- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : محقق نمبر تین
- 2024/12/17
- 0 رائ
مسلمانوں کو اپنی سرداری کے حصول کے لئے، امام کی پہچان کا فلسفہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ نادان لوگ اس کو شیعہ سنی تناظر میں، اختلاف کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ امام کی پہچان فقط خلافت کے سچے اور جھوٹے دعویداروں کی شناخت کا مسئلہ ہی نہیں، بلکہ جس طرح دین کی تبلیغ کے لئے رسالت کا عہدہ الٰہی ہے، اسی طرح اسلامی ممالک کی سرحدوں کی حفاظت اور قوانین الٰہی کو اجرا کرنے جیسا عظیم منصب بھی الٰہی ہے۔
مسلمانوں کا اتحاد اور امام کی پہچان کی ضرورت
مسلمانوں کا اتحاد و یکجہتی ایک ایسی واضح چیز ہے جس کی ضرورت سے کسی بھی عقلمند کو انکار نہیں ہے، کیوںکہ جو لوگ ایک کتاب کی پیروی کرتے ہیں اور اساسی و اصولی مسائل پر اتفاق رائے رکھتے ہیں، وہ مختلف فرقوں، گروہوں اور دشمن جماعتوں کی شکل میں کیوں رہیں۔
اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ہوں؟ اگر ماضی میں لوگوں کے اکثر طبقوں کو اس اتحاد کی ضرورت کا احساس نہیں تھا تو آج جب کہ استعماری طاقتیں اسلامی ممالک کے قلب پرحملہ آور ہیں اور ہر روز آگے بڑھتی نظر آتی ہیں ایسے میں ہر عاقل و ہوشیار شخص کو اتحاد کی ضرورت کا بھر پور احساس ہے۔
کون غیرت مند مسلمان ہوگا جو فلسطین، بوسنیا، کشمیر، چچنیا اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کی نا قابل بیان حالت کو دیکھے اور خون کے آنسو نہ روئے اور اس بے حسی اور پراکندگی پر گریہ نہ کرے؟!
مسلمان، دنیا کی ایک چوتھائی جمعیت کو تشکیل دیتے ہیں۔ اور انسانی طاقت، زمینی ذخائر اور اصیل اسلامی ثقافت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے زیادہ غنی جمعیت ہیں۔ ایسی مادی اور معنوی طاقتوں سے سرشار مسلمان سیاست کے میدان میں سب سے زیادہ با وزن ہو سکتے ہیں۔
اور دنیا کی سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی قیادت و رہبری اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں اور استعمار، نیز اسلامی اتحاد کے مخالفوں کی بنائی ہوئی بہت سی جغرافیائی حدود کو نا دیدہ قرار دے کر مسلمانوں کی باہمی ضرورتیں پوری کر سکتے ہیں، نیز اقتصادی و ثقافتی مبادلات کے ذریعہ اپنے حالات بہتر بنا سکتے ہیں۔
یہ سب فقط حقیقی امام کی پہچان و معرفت سے ہی ممکن ہے۔ اس طرح اپنی سیادت و سرداری دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن اتحاد کی اس اہمیت کو مد نظر رکھنے کے با وجود امام کی پہچان و معرفت کے موضوع کو اسلامی اتحاد کی راہ کا کانٹا نہیں سمجھنا چاہئے اور اسے، اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نہیں سمجھنا چاہئے، جس کی ضرورت کو سب لوگ محسوس کرتے ہیں۔
حقیقی امام کی پہچان اور دھوکہ کھانے والے لوگ
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض سادہ لوح یا فریب خوردہ جوان اسلامی اتحاد کو عثمان کا کڑتہ بنا کر طالبان حقیقت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ابوبکر و حضرت علی (ع) کی خلافت کی بحث اور یہ کہ صحیح جانشین کون ہے ایک غیر مفید اور بے ثمر بحث ہے۔ اس لئے کہ زمانہ کا پہیا اب پیچھے نہیں گھومے گا اور ہم پیغمبر (ص) کے حقیقی جانشین کو زندہ نہیں کر پائیں گے، کہ اسے اس کا حق دلائیں اور مسند خلافت پر بٹھائیں اور مخالف کی تنبیہ اور اس کا مواخذہ کریں۔ پس بہتر ہے کہ یہ فائل ہمیشہ کے لئے بند کر دی جائے اور اس کی بجائے کوئی دوسری گفتگو کی جائے!
اس خیال کے حامل افراد اس بحث کے درخشاں نتائج سے غافل ہیں لہٰذا انھوں نے اسے غیر اہم، بے فائدہ اور اسلامی اتحاد کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا ہے، لیکن ہمارے خیال سے یہ فکر امام کی پہچان کے فلسفہ سے غفلت اور لا علمی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
کیوںکہ اگر اس بحث کا مقصد جھوٹے دعویداروں کے درمیان صرف پیغمبر (ص) کے حقیقی جانشین کا پہچاننا ہو، تو اس صورت میں ممکن ہے کہ اس طرح کی بحثوں کو غیر مفید و بے ثمر کہیں اور افراطیوں کی طرح جو ہر طرح کی علمی و منطقی بحث کو اسلامی اتحاد کے خلاف سمجھتے ہیں،
ہم بھی اسے اتحاد کی راہ کا کانٹا سمجھیں۔ اس لئے کہ اب کیا فائدہ ہے کہ چودہ صدیوں کے بعد حق کو نا حق سے تشخیص دینے کی کوشش کی جائے اور غاصب کے خلاف ایک غائبانہ حکم صادر کیا جائے جس کی کوئی عملی ضمانت نہیں ہے۔
لیکن یہ اعتراض اس وقت بے جا ہے جب ہم علمائے اہل سنت کی طرح اسلامی امامت و خلافت کو ایک طرح کا عرفی منصب جانیں جس کا فریضہ اسلامی سرحدود کی حفاظت کرنا، دفاعی طاقتوں کو مظبوط کرنا، عدل و انصاف کو رواج دینا، حدود الٰہی کو قائم کرنا اور مظلوموں کو ان کا حق دلانا وغیرہ ہو۔
کیونکہ اس صورت میں اس قسم کی بحثوں کی نوعیت یہ ہو گی کہ ہم بیٹھ کر یہ بحث کریں کہ پندرہویں صدی عیسوی میں برطانیہ پر کس شخص کی حکومت تھی یا ’’لوئی پنجم‘‘ کے بعد تخت حکومت پر بیٹھنے کا حق کس کو تھا؟!
شیعی نقطہ نظر اور منصب امامت
لیکن شیعی نقطہ نظر سے جو امامت کو رسالت کا سلسلہ اور نبوت کے فیض معنوی کا تتمہ سمجھتے ہیں، اس طرح کی بحث لازمی وضروری ہے کیونکہ اس صورت میں امام کے فرائض صرف مذکورہ بالا امور میں ہی خلاصہ نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ ان تمام امور کے علاوہ امام، حضرت رسول خدا (ص) کی رحلت کے بعد احکام الٰہی کو بیان کرنے والا، قرآن کی مشکل آیات کا مفسر اور حرام و حلال کو بتانے والا بھی ہے۔
اس صورت میں یہ سوال پیش آتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد مسلمانوں کو احکام الٰہی کی تعلیم دینے اور حرام و حلال بتانے والا کون ہے تا کہ پیش آنے والے نئے مسائل میں قرآن کی نص اور پیغمبر اکرم (ص) کی کوئی معتبر حدیث موجود نہ ہونے کی صورت میں مسلمان اس کی طرف رجوع کریں اور اس کا قول ان موارد میں حجت قرار پائے۔
اصولا اسلامی امت قرآن کے مشکلات اور اختلافی مسائل میں، جن کی تعداد محدود بھی نہیں ہے آخر کس صاحب منصب کی طرف رجوع کریں اور کس کے قول و عمل کو اپنی زندگی کے لئے حجت اور چراغ راہ قرار دیں؟
یہی وہ منزل ہے جہاں ہم رسول خدا (ص) کے علمی جانشین کے بارے میں بحث کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اور امام کی پہچان لازمی امر قرار پاتی ہے۔ اور یہاں یہ مسئلہ مکمل طور سے زندہ صورت اختیار کر لیتا ہے کیونکہ اس نظریہ کی روشنی میں امام، الٰہی معارف اور اصول و احکام میں امت کا رہنما ہوتا ہے اور جب تک یہ منصب قطعی دلائل کے ذریعہ پہچانا نہ جائے صحیح نتیجہ تک نہیں پہنچا جاسکتا۔
امام کی پہچان کا فلسفہ اور جدید مسائل کا حل
اگر مسلمان تمام اصول و فروع میں اتفاق و اتحاد رکھتے تو امامت کے سلسلہ میں بحث اس قدر ضروری نہ ہوتی، لیکن افسوس کہ ان کے یہاں کم ہی مسائل میں اتحاد پایا جاتا ہے۔ اب ہم جو پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے چودہ سو سال بعد وجود میں آئے ہیں، ہمارا وظیفہ کیا ہے؟
آیا اس زمانہ میں پیدا ہونے والے مسائل، مشکلاتِ قرآن اور اختلافی مسائل میں کسی نہ کسی صحابی کی رائے منجملہ ’’ابو حنیفہ یا شافعی‘‘ کی طرف رجوع کریں یا حضرت علی (ع) اور ان کی گرانقدر اولاد کی طرف رجوع کریں جن کے لئے شیعوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی فضیلت، عصمت، طہارت، وسیع و عمیق علم اور پیغمبر اسلام (ص) کی جانب سے ان کے منصب امامت پر فائز کئے جانے کے سلسلہ میں عقلی و نقلی دلیلیں موجود ہیں؟
اس سوال کا جواب اسی ”امام کی پہچان“ کے موضوع اور ولایت کی بحث میں ملے گا جس میں تحقیق، انسان کو مذکورہ بالا مشکلات میں حیرت و سرگردانی سے نجات دے گی۔ حتی اگر ہم مسئلہ خلافت کو بھی چھوڑ دیں اور پیغمبر اکرم (ص) کے بعد مسلمانوں کی سرپرستی و حاکمیت جو حقیقت میں ایک معصوم کا حصہ ہے،
قطع نظر یہ کہ اگر اس سے چشم پوشی کر بھی لیں تو صرف اسی مسئلہ کی تحقیق کہ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد مسلمانوں کا دینی و علمی مرجع و راہنما کون ہے، بہت سی جہات سے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور مسلمانوں کی مکمل سعادت و خوشبختی بھی اس سے وابستہ ہے اس لئے ان باتوں کا تذکرہ مختصراً یہاں کرتے ہیں۔
رحلت پیغمبر (ص) اور مسلمانوں کا مرجع دینی
اگر ہم اس وقت خلافت و حاکمیت کے مسئلہ سے صرف نظر کر دیں تو پورے اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کی مکرر تصریحات و تاکیدات کی روشنی میں آپ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے پاس قرآن کے علاوہ صرف ایک دینی و علمی مرجع و ملجا ہے اور وہ پیغمبر اکرم (ص) کے اہل بیت (ع) ہیں، کیونکہ آنحضرت نے مختلف موقعوں پر کتاب و عترت کے اٹوٹ رشتہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے:
”یا ایها الناس إني أوشك أن ادعى فأجيب، وإني تارك فيكم الثقلين: كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الأرض، وعترتي أهل بيتي، وإن اللطيف الخبير أخبرني أنهما لن يفترقا“[1]
”اے لوگو! میں عنقریب خدا کی دعوت پر لبیک کہنے والا ہوں۔ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر اور سنگین امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت ہے۔ اللہ کی کتاب وحی الٰہی اور ریسمان نجات ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور میری عترت اور اہل بیت، اور خدائے لطیف نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوںگے“
پیغمبر اکرم (ص) نے ان دونوں حجتوں کو لازم و ملزوم قرار دینے کے لئے آخری حج کے روز عرفہ یا غدیر کے دن منبر سے یا اپنی بیماری کے دوران بستر پر لیٹے ہوئے، جبکہ آپ کا حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا صراحت سے بیان کیا اور آخر میں فرمایا ہے کہ:
”هٰذا عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ، وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ“[2]
یہ علی ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ہمراہ ہے۔
یہ تمام دلائل واضح طور پر ایک منصوص من اللہ، حقیقی امام کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ یہ امام نہ صرف قرآن و سنت کا صحیح مفسر ہے بلکہ اسلامی مملکت کی قیادت کا واحد اہل اور اس میں عدل و انصاف کو قائم کرنے کی صلاحیت رکھنے والا بھی ہے۔ بلاشبہ، اھل بیت کے شیعہ ہی اس حقیقی امام کی پہچان رکھتے ہیں اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ اہل بیت (ع) کے ان سچے پیروکاروں کی پیروی کریں۔
حدیث ثقلین اور شیخ شلتوت کا فتویٰ
حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے ایک دو نہیں ہیں جن کو یہاں ذکر کر دیا جائے۔ اس حدیث کے مدارک علامہ میر حامد حسین ہندی نے اپنی گرانقدر کتاب ”عبقات الانوار“ کی بارہویں جلد میں بیان کئے ہیں اور یہ کتا ب ہندوستان میں چھپ چکی ہے اور چند سال پہلے چھ جلدوں میں اصفہان میں بھی دوبارہ چھپی ہے۔
اور دار التقریب مصر سے بھی اس سلسلہ میں ایک کتاب چھپ چکی ہے جس کی بنیاد پر ’’جامعہ الازہر‘‘ کے سر براہ ’’شیخ شلتوت‘‘ نے چار مذاہب کی پیروی کے انحصار کو توڑا اور فتوا دیا کہ فقہ امامیہ کی پیروی بھی صحیح اور مجزی ہے۔
شیخ شلتوت سے پوچھا گیا کہ بعض لوگوں کا اعتقاد ہے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اپنی عبادات اور معاملات صحیح کرنے کے لئے چار مشہور مذاہب (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) کی تقلید کرے کہ شیعہ اثنا عشری اور زیدی مذہب ان میں سے نہیں ہیں، کیا جناب عالی بھی اس کلی نظریہ سے اتفاق رکھتے ہیں اور اثنا عشری مذہب کی تقلید و پیروی کو منع فرماتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب میں کہا:
1۔ اسلام نے اپنے کسی پیروکار پر یہ واجب نہیں کیا ہے کہ (فرعی احکام میں) کسی معین مذہب کی پیروی کرے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہر مسلمان کو یہ حق ہے کہ ہر اس مذہب کی پیروی کرے جو صحیح مدارک کے مطابق ہم تک نقل ہوا ہے اور اس کے احکام کو مخصوص کتابوں میں تدوین کیا گیا ہے۔ اسی طرح جن لوگوں نے کسی ایک مذہب کی پیروی کی ہے (چاہے وہ جوبھی مذہب ہو) وہ دوسرے مذہب کی طرف رجوع کر سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
2۔ جعفری مذہب، مشہور اثنا عشری امامیہ مذہب ہے اور ان مذہبوں میں سے ہے کہ اہل سنت کے تمام مذہبوں کی طرح اس کی بھی تقلید کی جاسکتی ہے۔
لہٰذا بہتر ہے کہ تمام مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ہوں اور کسی خاص مذہب سے تعصب کرنے سے پرہیز کریں کیونکہ اللہ کا دین اور اس کا قانون کسی خاص مذہب کے تابع اور کسی معین و مخصوص مذہب میں منحصر نہیں ہے۔ سب مجتہدین اور خداوند عالم کے نزدیک مقبول ہیں اور جو لوگ اہل نظر اور صاحب اجتہاد نہیں ہیں ان کے لئے جائز ہے کہ ان حضرات کی تقلید کریں اور جو کچھ انہوں نے فقہ میں مقرر کیا ہے اس پر عمل کریں۔ اس سلسلہ میں عبادات و معاملات میں کوئی فرق نہیں ہے۔[3]
نتیجہ
امام کی پہچان کے فلسفے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ، یہ فقط خلافت اور منصب کی بحث نہیں، بلکہ اسلام کے قوانین کا صحیح اجرا، قرآن کی درست تفسیر، معاشرے میں عدل و انصاف کا یقینی بنانا، جیسے اہم فرائض سے متعلق حقیقت ہے۔ اس امر کی اہمیت کو، ’’حدیث ثقلین‘‘ جیسے متون، جو اہل تسنن مصادر میں کثرت سے دیکھے جا سکتے ہیں، جو کہ پیغمبر (ص) کی زبانی کئی مواقع پر لوگوں نے سنا۔
حوالہ جات
[1]۔ مجلسي، بحار الأنوار، ج۲۳، ص١٠٨۔
[2]۔ ابن حجر هيتمى، الصواعق المحرقة، دوسری فصل، نواں باب، ص۵۷، ح۴۱۔
[3]۔ محمد المدنی، رسالة الاسلام، شمارہ سوم، سال۱۱۔
منابع
۱۔ قرآن کریم۔
۲۔ ابن حجر هیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقة فی الرد علی أهل البدع و الزندقة، قاهره، مکتبة فیاض، ۱۴۲۹ھ ق۔
۳۔ مجلسي، محمد باقر، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، بيروت، داراحياء التراث العربي،۱۴۰۱ھ ق۔
۴۔ محمد المدنی، محمد، رسالة الإسلام، قاھرہ، دار التقريب بين المذاهب الإسلامية، ۱۳۶۸ھ ق۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، پہلی فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ھ ش۔