- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : سیدعلی عباس نقوی
- 2024/12/03
- 0 رائ
جب اسلام کے خلاف اندرونی و بیرونی محاذ پر جنگ کا اندیشہ اور بے شمار خطرات لاحق تھے، اور اسلام کے دشمن اس کو نابود کرنے کے لئے ہمیشہ گھات لگائے بیٹھے رہتے تھے، اور پیغمبر اکرم (ص) کی جان پر بھی حملے شروع کر دیے تھے، تو آپ (ص) نے، اسلام کی حفاظت کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ اس پس منظر میں یہ سوال اہمیت اختیار کرتا ہے کہ ایک حکیم اور مدبر نبی نے، اس نازک دور میں اپنا جانشین کیوں نہیں متعین کیا؟ کیا یہ ایک غفلت تھی، یا اس کے پیچھے کوئی اور گہری حکمت پوشیدہ تھی؟
اسلام کے دشمن اول
داخلی دشمن یعنی مدینہ اور اس کے آس پاس کے منافقین تھے جنھوں نے کئی بار پیغمبر اکرم (ص) کی جان لینے کی کوشش کی تھی، اور ’’جنگ تبوک‘‘ سے واپسی کے وقت ایک خاص منصوبے کے تحت، جو واضح طور پر تاریخ میں ذکر ہوا ہے، پیغمبراکرم (ص) کے اونٹ کو بھڑکا کر پیغمبر اکرم (ص) کی جان لینا چاہتے تھے۔
پیغمبر اکرم (ص) نے ان لوگوں کی سازش سے آگاہ ہو کر وہ تدبیر اپنائی کہ ان کا منصوبہ نا کام ہو گیا۔ ساتھ ہی اسلام کی عمومی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، آنحضرت (ص) نے اپنی زندگی میں ہی ان کے نام بعض خاص افراد مثلاً ”حذیفہ یمانی“ کو بتا دیئے تھے۔
اسلام کے دشمن جو بظاہر مسلمانوں کے لباس میں چھپے ہوئے تھے، آنحضرت (ص) کی موت کا انتظار کر رہے تھے اور در حقیقت اس آیت کو اپنے دل میں دہرا رہے تھے جسے قرآن پیغمبر (ص) کی حیات میں کافروں کی زبانی نقل کرتاہے: ’’أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ‘‘[1]۔ یعنی ہم اس کی موت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ فوت ہوجائے اور اس کی شھرت ختم ہوجائے۔
یہ لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے ساتھ ہی اسلام کی رونق ختم ہوجائے گی، اگر کوئی پیغمر کا جانشین ہے تو وہ بھی اسی کے ساتھ ہی سقوط اختیار کر جائے گا اور اسلام کا پھیلاؤ رک جائے گا۔ کچھ لوگ یہ بھی سوچتے تھے کہ اسلام آنحضرت (ص) کے بعد کمزور پڑ جائے گا اور وہ دوبارہ زمانہ جاہلیت کے عقائد کی طرف پلٹ جائیں گے۔
آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد ”ابوسفیان“ نے چاہا کہ قریش اور بنی ہاشم کے درمیان اختلاف پیدا کر دے اور جنگ بھڑکا کر اسلامی اتحاد کے اوپر کاری ضرب لگائے اس مقصد کے پیش نظر وہ بڑے ہمدردانہ انداز میں حضرت علی (ع) کے گھر میں داخل ہوا اور ان سے بولا: اپنا ہاتھ بڑھایئے کہ میں آپ کی بیعت کروں تا کہ ’’تمیم اور عدی‘‘ قبیلوں کے لوگ آپ کی مخالفت کی جرات نہ کریں۔
امام علی (ع) نے پوری ہوشیاری کے ساتھ، صف اسلام میں اختلاف پیدا کرنے اور مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے کی اس کی شازش کو سمجھ لیا۔ لھٰذا فوراً ٹکا سا جواب دیا اور فرمایا ’’ما زلت عدواً للإسلام وأهله“ تو ہمیشہ اسلام اور اہل اسلام کے دشمن میں سے رہا ہے۔ اور خود پیغمبر اکرم (ص) کی تجھیز و تکفین میں مشغول ہو گئے[2]۔
’’مسجد ضرار‘‘ جو نویں ہجری میں بنائی گئی تھی اور پیغمبر اسلام (ص) کے حکم سے عمار یاسر کے ہاتھوں منہدم کی گئی تھی پیغمبر اسلام (ص) کی حیات کے آخری دنوں میں منافقوں کی خفیہ سازشوں کا ایک نمونہ تھی۔ اور خدا اور اسلام کے دشمن ’’ابن عامر‘‘ سے ان کے تعلقات کو ظاہر کرتی تھی۔ ابن عامر وہ شخص ہے جو فتح مکہ کے بعد روم بھاگ گیا اور وہاں سے اپنے گروہ کی ہدایت و رہنمائی کیا کرتا تھا۔ ہجرت کے نویں سال جب پیغمبر اکرم (ص) جنگ تبوک پر جانے کے لئے مدینہ سے نکلے تو داخلی سطح پر منافقوں کے ممکنہ فساد و سازش کے خطرہ سے بہت زیادہ پریشان تھے۔
اسی لئے آپ نے حضرت علی (ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور آپ کے لئے وہ تاریخی جملہ فرمایا تھا ”أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى“[3]۔ یعنی اے علی (ع) تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ھارون کو موسیٰ (ع) سے تھی۔ اس کے بعد آپ نے ان کو تاکید کی کہ داخلی سطح پر مدینہ میں سکون و آرام برقرار رکھنے اور فتنہ و فسد کی روک تھام کے لئے مدینہ میں ہی رہیں۔
منافقوں اور ان کی خطرناک سازشوں سے متعلق بہت سی آیتیں قرآن کریم کے مختلف سوروں میں موجود ہیں اور سب کی سب اسلام سے ان کی دیرینہ عداوت کو بیان کرتی ہیں۔ اور ابھی یہ فسادی مدینہ میں موجود ہی تھے کہ آنحضرت (ص) نے دنیا سے رحلت فرمائی۔
پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد قبائل عرب میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو آپ کے بعد کفر و شرک کی طرف پلٹ گئے اور ماموران زکوٰة کو باہر نکال کر انھوں نے اسلام کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ یہ لوگ اگرچہ منافق نہیں تھے، لیکن ایمان کے اعتبار سے اتنے کمزور تھے، جو پت جھڑ کے پتوں کی طرح ہر رخ کی ہوا پر ادھر ادھر ہی اڑنے لگتے تھے۔ اگر انہیں کفر و شرک کا ماحول مناسب لگتا تو اسلام کو چھوڑ کر کفر کی راہ اختیار کر لیتے تھے۔
ایسے خون خوار دشمنوں کے ہوتے ہوئے، جو اسلام کے لئے گھات لگا کر بیٹھے رہتے تھے اور اسلام کے خلاف سازش و شورش میں مشغول رہتے تھے، کیا یہ ممکن تھا کہ ایسے عاقل، سمجھدار اور دور اندیش پیغمبر اسلام (ص) ان ناگوار حوادث کی روک تھام کے لئے اپنا کوئی جانشین مقرر نہ کریں اور امت واسلام کو دشمنوں کے درمیان اس طرح حیران و سر گردان چھوڑ جائیں، کہ ہر گروہ یہ کہتا نظر آئے کہ ”منا أمير و منكم أمير“ یعنی یہ کہے کہ امیر ہم میں سے ہونا چاہئے اور وہ کہے کہ امیر ہم میں سے ہونا چاہئے؟!
اسلام کے دشمن دوم
اس مثلث کے بقیہ دو دشمن اس وقت کی ایران و روم کی دو بڑی طاقتیں تھیں۔ روم کی فوج سے اسلام کی پہلی جنگ ہجرت کے آٹھویں سال فلسطین میں ہوئی جو لشکر اسلام کے بڑے بڑے سردار وں، ”جعفر طیار، زید بن حارث“ اور”عبداللہ بن رواحہ“ کے قتل اور لشکر اسلام کی انتہائی سخت شکست پر تمام ہوئی اور لشکر اسلام خالد بن ولید کی سرداری میں مدینہ واپس آیا۔ کفر کی فوج سے لشکر اسلام کی اتنی سخت شکست سے قیصر روم کے حوصلے بلند تھے۔
اور ہر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ کہیں وہ لوگ مرکز اسلام پر حملہ نہ کریں اسی وجہ سے آنحضرت (ص) ہجرت کے نویں سال ایک بڑا لشکر جس کی تعداد تیس ھزار تھی لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے تا کہ فوجی مشق کے علاوہ اسلام کے دشمن کے ممکنہ حملے کو روک سکیں۔ اور راستے کے بعض قبائل سے تعاون یا غیر جانبداری کا عہد و پیمان لے سکیں۔ اس سفر میں جس میں آنحضرت (ص) کو مسلسل رنج و زحمت اٹھانا پڑی آپ رومیوں سے لڑے بغیر مدینہ واپس آگئے۔
اس کامیابی نے پیغمبر اکرم (ص) کو مطمئن نہیں کیا آپ لشکر اسلام کی شکست کے جبران کی کوشش میں لگے رہے۔ اس کے لئے آپ نے اپنی بیماری سے چند روز پہلے ”اسامہ بن زید“ کو لشکر اسلام کا علم دے کر اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اسامہ کی سرداری میں شام کی طرف روانہ ہوں اور اس سے پہلے کہ اسلام کے دشمن ان پر حملہ کریں وہ جنگ کے لئے تیار رہیں۔
یہ تمام واقعات اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) شمال یعنی روم کی طرف سے بہت پریشان تھے اور کہا کرتے تھے کہ ممکن ہے قیصر روم کی طرف سے اسلام کو سخت حملے کا سامنا کرنا پڑے۔
اسلام کے دشمن سوم
تیسرا دشمن ایران کی ساسانی شہنشاہی تھی۔ یہاں تک کہ خسرو پرویز نے پیغمبر اکرم (ص) کا خط پھاڑ ڈالا تھا، اور سفیر کو قتل کر دیا تھا اور یمن کے گورنر کو لکھا تھا کہ (معاذ اللہ) پیغمبر اکرم (ص) کو قتل کر کے ان کا سر میرے پاس مدائن روانہ کرے۔
حجاز اور یمن عرصہ دراز سے حکومت ایران کا حصہ شمار ہوتے تھے لیکن اسلام کے آنے کے بعد حجاج نہ صرف آزاد ہو گیا تھا بلکہ خود مختار بھی ہو گیا تھا اور یہ امکانات بھی پیدا ہو گئے تھے کہ یہ محروم اور کچلی ہوئی قوم اسلام کے سایہ میں پورے ایران پر مسلط ہو جائے۔
اگر چہ خسرو پرویز پیغمبر اکرم (ص) کی حیات میں گزر گیا تھا لیکن ساسانیوں کی حکومت سے یمن اور حجازکا جدا ہو جانا ان لوگوں کے لئے اتنا بڑا دھچکا تھا جو خسرو کے جانشینوں کے ذہن سے دور نہیں ہوا تھا۔ ساتھ ہی یہ بڑھتی ہوئی نئی طاقت جو ایمان و اخلاص اور فداکاری سے آراستہ تھی ان کے لئے نا قابل برداشت تھی۔
ایسے طاقتور دشمنوں کے ہوتے ہوئے کیا یہ درست تھا کہ پیغمبر اکرم (ص) اس دنیا سے چلے جائیں اور امت اسلام کے لئے اپنا کوئی فکری و سیاسی جانشین معین نہ کریں؟ ظاہر ہے کہ عقل، ضمیر اور سماجی محاسبات ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتے کہ پیغمبر اکرم (ص) سے اس طرح کی بھول ہوئی ہوگی۔ اور انھوں نے ان تمام حادثات و مسائل کو نادیدہ قرار دیتے ہوئے اسلام کے گرد کوئی دفاعی حصار نہ بنایا ہوگا اور اپنے بعد کے لئے ایک آگاہ، مدیر و مدبر اور جہان دیدہ رہبر معین نہ کیا ہوگا۔
نتیجہ
ایسے مدبر اور دانا شخص کا ایسی صورتحال میں جب، کہ ابھی آپ (ص) حیات ہیں اور، منافقین، روم اور ایران جیسی طاقتیں جو کہ اسلام کے دشمن اور اس کے خلاف متحد ہو کر اسے نابود کرنے کی کوشش کر رہی تھیں، اسلام کے انجام سے لا علم رہنا، اور، پیغمبر کا جانشین مقرر نا کرنا ایک احمقانہ سوچ ہے۔ پیغمبر (ص) اپنی حیات طیبہ میں ہی امام علی (ع) کو اپنا جانشین متعین کر چکے تھے۔
حوالہ جات
[1]۔ سورہ: طور، آیت ۳۰۔
[2]۔ مدنی، الدرجات الرفيعة، ص ۷۷؛ ابن عبد البر، الإستيعاب، ج ۲، ص ۶۹۰۔
[3]۔ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج ۷۹، ص ۱۱۷۔
کتابیات
۱۔ قرآن کریم۔
۲۔ ابن عبد البر، یوسف بن عبد الله، الإستيعاب في معرفة الأصحاب، بیروت، دار الکتب العلمية، ۱۴۲۲ھ ق۔
۳۔ ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینة دمشق، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ھ ق۔
۴۔ مدنى، علي خان بن احمد، الدرجات الرفيعة فى طبقات الشيعة، بیروت، مؤسسة الوفاء، ۱۹۸۳م۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، چھٹی فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ھ ش۔