- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/05/18
- 0 رائ
”تشیع“ کے معنی نسبت، مشایعت، متابعت اور ولاء کے ھیں، یہ لفظ قرآن مجید میں بھی بیان ھوا ھے: وَ اِنَّ مِن شِیعَتِہِ لإبرَاہِیمَ إذ جَاءَ رَبَّہُ بِقَلبٍ سَلِیم[1] ان کے شیعوں میں سے ابراھیم بھی ھیں جب وہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں قلب سلیم کے ساتھ آئے۔
یعنی نوح(ع) کے پیروؤں میں سے ابراھیم(ع) بھی تھے جو خدا کی وحدانیت اور عدل کی طرف دعوت دیتے تھے اور نوح(ع) ھی کے نہج پر تھے۔
لیکن یہ لفظ علی(ع) بن ابی طالب اور آپ(ع) کے بعد آپ(ع) کی ذریت سے ھونے والے ائمہ سے محبت و نسبت رکھنے والوں کے لئے استعمال ھونے لگا ھے۔ یھی رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت(ع) ھیں کہ جن کی شان میں آیت تطھیر اور آیت مودت نازل ھوئی ھے۔
تاریخ اسلام میں یہ لفظ اھل بیت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے محبت و نسبت اور ان کے مکتب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے شھرت پا گیا ھے۔ اس محبت و نسبت اور اتباع کے دو معنی ھیں: سیاسی اتباع و نسبت (سیاسی امامت) اور ثقافتی و معارفی اتباع (فقھی و ثقافتی مرجعیت) یہ وہ چیز ھے جس کے ذریعہ شیعیانِ اھل بیت(ع) پہچانے جاتے ھیں اور دوسرے مسلمانوں سے ممتاز ھوتے ھیں۔
اب آپ کے سامنے مذکورہ دونوں شقوں کی وضاحت کی جاتی ھے:
۱۔ اھل بیت کی سیاسی امامت
رسول(ع) نے حجة الوداع سے واپس لوٹتے ھوئے، غدیر خم میں (قافلہ کے) مختلف راستوں میں بٹنے سے پھلے یہ حکم دیا کہ جو لوگ آگے بڑھ گئے ھیں ان کو واپس بلایا جائے اور جو پیچھے رہ گئے ھیں وہ آپ سے ملحق ھو جائیں یھاں تک کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس لوگوں کا جم غفیر جمع ھو گیا۔ اس وقت شدید گرمی تھی اس سے پھلے وہ اتنی شدید گرمی سے دوچار نھیں ھوئے تھے۔
رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حکم سے شامیانے لگائے گئے ان کے نیچے جھاڑو لگائی گئی، پانی چھڑکا گیا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے کپڑے سے سایہ کیا گیا۔ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے نماز ظھر پڑھی پھر خطبہ دیا اور لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیا کہ آپ کا وقت قریب ھے پھر آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے علی بن ابی طالب کا ھاتھ پکڑا (اور اتنا بلند کیا کہ) آپ کی بغلوں کی سفیدی نمایاں ھو گئی اس کے بعد فرمایا:
اے لوگو! کیا میں تم سب سے اولیٰ نھیں ھوں۔ سب نے کھا: ھاں! پھر فرمایا: جس کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی مولا ھیں، اے اللہ جو ان کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو ان کو دشمن سمجھے تو اس کو دشمن سمجھ، جو ان کی نصرت کر ے تو اس کی مدد فرما اور جو ان کو چھوڑ دے تواس کو رسوا فرما۔
خدا نے اپنے رسول کو اس سے پھلے اس پیغام کو پھنچانے کا حکم دیا تھا جیسا کہ ارشاد ھے: یَا اٴیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغ مَا اٴُنزِلَ إلَیکَ مِن رَّبِّکَ وَإن لَّم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتَہُ وَالله یَعصِمُکَ مِنَ النَّاسِ[2]
اس آیت میں خدا نے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو یہ حکم دیا ھے کہ لوگوں کو اپنے بعد ھونے والے وصی اور ولی کا تعارف کرا دیں۔ یہ بات آیت میں بڑی تاکید کے ساتھ کھی گئی ھے، ھمیں قرآن مجید میں کوئی دوسری آیت ایسی نھیں ملتی جس میں رسول کو اس انداز میں مخاطب کیا گیا ھو وَإن لَّم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتَہ اس کے بعد رسول کو اطمینان دلانے کے انداز میں مخاطب کیا ھے کیونکہ اس وقت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) خود کو لوگوں کے شر سے محفوظ نھیں سمجھ رھے تھے لہذا خدا نے فرمایا:
وَالله یَعصِمُکَ مِنَ النَّاسِ
جب رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے لوگوں کو ولایت اور وصایت کے بارے میں بتا دیا اور تبلیغ دین کی تکمیل کر دی تو اس سلسلہ میں خدا نے فرمایا:
اٴلیَومَ اٴکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَ اٴتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَ رَضِیتُ لَکُمُ الإسلاَمَ دِینًا
عھد صحابہ سے آج تک تاریخ کے اس عظیم واقعہ کی روایتیں ھر طبقہ اور سند کے اعتبار سے متواتر ھیں چنانچہ طبقہ اولیٰ میں ایک سو دس صحابہ سے زیادہ نے اس کو بیان کیا ھے اور دوسرے طبقہ میں ۸۴ تابعین نے اس کی روایت کی ھے، اس کے بعد راویوں کے طبقات میں وسعت ھوتی رھی شیخ عبد الحسین امینی نے اپنی کتاب ”الغدیر“ کی پھلی جلد میں اس حدیث کے راویوں کی تعداد بیان کی ھے، ھمارے ساتھی محقق سید عبد العزیز طباطبائی نے اس کی مستدرک لکھی ھے، جس میں موصوف نے کچھ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور منابع و ماخذ کا اضافہ کیا ھے۔
اس حدیث کے طرق اتنے صحیح ھیں کہ اس میں شک نھیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس حدیث کو حفاّظ، محدثین، مفسرین، مورخین اور بہت سے لوگوں نے بیان کیا ھے کہ ان سب کا بیان کرنا ھماری طاقت سے باھر ھے، ترمذی اپنی صحیح میں، ابن ماجہ نے سنن میں، احمد بن حنبل نے مسند میں، نسائی نے خصائص میں، حاکم نے مستدرک میں، متقی ھندی نے کنز العمال میں، مناوی نے فیض القدیر میں ، ھیثمی نے مجمع الزوائد میں، محب الطبری نے ریاض النضرة میں، خطیب نے تاریخ بغداد میں، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، ابن اثیر جزری نے اسد الغابة میں، طحاوی نے مشکل الآثار میں، ابو نعیم نے حلیة الاولیاء میں، ابن حجر نے صواعق محرقہ میں، ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اور بہت سے لوگوں نے حدیث غدیر کی روایت کی ھے کہ اس مقدمہ میں ان کا ذکر نھیں کیا جا سکتا۔
ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں بعض ان صحابہ کے اسماء تحریر کئے ھیں جنھوں نے حدیث غدیر کی روایت کی ھے اور لکھا ھے کہ ابن جریر طبری نے اپنی تالیف میں حدیث ولایت کو نقل کیا ھے، اس میں اس حدیث کو نقل کرنے والوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ھے اور موصوف نے اسے صحیح قرار دیا ھے۔ پھر لکھتے ھیں: ابو العباس بن عقدہ نے اس حدیث کے طرق کو جمع کیا ھے اور سترّ یا سترّ سے زیادہ صحابہ سے اس کی روایت کی ھے۔[3]
فتح الباری میں لکھا ھے: لیکن، حدیث” من کنت مولاہ فعليّ مولاہ“ کو ترمذی اور نسائی نے نقل کیا ھے اور اس کے طرق بہت زیادہ ھیں۔ ان طرق کو ابن عقدہ نے ایک الگ کتاب میں جمع کیا ھے۔ اس حدیث کی زیادہ تر سندیں صحیح اور حسن ھیں۔[4]
لہذا اس کے متن و سند میں کوئی شک نھیں کرے گا اور اس کے جو قرائن ھیں وہ اتنے روشن ھیں کہ شک کی گنجائش ھی نھیں رہتی ھے۔
رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا شدید گرمی میں صحابہ کے جم غفیر کو، ان کے مختلف راستوں میں تقسیم ھونے سے قبل، جمع کرنا اور جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کرنا اور جو آگے نکل گئے تھے ان کو پیچھے بلانا، امت کی سرنوشت میں اھمیت کے حامل ایک امر کے لئے تھا۔ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے علی(ع) کا ھاتھ بلند کرنے اور” من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ کھنے سے پھلے صحابہ سے معلوم کیا: کیا میں تمھارے نفسوں پر خود تم سے زیادہ حق تصرف نھیں رکھتا ھوں؟ سب نے کھا: بیشک، آپ اولیٰ ھیں اور یہ تمام مسلمانوں پر رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حاکمیت و ولایت کے معنی ھیں- لہذا فرمایا:
”من کنت مولاہ فھذا عليّ مولاہ“
پھربہت سے بزرگ صحابہ علی(ع) کو ولایت کی مبارک باد دینے کے لئے خدمت علی(ع) میں حاضر ھوئے، ان میں ابوبکر و عمر بھی شامل تھے۔
اس کے علاوہ اس کی دلالت، شھرت، گواھی اور تصریح رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد ھونے والے خلیفہ اور امام کے لئے کافی ھے ۔ اس سے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا مقصد تھا کہ علی(ع) کو اپنے بعد مسلمانوں کا امام بنا دیں مگر کیا کیا جائے کہ سیاسی امور آڑے آ گئے اور لوگ اس حدیث کی دلالت میں شک کرنے لگے جب کہ اس کی سند میں شک کرنا ان کے لئے آسان نھیں تھا۔ شیعیان اھل بیت اس اور دوسری واضح و صحیح حدیثوں کی روشنی میں رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد علی(ع) کو اور ان کے بعد ان کی ذریت سے ھونے والے ائمہ کو سیاسی امام تسلیم کرتے ھیں۔
۲۔ اھل بیت (ع) ، فقھی و ثقافتی مرجعیت
یہ نکتہ ان دو روشن شقوں میں سے ایک ھے جن کے ذریعہ اھل بیت(ع) کے شیعہ دوسرے مسلمانوں سے جدا ھوتے ھیں۔
رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اھل بیت(ع) کو اپنی حیات ھی میں مسلمانوں کا مرجع بنا دیا تھا کہ وہ حلال و حرام میں ان سے رجوع کریں گے وہ انھیں سیدھے راستہ کی ھدایت کریں گے اور ان کو گمراھی سے بچائیں گے: اور اھل بیت(ع) کو قرآن سے مقرون کیا تھا یہ بات حدیث ثقلین سے ثابت ھے جو کہ محدثین کے درمیان مشھور ھے اور فریقین کے نزدیک صحیح ھے اور رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اس کی روایت متواتر ھے اور یہ تواترھے اور شھرت اس لئے ھے کہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے بعد اس کے پھیلانے کا اہتمام کیا تھا۔
جن لوگوں نے اس حدیث کی روایت کی ھے ان میں سے مسلم بن حجاج بھی ھے انھوں نے صحیح مسلم کے باب فضائل علی بن ابی طالب میں زید بن ارقم سے روایت کی ھے کہ انھوں نے کھا: ایک روز رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) خدا ایک تالاب کے کنارے، جس کو خم کہتے ھیں اور مکہ و مدینہ کے درمیان واقع ھے، ھمارے درمیان خطبہ دینے کے لئے کھڑے ھوئے، پھلے خدا کی حمد و ثناء کی، پھر لوگوں کو وعظ و نصیحت کی اس کے بعد فرمایا: اے لوگو! میں بھی بشر ھوں، قریب ھے کہ خدا کا فرستادہ آئے اور میں اس کی آواز پر لبیک کھوں، میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑنے والا ھوں ان میں سے ایک کتاب خدا ھے جس میں ھدایت و نور ھے، لہٰذا کتاب خدا کو لے لو اور اس سے وابستہ ھو جاؤ، کتاب خدا کے بارے میں ترغیب کی۔ پھر فرمایا: اور میرے اھل بیت(ع) ھیں میں اپنے اھل بیت(ع) کے بارے میں خدا کو یاد دلاتا ھوں۔ تین بار یھی جملہ دھرایا۔[5]
ترمذی نے اپنی صحیح میں زید بن ارقم سے اسی طرح حدیث نقل کی ھے۔ زید بن ارقم کہتے ھیں: رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑنے والا ھوں اگر تم اس سے وابستہ رھوگے تو میرے بعد ھرگز گمراہ نہ ھوگے ان میں سے ایک دوسری سے عظیم ھے ایک کتابِ خدا ھے جو رسی کی مانند آسمان سے زمین تک ھے، دوسری میری عترت ھے وھی میرے اھل بیت(ع) ھیں یہ دونوں ھرگز ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ھوں گے، دیکھنا یہ ھے کہ میرے بعد تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ھو۔[6]
ترمذی نے جابر بن عبد اللہ سے بھی اس کی روایت کی ھے وہ کہتے ھیں: میں نے عرفہ کے روز رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دیکھا وہ ناقہ قصویٰ پر سوارھیں اور خطبہ دے رھے ھیں، میں نے سنا کہ فرماتے ھیں: اے لوگو! میں نے تمھارے درمیان ایسی چیز چھوڑی ھے کہ اگر تم اس سے وابستہ ھو گئے تو ھرگز گمراہ نہ ھوگے اور وہ ھے کتاب خد اور میرے اھل بیت عترت۔[7]
حاکم نے مستدرک الصحیحین میں اس حدیث کو اپنی سند سے زید بن ارقم سے متعدد طریقوں سے نقل کیا ھے۔[8] احمد بن حنبل نے مسند میں اس حدیث کو کئی طریقوں سے نقل کیا ھے: ابو سعید خدری سے[9] زید بن ارقم سے[10] اور زید بن ثابت سے اس کو دو طریقوں سے نقل کیا ھے۔[11] اس حدیث کے بہت سے طرق ھیں، اس کی سندیں صحیح ھیں لہذا یہ حدیث مستفیض ھے۔ اور اس کی صحت کے لئے اتناھی کافی ھے کہ اس کو مسلم و ترمذی نے اپنی اپنی صحیح میں نقل کیا ھے۔
علامہ میر حامد حسین لکھنوی نے(عبقات الانوار) میں اس حدیث کے طرق کو تفصیل کے ساتھ تحریر کیا ھے وہ ایک بڑی کتاب ھے اس کی دوسری جلد میں حدیث کی دلالت سے بحث کی ھے ابھی کچھ عرصہ پھلے ان دونوں جلدوں کو دس جلدوں میں طبع کیا گیا ھے۔ خدا، سید میر حامد حسین پر رحم کرے اور ان کی اس علمی کوشش کو قبول فرمائے۔ اس حدیث میں:
۱۔اھل بیت(ع) کو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے قرآن کے برابر قرار دیاھے۔
۲۔ دونوں کو خطا و گمراھی سے محفوظ قرار دیا ھے۔
۳۔ اپنی امت کو دونوں سے تمسک کرنے کا حکم دیا ھے اور اس کی تاکید کی ھے۔
۴۔ امت کو یہ بھی بتایا ھے کہ یہ دونوں – قرآن و اھل بیت(ع)- ایک دوسرے سے ھرگز جدا نہ ھوں گے، یھاں تک کہ حوض کوثر پر آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس وارد ھوں گے پس یہ دونوں رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد ھر چیز میں امت کے لئے مرجع ھیں، اس دین کے حدود، احکام اور اصول و فروع کی معرفت کے لئے انھیں سے رجوع کیا جائے گا۔
صواعق میں ھیثمی لکھتے ھیں: جن حدیثوں میں امت کو اھل بیت(ع)، سے تمسک کرنے کی ترغیب کی گئی ھے ان میں یہ اشارہ موجود ھے کہ اھل بیت(ع)، سب سے لائق و شائستہ افرد، کا سلسلہ قیامت تک جاری رھے گا تاکہ امت ان سے وابستہ ھوسکے اسی طرح قرآن بھی قیامت تک باقی رھے گا، یہ زمین کے لئے باعثِ امان ھیں جیسا کہ اس حدیث: فی کل خلف من امتي عد ول من اھل بیتی [12] میری امت کی ھر نسل میں میرے اھل بیت سے کچھ عادل ھوں گے۔[13]
یہ تھا اس اھم نقطہ کا خلاصہ جس سے شیعہ ممتاز ھوتے ھیں۔
اس بحث سے جو ھمارا مقصد ھے اس تک پھنچنے کے لئے یھی کافی ھے کیونکہ یہ کتاب شیعیان اھل بیت کے عقائد کو بیان کرنے کے لئے کافی نھیں ھے اسی لئے ھم نے محبتِ اھل بیت سے متعلق درج ذیل چار نکات سے بحث کرنے کے لئے مذکورہ دو کو تمھید کے طور پر اختصار کے ساتھ بیان کیا ھے، اوروہ نکات یہ ھیں:
۱۔ اھل بیت(ع) سے محبت و نسبت کی قدر و قیمت
۲۔ مکتبِ اھل بیت سے محبت کرنے اور اس سے منسوب ھونے کے عام شرائط
۳۔ محبت کے اجزا اور اس کے عناصر
۴۔ مکتب اھل بیت سے نسبت و محبت کے فوائد
……………………
حواله جات
[1] سورہٴ صافات /۸۳
[2] سورہٴ مائدہ / ۶۷۔
[3] تہذیب التہذیب: ج۷ ص ۳۳۹حالات علی بن ابی طالب
[4] فتح الباری : ج ۸ ص ۷۶ب ۹ مناقب علی بن ابی طالب
[5] صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ / باب فضائل علی بن ابی طالب
[6] سنن ترمذی : ج۲ ص ۳۰۸ کتاب المناقب/ اھل نبی ح ۳۷۸۸
[7] سنن ترمذی : ج ۲ ص ۳۰۸
[8] مستدرک الصحیحین:ج ۳ ص ۱۰۹/ ۱۴۸
[9] مسند احمد ج۳ ص ۱۷
[10] مسند احمد ج۴ ص ۳۷۱
[11] مسند احمد ج ۵ ص ۱۸۱
[12] الصواعق المحرقہ: ۱۵۱ طبع مصر ۱۹۶۵ء
[13] جو شخص اس مقدمہ کو پڑھتا ھے وہ یہ سوال کرتا ھے کہ اھل بیت کون ھیں اور کیا خصوصیات ھیں، اس سوال کا جواب دینے کیلئے ھم کتاب کے آخر تک گفتگو جاری رکھیں گے تاکہ سلسلہ منقطع نہ ھو۔