- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- 2024/12/25
- 0 رائ
امت کا رہبر اور اس کی قیادت کا مسئلہ آج کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ صدر اسلام میں بھی لوگ اس کی ضرورت اور اہمیت سے آشنا تھے۔ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہو گی کہ، خلیفہ دوم کا بیٹا اور ام المومنین عائشہ تو، امت کا رہبر جیسا موضوع اور اس کی اہمیت سے واقف ہوں، لیکن پیغمبر اکرم (ص) اس سے نا آشنا ہوں۔ ’’اخنس و یمامہ‘‘ جیسے لوگوں کے واقعات اور دسیوں ایسی مثالیں تاریخ اسلام میں موجود ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمر اکرم (ص) اس منصب کو ایک الٰہی منصب سمجھتے تھے۔ اور اپنی زندگی میں ہی امت کا رہبر اور اس کی قیادت کا اعلان فرما چکے تھے۔
امت کا رہبر اور ایک اہم سوال
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے تمام چیزوں کے بارے میں واجب، مستحب، حرام و مکروہ سے متعلق تو ساری باتیں بیان فرمائیں، لیکن امت کا رہبر اور اس کی قیادت کرنے والے حاکم کی خصوصیات سے متعلق کوئی بات کیوں بیان نہیں کی؟ کیا انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اتنے اہم موضوع پر کوئی توجہ نہ دی ہو گی بلکہ خاموشی اختیار کی ہو گی اور امت کو بیدار نہ کیا ہو گا؟!
علمائے اہل سنت فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے امت کا رہبر اور اس کی قیادت و امامت کے طریقے کے سلسلے میں نفیاً و اثباتاً، کوئی بات نہیں بیان کی اور یہ واضح نہیں کیا کہ قیادت و رہبری کا مسئلہ انتخابی ہے یا تعیینی ہے۔
سچ مچ کیا عقل باور کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے امت کا رہبر جیسے انتہائی اہم اور حیاتی مسئلے پر خاموشی اختیار کی ہو گی اور قضیہ کے ان دونوں پہلؤں سے متعلق کوئی اشارہ نہ کیا ہو گا؟
عقل کے فیصلے سے آگے بڑھ کر تاریخ اسلام کا جائزہ بھی اس نظریے کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ اور یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے مختلف موقعوں پر یہ یاد دہانی کی ہے کہ، میرے بعد امت کا رہبر اور اس کی قیادت جیسے مسئلے، خدا سے مربوط ہے اور وہ اس سلسلہ میں کوئی اختیار نہیں رکھتے۔
امت کا رپبر اور تاریخی اوراق سے چند اہم نمونے
یہاں ہم تاریخ اسلام سے چند نمونے پیش کرتے ہیں:
جب مشرکوں کے ایک قبیلہ کے سردار ”اخنس“ نے اس شرط پر پیغمبر اسلام (ص) کی حمایت کا اظہار کیا کہ اپنے بعد امت کا رہبر آپ ہمیں مقرر کریں گے تو پیغمبر اسلام (ص) نے اسے جواب دیا کہ ”الأَمرُ إلَی اللّهِ یضَعُهُ حَیثُ یشاءُ“ یعنی امت کا رہبر اور اس کی قیادت کا مسئلہ خدا سے مربوط ہے وہ جسے بہتر سمجھے اس امر کے لئے منتخب کرے گا۔ قبیلہ کا سردار یہ بات سن کر مایوس ہو گیا اور اس نے آنحضرت (ص) کے جواب میں کہا کہ یہ بات بالکل درست نہیں ہے کہ رنج و زحمت میں اٹھاؤں اور قیادت و رہبری کسی اور کو ملے![1]
تاریخ اسلام میں یہ واقعہ بھی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ”یمامہ“ کے حاکم کو خط لکھ کر اسے اسلام کی دعوت دی اس نے بھی ”اخنس“ کی مانند آنحضرت (ص) سے، آپ کی جانشینی اور امت کا رہبر بننے کا تقاضا کیا تو آنحضرت نے اسے انکار میں جواب دیتے ہوئے فرمایا: ”وَ لاَ كَرَامَةَ“ یعنی یہ کام عزت نفس اور روح کی بلندی سے بعید ہے۔[2]
امت کا رہبر صدر اسلام سے ہی موضوع بحث
امت کا رہبر اور اس کی قیادت کا مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اس کی اہمیت کو صرف ہم نے ہی محسوس نہیں کیا، بلکہ صدر اسلام میں بھی یہ مسئلہ بہت سے لوگوں کی نظر میں بڑی اہمیت رکھتا تھا۔ مثلا جس وقت خلیفہ دوم، ’’ابو لولو‘‘ کی ضرب سے زخمی ہوئے اور ان کے بیٹے ’’عبد اللہ بن عمر‘‘ نے اپنے باپ کو مرتے ہوئے دیکھا تو اپنے باپ سے کہا جتنی جلدی ہو سکے اپنا ایک جانشین معین کیجئے اور امت محمدی کو بے حاکم و بے سر پرست نہ چھوڑیے۔
بالکل یہی پیغام ام المومنین عائشہ نے بھی خلیفہ دوم کو کہلایا اور ان سے درخواست کی کہ امت محمدی کے لئے ایک محافظ و نگہبان اور اس امت کا رہبر معین کر جائیں۔ اب کیا یہ کہنا صحیح ہو گا کہ ان دو شخصیتوں نے امت کی قیادت و رہبری کے مسئلہ کی اہمیت کو تو اچھی طرح محسوس کر لیا تھا لیکن رسول اسلام (ص) ان دو افراد کے بقدر بھی اس مسئلہ کی اہمیت کو سمجھ نہیں پائے تھے؟!
پیغمبر اسلام (ص) کی مدینہ کی دس سالہ زندگی کا ایک ہلکا سا جائزہ لینے کے ساتھ ہی یہ بات پوری طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ آنحضرت جب بھی کہیں جانے کے لئے مدینہ سے نکلتے تھے کسی نہ کسی کو مدینہ میں اپنا جانشین معین کر جاتے تھے، تا کہ اس مختصر سی مدت میں بھی جب پیغمبر اکرم (ص) مدینہ میں تشریف نہیں رکھتے لوگ بے سر پرست اور بے پناہ نہ رہیں۔
کیا یہ بہتر ہے کہ جو جانشین معین کرنے کی اہمیت سے آگاہ ہو اور یہ جانتا ہو کہ حتّٰی مختصر مدت کے لئے بھی جانشین معین کئے بغیر مدینہ کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔ وہ دنیا کو ترک کرے اور اپنا کوئی جانشین معین نہ کرے یا کم از کم قیادت و رہبری کی شکل و نوعیت اور حاکمیت کے طریقہ کار کے بارے میں کچھ نہ کہے؟!
پیغمبر اسلام (ص) جب کسی علاقہ کو فتح بھی کرتے تھے تو اسے ترک کرنے سے پہلے وہاں ایک حاکم اور اس امت کا رہبر معین فرماتے تھے پھر ان حالات میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنا جانشین معین کرنے میں غفلت سے کام لیا ہو گا اور اس کے بارے میں کوئی فکر نہ کی ہو گی، جو ان کے بعد امت کی قیادت و رہبری اپنے ہاتھ میں لے سکے اور اسلام کے نو پا درخت کی نگہبانی و سرپرستی کر سکے؟!
نبوت و امامت باہم ہیں
متواتر احادیث اور اسلام کی قطعی تاریخ صاف گواہی دیتی ہیں کہ نبوت اور امامت دونوں کا اعلان ایک ہی دن ہوا اور جس روز پیغمبر اکرم (ص) خدا کی طرف سے اپنے خاندان والوں کے درمیان اپنی رسالت کا اعلان کرنے پر مامور ہوئے تھے اسی روز آپ نے اپنا خلیفہ و جانشین بھی معین فرما دیا تھا۔
اسلام کے گرانقدر مفسرین و محدثین لکھتے ہیں کہ جب آیت ’’وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ‘‘[3] نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی (ع) کو خاندان والوں کے لئے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا جنہیں آنحضرت نے مہمان بلایا تھا۔ حضرت علی (ع) نے بھی پیغمبر (ص) کے حکم سے کھانا تیار کیا اور بنی ھاشم کی پینتالیس شخصیتیں اس مجلس میں اکٹھا ہوئیں۔ پہلے روز ابو لہب کی بیہودہ باتوں کی وجہ سے پیغمبر اکرم (ص) اپنی رسالت کا پیغام سنانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ دوسرے روز پھر یہ دعوت کی گئی اور مہمانوں کے کھانا کھا لینے کے بعد پیغمبر (ص) اپنی جگہ کھڑے ہوئے اور خداوند عالم کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا:
میں تم لوگوں اور دنیا کے تمام انسانوں کے لئے خدا کا پیغامبر ہوں اور تم لوگوں کے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی لایا ہوں۔ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اس دین کی طرف دعوت دوں تم میں سے جو شخص اس کام میں میری مدد کرے گا وہ میرا وصی اور جانشین ہو گا۔
اس وقت مولود کعبہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے علاوہ کسی نے بھی اٹھ کر پیغمبر (ص) کی نصرت و مدد کا اعلان نہیں کیا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی (ع) کو بیٹھ جانے کا حکم دیا اور دوبارہ اور تیسری بار بھی اپنا جملہ دہرایا اور ہر بار حضرت علی (ع) کے علاوہ کسی نے آپ کی حمایت اور اس راہ میں آپ کی نصرت و فدا کاری کا اظہار نہیں کیا۔
اس وقت پیغمبر (ص) نے اپنے خاندان والوں کی طرف رخ کر کے فرمایا: ”إِنَّ هَذَا أَخِی وَ وَصِیی وَ خَلِیفَتِی فِیکُمْ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِیعُوا“ یعنی علی (ع) میرا بھائی اور تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ہے، پس تم پر لازم ہے کہ اس کا فرمان سنو اور اس کی اطاعت کرو۔[4]
حدیث یوم الدار کی صحت
تاریخ کا یہ واقعہ اس قدر مسلّم ہے کہ ابن تیمیہ جس کا خاندان اہل بیت (ع) سے عناد کے حوالے سے سب پر ظاہر ہے، کے علاوہ کسی نے بھی اس کی صحت سے انکار نہیں کیا ہے۔ یہ حدیث حضرت علی (ع) کی امامت کی دلیل ہونے کے علاوہ اس بات کی سب سے اہم گواہ ہے کہ امامت کا مسئلہ امت کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امت کا رہبر اور اپنے جانشین کا اعلان اس قدر اہم تھا کہ نبوت و امامت دونوں منصبوں کے مالک افراد کا اعلان ایک ہی دن پیغمبر (ص) کے خاندان والوں کے سامنے کیا گیا۔
یہ واقعہ تین بعثت کو پیش آیا اور اس وقت تک پیغمبر اکرم (ص) کی دعوت مخصوص افراد کے ذریعے لوگوں تک پہنچائی جاتی تھی اور تقریباً پچاس افراد اس وقت تک مسلمان ہوئے تھے۔
نتیجہ
پیغمبر اکرم (ص) کی دس سالہ مکہ کی زندگی اور اس کے علاوہ تاریخ کے مختلف واقعات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امت کا رہبر اور اس کی قیادت و سرپرستی اور اپنی جانشینی جیسے اہم مسئلے سے پیغمبر اکرم (ص) شروع سے ہی واقف تھے، پیغمبر اکرم (ص) نے اللہ تعالی کے امر سے خود امام علی (ع) کو خود اپنا جانشین اور اس امت کا رہبر منتخب فرمایا۔
حوالہ جات
[1]۔ طبری، تاریخ طبری، ج۲ ، ص۱۷۲۔
[2]۔ ابن اثیر، تاریخ کامل، ج۲، ص۶۳۔
[3] ۔ سورہ شعراء، آیت ۲۱۴۔
[4] ۔ طبری، تاریخ طبری، ج۲، ص۶۲-۶۳؛ ابن اثیر، تاریخ کامل ج۲، ص۴۰-۴۱؛ ابن حنبل، مسند احمد، ج۱، ص۱۱۱۔
فہرست منابع
۱۔ قرآن مجید۔
۲۔ ابن اثیر، علی بن محمد، الكامل في التاريخ، بیروت، دار الكتاب العربي، ۱۴۱۷ھ ق۔
۳۔ ابن حنبل، احمد، مسند الإمام أحمد بن حنبل، بیروت، مؤسسة الرسالة، ۱۹۶۹م۔
۴۔ طبری، محمد بن جریر بن یزید، تاریخُ الرُسُلِ و الاُمَمِ و المُلوک، بیروت، مؤسسة عزالدين، ۱۴۱۳ھ ق۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، چوتھی فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ھ ش۔