- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : ابوالحسن
- 2024/11/30
- 0 رائ
خلافت یعنی حکومت جس کے سلسلہ میں اسلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ اسے شہروں کی آبادی اور پیغام اسلام کو پہنچانے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ خلافت اور امامت کے بغیر زندگی ایسی تاریک ہے، جس میں امن و سکون کا سایہ تک دکھائی نہیں دیتا۔ رسول خدا (ص) کے بعد ایک ایسے شخص کو عقل ضروری سمجھتی ہے، جو لوگوں میں عدل و انصاف قائم کر سکے اور ان کو سکون کی زندگی نصیب ہو سکے۔ شیعہ بر خلاف اہل سنت، عقل و قرآن کی روشنی میں خلافت بلافصل امیرالمؤمنین علی (ع) کے قائل ہیں اور آپ کو رسول کا بلافصل خلیفہ مانتے ہیں۔
خلافت کا معنی کیا ہے؟
کسی کی غیبت یا موت یا عاجزی یا خود اس کے نائب بنانے کی بناپر، نیابت کر نے کو لغت میں خلافت کہتے ہیں جیسے خدا وند عالم کا یہ فرمان ہے: “وَ قَالَ مُوسىَ لِأَخِيهِ هَرُونَ اخْلُفْنىِ فىِ قَوْمِى وَ أَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِين“[1] اور انہوں نے اپنے بھائی ہارون علیھ السّلام سے کہا کہ تم قوم میں میری نیابت کرو اور اصلاح کرتے رہو اور خبردار مفسدوں کے راستہ کا اتباع نہ کرنا۔
خلافت شریعت میں دین و دنیا کے امور میں رسول خدا (ص) کی طرف سے ولایت عامہ یعنی تمام لوگوں کی سرپرستی کرنے کو خلافت کہتے ہیں۔ ابن خلدون کا کہنا ہے کہ شرعی نقطہ نظر کے مطابق دینی و دنیوی مصالح و منافع میں عوام کی قیادت و کفالت خلافت کہلاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ حقیقت میں تحفظ دین اور سیاسی امور میں پیغمبر اسلام (ص) کی طرف سے جانشینی کو خلافت کہتے ہیں۔ ماوردی نے خلافت کی تعریف اس طرح کی ہے کہ تحفظ دین اور سیاسی امور میں نبوت کی جانشینی کو خلافت کہتے ہیں۔
خلافت کے لئے پیغمبر (ص) کا اہتمام
رسول خدا (ص) نے خلافت کے مسئلہ پر بڑا زوردیا ہے، کیونکہ خلافت کو اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں بنیادی عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔ اور اسی طرح اپنے وقت کے امام کو نہ پہچاننے والے تافراد کو جہنم کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا: “مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ إمَام زمانہ مَاتَ مِیْتَةً جَاہِلِیَّةِ”[2] یعنی جو شخص اپنے دور کے امام کو پہچانے بغیر مر جائے، اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ اس سے بڑھ کر ایک مسلمان کے لئے اس سے برا انجام اور کیا ہوگا کہ وہ جاہلیت کی موت مرے، نہ اُسے اپنے پروردگار کی معرفت ہو اور نہ ہی دین کی۔
اسی طرح خداوند عالم نے قرآن مجید میں تمام مسلمانوں پر امام کی اطاعت واجب و لازم قرار دی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: “يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ أَطِيعُواْ اللَّهَ وَ أَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلىِ الْأَمْرِ مِنكم”[3] ایمان والوں اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں۔ جب “اولی الامر” کی اطاعت کو واجب اور اس کی اطاعت کو اللہ اور رسول کی اطاعت قرار دیاگیا ہے، تو پھر رسول خدا (ص) اپنے بعد میں آنے والے امام کو معین کرنے کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟!
خلافت کا نبوت سے رابطہ
خلافت اور امامت کے مسئلہ کو خود رسول خدا (ص) نے اسلام کی سب سے پہلی دعوت میں بیان فرمایا اور اسی وقت حضرت علی (ع) کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا۔ جب آپ نے اپنے عزیز و اقارب کو اپنی رسالت پر ایمان لانے کے لئے جمع کیا اور ان سے کہا: “فَأیُّکُم یُؤازِرُنِي عَلیٰ ھٰذا الأمْرِ عَلیٰ أَنْ یَکُونَ أَخِيْ وَ وَصِیيّ وَ خَلِیْفَتِي فِیْکُم”[4]تم میں سے کون ہے جو اس امر (تبلیغ دین) میں میری مد د کرکے، تمہارے درمیان میرا بھائی، وصی اور میرا جانشین قرار پائے؟
جب حاضرین نے آپ کی آواز پر لبیک کہنے سے پرہیز کیا، تو حضرت علی (ع) یہ کہتے ہوئے اٹھے “أَنَا یَا نَبِیَّ اللَّہ أَکُونُ وَزِیْرَکَ عَلَیْہِ”[5] خدا کے نبی اس کام میں آپ کی مدد میں کرونگا۔ پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) کے شانہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین بزم کو مخاطب کر کے فرمایا: “إنَّ ھٰذا أَخِيْ وَ وَصِیِّي وَخَلِیْفَتِي فِیْکُم، فَاسْتَمِعُوا لَہُ وَ أَطِیْعُوا”[6] یہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ ہے پس اس کی بات کو سنو اور اس کی اطاعت کرو۔
بعض تاریخی کتابوں میں ہے کہ یہاں پر حاضرین نے ابو طالب (ع) کو یہ کہتے ہوئے مورد استہزاء قرار دیا کہ آج سے اپنے بیٹے کی بات کو مانو اور اس کی اطاعت کرو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا (ص) نے شروع سے ہی خلافت کے مسئلہ پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ اور نبوت و امامت کے رشتہ کو بلافصل قرار دیا ہے۔ لہذا اس عظیم منصب کو اس شخص کے حوالہ کیا، جو مسلمانوں کے درمیان علم وتقویٰ اور دین و دنیا کے تمام مسائل میں سب سے زیادہ لائق اور افضل تھا۔
اب اس میں کسی بھی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ رسول خدا (ص) نے اپنے بعد حضرت علی (ع) کو اپنے بعد بلافصل خلیفہ و جانشین مقرر فرمایا تھا۔ ہمارا یہ بیان نہ کسی قسم کے جذبات و احساسات کی بناء پر ہے اور نہ ہی کسی خاندانی محبت کی بنا پر اور نہ ہی ان کے علاوہ دوسری بے بنیاد چیزوں کی بنا پر، بلکہ یہ ایسا حق ہے جس میں کسی طرف سے بھی باطل کی گنجائش نہیں ہے، دن کی طرح واضح ہے۔ پیغمبر خدا (ص) نے امیرالمومنین (ع) کو اپنی امت کی رہنمائی کے لئے بلافصل قائد مطلق قرار دیا تھا۔ اس مطلب پر بعض دلیلیں یہ ہیں:
خلافت بلافصل کی پہلی دلیل
اس بات کو سب جانتے ہیں کہ رسول خدا (ص) اپنی امت کے بارے میں بڑے حساس تھے، جیسا کہ خود قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: “لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيم”[7] یقینا تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی امت کی ہدایت اور ان کو فتنوں اور برے حالات سے نکالنے کی راہ میں وہ زحمتیں برداشت کیں ہیں، جن کو بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے سخت ترین جنگیں صرف اسی لئے لڑی ہیں، تاکہ احکام الٰہی زمین پر نافذ ہوسکیں۔
کیا یہ عقل میں آنے والی بات ہے کہ وہ نبی جو اپنی زندگی میں اپنی امت کا اتنا خیال رکھتا ہو، وہ اپنی امت کو بغیر کسی جانشین اور خلیفہ کے بد حالی کے عالم میں چھوڑ کر دار فانی سے کوچ کر جائے؟ اور ان کی مسند خلافت پر بنی امیہ اور بنی عباس جیسے غاصب آتے جاتے رہیں؟ جو مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتے رہیں اور ان کو ناپسند کاموں پر مجبور کریں؟
خلافت بلافصل کی دوسری دلیل
خلافت بلافصل ایک ایسا عظیم مسئلہ ہے، جس کے بغیر اسلام واقعی کو بقاء نہیں مل سکتی۔ جو اسلام ہمارے نبی (ص) لے کر آئے ہیں، وہ نظم و ضبط، احکام اور قوانین کا مجموعہ ہے۔ لہذا نبی اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ایسے مہم مجموعہ کی ذمہ داری کے لئے ایک ایسے باخبر ناظر اور عادل امام کی ضرورت ہے جو ان کو قائم و دائم رکھ سکے۔
خلافت بلافصل اسلام کی بقاء اور اس کے احکام کو جاری کرنے کے لئے ویسے ہی ضروری ہے، جس طرح نبی (ص) کی حیات طیبہ میں خود رسول خدا (ص) موجود تھے۔ لہذا نبی (ص) جیسا ذمہ دار شخص، اپنے بعد ان احکام و قوانین کو کسی ایسے قائد کے بغیر کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ پس عقل کہتی ہے کہ ضرور آپ نے اپنے بعد خلافت کا حقدار ضرور بتایا ہے اور وہ حضرت علی (ع) ہیں۔
خلافت بلافصل کی تیسری دلیل
صدر اسلام میں اسلام کے دشمن بہت زیادہ تھے، جو اسلام کی کمیوں کی تاک میں لگے رہتے تھے۔ یہودی اور منافقین دن رات اسلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں رچتے رہتے تھے۔ پس عقل کہتی ہے کہ ایسی صورت میں کیسے ممکن ہے کہ رسول خدا (ص) ان کے درمیان اپنی امت کو بغیر کسی ایسے قائد و سر پرست کے چھوڑ کر چلے جائیں، جو ان کو دشمنوں کے شر سے نجات دلا سکے؟ لہذا خلافت بلافصل عقلی ضرورت کا نام ہے۔ یہودی اور منافقین ہمیشہ مسلمانوں کی وحدت میں رخنہ ڈالنے اور ان کی حکومت و سر زمین پر غلبہ پانے کے لئے مسلمانوں کے درمیان طرح طرح کے فتنہ برپا کرتے رہے ہیں۔
خلافت بلافصل کی چوتھی دلیل
اسلام میں داخل ہونے والے بہت سے مسلمان ایسے تھے، جو اسلامی اقدار سے ناواقف تھے۔ اور ان کو اہمیت نہیں دیتے تھے، چونکہ انھوں نے ایک طویل عمر پتھروں اور بتوں کی عبادت میں بسر کی تھی۔ وہ صرف لالچ اور منفعت یا اپنی جان کے خوف سے مسلمان ہوئے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ ان میں سے بہت سے لوگ تو رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد ہی اسلام سے منحرف ہو گئے تھے۔ پیغمبر اسلام (ص) اس بات کو جانتے تھے اور اس سے خوب واقف تھے۔ پس عقل کے لحاظ سے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے بعد اپنی امت کو ایسے ہی چھوڑ دیں؟ اور اس کے لئے کسی ایسے کو امام اور خلیفہ کو مقرر نہ کریں، جو ان کو فتنوں کے گرداب سے نجات دلا سکے۔
خلافت بلافصل کی پانچویں دلیل
اسلام میں بہت سی چیزیں مثلا حدود و تعزیرات، عبادات و معاملات، عقود و ایقاعات، عام و خاص، مطلق و مقید، ناسخ و منسوخ وغیرہ ہیں، جو بغیر عالم کے سمجھ میں نہیں آسکتیں، بلکہ یہ ایک ایسے شخص کی محتاج ہیں جس کے پاس ان کا علم ہو اور وہ ان کے تمام احکام سے باخبر ہو۔ پس عقل کی روشنی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول خدا (ص) اپنے بعد ایسے شخص کو معین نہ کریں، جو اِن کے نصوص کو جانتا ہو؟ اور ان کے قواعد و اصول سے آگاہ ہو؟
یہ بات مسلم ہے کہ اصحاب اور خاندان رسول خدا میں حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ نہ کوئی ان چیزوں کا علم رکھتا تھا اور نہ ہی کوئی آپ سے بڑھ کر فقیہ تھا۔ لہذا رسول خدا (ص) نے آپ ہی کے بارے میں فرمایا تھا “عَلِیٌ أَقْضَاکُم”[8] علی تم سب سے زیادہ بہتر قضاوت کرنے والے ہیں۔
خود عمر بن خطاب نے چند مرتبہ کہا “لَوْلَا عَلِیٌ لَھَلَکَ عُمَر”[9] اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔ مسلمانوں کے تمام فقہاء اپنے فتووں اور عدالتی امور میں حضرت علی (ع) کے شاگرد ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف حضرت امیرالمومنین علی (ع) ہی اپنے زمانہ میں رسول خدا (ص) کے بلافصل امت مسلمہ کی قیادت ومرجعیت کے اہل تھے۔
خلافت بلافصل کی چھٹی دلیل
رسول خدا (ص) نے خود حضرت علی (ع) کی پرورش کی اور اپنے اخلاق، کردار، علم و دانش سے حضرت کو آراستہ کیا ہے۔ لہذا جب حضرت علی میں اپنے علم کو مجسم پایا، تو فرمایا: “أنَا مَدِیْنَةُ العِلْمِ وَ عَلِيٌ بَابُھَا”[10] میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔
رسول خدا (ص) نے حضرت امیرالمومنین (ع) کو بچپنے ہی سے اپنے چچا ابو طالب (ع) سے لے لیا تھا، تاکہ خصوصی طور پر تربیت کریں۔ لہٰذا پیغمبر اسلام (ص) عہد طفلی سے ہی ہر وقت آپ کی دیکھ بھال رکھتے تھے۔ جس طرح حضرت علی (ع) کی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت اسد (ع) نے جناب آمنہ خاتون (ع) کی رحلت کے بعد پیغمبر اکرم (ص) کی پرورش کی تھی۔
حضرت فاطمہ بنت اسد ہمیشہ یہ دعا کیا کرتی تھیں، کہ خداوند عالم ان کو ایک ایسا بیٹا عنایت کرے، جو پیغمبر اسلام (ص) کا بھائی قرار پائے۔ خدا نے آپ کی اس دعا کو قبول فرمایا اور آپ کو حضرت علی (ع) جیسے بیٹے سے نواز دیا۔ جو رسول خدا (ص) کے بھائی، ناصر و مددگار اور سب سے زیادہ محبوب قرار پائے۔
جنہوں نے زندگی کے کسی بھی موڑ پر رسول اللہ (ص) کو تنہا نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ وطن اور سفر میں آپ کے ہمراہ رہے۔ اور آپ کی سیرت و کردار کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیتے رہے۔ آپ پیغمبر (ص) کی رفتار و کودار کی مکمل تصویر بن گئے۔ عقل کے مطابق یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر ان کو اپنے بعد اپنا خلیفہ اور لوگوں کا امام نہ بنائیں؟
قرآن مجید کی آیہ مباہلہ کی وضاحت کے مطابق حضرت علی نفس رسول (ص) ہیں، پس کیسے ممکن ہے کہ رسول اسلام (ص) ان کو نظر انداز کر کے دوسرے کو خلیفہ قرار دیں؟ یا اصلاً اپنے بعد کسی کو خلیفہ ہی مقرر نہ کریں! اور اپنی امت کو فتنوں اور گمراہیوں کی موجوں میں سر گرداں چھوڑ دیں؟
خاتمہ
ان تمام عقلی دلائل سے یہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح نبی اکرم (ص) کے بعد خلافت و امامت ایک ضرورت عقلی ہے، اسی طرح خلافت بلافصل امیرالمومنین (ع) بھی ہر صحب عقل اور منصف انسان کے لئے ثابت ہے۔ اور اس امر کو پیغمبر اسلام (ص) نے مختلف مقامات پر اتنا بیان کیا ہے کہ کسی کے لئے معذرت کا موقع باقی ہی نہیں چھوڑا۔
حوالہ جات
[1]۔ سورہ اعراف: 142۔
[2]۔ برقی، المحاسن، ج1، ص154؛ کلینی، الكافي، ج3، ص58؛ نيشابورى، صحيح مسلم، ج3، ص1478۔
[3]۔ سورہ نساء: 59۔
[4]۔ کوفی، تفسير فرات الكوفي، ص302؛ خصيبى، الهداية الكبرى، ص47۔
[5]۔ ابن خلدون، تاريخ ابن خلدون، ج1، ص647؛ ابن اثیر، الكامل، ج2، ص63۔
[6]۔ ابن خلدون، تاريخ ابن خلدون، ج1، ص647؛ ابن اثیر، الكامل، ج2، ص63۔
[7]۔ سورۂ توبہ: ١٢٨۔
[8]۔ کلینی، الكافي، ج7، ص429۔
[9]۔ ابن هشام، السيرة النبوية، ج2، ص429۔
[10]۔ ابن عبد البر، الاستيعاب، ج3، ص1102۔
منابع
قرآن کریم
- ابن اثير، على، الكامل في التاريخ، بيروت، دار صادر، 1385/1965ء۔
- ابن خلدون، عبد الرحمن، تاريخ ابن خلدون، مترجم: آيتى، عبد المحمد، قم، مؤسسه مطالعات و تحقيقات فرهنگى،1363ش۔
- ابن عبد البر، یوسف، الاستيعاب فى معرفة الأصحاب، تحقيق: البجاوى، على محمد، بيروت، دار الجيل، 1412/1992ء۔
- ابن هشام، عبد الملك، السيرة النبوية، مترجم: رسولى، سيد هاشم، زندگانى حضرت محمد(ص)، تهران، انتشارات كتابچى،1375ش۔
- برقى، احمد، المحاسن، تصحيح و تعليق: محدث، جلالالدين، قم، دار الكتب الإسلامية، بغیر تریخ۔
- خصيبى، حسين، الهداية الكبرى، بيروت، البلاغ، 1419ق۔
- كوفى، فرات، تفسير فرات الكوفي، مصحح: كاظم، محمد، تهران، مؤسسة الطبع و النشر في وزارة الإرشاد الإسلامي، 1410ق۔
- کلینی، محمد، الكافي، تهران، انتشارات اسلاميه، 1362 ش۔
- نیشاپوری، مسلم، صحيح مسلم، مصحح: عبدالباقى، محمد فؤاد، قاهره، دار الحديث، 1412ق۔
مضمون کا مأخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
قرشی، باقر شریف، سقیفہ کانفرنس، مترجم: ذیشان حیدر عارفی، تصحیح: سيد محمد سعيد نقوی، نظر ثانی: سید مبارک حسنین زیدی، مجمع جہانی اہل بیت، 1442ھ۔ق، 2021ء۔