- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 3 دقیقه
- 2022/02/17
- 0 رائ
واضح رھے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے فوراً بعد ھی آپ کی خلافت کے سلسلہ میں گفتگو شروع ھو گئی تھی، چنانچہ ایک گروہ کا کھنا تھا کہ آنحضرت(ص) نے اپنے بعد کے لئے کسی کو خلیفہ یا جانشین نھیں بنایا ھے، بلکہ اس چیز کو امت پر چھوڑ دیا ھے لہٰذا امت خود اپنے لئے کسی رھبر اور خلیفہ کا انتخاب کرے گی، جو اسلامی حکومت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لے اور لوگوں کی نمائندگی میں ان پر حکومت کرے، لیکن وفات رسول کے بعد نمائندگی کی صورت پیدا ھی نھیں ھوئی بلکہ چند اصحاب نے بیٹھ کر پھلے مرحلہ میں خلیفہ معین کر لیا اور دوسرے مرحلہ میں خلافت انتصابی ھو گئی، اور تیسرے مرحلہ میں انتخاب کا مسئلہ چھ لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے سپرد کیا گیا تاکہ وہ آئندہ خلافت کے مسئلہ کو حل کریں۔
چنانچہ اس طرز فکر رکھنے والوں کو ”اھل سنت“ کھا جاتا ھے۔
لیکن اس کے مقابل دوسرے گروہ کا کھنا تھا کہ پیغمبر(ص)کے جانشین کو خدا کی طرف سے معین ھونا چاہئے، اور وہ خود پیغمبر اکرم(ص) کی طرح ھر خطا اور گناہ سے معصوم اور غیر معمولی علم کا مالک ھونا چاہئے، تاکہ مادی اور معنوی رھبری کی ذمہ داری کو نبھا سکے، اسلامی اصول کی حفاظت کرے، احکام کی مشکلات کو برطرف کرے ، قرآن مجید کے دقیق مطالب کی تشریح فرمائے اور اسلام کو داوم بخشے۔
اس گروہ کو ”امامیہ“ یا ”شیعہ“ کہتے ھیں اور یہ لفظ پیغمبر اکرم(ص) کی مشھور و معروف حدیث سے اقتباس کیا گیا ھے۔
تفسیر الدر المنثور (جس کا شمار اھل سنت کے مشھور منابع میں ھوتا ھے) میں آیہٴ شریفہ <ِاٴُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ > کے ذیل میں جابر بن عبد اللہ انصاری(رہ) سے اس طرح نقل کیا ھے:
”ھم پیغمبر اکرم(ص)کے پاس بیٹھے ھوئے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے، اس وقت آنحضرت(ص) نے فرمایا: یہ اور ان کے شیعہ روز قیامت کامیاب ھیں، اور اس موقع پر یہ آیہٴ شریفہ نازل ھوئی:
<إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ
حاکم نیشاپوری (یہ چوتھی صدی کے مشھور و معروف سنی عالم ھیں) بھی اسی مضمون کو اپنی مشھور کتاب ”شواھد التنزیل“ میں پیغمبر اکرم(ص) سے مختلف طریقوں سے نقل کرتے ھیں جس کے راویوں کی تعداد ۲۰ سے بھی زیادہ ھے۔
من جملہ ابن عباس سے نقل کرتے ھیں کہ جس وقت یہ آیہٴ شریفہ <إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ >[3] نازل ھوئی تو پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: ”ہُوَ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ“ ( اس آیت سے مراد آپ اور آپ کے شیعہ ھیں۔)
ایک دوسری حدیث میں ابوبرزہ سے منقول ھے کہ جس وقت پیغمبر اکرم(ص)نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو فرمایا: ”هُوَ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ یَاعَلِیّ“ (وہ تم اور تمھارے شیعہ ھی)
اس کے علاوہ بھی اھل سنت کے دیگرعلمااور دانشوروں نے بھی اس حدیث کو ذکر کیا ھے جیسے صواعق محرقہ میں ابن حجراور نور الابصار میں محمد شبلنجی نے
لہٰذا ان تمام روایات کے پیش نظر خود پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے پیرووٴں کا نام ”شیعہ“ رکھا ھے، لیکن اس کے باوجود بھی بعض لوگ اس نام سے خفا ھوتے ھیں اور اس کو بُرا سمجھتے ھیں نیز اس فرقہ کو رافضی کے نام سے یاد کرتے ھیں، کیا یہ تعجب کا مقام نھیں کہ پیغمبر اکرم تو حضرت علی علیہ السلام کے فرمانبرداروں کو ”شیعہ“ کھیں اور دوسرے لو گ اس فرقہ کو برے برے ناموں سے یاد کریں!!۔
بھر حال یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ لفظ شیعہ کا و جود پیغمبر اکرم(ص)کی وفات کے بعد نھیں ھوابلکہ خود آنحضرت (ص) کی زندگی میں ھی ھو چکا تھا، اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام کے دوستوں اور پیرووٴں پر اس نام کا اطلاق کیا ھے، جو لوگ پیغمبر اکرم(ص)کو ”خدا کا رسول“ مانتے ھیں اور یہ جانتے ھیں کہ پیغمبر اکرم(ص) اپنی مرضی سے کلام نھیں کرتے بلکہ وھی کہتے ھیں جو وحی ھوتی ھے، <وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ.إنْ ھُوَ إلاَّ وَحیٌ یُوحیٰ>
لہٰذا اگر آنحضرت(ص) فرمائیں کہ اے علی آپ اور آپ کے شیعہ روز قیامت، کامیاب ھیں تو یہ ایک حقیقت ھے۔
بلاغ ڈاٹ نيٹ