- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/11/15
- 0 رائ
خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے: ” بقیة الله خیرلکم اِن کنتم مؤمنین“[1]
مؤمنین کو بس شب و روز ایک ھی انتظار ھے کہ جلدی سے وہ دن آئے کہ جب ان کے دلوں کا محبوب ، گلشن زھراء(س) کا پھول اور حضرت محمد مصطفےٰ صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کا بر حق آخری جانشین کہ جس کا قرآن نے بقیة الله کے عنوان سے تعارف کرایا ھے ، خانہٴ کعبہ میں ظاھر ھو اور اپنے نورانی وجود سے دلوں میں پیارو محبت اور دوستی کا بیج اگادے جو مؤمنین کے لئے خیر و برکت ، فلاح و بہبودی اور ھدایت وکامیابی کا باعث ھے جب وہ آئے گا تو پیغمبراسلام(ص)نے جس اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی تھی اس کو پورے جھان میں پھیلاکر جھانی حکومت بنادے گا جبکہ متفکرین ایک ایسی حکومت کے وجود کو جو تمام انسانوں کے مسائل حل کرتی ھو، آج تک محال جانتے آئے ھیں
ایک جھانی حکومت کا قیام
دنیا میں آج تک کوئی ایسی حکومت ابھی تک قائم نھیں ھوسکی ھے جو پوری زمین پر آباد تمام انسانوں کے مسائل حل کر سکے اس میں نہ کسی کوکسی سے کوئی شکایت ھواور نہ ھی لوگ ایک دوسرے پر ظلم کرتے ھوں۔ دنیا میں ھر شخص ھر حاکم ھر حکومت کی خواھش یھی رھی ھے کہ اس کی حکومت پورے جھان پر قائم ھو اس کا فرمان تمام انسانوں پر جاری اور تمام انسان اسکے مطیع اور فرمانبردار ھوں مگر کوئی کامیاب نھيں ھوسکا ،اس خواب کی تعبیر پانے کے لئے ھر حکومت نے لوگوں پر ظلم کئے ناحق خون بھایا اور دوسرے کی سرزمین پہ قبضہ کرکے ہزاروں انسانوں کو بے گھر کیا مگر وہ تمام انسانوں کو اپنا مطیع نہ بنا سکی کیونکہ خدا کی تائید کے بغیر ایک جھانی حکومت کا پیش کرنا محال ھے ۔
ارسطو، افلاطون اور انکے معاصر یونانی دانشمندوں کا خیال ھے: ” وسیع پیمانے پر ایک ایسی جھانی حکومت کہ جس میں سیاسی نظام کاملاً انسانی زندگی کو متحمل ھو ممکن نھیں ھے“ [2]
ارسطو کہ جس کے نظریات کو باقی دانش وروں نے اھمیت دی ھے ، کہتا ھے : ” انسان کا وجود ایک سیاسی وجود ھے اور تمام انسان ایک ماھیت سے مرتبط ھیں اس کے باوجود تمام انسان ایک چھوٹی سی ایسی حکومت تو تشکیل دے سکتے ھیں کہ جس میں محبت و پیار حاکم ھو “(مگر حکومت جھانی پیش نھیں کرسکتے)[3]
ایک دوسرے گروہ کا خیال ھے کہ ”ملکی سرحدوں کو ختم کرکے تمام ملکوں کے درمیان عالمی پیمانے پر ایک نظام تشکیل دے کرھی معاشرے کو نجات دی جاسکتی ھے مگر اس نظریہ کے تحت پوری نوع انسانیت پر حکومت کا تشکیل دینا ایک فاجعہ سے کم نہ ھو گا [4]
اور بعض متفکرین کسی ایک فکری جہت سے ھی پورے عالم پر جھانی حکومت کا خواب دیکھتے اور اس پر عمل کرتے آئے ھیں مثلاً ایک گروہ کا نظریہ ھے:
”تمام انسان اپنی مشترک انسانی حکومت کو جھانی مشترک المنافع معاشرے میں ھی تحقق عطا کرسکتے ھيں “ لہٰذا اس نظرےہ کے پیش نظر ”مارکوس اور لیانوس “ کہتا ھے کہ :”ھم سب جھانی شھر کے شھری لوگ ھیں (جس کا منافع مشترک ھے)“[5]
یا جیسے قرون وسطیٰ کے مسیحی متفکرین جو رواقیوں سے زیادہ جھانگرا تھے کہتے ھیں کہ :” تمام انسان قانون فطری اور نظم سیاسی کے اعتبار سے نھیں بلکہ تمام لوگ گناھوں میں ملوث ھونے کے ناتے اور پھر رحمت خداسے متمسک ھونے کے سلسلے میں باھم متحد ھیں “[6] یعنی گناھوں کی دنیا میں جھانی فکر رکھتے ھیں[7]
خلاصہ ےہ کہ جھانی حکومت کا پیش کرنا آسان کام نھیں ھے اور بڑے بڑے دانشور اسکو محال سمجھتے ھیں ایسی حکومت کا خواب تو سب نے دیکھا اور کوشش بھی ھر ایک نے کی مگر آج تک کوئی کامیاب نھیں ھوسکا۔
حضرت محمد مصطفی(ص) بھی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھکر دنیا سے تشریف لے گئے اور اس کو ایک جھانی حکومت بنانے کا کام اپنے برحق آخری خلیفہ حضرت امام مھدی کے سپرد کرگئے۔
مھدی کی جھانی حکومت رسول کے خواب کی تعبیر
حضرت رسول اکرم کی اس حدیث کے پیش نظر کہ:” اوّلنا محمد و اوسطنا محمد و آخرنا محمد و کلنا محمد“ ھمارا اول بھی محمد ھے اور آخری بھی محمد ھے ھم سب کے سب محمد ھیں آنحضرت(ص) کے اوصیاء نے کار رسالت کو پاےہٴ تکمیل تک پہنچایاھے چونکہ یہ اوصیاء نہ ھوتے تو آپ (ص) کا لایا ھوا اسلام بھی مٹ گیا ھوتا پس جیسے اوصیاء نے اسلام کو بچاکر اسکو پھیلایا ھے اسی طرح اوصیاء اسلام کے سایه میں پنپنے والی آنحضرت کی تاٴسیس کردہ اسلامی حکومت کو ایک جھانی حکومت بھی بنا دینگے
اگر موانع پیش نہ آتے تو آنحضرت کے پھلے نائب برحق امام علی نے اسکو جھانی حکومت بنادیا تھا مگر جیسے رسول کے ساتھ ان کی حیات نے وفا نھيں کی تھی ایسے ھی امام علی (ع) کے ساتھ بھی حیات نے وفا نھیں کی لہٰذا مصلحت خداوندی یہ قرار پائی کہ اس کام کو آنحضرت کے آخری نائب حق حضرت مھدی کے سپرد کردیا جائے
دوسرے ایک اسلامی جھانی حکومت کا پیش کرنا محال نھیں تو مشکل ضرور ھے کیونکہ اس کے لئے ذہنوں کو ھموار کرنا بڑا کٹھن مرحلہ ھے لہٰذا خدا نے ایک نھیں بلکہ رسول(ص)کے بارہ خلیفہ معین کئے تاکہ وہ ذہنوں کو ھموار کریں اور ذہنوں کو ھموار کرنے کے لئے وقت کی ضرورت ھوتی ھے جب بعض رکاوٹوں کی وجہ سے گیارہ اوصیاء کی زندگی کا وقت بھی مکمل طریقہ سے ذہنوں کو ھموار نہ کرسکا تو خدا نے بارھویں وصی کو پردہٴ غیب میں بھیج کر زندہ رکھا ،جب کبھی تمام لوگوں میں حق کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ھوجائے تو اس وقت خدا کا یه محبوب بندہ ظاھر ھوکر رسول کے خواب کی تعبیر کو عملی جامہ پہنائے گا اور گویا کھا جائے گا کہ ایک محمد نے جھانی حکومت کی بنیاد رکھی اور دوسرے محمد نے اسکو پایہٴ تکمیل تک پھونچا دیا۔
حضرت مھدی کے عاشق اور چاہنے والے چاہتے ھیں کہ وہ اپنے مصلح جھانی کی صورت وسیرت اور آپ کی حکومت جھانی سے آشنا ھوں اور آئمہ معصومین کے کلام کے ذیل میں اپنے دلوں کے محبوب کو پہچانےں لہٰذا ھم حضرت بقیة اللہ کی دل انگیز سیرت وحکومت پر ایک سرسری نظر ڈالتے ھیں
حضرت مھدی کی شکل و صورت
گندمی رنگ چھرہ، چاند جیسی کشیدہ بھویں، بڑی بڑی جذّاب سیا ہ آنکھیں، کشادہ بازو، چوڑے چکلے تیزدانت، لمبی خوبصورت ناک، نورانی اور بلنداقبال پیشانی، کم گوشت والے گلابی رخسار، داہنے رخسار پر تل کا نشان، مضبوط اور گھٹا ھوا استوار بدن، محکم او رپیچیدہ عضلات، خو بصورت اورمتناسب اندام، دلکش اور خوش نظر ڈھانچہ، لمبے ھاتھ اور پتلی پتلی انگلیاں، بزرگوارانہ شرم وحیا کے ھالوں میں ڈوبے پر سکوں رخسار ، شکوہ رہبری سے سرشار قیافہ،دلوں کو کاٹ دینے والی نظر، دریا کے مانند ٹھاٹھيں مارتا ھوا جوش وخروش، اور ھمہ گیر فریا د رسی۔[8]
حضرت مھدی (ع)کی دینی سیرت و جذبہ
امام مھدی (عج) خدا اور خدا کی جلالت و شان کے مقابل اتنا زیادہ منکسر وخاضع کہ جیسے کوئی عقاب اپنے بال وپر سمیٹے آسمان سے اترتا ھے اور ایسے خاشع و خاضع ھیں کہ خدا کی عظمت وحشمت گویاان کے وجود میں متجلی ھے[9]
مھدی عادل ھے اور خجستہ وپاکیزہ جو ذرہ برابر بھی حق کسی کا پائمال نہ ھونے دے ۔خداوندعالم اس کے ھاتھوں سے دین مبین اسلام کو سربلند اور عزیز کریے گا، امام مھدی کے دل پر گویا خدا کا خوف اس طرح طاری ھے کہ جب وہ خدا کے حضو رجائے تو لرزنے لگے ھیں، اور ھمیشہ اس فکر میں رھے کہ تقرب کا جو مقام اسے خدا کے نزیک حاصل ھے وہ خراب نہ ھوجائے لہٰذا غرور وتکبر سے پرھیز کرے اور دنیا کی طرف آنکھ بھر کر بھی نہ دیکھے، اس کی حکومت میں کسی کو کوئی ضرر نھیں پھونچے گا، مگر یہ کہ اس پر حد خدا جاری ھو۔
امام مھدی کی اخلاقی سیرت
امام مھدی با وقارو پرسکون ھے اس کا علم وحلم تمام لوگوں سے بیشتر ھے وہ موٹا کپڑا پہنے اور معمولی غذا کھائے امام مھدی رسول کا ھمنام ھے اور اس کا اخلاق اخلاق محمدی ھے وہ اخلاق و ھدایت کی چلتی ھوئی مشعلیں لے کر دنیا کی سیرے کرے اور صالحین کی طرح زندکی بسر کرے[10]
حضرت مھدی کی عملی سیرت
امام مھدی(عج) کا ھر عمل نصیحت و حکمت آمیز ھے اس کے قیام کے وقت جو کچھ ھے وہ دوستی اور کلمہ وحدت ھے سب بھائی چارگی کی ڈور میں بندھے ھونگے یھاں تک کہ ان کا کلام دوستی ، وحدت بھائی چارگی ھے یھاں تک کہ اگر کسی شخص کو کسی چیز کی ضرورت ھوگی تو وہ دوسرے کی جیب سے اجازت لئے بغیرلے لے گامگر صاحب مال کو کوئی اعتراض نہ ھوگا[11] حضرت امام مھدی (عج) کی حکومت میں لوگ کینے اور دلوں کی کدورتیں نکال باھر پھینکیں گے[12] چاروں طرف امن وسلامتی کا دور دورہ ھوگایه ھمارا امام بڑا سخی اور بے دریغ مال و دولت لٹانے والا ھے کار گزاروں، ملازمین اور عھدہ داروں پر اجرائے قانون کے اعتبار سے بڑا سخت ھے ، لیکن غریبوں اور مستضعفین کے ساتھ بڑا رحم دل اور مھربان ھے،[13]
امام مھدی کی رفتار وگفتار اتنی زیادہ بلند ھے کہ گویا وہ اپنے مبارک ھاتھوں سے فقرا ء ومساکین کے منھ میں شھد ومکھن سے چپڑی روٹی رکھ رھا ھے[14]
حضرت مھدی کی تربیتی سیرت
امام زمانہ کی حکومت میں تمام لوگوں کو علم وحکمت سکھایا جائے گا یھاں تک کہ عور تیں گھروں میں بیٹھ کر کتاب خدا اور سنّت رسول(ص) کے مطابق قضاوت کیا کریں گی[15] اس وقت لوگوں کی عقلوں کو تمرکز حاصل ھوگا آپ الٰھی تائیدات کے ذریعہ لوگوں کی عقلوں کو کمال عطا کرینگے پھر تو سب کے یهاں علم و دانائی و خرد مندی کا دور دورا ھوگا[16]
ان کے دور حکومت میں شیعوں کی تمام مشکلیں ختم ھوجائیں گی اور ان کے دل فولاد کی طرح مضبوط ھونگے ایک مرد کی طاقت چالیس مردوں کے برابر ھوگی [17]
جابر ابن عبدالله سے روایت ھے کہ امام محمد باقر(ع) نے فرمایا: ” فاذاقام قائمنا و ظھر مھدیّنا کان الرجل اَجرء من لیثٍ و امضی من سنان“
جس وقت ھمارا قائم (حضرت) مھدی(عج) ظھور کرے گا تو اس وقت ھر(مؤمن) شخص کو شیر سے زیادہ جرئت و شجاعت ھوگی اور اس کی کاٹ نیزے کی انی سے بھی زیادہ تیز ھوگی[18]
حضرت مھدی کی اجتماعی سیرت
جس وقت امام زمانہ تشریف لائیں گے تو پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے اور ظلم و ستم کی جڑیں اکھاڑ پھینکیں گے (ع)زمین کا کوئی خطہ ایسا نہ ھوگا جو آپ کے فیض و برکت، عدل و انصاف اور احسان و نیکی سے بھرہ مند اور آباد نہ ھو یهاں تک کہ نباتات و حیوانات آپ کی اس نیکی ، عدالت اور برکت سے فیض اٹھائیں گے تمام لوگ حکومت مھدی میں مالدار اور بے نیاز ھوں گے عدالت مھدی کا یه عالم ھوگا کہ کسی پر بھی کسی چیز میں کسی طرح کا کوئی ظلم نہ ھوگا[19] مثلاً حج کے موقع پر ماٴمورین آواز دیں گے:
”جس شخص کو محل طواف اور حجرالاسود کے پاس اپنی واجب نماز پڑھنی ھو وہ آئے اور حجرالاسود کے پاس اپنی نماز بجالائے لیکن جو شخص واجب نماز پڑھ چکاھو وہ ہٹ جائے اور اپنی نافلہ نمازوں کو کسی دوسری جگہ جاکر پڑھے تاکہ دوسروںکو بھی موقع مل سکے “[20] [21]
حضرت مھدی کی مالی سیرت
دنیا بھر کے اموال حضرت امام مھدی(عج) کے پاس ھونگے ، جو زمین میں دفینے ھیں وہ بھی اور جو روئے زمین پر خزانے ھیں وہ بھی تمام پر حضرت کا قبضہ اور اختیار ھوگا اور امام ان کو غریبوں پر تقسیم کریں گے اعلان عام ھوگا اے فقراء و مساکین! آؤ اور بیت المال سے اپنی ضرورت کی چیزیں اٹھالے جاؤ۔حالانکہ یہ وھی مال ھوگا کہ جس کو حاصل کرنے کے لئے لوگ سالوں لڑے ھیں، قطع رحم کیا ھے اور اپنے عزیز و اقرباء کو ناراحت اور ضرر پھونچایا ھے حتیٰ گناھوں کے ارتکاب اور ناحق خون بھانے سے بھی گریز نھیں کیا۔ امام مھدی کی حکومت میں زمین کی پیداوار بڑھ جائے گی اور ھر آدمی کی قوت بازو اور کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ھوجائے گا امام اموال کو غریبوں پرمساوی تقسیم کریں گے اور کسی کو کسی پر امتیاز نھیں دینگے[22]
حضرت مھدی کی انقلابی سیرت
مسلمانوں کا قبلہ (خانہ کعبہ) امام مھدی کی انقلابی حرکت کا مرکز ھوگا اور امام خانہٴ کعبہ ھی سے ظھورفرمائینگے امام مظلوم اور حقدار کا حق دلائیں گے خواہ وہ حق کسی کے دانتوں کے نیچے ھی کیوں نہ دبا ھو، امام اس وقت تک منافقوں کو قتل اور ان کے حامیوں کو نیست و نابود کرینگے یهانتک کہ خدا آپ سے راضی اور خوشنود نہ ھوجائے[23]
ایک روز زرارہ بن اعین نے امام محمد باقر(ع) سے پوچھا: ” کیا قائم آل محمد(ص) (عج) کی برخورد لوگوں کے ساتھ رسول(ص) اکرم جیسی برخورد ھوگی؟ تو آپ نے فرمایا ھیھات، ھیھات، نھیں نھیں پیغمبر تو لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی محبت ،دین کی طرف جلب کریں لیکن قائم(ع) لوگوں کے ساتھ تلوار سے پیش آئینگے کیونکہ خدا کا حکم ھی ان کو اس طرح کا ھوگا کہ وہ ( دشمنان دین کے ساتھ سختی سے پیش آئیں ) قتل کریں اور توبہ قبول نہ کریں وائے ھو ایسے شخص پر کہ جو مھدی سے ٹکرائے[24]
حضرت مھدی کی سیاسی سیرت
حضرت کی حکومت میں جبّاروں اور متکبروں کی حکومت کا خاتمہ ھوگا، منافقوں اور خائنوں کا نفوذ نابود ھو جائے گا ،امام دنیا سے یھود و نصاریٰ کے نفوذ کی جڑیں اکھاڑ پھینکیں گے، یھودی پتھروں، درختوں اور گوشہ و کنار کی آڑ لیکر چھپتے پھرینگے مگر امام کی حکومت میں کائنات کی ھر چیز بولنے لگے گی وہ پکار پکار کے آواز دیگی اے امام کے سپاھی ایک یھودی یھاں چھپاھوا ھے اسے قتل کرو یا امام کی خدمت میں پکڑ لے جاوٴ۔
امام مھدی غار انطاکیه سے تابوت سکینہ کو برآمد کرینگے جس میں توریت و انجیل کا اصلی نسخہ موجود ھے اور پھر توریت والوں کے ساتھ توریت سے اور انجیل والوں کے ساتھ انجیل سے فیصلہ دینگے اور ان کو اسلام کی دعوت دیکر اپنی اتباع و پیروی کے بارے میں تاکید کرینگے نتیجہ میں اسلامی حکومت اور عادلانہ قرآنی سیاست کے علاوہ کوئی سیاست و حکومت دنیا میں نہ ھوگی ، شرق تا غرب امام مھدی کی ھی حکومت ھوگی[25]
پس زمین کا کوئی خطہ ایسا نہ ھوگا جھاں سے صدائے محمدی (ص) ”اشھد ان لا الٰہ اِلاّالله، واشھد انّ محمدالرسول الله“ نہ آرھی ھو[26]
حضرت مھدی کی اصلاحی سیرت
امام مھدی فریاد رس ھیں وہ عالمی پیمانہ پر لوگوں کی فریاد کو پھونچیںگے آپ کی حکومت میں لوگ رفاہ عام، آسائش اور فراواں نعمتوں سے مالامال ھونگے زمین پر گھاس اور سبزہ زیادہ اگے گا نھروں میں پانی کی فراوانی ھوگی زمین میں دفن خزانے اور طرح طرح کے معادن نکالے جائیںگے [27]
حضرت مھدی کی حکومت میں آشوب اور فتنہ و فساد کی آگ بجھ جائے گی ،غارتگری ، شبخون او ر ظلم و ستم کی تمام جنگیں دم توڑ چکی ھونگی امام لوگوں کو بڑے بڑے غموں اور ھمہ گیر آشوبوں سے نجات دلائیں گے دنیا میں کھیں بھی کوئی ویرانی اور اجاڑ نہ ھوگی جس کو مھدی نے آبادی میں تبدیل نہ کر دیا ھو جیسے ھی امام مھدی کے اصحاب پورے جھان پر قابض ھونگے پوری دنیا کی قدرت و حکومت کو اپنے ھاتھ میں لے لینگے ، ھر شخص اور ھر چیز آپ کی مطیع و فرمانبردار ھوگی یهانتک کہ صحرائی درندے اور شکاری پرندے تمام امام کی خوشنودی کو اپنے لئے باعث فخرو کامیابی قرار دینگے.
اسلام کے ان مبلغوں کی خوشی و شادمانی کا یه عالم ھوگا کہ زمین کا ایک خطہ دوسرے خطے پر فخرو مباحات کریگا کہ امام کے ایک مخلص صحابی نے ان کے یهاں قدم رنجہ فرمایا ھے اور امام کی نظر عنایت ھمارے شامل حال ھوئی ھے[28]
خدا کو پھوپھی زینب کی قسم دیا کریں
جھاں امام کا انتظار کرنا عبادت ھے وھاں امام کے ظھور میں تعجیل کی دعا کرکے بے صبری کا مظاھرہ کرنا بھی عبادت ھے اسلامی جھانی حکومت کے خواھشمندوں سے اپیل ھے کہ آئیں اور سب ملکر مسجدوں میںنمازوں کے بعد اور مجلسوں میں مصائب کے دوران خدا کو ثانیٴ زھراء جناب زینب کبریٰ (س) کی قسم دیکر دعا کریں کہ وہ امام کے ظھور میں تعجیل فرمائے تاکہ ھم بھی امام کی جھانی حکومت کے فیوض و برکات سے مستفیض ھوں
حضرت آیت الله میرزا احمد سیبویہ تھرانی ، شیخ حسین سامری سے نقل فرماتے ھیں کہ:
شیخ سامرائی کہتے ھیں کہ جب میں سامرہ میں رہتا تھا ایک جمعہ کی شام میں امام کی محل غیبت (سرداب) میں گیا تو میں نے دیکھاکہ میرے علاوہ کوئی نھیں ھے تو میں امام کا تصور کرکے امام کے مقام و منزلت کو خاطر میں لایا تو اچانک میںنے اپنے پیچھے سے فارسی زبان میں ایک آواز سنی کہ : ” میرے شیعوں اور دوستو سے کھو کہ وہ خدا کو میری پھوپھی زینب (س) کی قسم دیا کریں تاکہ وہ ھمارے ظھور میں تعجیل فرمائے [29]
عزیزان گرامی امام کا حکم ھے آیئے خدا کو جناب زینب (س) کی قسم دیکر ظھور میں تعجیل کی دعا کریں اور اپنے امام کو پکاریں کہ مولا آپ کو جناب زینب کی قسم ھے جلدی تشریف لایئے ، محرم کا چاند نمودار ھو چکا ھے ھر گھر میں صف عزاء بچھی ھے ھر شخص اشکبار ھے روزانہ مجلسیں ھورھی ھیں ، آھستہ آھستہ محرم کے دن گذر رھے ھیں روز عاشوراء قربانےوں کی یاد منانے کا دن ھے مولا امام باڑوں میں بچے ، بوڑھے اور جوان سبھی جمع ھیں آپ کے جد کا مرثیہ پڑھا جارھاھے منبر رسول (ص) پر خطیب رسول(ص) کا انتظار ھورھا ھے مولا آپ کو آپ کے جد امام حسین(ع) اور آپ کی پھوپھی جناب زینب (س) کی قسم ھے ویسے نہ سھی ایسے ھی چند جملے اپنے جد کی مصیبت میں پڑھنے کے لئے آجائیے
………………….
حواله جات
[1] سورہٴ ھود/۸۶
[2] تفکر سیاسی ”گلن ٹنیدر “ ،ترجمہ فارسی ، محمود صدری / ۳۹
[3] وھی مدرک ص/۴۰
[4] وھی مدرک ص/۴۰
[5] وھی مدرک ص/۴۰
[6] وھی مدرک ص/۴۰
[7] وھی مدرک ص/۴۰
[8] سیمائے مھدی، سیرت مھدی ، بنیاد فرہنگی مھدی موعود
[9] حیات فکری و سیاسی امامان معصومین(ع) ، رسول جعفریان ص/۵۹۶ بنقل المھدی الموعود ج/۱ ص۲۸۰/۲۸۱ و/۳۰۰
[10] وھی مدرک ص۵۹۷ بنقل المھدی الموعود ج۱ ص/۲۶۶،۲۸۱
[11] وھی مدرک بنقل الاختصا ص ص/۲۴
[12] وھی مدرک بنقل وسائل ابواب تجارت
[13] وھی مدرک ص/۶۰۰ بنقل اصول کافی ج۱ کتاب العقل حدیث/۲۱
[14] وھی مدرک
[15] بحار الانوار ج۵۲ باب۲۷ حدیث ۱۰۶ چاپ دوم، تھران، المکتبہ الاسلامیہ۔
[16] حیات فکری و سیاسی امامان ۔۔۔رسول جعفریان ص۶۰۰ بنقل اصول کافی ج۱ کتاب العقل حدیث ۲۱۔
[17] وھی مدرک بنقل المھدی الموعود ج ۱ ص ۲۷۷،۲۷۶
[18] بحارالانوار ج/۵۲ ص/۳۱۷ باب ۲۷ حدیث ۱۲
[19] وھی مدرک ص/۳۱۸باب ۲۷ حدیث ۱۷ و کشف الغمہ ج ۲ ص / ۳۴۱
[20] حیات فکری و سیاسی امامان معصومین (ع)،رسول جعفریان ص/۶۰۰ بہ نقل بحار الانوار ج۱۰ و ۵۱ ص/۱۴۶
[21] اصول کافی ج۴ ص۴۲۷
[22] حیات فکری و سیاسی امامان معصومین(ع)،رسول جعفریان ص/۶۰۱ بہ نقل المھدی الموعود ج۱/ص/۲۶۴،۲۷۵،۲۷۷،۲۸۵، ۲۸۷،۲۸۸، ۳۱۱ و۳۱۸وج۲ ص/۱۱
[23] وھی مدرک ص/۵۹۸ بہ نقل وھی مدرک ج۱ ص۲۷۹،۲۸۲،۲۸۳
[24] بحار ج ۵۲ ص ۳۵۳ حدیث ۱۰۹ باب ۲۷
[25] حیات فکری و سیاسی ۔۔۔رسول جعفریان ص/۵۹۹ بہ نقل المھدی الموعود ص۲۵۲ تا۲۵۵
[26] بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۴۰ حدیث ۸۹ باب ۲۷ (ع)و تفسیر عیاشی (ع)
[27] حیات فکری و سیاسی امامان ۔۔۔ رسول جعفریان ص۶۰۱ بہ نقل المھدی الموعود ج۱ ص ۳۱۰ و کمال الدین ۔
[28] بحارالانوار ج۵۲ ص ۳۲۷ حدیث ۴۳ باب ۲۷ چ
[29] ہفتہ نامہ فرہنگی دانشجوئی کوئے دانشگاہ تھران ، ۸ آذر ماہ ۱۳۸۰ ھ شمسی شمارہ ۳۴