بالخصوص حضرت صديقہ طاہرہ(س) کى شہادت کے روز يعني 3/جمادي الثانيہ کے دن ہمارے ملک ميں ايک خاص ماحول ہوتا ہے، دوکانيں بند ہوتي ہيں، ماتمي دستہ سڑکوں پرنوحہ خواني و سينہ زني کرکے، جگر گوشہ رسول(ص)، زوجہ علي مرتضيٰ (ع) (2) اورمادر ائمہ(ع) کا سوگ مناتے ہيں۔
وہ خاتون جس کے دروازے پر کھڑے ہو کر پيغمبر اسلام(ص) بلند ا ٓواز سے فرماتے تھے: “السلام عليکم يا اھل بيت النبوة۔۔۔” (3) اے اہل بيت نبوت تم پر سلام ہو
اس طرح، اپنےبعد ا ٓنے والوں کے لئے اتمام حجت کر رہے تھے کہ جن اہل بيت کے متعلق ميں بارھا تاکىد کرتا رہاھوں وہ يہي افراد ہيں کہ جن ميں حضرت فاطمه زہراء(س) کو مرکزيت حاصل ہے ليکن ابھي غروب خورشيد نبوت کو چند روز بھي نہ ہوئے تھے کہ ايک دوسرا عظيم سانحہ عالم اسلام ميں رونما ہواجس کى وجہ سے حضرت زہرا(س) جواني کے عالم ميں (4) ہي، بدطينت افراد کے مظالم کى تاب نہ لا کراس دنيا سے گزرگئيں جس کے بعد ميدان جنگ کے شہسوار،حضرت علي(ع) کى کمر ٹوٹ گئي۔
جس وقت ا ٓپ(ع) نے زہراء مرضيہ کےبدن مطہر کو رات کى تاريکى ميں مخفيانہ طور پر سپرد لحد کیا (5) تو غم و اندوہ سے ا ٓپ کا دل بھر ا ٓيا، مولائے متقيان،خداوند کى بارگاہ ميں نماز کےلئے کھڑے ہوتے تھے تو ا ٓواز ديتےتھے: خدايا ! خاندان نبوت کى کیا يہ ا ٓخري مظلوميت تھي؟
افسوس صد افسوس ايسا نہيں تھا بلکہ جنگ صفين، جنگ نہروان اور جنگ جمل جيسے واقعات،حضرت امام حسن(ع) کى مظلوميت اور امام حسين(ع) اور ا ٓپ(ع) کے اولاد و اصحاب کى شہادت، الغرض تمام ائمہ(ع) کى مظلوميت، اسي مظلوميت کى ايک کڑي تھي۔ ليکن ظلم بالائے ظلم تو يہ ہے کہ کسي مظلوم پر ہونے والے مظالم کا انکار کیا جائے۔
ايک اور بڑاحادثہ جو رونما ہونے والا تھا،وہ يہ تھا کہ کچھ لوگ حضرت زہراء(س) کى شہادت اور مظلوميت کو مورد شک و ترديد قرار دے کر ا ٓپ(س) پر ہونے والے ظلم وستم کا انکار کرنا چاہتے تھے۔
ليکن مراجع کرام من جملہ حضرت ا ٓية اللہ العظميٰ فاضل لنکراني(مد طلہ) کى بيداري نے اس خطرناک منصوبہ کو خاک ميں ملا ديا، اور روز شہادت حضرت زہراء(س) کو عاشوراء قرار دے کر لوگوں کو عزاداري و مجالس عزا برپا کرنے کى دعوت دے کر اس بات کا اعلان کیا کہ اگر ہم اس زمانےميں نہيں تھے اور اہلبيت(ع) پرہونے والے مظالم کا دفاع نہيں کر سکے تو ا ٓج عزاداري، سينہ زني اور جلوس عزا نکال کر، حضرت زہراء(س) کى مظلوميت کو فراموش نہيں ہونےديں گے۔
حضرت ا ٓية اللہ العظميٰ فاضل لنکراني(مد طلہ) کئي سالوں سے حضرت صديقہ کبري فاطمہ زہرا(س) کى شہادت کى مناسبت پر، لوگوں کو اس روح فرسا مصيبت پر عزاداري و سوگواري کى ترغيب دلانے کے لئے پيغام صادر فرماتے تھے ؛جن کو ہم يکجا کرکے محبان و دوستداران عصمت و طہارت کى خدمت ميں پيش کر رہے ہيں۔
اميد ہے کہ ہماري يہ ناچيز کوشش درگاہ احديت ميں مقبول ہو اور مظلومہ ٔجہان اور ان کے فرزند دلبند حضرت ولي عصر(عجل اللہ تعالي فرجہ الشريف) کى خوشنودي کا باعث ہو۔
پيغام 1
بسم اللہ الرحمٰن الرحيم
الحمد لله ربّ العالمين والصلاة و السلام علي سيدنا محمد و آله الطاهرين سيّما الصدّيقة الشهيدة فاطمة الزهراء واللعن علٰي اعدائهم اجمعين
يہ ايام عظيم المرتبت خاتون، بانوي جہان اسلام حضرت فاطمہ زہرا(س) کى شہادت کے ايام ہيں، ا ٓپ(س) کى ذات والامقام ايک ايسي حقيقت ہے کہ جس کے وجود مبارک کے تمام ابعاد اھل فکر و بصيرت کے لئے ابھي تک روشن نہيں ہو سکے ہيں۔ اس کو فاطمہ کہا جاتا ہے؛ اس لئے کہ بشر اس کى حقيقي معرفت سے محروم ہے(6)۔ وہ ذات کہ جس کى ناراضگي، خدا و پيغمبر(ص) کى ناراضگي ہے، اور جس کى خوشنودي خدا و رسول (ص) کى خوشنودي ہے۷۔ ايسي حقيقت کہ جو فقط اہل کساء کا مرکز (8) ھي نہيں بلکہ ا ٓيہ ٔتطہير ميں بھي اسي کو مرکزيت حاصل (9) ہے اوراسي مبارک وجود کو ارادہ ٔالٰہي کا واسطہ قرار ديا گيا ہے۔
ہم لوگوں کے لئے کہ جن کو بانوي اسلام اور ان کى اولاد طاہرہ کى پيروي کاشرف حاصل ہے، حالات کے مد نظر ا ٓپ(س) کے افکار و دستورات سے ا ٓشنائي بيحد ضروري ہے، کہيں ايسا نہ ہو کہ وظائف کى انجام دھي ميں ہم سے کوتاہي ہو جائے۔ ہمارے محترم علماء و خطباء مجالس عزا کو اعلٰي پيمانے پر منعقد کرنے کے علاوہ اس کے علمي و معنوي پہلوو ٔں پر خاص توجہ ديں، اور بحمد اللہ چونکہ مکتب تشيع استدلال و منطق کا مکتب ہے لہٰذا صاحبان تدبر و انصاف ا ٓساني سے اس طرف مائل ہو جائيں گے۔
ا ٓج دشمن اچھي طرح سمجھ چکا ہے کہ اس قوم پر قابو پانے کے لئے اوراس پر مسلط ہونے کے لئے اس کے ايمان و اعتقادات کى لو کو کم کرنا پڑيگا لہٰذا کبھي سيد الشہداء(ع) پر گريہ و عزاداري کو بيہودہ کاموں سے تعبير کرتا ہے اور کبھي حضرت فاطمہ زہراء(س) کى شہادت پر شبہات ايجاد کرتا ہے؛ جب کہ ا ٓپ(س) کى شہادت تاريخ اسلام کے حقائق اور مسلمات ميں سے ہے۔
دشمن اپنے زعم ناقص ميں حضرت(س) کى شہادت ميں شبہ تو پيدا کر سکتا ہے ليکن رسول خدا(ص) کے بعد ا ٓپ(س) پر ہونے والے مظالم و مصائب (10) کا ھرگز انکار نہيں کر سکتا؛ ا ٓپ کا جواني ميں دنيا سے رخصت ہونا (11)، مسجد النبي(ص) ميں ا ٓپ(س) کا مستدل و شعلہ بيان خطبہ (12)، روز و شب کى ا ٓہ و بکا (13) اور حريم ولايت کا مستحکم دفاع (14)، ا ٓپ(س) کى مظلوميت کى روشن دليليں ہيں،لہٰذا ا ٓپ(س) کے شوہر نامدار اور جہان اسلام ا ٓج بھي ا ٓپ(س) کى مظلوميت پر عزادار وسوگوار ہيں۔
ان ايام سے والہانہ لگاو ٔ کے نتيجہ ميں ايران کا اسلامي انقلاب وجود ميں ا ٓيا اور ا ٓج اس کى بقاء بھي اس خاص توجہ کى مرہون ہے، لہٰذا مو ٔمنين اور محبان اہل بيت(ع) ايام فاطميہ کو ہر سال، گزشتہ سال سے بہتر طريقہ سے منائيں اور اس ناگوار حادثہ کو دوسرے حوادث ميں گم نہ ہونے ديں؛خصوصاً 3/ جمادي الثانيہ کو کہ جس دن حکومت ايران نے عمومي تعطيل کا بھي اعلان کر ديا ہے، خاص اھتمام کريں اس لئے کہ شيعيت کى اصالت ا ٓپ(س) ھي کى ذات والا صفات سے وابستہ ہے، اس مقدس راہ ميں قدم اٹھائيں اور بروز قيامت ا ٓپ(س) اور ا ٓپ(س) کى اولاد طاھرہ کى شفاعت و عنايت کے مستحق قرار پائيں۔
پيغام 2
بسم اللہ الرحمٰن الرحيم
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِى الدُّنْيَا وَ الاَْخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا (15); و قال رسول الله (صلى الله عليه وآله) : فاطمة بضعة منّى من آذاها فقد آذانى (16)
ہم شيعوں کے لئے فخر کى بات ہے کہ ہمارے پاس ايسي شخصيت ہے کہ جو سيد ۂ نساء العالمين اور صاحب عصمت و طہارت ہے اور ا ٓيہ ٔتطہير (1۷) کہ جو پنج تن(ع) کے متعلق نازل ہوئي ہے (18) ، کے مطابق ،ارادہ ٔالٰہي (ارادہ تکويني) يہ ہے کہ وہ ہر قسم کى رجس و پليدي اور گناہ و معصيت سے مبريٰ ہوں اور طہارت مطلقہ سے ا ٓراستہ ہوں۔
وہ ذات کہ جو اس منزل پر فائز ہے کہ جہاں تک ہمارے ناقص افکار کى رسائي ممکن نہيں اور ہماري عقل اس کو درک کرنے سے قاصر ہے (19)۔
وہ راہ ولايت کى پہلي شہيدہ ہيں کہ جس کى فرزندي پر ہمارے ائمہ (ع) ناز کرتے تھے (20)۔
فاطمہ وہ خاتون ہيں کہ جس نے سخت ترين مصائب و مظلوميت خصوصاً پيغمبر(ص) جيسے باپ کے دنيا سے رخصت ہونے کى مصيبت اور دشوارترين حالات کہ جس ميں عام انسان بولنے تک کى قدرت نہيں رکھتا ،حکام و بزرگان قوم کے مقابل ايسا خطبہ ديا (21) کہ عقلا جس کو سمجھنے سے قاصر ہيں کہ ايسے حالات اور ايسے مواقع پر ايک عورت کس طرح ايسا محکم و متقن خطبہ بيان کر سکتي ہے اور وہ بھي توحيد،نبوت و امامت سے متعلق ايسے مطالب اور ساتھ ہي ساتھ ان لوگوں کى سر زنش جنہوں نے دنيا کى راحت اور عيش و عشرت کے الٰہي فريضہ کو ترک کر ديا اور ظالم کے ظلم کے مقابلے ميں تماشائي بنے رہے ۔
بصد افسوس اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ چودہ سو سالوں کے گزر جانے کے بعد ا ٓج بھي ہم اس بے مثل گوہر کو نہيں پہچان سکے ہيں اور اس سے زيادہ افسوس اس بات کا ہے کہ بعض کى جہالت اور ناداني يا نفس پرستي اس بات کا باعث بني کہ انھوں نےا ٓپ(س) کے مقام و منزلت ہي کو مورد شک و ترديد کى نگاھوں سے ديکھنا شروع کر ديا۔
يہ حقيقت ہے کہ ايک معمولي انسان کے لئے يہ سمجھنا دشوار ہے کہ ايک عورت اس مقام و منزلت کى حامل ہو کہ اس کى مرضي خدا کى مرضي کا محور بن جائے (22)۔
ايک مدت سے بہت سے تعصب ا ٓميز مطالب حضرت زہرا(س) کے بارے ميں لکھے جا رہے ہيں جن کو سن کر اور پڑھ کر ہر حقيقت پسند انسان کا دل خون ہو جاتا ہے ۔ سچ ہے کہ امام خميني (رہ) نے وحدت اسلامي کى بہت زيادہ تاکىد فرمائي ہے ؛ليکن امام خميني (رہ) کا مطلب يہ نہيں تھا کہ شيعہ اپنے بنيادي اعتقاد سے بھي دستبردار ہو جائيں اور حضرت زہرا(س) کے متعلق جھوٹي اور غلط باتوں کے سامنے خاموش تماشائي بنے رہيں؛ بلکہ امام خميني (رہ) کى مراد يہ تھي مسلمان عالم استکبار کے مقابلے ميں متحد رہيں تاکہ دشمن اسلام ميں رخنہ ايجاد نہ کر سکے ۔
لہذا شيعوں پر فرض ہے کہ 3جمادي الثانيہ جو صحيح روايات (23) کى بنياد پر حضرت زہرا(س) کى شہادت کى تاريخ ہےاور اسلامي جمہوريہ ايران کى جانب سے عمومي تعطيل کا اعلان بھي کیا گيا ہے ،جتنا ممکن ہو اعليٰ پيمانے پر مجلسيں برپا کريں اور سڑکوں پر جلوس نکاليں تاکہ ا ٓنحضرت(س) کا کچھ حق ادا ہو سکے ۔
ظاہر ہے کہ اس امر سے بے توجہي کا نتيجہ بہت برا ہوگا۔
والسلام عليٰ جميع عباد اللہ الصالحين
محمد فاضل لنکراني
9اگست 2002 عيسوي
پيغام 3
بسم اللہ الرحمٰن الرحيم
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِى الدُّنْيَا وَ الاْخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا . (24) قال رسول الله (صلى الله عليه وآله): فاطمة بضعة منّى يؤذينى ما آذاها (25)
سال گزشتہ جو اطلاعيہ حضرت زھرا(س) کى شہادت کى مناسبت سے ا ٓپ کى خدمت ميں پيش ھوا اس سے پيوستہ اس سال بھي ا ٓپ کى خدمت ميں عرض کرتا ھوں کہ حضرت زھرا(س) جنہوں نے ولايت کى راہ ميں سب سے پہلے اپني جان کا نذرانہ پيش کیا، ان کى ياد منانا ولايت علي(ع) کى بيعت کے مترادف ہے، جس کے ذريعہ خداوندعالم نے دين کو مکمل کیا اور نعمتوں کومنزل اتمام تک پہنچايا(26)۔
وہ فاطمہ(س) کہ جس کى مرضي پيغمبراکرم(ص) کى مرضي ہے اور پيغمبر(ص) کى مرضي خدا کى رضا ہے، جس کاغضب پيغمبر(ص) کا غضب اور پيغمبر کا غضب خدا کا غضب ہے (27)۔
وہ فاطمہ(س) جس کى مادري پر ھمارے ائمہ(ع)، جوعالم انسانيت کے کامل ترين افراد ہيں، فخر کرتے ہيں(28)۔
وہ فاطمہ(س) جس نے اپني مختصر سي حيات (29) ميں ھي شيعيت کو ھميشہ کے لئے بقا عطا کیا۔
وہ فاطمہ(س) جس کے روشن و جلي خطبہ (30) نے چاھنے والوں اور دشمنوں کو انکشت بدندان کر ديا۔
وہ فاطمہ جس نے اپنے پدر بزرکوار کى موت کى عظيم ترين مصيبت اور اپنے شوھر نامدار کى مظلوميت کو، اپنے نالہ وشيون (31) سے تمام لوگوں کو ا ٓگاہ کیا،اور ا ٓج بھي وہ اندوہ ناک ا ٓواز مدينہ کى گليوں گونج رھي ہے۔
ھميں فخر ھے کہ دين کے حقيقي معارف ا ٓپ(س) کى اولاد طاھرہ کے ذريعہ ھي ھم تک پہونچے،ايسے معارف جو عقل سليم کے مطابق اور ھر زمانے کے ساتھ سازگار ھيں، ايسے جامع معارف جو بشريت کى تمام حوائج کى جواب گو ھيں۔ ا ٓپ اور ا ٓپ(س) کى اولاد کے مکتب سے تمسک کے نتيجہ ميں ھي ملت ايران کو عزت و استقلال نصيب ھوا۔
اسي لئے اسلام کے سخت ترين دشمن اس نتيجہ پر پہونچے کہ اگر اس قوم کو مٹانا ھے تو ان سے فاطميہ، عاشورا اور شعبان و رمضان چھين ليا جائے۔ اس وقت اپنے ناپاک ارادوں کو جامہ عمل پہنايا جا سکتا ھے۔
يہاں پر دوبارہ يادا ٓوري ضروري ہے کہ ايام عزا کا احترام اور مجالس عزا کا انعقاد امام خميني(رہ) کا وطيرہ تھا۔اور اس عمل کا وحدت اسلامي کے مسئلہ سے کوئي تعلق نہيں ہے۔
جس وحدت اسلامي کى امام خميني(رہ) اور ا ٓية اللہ بروجردي(رہ) تاکىد فرماتے تھے اس کا يہ مطلب نہيں تھا کہ شيعہ اپنے مسلم عقائد سے دستبردار ہو جائيں يا اس کو فراموش کرديں،بلکہ وحدت اسلامي سے مراد تمام مسلمانوں کا عالمي استعمار کے خلاف متحد رہنا ہے جس کا خيال يہ ہے کہ قدرت اور طاقت صرف اس کے پاس ہے اور صہيونيوں کے اشارے پر اسلام کى بنيادوں کو نابود کرنے کى سوچ رہے ہيں۔
لہذا تمام شيعوں پر ضروري ہے کہ 3 جمادي الثانيہ جس دن اسلامي جمہوريہ ميں تعطيل کا بھي اعلان کیا گيا ہے، مجالس منعقد کريں اور سڑکوں پر جلوس نکاليں تاکہ ا ٓنحضرت کے حقوق کا ايک تھوڑا سا حصہ ادا کر سکىں۔
(يريدون ليطفئوا نوراللہ بافواہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون) (32) نور الٰہي ہميشہ روشن ہے اور جن کے دل تعصب سے خالي ہيں وہ ہميشہ اس نور سے اپنے دل کو روشني پہنچايا کرتے ہيں۔
پيغام 4
بسم اللہ الرحمٰن الرحيم
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِى الدُّنْيَا وَ الاْخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا (33). قال رسول الله(صلى الله عليه وآله): فاطمة بضعة منى يؤذينى ما آذاها(34)
يہ ايام عصمت کبريٰ حضرت فاطمہ زہرا(س) کى شہادت کےايام ہيں، وہ پاک اور مقدس ذات جوام ابيھابھي ہے اورائمہ معصومين (عليھم السلام) کى ماں بھي ہے(35)
وہ حقيقت جو پنجتن کا مرکز ہے اور خلقت کا عظيم راز ہے جس کو بشريت تو کیا ان کےچاہنے والے بھي نہيں پہچان سکے ہيں۔ وہ انسيہ (36) جس کى نوراني حقيقت جہالت اور ظلم و عناد کى تاريکىوں ميں گم ھوگئي اور قيامت تک ا ٓشکار نہ ہو سکے گي۔
شيعہ ھي کیا تمام انسانيت اور ملائکہ ان کے وجود پر فخر کرتے ہيں، خداوند عالم کا يہ عظيم تحفہ،يہ کوثر (3۷) جو دين پيغمبر(ص) کى بقاء کا ذريعہ بنا اور جس کے فرزند عالم بشريت کے علوم وکمالات کا سرچشمہ قرار پائے۔
اگر حضرت زھرا(س) کا وجود نہ ھوتا اور يہ گرانمايہ گوھر عالم وجود ميں ظہور پذير نہ ھوتا تو نہ جانے کتني تاريکى اس عالم امکان ميں ھوتي؟! ا ٓيہ ٔ مودت (38) کے حکم کے مطابق تمام انسانوں پر واجب ہےکہ دين اسلام کى ھدايت کے بدلے پيغمبراسلام(ص) کے اقرباء اور ان کے اھل بيت(عليھم السلام) سے محبت ومودت رکھيں اور اقرباء ميں سب سے بارز شخصيت حضرت زھرا(س) کى ہے (39)۔
اور يہ مودت کا فريضہ ھر زمانے ميں ھر انسان کے لئے ہے فقط ان کے زمانے والوں سے مخصوص نہيں ہے۔
حضرت زھرا(س) کى مودت کا تقاضا يہ ہے کہ ان کى ياد کو زندہ رکھا جائے اور ان کے وجود نازنين پر ھونے والي مصيبتوں (40) کو بيان کیا جائے۔
ھم کبھي ان مصيبتوں کو فراموش نہيں کر سکتے،تاريخ شاھد ہے کہ مختصر سي عمر (41) ميں ا ٓپ پر کتنے مصائب ڈھائے گئے کہ مولٰي الموحدين حضرت علي(ع) نے ا ٓپ کى شھادت کے بعد فرمايا: ميرا غم دائمي اور ابدي ھے جو کبھي بھي ختم ھونے والا نہيں ہے (42)۔
کیا مولائے کائنات کے ان الفاظ کے بعد کوئي شيعہ، کوئي پيغمبر(ص) کاامتي اس غم کو فراموش کر سکتا ہے، اور اس سے کريز کر سکتا ہے؟
لہٰذا تمام محبان اھل بيت(ع) پرضروري ہے کہ 3/جمادي الثانيہ بروز بدھ صحيح روايات کے مطابق (43) حضرت زھرا(س) کى شھادت کى تاريخ ہےاور بحمد للہ اسلامي جمھوريہ ايران ميں تعطيل بھي ہے لہٰذا بہتر سے بہتر طريقہ سے عزاداري، ماتم اور جلوس وغيرہ کے ذريعہ اس امرکو زندہ کريں اور ا ٓنحضرت سے محبت کا اظہارکريں شايد اس طرح ان کے حقوق کا ايک چھوٹا حصہ ادا کرسکىں۔
پيغام 5
بسم اللہ الرحمٰن الرحيم
«السلام عليك يا أيّتها الصّديقة الشّهيدة (44)»
سيدہ ٔ نساءالعالمين حضرت زہرا (س)کى شہادت کے ايام قريب ہيں۔
وہ ذات جس پر خداوندعالم کو فخر ہے(45)، جو قلب رسول خدا(ص) کى ٹھنڈک(46) ،اميرالمومنين علي(ع) کى ہمسر اور معصوم اماموں کى ماں ہے(47)۔
وہ ذات جو عالمين کے عورتوں کى سردار ہے۔اگر چہ قرا ٓن ميں خداوند عالم نےحضرت مريم(ع) کے لئے فرمايا ہے”واصطفاک علٰي نساء العالمين” (48) کہ مريم عالمين کى عورتوں ميں سب سے بہتر ہيں ليکن معتبر روايات کى روشني ميں جناب مريم(ع) کے برتري کى وجہ يہ تھي کہ انھوں نے بغير شوہر کے حضرت عيسيٰ کو جنم ديا لہذا دنيا ميں ان کا کوئي نظير نہيں ہے۔ليکن حضرت زہرا علم ،عصمت ،طہارت اور عبوديت کى وجہ سے تمام عورتوں سے افضل ہيں (49)۔
ضروري ہے کہ تمام مسلمان 3جمادي الثانيہ حضرت زہرا(س) کى شہادت کى مناسبت سے مجلسيں برپا کريں جلوس نکاليں اور اس دن عاشور کى طرح عزاداري منائيں۔ بحمداللہ ادھر چند سالوں سے محبان حضرت زہرا(س) اس فريضہ کو بحسن و خوبي انجام دے رہے ہيں ہم ان کے تہہ دل سے شکر گزار ہيں۔ واضح رہے کہ حضرت زہرا(س) کا احترام حقيقت ميں پيغمبر اسلام(ص) کى تعظيم اور ان کا احترام ہے۔
ايران کى عظيم قوم اہلبيت(ع) کے دامن سے متمسک رہ کر (50) انقلابي ميدان ميں ہميشہ اسي طرح پيش پيش رہےگي ۔اس حقيقت سے انکار نہيں کیا جا سکتا کہ ہماري کاميابي کا رازيہ ہے کہ ہم معصوم اماموں پر ايمان رکھتے ہيں اور ان کى پاک اور مقدس ذوات سے وابستہ ہيں اور حقيقي شيعيت و اسلام ناب ھي ہماري شناخت ہے۔خداوند ہميں اپنے کوثر يعني حضرت فاطمہ زہرا(س) (51) کى عنايات سے زيادہ سے زيادہ بہرہ مند فرمائے۔
حواله جات اور منابع ………………دوسرا حصه