- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 13 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/11/21
- 0 رائ
بی بی زینب(س) کا یادگار اور تاریخی خطبہ
زینب(س) اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء(س) کی طرح ظالموں کے سامنے قد بلند کرتی ہیں، بھرے دربار میں خدا کی حمد و ستائش کرتی ہیں اور رسول(ص) و آل رسول(ع) پر درود بھیجتی ہیں اور پھر قرآن کی آیت سے اپنے خطبہ کا اس طرح آغاز کرتی ہیں کہ:
ثم کان عاقبۃ الذین اساؤا السوء ان کذبوا بآیات اللہ۔۔۔۔
یزید تو یہ سمجھتا تھا کہ تو نے زمین و آسمان کو ہم پر تنگ کر دیا ہے تیرے گماشتوں نے ہمیں شہر بہ شہر اسیری کی صورت میں پھرایا تیرے زعم میں ہم رسوا اور تو با عزت ہو گیا ہے؟ تیرا خیال ہے کہ اس کام سے تیری قدر میں اضافہ ہو گیا ہے اسی لیۓ ان باتوں پر تکبر کر رہا ہے؟ جب تو اپنی توانائی و طاقت (فوج) کو تیار دیکھتا ہے اور اپنی بادشاہت کے امور کو منظم دیکھتا ہے تو خوشی کے مارے آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔
تو نہیں جانتا کہ یہ فرصت جو تجھے دی گئی ہے کہ اس میں تو اپنی فطرت کو آشکار کر سکے کیا تو نے قول خدا کو فراموش کر دیا ہے۔ کافر یہ خیال نہ کریں کہ یہ مہلت جو انھیں دی گئی ہے یہ ان کے لیے بہترین موقع ہے، ہم نے ان کو اس لیے مہلت دی ہے تا کہ وہ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کر لیں، پھر ان پر رسوا کرنے والا عذاب نازل ہو گا۔
اے پسر طلقاء کیا یہ عدل ہے تیری بیٹیاں اور کنیزیں باعزت پردہ میں بیٹھیں اور رسول کی بیٹیوں کو تو اسیر کر کے سر برہنہ کرے، انہیں سانس تک نہ لینے دیا جاۓ، تیری فوج انھیں اونٹوں پر سوار کر کے شہر بہ شہر پھراۓ؟ نہ انہیں کوئی پناہ دیتا ہے، نہ کسی کو ان کی حالت کا خیال ہے، نہ کوئی سر پرست ان کے ہمراہ ہوتا ہے، لیکن جس کے دل میں ہمارے طرف سے کینہ بھرا ہوا ہے اس سے اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
تو کہتا ہے کہ کاش جنگ بدر میں قتل ہونے والے میرے بزرگ موجود ہوتے اور یہ کہہ کر تو فرزند رسول(ص) کے دندان مبارک پر چھڑی لگاتا ہے ؟ کبھی تیرے دل میں یہ خیال نہیں آتا ہے کہ تو ایک گناہ اور برے کام کا مرتکب ہوا ہے ؟ تو نے آل رسول(ص) اور خاندان عبد المطلب کا خون بہایا ہے، اے یزید خوش نہ ہو کہ تو بہت جلد خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو گا، اس وقت یہ تمنا کرے گا کہ کاش تو اندھا ہوتا اور یہ دن نہ دیکھتا تو یہ کہتا ہے کہ اگر میرے بزرگ اس مجلس میں ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے، اے اللہ تو ہی ہمارا انتقام لے اور جن لوگوں نے ہم پر ظلم و ستم کیا ہے ان کے دلوں کو ہمارے کینے سے خالی کر دے، خدا کی قسم تو اپنی اوقات سے باہر آ گیا ہے اور تم نے اپنے اجداد کے ماضی کو فراموش کر دیا ہے۔
جس روز رسول(ص) خدا، ان کے اہل بیت(ع)، اور ان کے فرزند رحمت خدا کے سایہ میں آرام کرتے ہوں گے تو ذلت و رسوائی کےساتھ ان کے سامنے کھڑا ہو گا۔ یہ دن وہ روز ہے جس میں خدا اپنا وعدہ پورا کرے گا وہ مظلوم و ستم دیدہ لوگ جو کہ اپنے خون کی چادر اوڑھے ایک گوشے میں محو خواب ہیں، انہیں جمع کرے گا۔
خدا خود فرماتا ہے: ” راہ خدا میں مرجانے والوں کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی نعمتوں سے بہرہ مند ہیں، تیرے باپ معاویہ نے تجھے ناحق مسلمانوں پر مسلط کیا ہے، جس روز محمد(ص) داد خواہ ہوں گے اور فیصلہ کرنے والا خدا ہو گا، اور عدالت الہی میں تیرے ہاتھ پاؤں گواہ ہوں گے اس روز معلوم ہو گا کہ تم میں سے کون زیادہ نیک بخت ہے۔
یزید اے دشمن خدا! میری نظروں میں تیری بھی قدر و قیمت نہیں ہے کہ میں تجھے سر زنش کروں یا تحقیر کروں، لیکن کیا کروں میری آنکھوں میں آنسو ہیں دل سے آہیں نکل رہی ہیں، شہادت حسین(ع) کے بعد لشکر شیطان ہمیں کوفہ سے تیرے دربار میں لایا ہے تا کہ اہلبیت(ع) پیغمبر(ص) کی ہتک حرمت و عزت کرنے پر مسمانوں کے بیت المال سے، جو کہ زحمت کش و ستم دیدہ لوگوں کی محنتوں کا صلہ ہے، انعام حاصل کرے۔
جب اس لشکر کے ہاتھ ہمارے خون سے رنگین ہوئے اور دہان ہمارے گوشت کے ٹکڑوں سے بھر گئے ہیں، جب ان پاکیزہ جسموں کے آس پاس درندہ کتے دوڑ رہے ہیں ایسے موقع پر تجھے سرزنش کرنے سے کیا ہوتا ہے ؟
اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ تو نے ہمارے مردوں کو شہید اور ہمیں اسیر کر کے فائدہ حاصل کر لیا ہے تو عنقریب تجھے معلوم ہو جاۓ گا کہ جسے تو فائدہ سمجھتا ہے وہ نقصان کے سوا کچھ نہیں ہے، اس روز تمہارے کیے کے علاوہ تمارے پاس کچھ نہ ہو گا، تو ابن زیاد سے مدد مانگے گا اور وہ تجھ سے، تو اور تیرے پیروکار خدا کی عدالت کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
تجھے اس روز معلوم ہو گا کہ بہترین توشہ جو تیرے باپ معاویہ نے تیرے لیے جمع کیا ہے وہ یہ ہے کہ تو نے رسول(ص) خدا کے بیٹوں کو قتل کر دیا ہے۔
قسم خدا کی میں خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اور اس کے علاوہ کسی سے شکایت نہیں کرتی، جو چاہو تم کرو، جس نیرنگی سے کام لینا چاہو، لے لو، اپنی ہر دشمنی کا اظہار کر کے دیکھ لو، قسم خدا کی جو ننگ کا دھبہ تیرے دامن پر لگ گیا ہے، وہ ہرگز صاف نہ گا، ہر تعریف خدا کے لیے ہے جس نے جوانان بہشت کے سرداروں کو کامیابی عطا کی، جنت کو ان کے لیے واجب قرار دیا ہے، خداوند عالم سے دعا ہے کہ ان کی عظمت و عزت میں اضافہ فرماۓ ان پر اپنی رحمت کے سائے کو مزید زیادہ کرے کہ وہ ہر شئی پر قدرت رکھنے والا ہے۔
سفیره کربلا کے خطاب سے مردہ ضمیروں میں بیداری
شام والے رفتہ رفتہ عراق میں گزر جانے والے حادثے کی حقیقت سے آگاہ ہو گئے اور انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ کربلا والے یزید کے حکم اور کوفہ کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوۓ ہیں رسول(ص) خدا کے نواسے حسین بن علی(ع) اور یہ خواتین بچے جنہیں قیدی بنا کر دمشق لایا گیا ہے یہ پیغمبر اسلام(ص) کے اہلبیت(ع) یہ اس کا خاندان ہے جس کی جانشینی کے نام پر یزید ان پر اور دوسرے مسلمانوں پر حکومت کر رہا ہے۔
بازار حمیدیہ جہاں شہدائے کربلا کی عورتوں اور بچوں کو اونٹوں پر لایا گیا۔ خطبہ زینب کبری کے سوختہ جگر اور تقوی سے سرشار دل سے نکلے ہوئے کلمات کا رد عمل یہ ہوا کہ پتھر دل والا بھی جب ایمان و تقوی سے سرشار اور خود کو ناتوان اور مدمقابل کو طاقتور سمجھے لگا۔ چند لحظوں کے بعد ہی قصر یزید میں موت کا سناٹا چھا گیا۔
یزید نے حاضرین کی پیشانیوں سے ناراضی اور نفرت کے آثار دیکھے تو کہنے لگا خدا ابن مرجانہ کو غارت کرے، میں حسین(ع) کے قتل کو پسند نہیں کرتا تھا، اس کے بعد اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ اسیروں کو اسی حالت میں رکھنا مصلحت کے خلاف ہے، حکم دیا کہ انہیں دوسری جگہ منتقل کر دیں۔ قریش کی خواتین میں سے جو بھی ان سے ملنا چاہتی ہیں، مل سکتی ہیں۔ زینب کی عظمت اور قوت قلب اس وقت اور اچھی طرح آشکار ہو جاتی ہے کہ جب یزید کی مجلس میں آپ کی روحانی حیثیت اور خطبہ اپنا اثر قائم کرتا ہے۔
جس زینب(س) نے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ اور مکہ معظمہ سے کربلا اور کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام کے سفر کے دوران بڑی بڑی مصیبتیں اٹھائی ہیں اور سفر میں ذرہ برابر آرام میسر نہیں آیا اور کسی ایک شخص یا جماعت کی حمایت کے بغیر قافلہ سالاری کو سنبھالے رہیں اور منزل بہ منزل ان کی حفاظت کرتی رہیں۔
اس ماحول میں لب کشائی کے لیے شیر کا کلیجہ اور جرات درکار ہے، زینب(س) کی رگوں میں علی(ع) و فاطمہ(س) کا خون دوڑ رہا ہے۔ آپ اپنے زمانہ کے بڑے بت کے سامنے اس شجاعت و شہامت سے ایسے کلام کر رئیں ہیں اور اہلبیت (ع) کی فریاد مظلومیت پوری تاریخ میں پھیلا رہی ہیں اور مردہ ضمیروں کو بیدار کر رہی ہیں۔
کلام زینب(س) کے چند نکات
جناب زینب(س) کی تقریر ایسی منطقی اور شعلہ ور تھی کہ جس کے مقابلے میں کوئی شخص کھڑا نہیں رہ سکتا تھا، زینب(س) کی تقریر کی قاطعیت و جامعیت نے یزید جیسی پلید شخصیت کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کر دیا اور رسول(ص) اور آل رسول(ع) کی عظمت و کرامت کو یاد دلایا اور الہی حق کو بنی امیہ کے بنائے ہوئے حق سے جدا کر دیا۔
اگرچہ آپ(س) کا پورا خطبہ ہی نور و معرفت ہے اور رہتی دنیا تک چراغ راہ اور سر چشمہ ہدایت ہے لیکن اس کے چند پہلو بہت اہم ہیں:
ظالم کی پہچان اس کے سیاہ کارناموں سے ہوتی ہے
جناب زینب(س) کے خطبہ کے روشن نکات میں سے ایک پہلو یزید کے خاندان کے سیاہ کارنامے اور اس کی نسل کی ناپاکی کی حقیقت کو بیان کرنا ہے، زینب(س) خاندان یزید کی پلیدیوں کو شمار کرتی ہیں اور کسی شخص میں ان کی تردید کی طاقت نہیں ہے۔ اے یزید تو ہندہ کا بیٹا ہے اور ہندہ وہ عورت ہے کہ جس نے جنگ احد میں لشکر رسول(ص) کے سردار سید الشہداء حضرت حمزہ کا جگر اپنے دانتوں سے چبا کر پھینک دیا تھا،ایسے خاندان سے سانحہ کربلا کے علاوہ اور کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔
تاریخ اسلام میں اسیری کی تعریف
زینب(س) یزید کو ابن طلقاء کہ کر مخاطب ہوتی ہیں، طلقاء ان لوگوں کو کہتے ہیں جو کہ رسول خدا سے دشمنی رکھتے تھے اور جنگ کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے وقت رسول(ص) نے انہیں آزاد کر دیا تھا اور فرمایا تھا: “اذ ھبوا انتم الطلقا ” جاؤ تم سب آزاد ہو یزید انہیں اشخاص کا بیٹا ہے جنہیں رسول نے آزاد کر دیا تھا اور آج اس نے خاندان پیغمبر(ص) کو اسیر بنا رکھا ہے، اس جملہ کے ذریعہ زینب(س) نے یزید کو یہ سمجھا دیا کہ در حقیقت قیدی تو ہے ہماری اسیری اور ہماری ذلت پر کوئی دلیل نہیں ہے اور تو ہم سے ہی غصب کیے ہوئے منبر پر اسیری کی حالت میں بیٹھا ہے۔ تیری اسیری کی علامت علی کی بیٹی کا کلام کرنا اور تیرا خاموش ہو کر بیٹھنا ہے۔
جناب زینب(س) کی اس تقریر سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی بی زینب(س) کو تاریخ اسلام پر کتنا عبور تھا۔
حزب اللہ اور حزب شیطان
جناب زینب(س) اپنے سرفراز خاندان کے نام کو حزب اللہ اور یزید کے ناپاک خاندان کو گروہ شیطان کے نام سے یاد کرتی ہیں اور فرماتی ہیں: بڑے تعجب کی بات ہے کہ حزب اللہ، گروہ شیطان اور آزاد شدہ لوگوں کے ہاتھوں مارا جاۓ، ہمارا خون تمہارے ہاتھوں سے ٹپک رہا ہے اور تمہارے منھ سے ہمارا گوشت نکل رہا ہے۔
پردہ کی اہمیت
جناب زینب(س) کے کلام سے تمام با ایمان اور اہلبیت(ع) کا اتباع کرنے والوں کو جو پیغام دیا جا سکتا ہے و عفت و حجاب کا پیغام ہے زینب خاندان پیغمبر(ص) کی خواتین بیٹیوں کو قیدی بنا کر شہروں شہروں، کوچہ و بازار میں سر برہنہ مجمع عام میں پھرانے پر تند و سخت لہجہ میں اعتراض کرتی ہیں اور اس حرکت کو عدل کے خلاف قرار دیتی ہیں، یہ حساسیت مسلمان عورت کے حجاب و عفت کی اہمیت کو بتاتی ہے کہ اس کا ہمیشہ دفاع کرنا چاہیے۔
پیشن گوئی
زینب(س) نے اپنے خطبہ کے آخر میں اعتماد کے ساتھ فرمایا: اے یزید تو اپنے تمام مکر و حیلوں کو استعمال کر لے اور اپنی پوری طاقت سے کوشش کر لے لیکن قسم خدا کی تو ہماری یاد کو نہیں مٹا سکتا ہے اور وحی الہی کو نابود نہیں کر سکتا ہے…. اور ہر تعریف خدا ہی کے لیے ہے کہ جس نے ہمارا آغاز سعادت و مغفرت سے اور اختتام شہادت و رحمت پر کیا۔
تاریخ کا یہی وہ رخ ہے جو بتاتا ہے کہ امام حسین اپنی اس انقلابی مہم میں اہل حرم کو ساتھ لےکر کیوں نکلےتھے؟
یزیدی ظلم و استبداد کے دور میں جان و مال کے خوف اور گھٹن کے ساتھ حصول، دنیا کی حرص و ہوس کا جو بازار گرم تھا اور کوفہ و شام میں بسے مال و زر کے بندوں کے لیے بیت المال کا دہانہ جس طرح کھول دیا گیا تھا، اگر حسین(ع) کے اہل حرم نہ ہوتے اور حضرت زینب(ع) اور امام سجاد(ع) کی قیادت میں اسرائے کربلا نے خطبوں اور تقریروں سے جہاد نہ کیا ہوتا تو سر زمین کربلا پر بہنے والا شہدائے راہ حق کا خون رائگاں چلا جاتا۔
اور رسل و رسائل سے محروم دنیا کو برسوں خبر نہ ہوتی کہ آبادیوں سے میلوں دور کربلا کی گرم ریت پر کیا واقعہ پیش آیا اور اسلام و قرآن کو کس طرح تہہ تیغ کر دیا گیا۔
ان مظالم کو بیان کر کے جو یزید نے کربلا کے میدان میں اہل بیت رسول(ع) پر روا رکھے تھے؛ حضرت زینب(ع) نے لوگوں کو سچائی سے آگاہ کیا۔ آپ کے خطبہ کے سبب ایک انقلاب برپا ہو گیا جو بنی امیہ کی حکومت کے خاتمے کی ابتدا تھی۔
جناب زینب کا ایک زرین قول ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ:
خداوند تعالی کو تم پر جو قوت و اقتدار حاصل ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے ڈرتے رہو اور وہ تم سے کس قدر قریب ہے اس کو پیش نظر رکھ کر (گناہ کرنے سے ) شرم کرو۔
حضرت زینب(س) اپنے بھائی امام حسین(ع) کی شہادت کے تقریبا ” ڈیڑھ سال بعد 15 رجب المرجب 62 ہجری کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئیں۔ آپ کا روضہ اقدس شام کے دار الحکومت دمشق میں ہے۔
جناب زینب کے خطبات، دینی معارف سے مالا مال، اجتماعی پہلوؤں کی حامل حقیقتوں کے عکاس مطالب پر مشتمل تھے۔ جناب زینب جو خود مکتب وحی کی ایک ممتاز معلمہ ہیں ہمیشہ اپنے خطبے کا آغاز پرودگار عالم کے ذکر سے کرتی ہیں آپ خدا کی یاد میں اس قدر غرق تھیں کہ رضائے الہی کے مقابل تمام مصیبت و آلام کومعمولی تصور کرتی تھیں لہذا پوری جرات و شہامت اور خندہ پیشانی کے ساتھ اسے برداشت کیا اور راہ حق میں پیش آنے والی مصیبتوں کو بھی نعمت الہی تصور کیا۔
جب کوفہ کے گورنر ابن زیاد نے آپ سے پوچھا کہ اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا تو آپ نے بڑے ہی اطمینان و یقین کے ساتھ جواب دیا: ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ انھیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں، عنقریب ہی خداوند عالم تمہیں اور انہیں قیامت کے دن محشور کرے گا پس تم لوگ اس دن کے بارے میں فکر کرو کہ اس دن حقیقت میں کون کامیاب ہو گا۔
یہ عظیم روحانی اقتدار،جو دشمن کی ذلت و حقارت کا سبب بنا ہے خدا کی جانب سے مدد و نصرت پر اعتماد و اطمینان کا سر چشمہ ہے۔ گویا جناب زینب نے اپنے کو خدا کی لازوال طاقتوں سے متصل کر لیا تھا۔
حضرت زینب معاشرے کی ہدایت و رہنمائی میں امام کے کردار اور مقام و منزلت سے بخوبی واقف تھیں اسی لئے واجب سمجھتی تھیں کہ اپنے بھائی امام حسین اور بھتیجے امام زین العابدین(ع) کے عظیم مقام کو اسلامی معاشرے میں امام و راہ بر کے اعتبار سے پہچانیں لہذا آپ نے کوفیوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: تم لوگ فرزند پیغمبر، جوانان بہشت کے سردار امام حسین اور ان کے بچوں کے قتل سے اپنے دامن پر لگے ننگ و عار کے بدنما داغ کو کس طرح مٹاو گے ؟ اس عظیم ہستی کے قتل کا داغ، جو تمہارے لئے بہترین پناہ گاہ،امن و اتحاد کا علمبردار، تمہارے دین کا ذمہ دار اور شریعت کا پاسباں تھا ”
حضرت زینب نے قرآنی مفاہیم پر کامل تسلط کی بنا پر اپنی تقریروں میں الہی آیات سے استفادہ کیا منجملہ ان کے آپ نے سورہ احزاب کی 33 آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے خاندان اور اپنی مادر گرامی فاطمہ زہرا(س) اور اپنے والد ماجد حضرت علی(ع) اور اپنے دونوں بھائیوں کی عصمت و طہارت کا اعلان کرتے ہوئے شجاعت و شہامت کے ساتھ فرمایا: اس خدا کا شکر جس نے ہمیں پیغمبر کے ذریعے شرف و کمال عطا کیا اور ہرطرح کے نجس سے پاک و پاکیزہ رکھا۔ اسی طرح آپ نے سورہ آل عمران کی 178 آیت کی تلاوت کر کے یزید لعین سے کہا:
تیری یہ عیش و عشرت کی زندگی جلد ہی ختم ہو جائے گی اور تیری یہ بادہ نوشی و مدہوشی عارضی اور چند روزہ ہے۔
خداوند عالم تجھ سے سخت مواخذہ کرے گا یہ دنیا اور اس کی زندگی گناہگاروں کے لئے مہلت ہے کہ وہ اپنے عذاب میں اور زیادہ اضافے کے لیے مواقع فراہم کریں۔
کربلا کی شیر دل خاتون نے بارہا اپنے خطبوں میں یزید و ابن زیاد کو ذلیل و خوار کیا اور ان کی کھل کر مذمت کی اور قران و اسلام سے ان کی دیرینہ دشمنیوں کو یاد دلایا۔
آپ نے خدا و پیغمبر کے خلاف، یزید کی سرکشی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا ” تو نے اس کام کے ذریعے خدا کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے اور پیغمبر اسلام، قران اور احکام اسلامی کا انکار کیا ہے،
اگر مصیبتوں، پریشانیوں، سختیوں اور موجودہ حالات نے ہمیں ایسی منزل پر لا کر کھڑا نہ کیا ہوتا کہ میں تجھ سے کلام کرنے پر مجبور ہوتی تو تجھ جیسے بدترین فاسق و فاجر سے کبھی بھی کلام نہ کرتی، میں تیرے ظاہری رعب و دبدبے کو تیری حقیقی حالت سے بہت زیادہ پست جانتی ہوں اور تجھ پر بہت زیادہ لعنت بھیجتی ہوں۔
حق کی باطل پر کامیابی ایک ایسی سنت الہیہ ہے جو جناب زینب کے خطبات اور تقریروں میں پوری طرح حکمراں تھے۔ جناب زینب کے کلام سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ باطل اگرچہ ممکن ہے ظاہری کامیابی اور اقتدار پر قبضہ جما لے اور ایک دنیا پرست ظالم و جابر حکمراں اپنے جھوٹے جاہ و حشم اور اقتدار کی دھونس جما کر چند دنوں اپنا رعب و دبدبہ قائم کر لے لیکن بالآخر دنیا اور آخرت میں حق کو ہی کامیابی ملے گی۔
اسی بنیاد پر جو افراد کربلا میں امام حسین کے ساتھ آخری دم تک موجود رہے ہیں اور درجہ شہادت پر فائز ہوئے ہیں وہ زندہ جاوید ہیں۔
حضرت زینب نے یزید کو مخاطب کرتے ہوئے بھرے دربار میں فرمایا تھا
اے یزید، دنیا کی زندگی بہت ہی مختصر ہے اور تیری دولت اور عیش و عشرت کی زندگی اسی طرح ختم ہو جائے گی جس طرح ہماری دنیوی مصیبتیں اور مشکلیں ختم ہو جاتی ہیں مگر کامیابی و کامرانی ہمارے ساتھ ہے کیونکہ حق ہمارے ساتھ ہے۔
امام حسین کی شہادت کے بعد دراصل حضرت زینب نے حسینی پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانا ایک دینی و الہی فریضہ تصور کیا اور اپنی خداداد فصاحت و بلاغت اور بے نظیر شجاعت و شہامت کے ذریعے ظلم و ستم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ حضرت زینب(س) نے اپنی پاک و پاکیزہ زندگی کے دوران اہل بیت پیغمبر کے حقوق کا دفاع کیا اور کبھی اس بات کی اجازت نہ دی کہ دشمن، واقعہ کربلا سے ذاتی فائدہ اٹھا سکے، جناب زینب کے خطبوں کی فصاحت و بلاغت اور انداز بیاں نے لوگوں کو آپ کے بابا علی مرتضی کی یادیں تازہ کر دیں تھیں۔
اس عظیم خاتون نے الہی حقائق ایسے فصیح و بلیغ الفاظ میں بیان کیے جو ان کے عالمہ غیر معلمہ ہونے اور قرآن و سنت پر کامل دسترس پیدا کر لینے کو ظاہر کرتے تھے۔
چنانچہ عرب کے مشہور و معروف ادیب جاحظ نے کسی کا قول، کہ جس نے جناب زینب کے خطبوں اورتقریروں کو سنا تھا، نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
میں حسین ابن علی کی شہادت کے بعد کوفہ میں داخل ہوا اس وقت زینب بنت علی خطبہ دے رہی تھیں ہم نے آج تک اسیری کی حالت میں کسی بھی خاتون کو ان سے زیادہ فصیح و بلیغ خطبہ پیش کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے علی خطبہ دے رہے ہوں۔
اہل بیت اطہار وہ مقدس نفوس ہیں جو فیوضات نبوت سے براہ راست فیض یاب ہو ئے اور رہتی دنیا تک نور الہی اور راہ حق کے صحیح ترجمان بن گئے۔ خانوادہ رسول ہی وہ مبارک خاندان ہے جس کے معزز و مبارک افراد نے بقائے حق اور فنائے باطل کیلئے ایثار و قربانی، صبر و استقامت، جرات و شجاعت اور ہمت و عزیمت کی بے مثا ل و بے نظیر مثالیں قائم کر دیں۔ اور راہ حق پہ بے خوف و خطر چلتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
واقعہ کربلا جہاں فخر بشریت، نواسہ رسول امام حسین کی قربانیوں کا مظہر ہے وہیں دختر بتول سیدہ زینب کے کامل کردار کی عظمتوں کا امین بھی ہے۔ تاریخ میں کوئی عظیم فتح ایسی دکھائی نہیں دیتی جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ خوا تین بھی اپنے پختہ ارادوں، اخلاقی، نظریاتی اور عملی معاونت کے ساتھ شریک کار نہ رہی ہوں۔ اسکی کئی مثالیں اسلام کے دور آغاز سے لے کر واقعہ کربلا تک نظر آتی ہیں۔ ایثار، قربانی، صدق، وفا، صبر، استقامت، جرات اور شجاعت کا سفر جو سیدہ خدیجۃ الکبری سے شروع ہوا میدان کربلا میں وہ سیدہ زینب کی صورت میں درجہ کمال پر دکھائی دیتا ہے۔
فضائل اور کراما ت نبوی سے معمور معزز و محترم گھرانے میں پیدا ہو کر، علی حیدر کرار کے جاہ و جلالت کا مظہر بن کر، آغوش زہرا کی پاکیزہ تربیت کا پیکر بن کر، اخلاق و کمالات سے مزین جو کردار تاریخ کی پیشانی کا جھومر بنا زمانہ اسے بی بی زینب کے نام سے یاد کرتا ہے۔ در حقیقت سیدہ زینب کی شخصیت تاریخ ِ بشریت میں کردار کی بلندی کا وہ مینارہ نور ہے جس کی کرنیں انسانیت کے لیے ہمیشہ کیلئے مشعل راہ بن چکی ہیں۔
واقعہ کربلا میں دختر بتول کی بے مثال شرکت نے تاریخ بشریت میں اعلائے کلمتہ الحق کیلئے لڑی جانے والی سب سے بڑی جنگ میں بپا ہونے والے انقلاب کو رہتی دنیا کیلئے جاوداں بنا دیا۔ کربلا کے عظیم معرکے کے دوران اور اسکے بعد سیدہ زینب کے کردار کا ہر پہلو اہمیت کا حامل اور چراغِ راہ کی مانند ہے مگر آپ کا انقلابی کردار تاریخ کی کتاب میں درخشندہ باب بن کر چمک رہا ہے۔
محسن نقوی نے کیا خوب کہا ہے
آیاتِ حق کی چھائوں میں عصمت کا پھول تھیں
زینب کہیں علی تھیں کہیں پر بتول تھیں
اسلام کا سرمایہ ء تسکین ہے زینب
ایمان کا سلجھا ہوا آئین ہے زینب
حیدر کے خدوخال کی تزئین ہے زینب
شبیر ہے قرآن تو یاسین ہے زینب
یہ گلشنِ عصمت کی وہ معصوم کلی ہے
تطہیر میں زہرا ہے تو تیور میں علی ہے
التماس دعا …..
منبع https://www.valiasr-aj.com/