- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/06/14
- 0 رائ
حِجَّۃُ الوَداع پیغمبر اکرمؐ کے آخری حج کو کہا جاتا ہے جس میں آپ نے مختلف اسلامی مناطق سے آئے ہوئے مسلمانوں سے وداع فرمایا تھا۔ رسول اکرمؐ نے مدینہ ہجرت کے بعد عمرہ کی نیت سے تین اور حج کی نیت سے صرف ایک دفعہ یعنی رحلت سے کچھ عرصہ پہلے مکہ کا سفر فرمایا۔
شیعوں کے مطابق پیغمبراکرمؐ نے اس سفر سے واپسی پر خدا کے حکم سے غدیر خم کے مقام پر حضرت علیؑ کی امامت اور ولایت کا اعلان فرمایا اور وہاں موجود تمام مسلمانوں سے حضرت علیؑ کی بیعت کرنے کا حکم دیا اس بنا پر یہ حج شیعہ تاریخ میں ایک اہم واقعہ شمار ہوتا ہے۔
اس حج کا دوسرا نام حِجَّۃُالبَلاغ ہے کیونکہ اس سفر سے واپسی کے وقت رسول خداؐ پر آیت تبلیغ نازل ہوئی۔ اسی طرح اسے حِجَّۃُالاسلام بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ واحد حج ہے جسے پیغمبر اکرمؐ نے اسلامی معاشرے کی قیام کے بعد اسلامی احکام کے تحت ادا فرمایا تھا۔
آیت تبلیغ
يَا أَيُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّہُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّہَ لاَ يَہْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ(سورہ مائدہ آیت 67۔)
ترجمہ: اے پیغمبر! جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اس کا کچھ پیغام پہنچایا ہی نہیں اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا، بلاشبہ اللہ کافروں کو منزل تک نہیں پہنچایا کرتا۔
اکمال دین اور اتمام نعمت
الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً(سورہ مائدہ آیت 3۔)
ترجمہ: آج کافر لوگ تمہارے دین کی طرف سے نااُمیدہو گئے ہیں تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا۔
سفر کا آغاز
اعلان حجّ
وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالاً وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ(سورہ حج آیت 27۔)
ترجمہ: اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو تو وہ آئیں گے تمہاری آواز پر پیادہ پا اور ہر لاغر سواری پر کہ آئیں گی (وہ سواریاں) ہر دور دراز راستے سے۔
معاویہ بن عمار کی ایک مفصل حدیث میں آیا ہے کہ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا:[1] رسول خداؐ ہجرت کے بعد 10 سال مدینہ میں مقیم رہے اور حج کے لئے نہیں گئے لیکن جب اعلان حج کی آیت: وَأَذِّنْ فِى النّاسِ بِالْحَجِّ(ترجمہ: اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو)[2] نازل ہوئی تو آپؐ نے اعلان کیا کہ امسال حج کے لئے مکہ جائیں گے۔ مدینہ کے باشندے اور بادیہ نشین سب مدینہ میں جمع ہوئے تاکہ رسول اللہؐ کے ساتھ حج ادا کریں۔ سنہ 10 ہجری کے ماہ ذوالقعدۃ الحرام کے چار دن باقی تھے جب آپؐ مکہ روانہ ہوئے۔[3]
اہل سنت کی کتب میں ہے کہ آپؐ نے ذوالْحُلَیفہ کی میقات میں ایک رات گذاری اور مکہ کی طرف روانہ ہوئے[4]۔[5]۔[6] تاہم امام صادق(ع) کے مطابق آپؐ میقات پہنچے تو اسی دن محرِم ہوئے اور میقات میں ٹہرے بغیر مکہ روانہ ہوئے۔[7]
حج کے اعلان عام کے بعد مہاجرین اور انصار اور حتی کہ مکہ کے اطراف اور یمن کے عوام مکہ روانہ ہوئے تاکہ اعمال حج کو براہ راست رسول اللہؐ سے سیکھ لیں اور آپؐ کے پہلے باضابطہ حج میں آپؐ کے ساتھ رہیں۔ اور پھر آپؐ نے یہ اشارے بھی دیئے تھے کہ یہ آپؐ کا آخری حج ہے چنانچہ مسلمان دوہرے اشتیاق کے ساتھ حج کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ ایک لاکھ بیس ہزار افراد (اور بعض روایات کے مطابق اس سے بھی زیادہ) مسلمانوں نے مراسمات حج میں شرکت کی؛ ستر ہزار افراد مدینہ سے حج میں شرکت کرنے کے لئے مکہ روانہ ہوئے تھے اور لبیک کہنے والے مدینہ سے مکہ تک متصل ہوچکے تھے۔ رسول اللہؐ مدینہ سے روانہ ہونے والے حجاج کے ہمراہ 10 دن کے بعد مکہ پہنچے۔
اميرالمؤمنين(ع) جو دعوت اسلام اور خمس و زکٰوۃ اور جزیہ وصول کرنے کے لئے نجران اور یمن گئے تھے یمن کے بارہ ہزار مسلمانوں کے لئے حج بجا لانے کے لئے مکہ پہنچے۔
امام علی(ع)،ـ جو ایک جماعت کے ساتھ یمن سے آئے تھےـ مکہ میں رسول اللہؐ سے آ ملے۔[8]۔[9]
مناسک حج کی تعلیم
میقات میں آپؐ نے لوگوں کو آدابِ احرام سکھائے۔ آپؐ نے ابتداء میں غسل کیا اور حج قِران کے لئے احرام باندھا۔[10]۔[11] آپؐ کا احرام یمن کے بنے ہوئے سوتی کپڑے کے دو ان سلے ٹکڑوں پر مشتمل تھا جس میں وصال کے بعد آپ کو کفن دیا گیا،[12] اس کے بعد آپؐ نے نماز ظہر مسجد شجرہ میں ادا کی[13] اور اس کے بعد اس اونٹ کی کوہان پر ایک نشان لگایا جو آپؐ قربانی کے لئے اپنے ساتھ مکہ لے جارہے تھے۔[14]۔[15]
بعد میں ان مقامات پر مسلمانوں نے کئی مساجد تعمیر کیں جہاں رسول اللہؐ نے نماز ادا کی تھی یا آرام کے لئے ٹہرے تھے۔[16]۔[17]
رسول اللہؐ نے مکہ کے قریب “ذی طُوٰى”، کے مقام پر ایک رات آرام کیا[18] اور چار ذوالحجۃ الحرام کی شام کو مکہ پہنچے۔[19]
اس سفر کی خصوصیات
رسول اللہؐ نے فرمایا: نصراللہ عبد اسمع مقالتي فوعاہا وحفظہا وبلغہا من لم يسمعہا، فرب حامل فقہ غير فقيہ ورب حامل فقہ إلي من ہو أفقہ منہ
ترجمہ: خدا مدد کرے اس کی جو میری باتیں سن کر یاد رکھے اور ان لوگوں کو بھی سنائے جنہوں نے نہیں سنیں؛ کتنے ہیں وہ جو [فقہ]] کے حامل ہیں لیکن خود فقیہ نہیں ہیں؛ کتنے ہیں وہ جو فقہ کے حامل ہیں اور اس کو ایسے لوگوں کی طرف لے کر جاتے ہیں جو ان فقیہ تر ہیں۔
رسول اللہؐ نے مکہ میں داخلے سے آٹھ ذوالحجہ تک کسی گھر میں قیام نہیں کیا بلکہ مکہ کے باہر اَبْطَح (بَطحاء) کے مقام پر ایک خیمے میں قیام پذیر رہے۔[20]۔[21]
اس سفر میں رسول اللہؐ نے یمن کے بنے ہوئے کپڑوں کا پردہ بنا کر کعبہ پر لٹکایا۔[22]۔[23][24]۔[25]
خطبہ خیف
رسول اللہؐ نے فرمایا: ثلاث لا يغل عليہن قلب امريء مسلم: إخلاص العمل للہ والنصيحہ لأئمۃ المسلمين واللزوم لجماعتہم
ترجمہ: تین چیزیں ہیں جو مسلمان شخص کا دل ان کی نسبت خیانت نہيں کرتا۔ 1۔ عمل کو اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے انجام دینا اور تمام امور میں توحید و یکتا پرستی کو مقدم رکھنا، 2۔ ائمۂ مسلمین کی خیرخواہی کرنا، ان سے تعلق استوار رکھنا، انہیں اپنے ساتھ شریک کرنا، واقعات کی صحیح خبر رسانی کرنا، مکمل راہنمائی لینا اور راہنمائی پر درست عمل کرنا، 3۔ مؤمنین کے ساتھ ہمہ جہت اتحاد کا تحفظ کرنا، ان کی جماعت سے جدا نہ ہونا۔
رسول اللہؐ نے اہلیان مکہ اور وہاں کے مجاورین کو ہدایت دی کہ مَطاف، حجرالأسود، مقام ابراہیم(ع)، نیز نماز جماعت کی صف اول کو 10 ذوالقعدہ سے [ایام حج کے اخر تک] حجاج کے لئے مختص کیا کریں۔[26]
رسول اللہؐ نے اپنے سابقین (مؤمنین) کی مانند حجاج کو اطعام کیا اور کھانا کھلایا۔[27]
مروی ہے کہ منٰی کے مقام پر واقع مسجد خیف میں بھی رسول اللہؐ میں بھی ایک مختصر سا خطبہ دیا۔[28]۔[29]۔[30]
مسجد خیف میں رسول اللہؐ کے اہم نکات:[31]
خدا مدد کرے اس کی جو: میری باتیں سن کر یاد رکھیں، میری باتیں ان تک پہنچائیں جنہوں نے میرا کلام نہیں سنا۔
کتنے زيادہ ہیں وہ فقیہ جو فقہ کے حامل ہیں مگر اور ان لوگوں کو بھی سنائے جنہوں نے نہیں سنیں؛ کتنے ہیں وہ جو [فقہ]] کے حامل ہیں لیکن خود فقیہ نہیں ہیں؛ اور کتنے زیادہ ہیں وہ جو فقہ اور سمجھ بوجھ لے کر ان کو سناتے ہیں اور سکھانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان سے کہیں زیادہ بڑے فقیہ ہیں!!
تین چیزیں ایسی ہیں
عمل کو اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے انجام دینا اور تمام امور میں توحید و یکتا پرستی کو مقدم رکھنا،
ائمۂ مسلمین کی خیرخواہی کرنا، ان سے تعلق استوار رکھنا، انہیں اپنے ساتھ شریک کرنا، انہیں واقعات کی صحیح خبر رسانی کرنا، مکمل راہنمائی لینا اور راہنمائی پر درست عمل کرنا،
مؤمنین کے ساتھ ہمہ جہت اتحاد کا تحفظ کرنا، ان کی جماعت سے جدا نہ ہونا۔
رسول اللہؐ نے مکہ سے مدینہ پلٹتے وقت غدیر خم کے مقام پر ولایت امیرالمؤمنین(ع) کا اعلان کیا جس کے بعد اصحاب نے امیرالمؤمنین(ع) کے ہاتھ پر مسلمانوں کے ولی اور حاکم و سرپرست کے عنوان سے بیعت کی۔
حج سے واپسی
13 ذوالحجہ سنہ 10 ہجری کو اعمال و مراسمات حج مکمل ہونے کے بعد رسول اکرمؐ ظہر سے قبل منٰی سے مکہ واپس پلٹ گئے اور ابطح کے مقام پر خیمہ لگایا[32]۔[33] اور مسلمانوں کو مناسک و اعمال حج بجا لانے کے بعد اپنے گھر بار اور وطن کی طرف واپسی میں عجلت کریں[34]۔[35]۔[36] اور خود بھی 14 ذوالحجہ کو فجر سے قبل مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔[37]
غدیر خم کے مقام اعلان ولایت
رسول خداؐ کا سفر حج میں اٹھائیس سے تیس دن تک کا عرصہ لگا۔ آیت اکمال دین[38] ان آیات میں سے ایک ہے جو قطعی طور پر حجۃالوداع کے دوران نازل ہوئی ہیں۔[39]
اٹھارہ ذوالحجہ کو جُحْفہ کے قریب غدیر خُم کے مقام پر پہنچے؛ وہاں رسول اکرمؐ نے اللہ کے فرمان پر[40] امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو اپنے جانشین کے طور پر مقرر کیا۔[41]۔[42]
براء بن عازب کہتے ہیں: میں حجۃ الوداع کے سفر میں رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر تھا؛ جب ہم [[غدیر خم کے مقام پر پہنچے؛ آپؐ کے حکم پر اس علاقے کو صاف کیا گیا اور پھر علی(ع) کو اپنی دائیں جانب قرار دیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے کہا: کیا میں تمہارا صاحب اختیار نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا؛ کیوں نہیں! ہمارا پورا آختیار آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اور آپؐ نے امام علی(ع) کا ہاتھ اوپر کو اٹھا کر فرمایا: میں جس کا مولا ہوں یہ علی(ع) اس کے مولا ہیں۔ خداوندا! علی کے دوست کو دوست رکھ اور ان کے دشمن کو دشمن رکھ … پس عمر بن خطاب نے امام علی(ع) سے کہا: اے علی! یہ منصب آپ کو مبارک ہو کیونکہ تم میرے اور تمام مؤمنین کے مولا ہوئے۔[43]۔[44]۔[45]۔[46] بحرانی نے اہل سنت کے 89 مآخذ اور اہل تشیع کے 43 مآخذ سے ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔[47]
بعدازاں قافلہ مدینہ کی جانب روانہ ہوا اور احتمالا 24 ذوالحجہ کو مدینہ پہنچا۔[48] ذوالحجہ کے آخری ایام میں آپہ مدینہ میں تھے۔[49]
حاجیوں کی تعداد
اس سفر میں حاجیوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے، اس بنا پر ایک لاکھ بیس ہزار سے ایک لاکھ پچاس ہزار تک ذکر کیا گیا ہے جن میں سے اکثر پیدل اس سفر پر آئے تھے۔ [50]۔ لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اس سفر میں پچاس ہزار سے زیادہ حجاج نے شرکت نہیں کی تھی۔[51]
……………………..
حوالہ جات
۱- رجوع کریں: کلینى، ج 4، ص 245ـ248۔
۲- سورہ حج آیت 27۔
۳- نیز رجوع کریں: طوسى، تہذیبالاحكام، ج5،ص454؛ واقدى، ج3، ص1089؛ ابن سعد کا کہنا ہے کہ ذوالقعدہ میں پانچ دن باقی تھے: طبقات، ج2، ص:173۔
۴- بخارى، ج2، ص147۔
۵- ابوداوود، سنن، ج2، ص375۔
۶- بیہقى، سنن، ج 7، ص 83۔
۷- کلینى، الکافی، ج 4، ص 248ـ249۔
۸- مسلم بن حجاج، ج1 ص888۔
۹- کلینى، ج 4، ص 246۔
۱۰- کلینى، ج 4، ص 245۔
۱۱- مجلسى، بحار الانوار، ج17، ص111۔
۱۲- کلینى، ج 4، ص 339۔
۱۳- کلینى، ج4، ص248ـ249
۱۴- واقدى، ج 3، ص1090۔
۱۵- فیروزآبادى، سفرالسعادۃ، ص70۔
۱۶- رجوع کریں: مرجانى، ص280ـ290۔۔
۱۷- سمہودى، ج3، ص1001ـ1020۔
۱۹- مسلم بن حجاج، الصحیح، ج 1، ص 919۔
۲۰- واقدى ،ج3، ص1099۔
۲۱- کلینى، ج 4، ص 246۔
۲۲- واقدى، ج 3، ص1100۔
۲۳- ازرقى، ج1، ص253۔
۲۴- مسعودى، ص276۔
۲۵- فاسى، شِفاء الغَرام بأخبار البلد الحرام، ج 1، ص230۔
۲۶- متقى، ج3، جزء5، ص22۔
۲۷- ابن فہد، اتحاف الورى باخبار امالقرى، ج 1، ص 567۔
۲۸- کلینى، ج 1، ص403ـ404۔
۲۹- ابنماجہ، ج1، ص84ـ85۔۔
۳۰- یعقوبى، ج 2، ص 102۔۔
۳۱- کلینی، الكافی ج1 ص403-404۔
۳۲- واقدى، ج 3، ص 1099ـ1100۔
۳۳- کلینى، ج 1، ص403ـ404۔
۳۴- دارقطنى، ج 1، جزء2، ص 300۔
۳۵- حاکم نیشابورى، ج 1، ص 477۔
۳۶- متقى ہندیو کنزالعمال، ج3، جزء5، ص11۔
۳۷- ابنابیشیبہ، ج 4، ص 496۔
۳۸- رجوع کریں سورہ مائدہ آیت 3 (آیت اکمال دین و اتمام نعمت)۔
۳۹- عیاشى؛ بحرانى؛ طباطبائى، ذیل آیہ
۴۰- رجوع کریں: سورہ مائدہ آیت 67 (آیت تبلیغ)۔
۴۱- رجوع کریں: ابنمغازلى، ص 16ـ18۔
۴۲- امینى، ج 1، ص 508ـ541۔
۴۳- ابن کثیر، البدايۃ والنہايۃ، ج5، ص208 و ج7، ص 346۔
۴۴- ذخائر العقبى، محب الدین طبرى ط قاہرہ، 1356، ص67۔
۴۵- ابن صباغ، فصول المہمۃ، ج2 ص23۔
۴۶- نسائى، خصائص، ط نجف، سال 1369 ہجرى ص31۔
۴۷- بحرانى، کتاب غايۃ المرام، ص 79۔
۴۸- واثقى، ص 335۔
۴۹- رجوع کریں: ابنہشام، السیرہ، ج 4، ص 253۔
۵۰- ابنبابویہ، 1414، ج 2، ص 295، طوسى، ج 5، ص 11، سبط ابنجوزى، ص 37، پانویس 1، کردى، ج 1، جزء2، ص 229، امینى، ج 1، ص 32۔
۵۱- واثقى، ص 337ـ342.