- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 15 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2024/01/28
- 0 رائ
حضرت علی علیہ السلام نے دنيا کی حقيقت کو دنیا والوں کے سامنے اس طرح آشکار اور روشن کرکے اس کے چہرہ سے دھوکہ اور فریب کی نقاب ہٹا دی ہے جس کے بعد ہر شخص دنیا کی اصلی شکل و صورت کو پہچان سکتا ہے۔
لہٰذا دنیا کے بارے میں آپ کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں:
۱۔” و اﷲ ما دنیاکم عندی الاکسَفْرٍ علیٰ منھل حلّوا ، اذصاح بھم سائقھم فارتحلوا ، و لا لذاذاتُھا فی عینی الا کحمیم أشربُہ غسّاقا ، و علقم أتجرع بہ زُعافا، وسمّ أفعاۃٍ دِھاقاً، وقَلادۃٍ من نار” (۱)
”خدا کی قسم تمھاری دنیا میرے نزدیک ان مسافروں کی طرح ہے جو کسی چشمہ پر اترے ہوں اور جیسے ہی قافلہ سالار آواز لگائے وہ چل پڑیں اور اس کی لذتیں میری نگاہ میں اس گرم اور گندے پانی کی طرح ہیں جسے مجبوراً پینا پڑے اور وہ کڑوی چیز ہے جسے مرنے کی حالت میں زبردستی گلے سے نیچے اتارا جائے اور وہ اژدہے کے زہر سے بھرا ہوا پیالہ اور آگ کا طوق ہے”
اس دنیا کا جو رخ لوگوں کو دکھائی دیتا ہے وہ اسی بھرے ہوئے چشمہ کی طرح ہے جس پر قافلہ ٹھہرا ہو ” سفرعلی منھل حلوا” اور یہ اسکا وہی ظاہری رخ ہے جس کے اوپر وہ ایک دوسرے کو مرنے اور مارنے کو تیار رہتے ہیں۔ جبکہ مولائے کائنات(ع) نے اس کو زود گذر قرار دیا ہے جو کہ دنیا کا واقعی چہرہ ہے: (اذ صاح بہم سائقہم فارتحلوا)
” جیسے ہی قافلہ سالار آواز لگائے وہ چل پڑیں”
یہی وجہ ہے کہ دنیا کی جن لذتوں کےلئے لوگ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ مولائے کائنات(ع) کی نگاہ میں گرم، بدبودار اور سانپ کے زہر کے پیالہ کی طرح ہے۔
”جب معاویہ نے جناب ضرار بن حمزہ شیبانی(رح) سے امیرالمومنین(ع) کے اوصاف و خصوصیات معلوم کئے تو آپ نے کہا کہ بعض اوقات میں نے خود دیکھا ہے کہ آپ رات کی تاریکی میں محراب عبادت میں کھڑے ہیں اور اپنی ریش مبارک ہاتھ میں لئے ہوئے ایک بیمار کی طرح تڑپ رہے ہیں اور ایک غمزدہ کی طرح گریہ کر رہے ہیں اس وقت آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری رہتے ہیں:
” یا دنیا الیک عنی، أبی تعرّضتِ؟ أم الیّ تشوّقتِ؟ ھیھات!! غرّی غیری لا حاجۃ لی فیکِ، قد طلقتک ثلاثاً، لا رجعۃ فیھا: فعیشک قصیر، و خطرک کبیر، و املک حقیر، آہ من قلّۃ الزاد، و طول الطریق(۲)
”اے دنیا مجھ سے دور ہوجا کیا تو میرے سامنے بن ٹھن کر آئی ہے اور کیا واقعاً میری مشتاق بن کر آئی ہے بہت بعید ہے جا میرے علاوہ کسی اور کو دھوکا دینا مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں تجھے تین بار طلاق دے چکا ہوں جس کے بعد رجوع ممکن نہیں ہے تیری زندگی بہت مختصر، تیری حیثیت بہت معمولی، تیری آرزوئیں حقیر ہیں، آہ، زاد راہ کس قدر کم اور راستہ کتنا طولانی ہے”
آپ نے دنیا کے ان تینوں حقائق کو اس سے فریب کھانے والے شخص کے لئے واضح کر دیا ہے کہ اس کی زندگی بہت مختصر اس کے خطرات زیادہ اور اس کی آرزوئیں حقیر ہیں۔
اس بارے میں آپ کے یہ ارشادات بھی ہیں۔
۱۔ ( ألا وان الدنیا دارغرّارۃ ، خدّاعۃ ، تنکح فی کلیوم بعلاً، و تقتل فی کل لیلۃ أھلاً، و تُفرّق فی کلساعۃ شملاً) (۳)
”یاد رکھو یہ دنیا بہت پر فریب گھر ہے اور بی حد دھوکے باز(عورت کے مانند ہے جو) ہر روز ایک نئے شوہر سے نکاح کرتی ہے اور ہر رات اپنے گھر والوں کو ہلاک کر ڈالتی ہے اور ہر ساعت ایک قوم کو متفرق کر ڈالتی ہے”
۲۔ (ان اقبلت غرّت،وان أدبرت ضرّت)(۴)
”اگر یہ دنیا تمہاری طرف رخ کرے گی تو تمہیں فریب میں مبتلا کردی گی اور اگر وہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئی تو نقصان دہ ہے”
۳۔ (الدنیا غرور حائل، و سراب زائل، و سناد مائل)(۵)
”دنیا بدل جانے والا فریب، زائل ہو جانے والا سراب اور خم شدہ ستون ہے”
۴۔ دنیا کے ظاہر و باطن کی نقشہ کشی آپ نے ان الفاظ میں کی ہے:
(مثل الد نیا مثلالحیّۃ مسّھا لیّن، وفی جوفھا السم القاتل، یحذرھا الرجال ذووالعقول، و یھوی الیھا الصبیان بأید یھم) (۶)
”یہ دنیا بالکل سانپ کی طرح ہے جو چھونے میں بہت نرم ہے مگراس کے اندر مہلک زہر بھرا ہوا ہے اہل عقل اس سے ڈرتے رہتے ہیں اور بچے اسے ہاتھ میں اٹھانے کے لئے جھک جاتے ہیں”
اس قول میں امام نے بہت ہی حسین و جمیل انداز میں دنیا کے ظاہر و باطن کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے کہ اس کا ظاہر سانپ کی طرح جاذب نظر اور چھونے پر بہت نرم معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے باطن میں دھوکہ اور زوال ہی زوال ہے جیسے ایک سانپ کے منھ میں مہلک زہر بھرا رہتا ہے۔
اسی طرح اس دنیا کی طرف دیکھنے والے لوگوں کی بھی دو قسمیں ہیں:
اہل عقل اور صاحبان بصیرت اس سے خائف رہتے ہیں جس طرح انہیں سانپ سے خوف محسوس ہوتاہے۔ لیکن ان کے علاوہ بقیہ لوگ اس سے اسی طرح دھوکہ کھا جاتے ہیں جس طرح زہریلے سانپ کی چمکیلی اور نرم کھال دیکھ کر بچے دھوکہ کھاتے ہیں۔
آپ کے ایک خطبہ کا ایک حصہ
”یہ ایک ایسا گھر ہے جو بلاؤں میں گھرا ہوا ہے اور اپنی غداری میں مشہور ہے نہ اس کے حالات کو دوام ہے اور نہ اس میں نازل ہونے والوں کے لئے سلامتی ہے۔
اس کے حالات مختلف اور اس کے طورطریقے بدلنے والے ہیں اس میں پر کیف زندگی قابل مذمت ہے اور اس میں امن وامان کا کہیں دو ر دور تک پتہ نہیں ہے۔۔۔اس کے باشندے وہ نشانے ہیں جن پر دنیا اپنے تیر چلاتی رہتی ہے اور اپنی مدت کے سہارے انھیں فنا کے گھاٹ اتارتی رہتی ہے۔
اے بندگان خدا، یاد رکھو اس دنیا میں تم اور جو کچھ تمہارے پاس ہے سب کا وہیراستہ ہے جس پر پہلے والے چل چکے ہیں جن کی عمریں تم سے زیادہ طویلاور جن کے علاقے تم سے زیادہ آبادتھے ان کے آثار بھی دور دور تکپھیلے ہوئے تھے لیکن اب ان کی آوازیں دب گئیں ہیں ان کی ہوائیں اکھڑگئیں ہیں ان کے جسم بوسیدہ ہوگئے ہیں۔ان کے مکانات خالی ہوگئے ہیں اور ان کے آثار مٹ چکے ہیں وہ مستحکم قلعوں اور بچھی ہوئی مسندوں کو پتھروں اور چنی ہوئی سلوں اور زمین کے اندرقبروں میں تبدیل کرچکے ہیں جن کے صحنوں کی بنیاد تباہی پر قائم ہے اور جن کی عمارت مٹی سے مضبوط کی گئی ہے۔ان قبروں کی جگہیں تو قریب قریب ہیں لیکن ان کے رہنے والے سب ایک دوسرے سے اجنبی اور بیگانہ ہیں ایسے لوگوں کے درمیان ہیں جو بوکھلائے ہوئے ہیں اور یہاں کے کاموں سے فارغ ہوکر وہاں کی فکر میں مشغول ہوگئے ہیں۔نہ اپنے وطن سے کوئی انس رکھتے ہیں اور نہ اپنے ہمسایوں سے کوئی ربط رکھتے ہیں۔
حالانکہ بالکل قرب وجوار اور نزدیک ترین دیار میں ہیں۔ اور ظاہر ہے اب ملاقات کا کیاامکان ہے جبکہ بوسیدگی نے انہیں اپنے سینہ سے دباکر پیس ڈالا ہے اور پتھروں اور مٹی نے انہیں کھاکر برابر کردیا ہے اور گویا کہ اب تم بھی وہیں پہونچ گئے ہو جہاں وہ پہونچ چکے ہیں اور تمہیں بھی اسی قبر نے گروی رکھ لیا ہے اور اسی امانت گا ہ نے جکڑلیا ہے۔
ذرا سوچو اس وقت کیا ہوگا جب تمہارے تمام معاملات آخری حد تک پہنچ جائیں گے اور دوبارہ قبروں سے نکال لیا جائے گا اس وقت ہر نفس اپنے اعمال کا خود محاسبہ کرے گا اور سب کو مالک برحق کی طرف پلٹا دیا جائے گا اور کسی پر کوئی افترا پر دازی کام آنے والی نہ ہوگی۔(۷)
سید رضی نے نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے کہ حضرت امیر المومنین (ع) نےشریح بن حارث سے فرمایا:
( بلغنی انّک ابتعت داراً بثمانین دیناراً، و کتبت لھا کتاباً، و أشھدت فیہ شھوداً؟!۔۔۔)
مجھےاطلاع ملی ہے کہ تم نے اسی(۸۰) دینا ر میں ایک گھر خریدا ہےاور اس کے لئے باقاعدہ ایک بیع نامہ لکھ کر لوگوں کی گواہی بھی درج کی ہے۔ تو شریح نے عرض کی: اے امیر المومنین(ع)۔ جی ہاں: ایسا ہی ہے۔ تو آپ نے ان کی طرف غصہ بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔اے شریح عنقریب تمہارے پاس ایسا شخص آنے والا ہے جو نہ تمہارے اس بیع نامہ کو دیکھے گا اور نہ گواہوں کے بارے میں تم سے کچھ سوال کرے گا اور وہ تمہیں اس گھر سے نکال کر تن تنہا تمہاری قبر کے حوالے کردیگا لہٰذا۔ اے شریح۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نے اس گھر کو اپنے مال سے نہ خریدا ہو اور ناجائز طریقے سے اس کے دام ادا کئے ہوں۔ اگر ایسا ہوا تو تم دنیا اورآخرت دونوں جگہ گھاٹے میں ہو۔ کاش تم یہ گھر خریدنے سے پہلے میرے پاس آجاتے تو میں تمہارے لئے ایک دستاویز تحریر کر دیتا تو تم ایک درہم میں بھی یہ گھر نہ خریدتے۔
میں اس کی دستاویز اس طرح لکھتا:
یہ وہ مکان ہے جسے ایک بندئہ ذلیل نے اس مرنے والے سےخریدا ہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کردیا گیا ہے۔ یہ مکان پر فریب دنیا میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کاعلاقہ ہے۔اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہیں۔
ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اور دوسری اسباب مصائب سے ملتی ہےتیسری حد ہلاک کردینے والی خواہشات کی طرف ہے اور چوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف سے گھر کا دروازہ کھلتا ہے۔
اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب و خواہش کی ذلت میں داخل ہوگیا ہے۔ اب اگر اس خریدار کو اس سودے میں کوئی خسارہ ہوتو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموں کو تہ و بالا کرنے والا، جابروں کی جان لینے والا، فرعونوں کی سلطنت کوتباہ کردینے والا، کسریٰ و قیصر ، تبع وحمیر اور زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں، مستحکم عمارتیں بناکر انھیں سجانے والوں، ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیریں بنانے والوں کو فناکے گھاٹ اتار دینے والا ہے۔ کہ ان سب کو قیامت کے میدان حساب اور منزل ثواب و عذاب میں حاضر کر دے جب حق و باطل کا حتمی فیصلہ ہوگا اور اہل باطل یقینا خسارہ میں ہونگے۔
اس سودے پر اس عقل نے گواہی دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے” (۸)
دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:
یاد رکھو: اس دنیا کا سرچشمہ گندہ اور اسکا گھاٹ گندھلا ہے ، اس کا منظر خوبصورت دکھائی دیتا ہے لیکن اندر کے حالات انتۂی درجہ خطرناک ہیں ،یہ ایک فنا ہوجانے والا فریب، بجھ جانے والی روشنی ،ڈھل جانے والا سایہ اور ایک گر جانے والا ستون ہے۔جب اس سے نفرت کرنے والا مانوس ہوجاتا ہے اور اسے برا سمجھنے والا مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اچانک اپنے پیروں کو پٹکنے لگتی ہے اور عاشق کو اپنے جال میں گرفتار کرلیتی ہے اور پھر اپنے تیروں کا نشانہ بنالیتی ہے انسان کی گردن میں موت کا پھندہ ڈال دیتی ہے اور اسے کھینچ کر قبر کی تنگی اور وحشت کی منزل تک لے جاتی ہے جہاں وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اپنے اعمال کا معاوضہ حاصل کرلیتا ہے اور یوں ہی یہ سلسلہ نسلوں میں چلتا رہتا ہے کہ اولاد بزرگوں کی جگہ پر آجاتی ہے نہ موت چیرہ دستیوں سے بازآتی ہے اور نہ آنے والے افراد گناہوں سے باز آتے ہیں پرانے لوگوں کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں اور تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل انتہا ء وفنا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ (۹)
دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے:
”میں اس دار دنیاکے بارے میں کیا بیان کروں جسکی ابتداء رنج وغم اور انتہا فنا ونابودی ہے اس کے حلال میں حساب ہے اور حرام میںعذاب،جو اس میں غنی ہوجائے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہوجائے۔ اور جو فقیر ہوجائے وہ رنجیدہ و افسردہ ہوجائے۔جو اس کی طرف دوڑلگائے اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور جو منھ پھیر کر بیٹھ رہے اس کے پاس حاضر ہوجائے جو اسکو ذریعہ بناکر آگے دیکھے اسے بینابنادے اور جو اسے منظور نظر بنالے اسے اندھا بنادے ” (۱۰)
اپنےدور خلافت سے پہلے آپ نے جناب سلمان فارسی ؓ کو اپنےایک خط میں یہ بھی تحریر فرمایا تھا۔اما بعد:اس دنیا کی مثال صرف اس سانپ جیسی ہے جو چھونے میں انتۂی نرم ہوتا ہے لیکن اسکا زہر انتۂی قاتل ہوتا ہے اس میں جو چیز اچھی لگے اس سے بھی کنارہ کشی اختیار کرو۔کہ اس میں سے ساتھ جانے والا بہت کم ہے۔اس کے ہم وغم کو اپنے سے دور رکھو کہ اس سے جدا ہونا یقینی ہے اور اس کے حالات بدلتے ہی رہتے ہیں۔اس سے جس وقت زیادہ انس محسوس کرو اس وقت زیادہ ہوشیار رہو کہ اسکا ساتھی جب بھی کسی خوشی کی طرف سے مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اسے کسی ناخوشگواری کے حوالے کردیتی ہے اور انس سے نکال کرو حشت کے حالات تک پہونچادیتی ہے۔والسلام ” (۱۱)
دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایاہے:
آگاہ ہوجاؤ دنیا جارہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیاہے اور اس کی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں وہ تیزی سے منھ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف لی جارہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے اس کی شیرینی تلخ ہوچکی ہے اور اس کی صفائی ہوچکی ہے اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو، تہ میں بچاہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیاسا پی بھی لے تو اس کی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے لہٰذا بند گان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جس کے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبردار: تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا” (۱۲)
دنیا کے بارے میں آپ(ع) نے یہ بھی فرمایا ہے:
میں تم لوگوں کودنیا سے ہوشیار کر رہا ہوں کہ یہ شیریں اور شاداب ہے لیکن خواہشات میں گھری ہو ئی ہے اپنی جلد مل جانے والی نعمتوں کی بنا پر محبوب بن جاتی ہے اور تھوڑی سی زینت سے خوبصورت بن جاتی ہے یہ امیدوں سے آراستہ ہے اور دھوکہ سے مزین ہے۔نہ اس کی خو شی دائمی ہے اور نہ اس کی مصیبت سے کو ئی محفوظ رہنے والا ہے یہ دھوکہ باز ،نقصان رساں، بدل جانے والی ،فنا ہو جانے والی ،زوال پذیراور ہلاک ہو جانے والی ہے۔یہ لوگوں کو کھا بھی جاتی ہے اور مٹا بھی دیتی ہے۔
جب اس کی طرف رغبت رکھنے والوں اور اس سے خوش ہو جانے والوں کی خواہشات انتہاء کو پہونچ جاتی ہے تویہ بالکل پروردگار کے اس ارشاد کے مطابق ہوجاتی ہے:
(کماءٍ أنزلناہ من السماء فاختلط بہ نبَات الأرضفأصبح ھشیماً تذروہ الریاح وکان اﷲ علیٰ کلشیءٍ مقتدرا) (۱۳)
”یعنی دنیا کی مثال اس پانی کے جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سےنازل کیا اور اس کے ذریعہ زمین کے سبزہ مخلوط(ہوکر روئیدہ) ہوئےوہ سبزہ سوکھ کر ایسا تنکا ہوگیا جسے ہوائیں اڑالے جاتی ہیں اور اللہ ہر شئے پر قدرت رکھنے والا ہے ”
اس دنیا میں کو ئی شخص خوش نہیں ہوا ہے مگر یہ کہاسے بعد میں آنسو بہانا پڑے اور کوئی اس کی خوشی کو آتے نہیں دیکھتا ہے مگر یہ کہ وہ مصیبت میں ڈال کر پیٹھ دکھلا دیتی ہے اور کہیں راحت وآرام کی ہلکی بارش نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ بلاؤں کا دو گڑا گرنے لگتا ہے۔اس کی شان ہی یہ ہے کہ اگر صبح کو کسی طرف سے بدلہ لینے آتی ہے تو شام ہوتے ہوتے انجان بن جاتی ہے اور اگر ایک طرف سے شیریںاور خوش گوار نظر آتی ہے تو دوسرے رُخ سے تلخ اور بلا خیز ہوتی ہے۔کوئی انسان اس کی تازگی سے اپنی خواہش پوری نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ اس کے پے درپے مصائب کی بنا پر رنج وتعب کا شکار ہو جاتا ہے اور کوئی شخص شام کو امن وامان کے پروں پر نہیں رہتا ہے مگر یہ کہ صبح ہوتے ہوتے خوف کے بالوں پر لاد دیا جاتا ہے۔
یہ دنیا دھوکہ باز ہے اور اس کے اندر جو کچھ ہے سب دھو کہ ہے۔یہ فانی ہے اور اس میں جو کچھ ہے سب فنا ہونے والا ہے۔ اس کے کسی زادراہ میں کوئی خیر نہیں ہے سوائے تقویٰ کے۔ اس میں سے جوکم حاصل کرتا ہے اسی کو راحت زیادہ نصیب ہوتی ہے اور جو زیادہ کے چکّر میں پڑجاتا ہے اس کے مہلکات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اور یہ بہت جلد اس سے الگ ہوجاتی ہے۔کتنے اس پراعتبار کرنے والے ہیں جنہیں اچانک مصیبتوں میں ڈال دیا گیا اور کتنے اس پر اطمینان کرنے والے ہیں جنہیں ہلاک کردیا گیا اور کتنے صاحبان حیثیت تھے جنہیں ذلیل بنا دیاگیا اور کتنے اکڑنے والے تھے جنہیں حقارت کے ساتھ پلٹا دیاگیا۔اس کی بادشاہی پلٹا کھانے والی۔ اس کا عیش مکدّر۔اس کا شیریں شور۔اس کا میٹھا کڑوا۔اس کی غذاز ہر آلود اور اس کے اسباب سب بوسیدہ ہیں۔اس کازندہ معرض ہلاکت میں ہے اور اس کا صحت مند بیمار یوں کی زدپر ہے۔اس کا ملک چھننے والا ہے اور اس کا صاحب عزت مغلوب ہونے والا ہے۔ اس کا مالدار بدبختیوں کا شکار ہونے والا ہے اور اس کا ہمسا یہ لُٹنے والا ہے۔کیا تم انھیں کے گھر وں میں نہیں ہو جوتم سے پہلے طویل عمر، پائید ارآثار اور دوررس امیدوں والے تھے۔بے پناہ سامان مہیا کیا ،بڑے بڑے لشکر تیار کئے اور جی بھر کر دنیا کی پر ستش کی اور اسے ہر چیز پر مقدم رکھا لیکن اس کے بعد یوں روانہ ہو گئے کہ نہ منزل تک پہونچا نے والا زادراہ ساتھ تھا اور نہ راستہ طے کرانے والی سواری۔ کیا تم تک کوئی خبر پہونچی ہے کہ اس دنیا نے ان کو بچانے کے لئے کوئی فدیہ پیش کیا ہو یا ان کی کوئی مدد کی ہو یا ان کے ساتھ اچھا وقت گزاراہو۔؟ بلکہ اُس نے تو ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے ،آفتوں سے اُنھیں عاجز ودر ماندہ کردیا اور لَوٹ لَوٹ کرآنے والی زحمتوں سے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ناک کے بل اُنھیں خاک پر پچھاڑ دیا اور اپنے گھروں سے کچُل ڈالا ،اور ان کے خلاف زمانہ کے حوادث کا ہاتھ بٹا یا۔تم نے تو دیکھا ہے کہ جو ذرا دُنیا کی طرف جھکا اور اسے اختیار کیا اور اس سے لپٹا ،تو اس نے (اپنے تیّور بدل کر ان سے کیسی) اجنبیّت اختیار کرلی۔ یہاں تک کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس سے جُدا ہوکر چل دئیے ،اور اس نے انھیں بھُوک کے سوا کچھ زادِراہ نہ دیا اور ایک تنگ جگہ کے سوا کوئی ٹھہر نے کا سامان نہ کیا اور سواگھُپ اندھیرے کے کوئی روشنی نہ دی اور ندامت کے سوا کوئی نتیجہ نہ دیا ،تو کیا تم اسی دنیا کو ترجیح دیتے ہو،یا اسی پر مطمئن ہو گئے ہو یا اسی پر مرے جا رہے ہو؟ جو دنیا پر بے اعتماد نہ رہے اور اس میں بے خوف و خطر ہو کر رہے اس کے لئے یہ بہت برا گھر ہے۔جان لو اور حقیقت میں تم جانتے ہی ہو ،کہ (ایک نہ ایک دِن)تمھیں دنیا کو چھوڑنا ہے ،اور یہاں سے کوچ کرنا ہے ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جو کہا کرتے تھے کہ ”ہم سے زیادہ قوت و طاقت میں کون ہے۔” انھیں لاد کر قبروں تک پہونچایا گیا مگر اس طرح نہیں کہ انھیں سوار سمجھا جائے انھیں قبروں میں اتار دیا گیا، مگر وہ مہمان نہیں کہلاتے پتھروں سے اُن کی قبریں چن دی گئیں، اور خاک کے کفن ان پر ڈال دئے گئے اور گلی سڑی ہڈیوں کو ان کا ہمسایہ بنا دیا گیا ہے۔
وہ ایسے ہمسایہ ہیں جو پکارنے والے کو جواب نہیں دیتے ہیں اور نہ زیادتیوں کو روک سکتے ہیں اور نہ رونے دھونے والوں کی پروا کرتے ہیں۔ اگر بادل(جھوم کر) ان پر برسیں، تو خوش نہیں ہوتے اور قحط آئے تو ان پر مایوسی نہیں چھا جاتی۔وہ ایک جگہ ہیں، مگر الگ الگ، وہ آپس میں ہمسایہ ہیں مگر دور دور، پاس پاس ہیں مگر میل ملاقات نہیں، قریب قریب ہیں مگر ایک دوسرے کے پاس نہیں پھٹکتے، وہ بردبار بنے ہوئے بے خبر پڑے ہیں، ان کے بغض و عناد ختم ہو گئے اور کینے مٹ گئے۔ نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے، نہ کسی تکلیف کے دور کرنے کی توقع ہے انھوں نے زمین کے اوپر کا حصہ اندر کے حصہ سے اور کشادگی اور وسعت تنگی سے ،اور گھر بار پردیس سے اور روشنی اندھیرے سے بدل لی ہے اور جس طرح ننگے پیر اور ننگے بدن پیدا ہوئے تھے، ویسے ہی زمین میں (پیوند خاک) ہوگئے اور اس دنیا سے صرف عمل لے کر ہمیشہ کی زندگی اور سدا رہنے والے گھر کی طرف کوچ کر گئے۔ جیسا کہ خداوند قدوس نے فرمایا ہے:
(کما بدأنا أول خلقنعیدہ وعداًعلینا انّا کنا فاعلین) (۱۴)
”جس طرح نے ہم نے مخلوقات کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کریں گے۔ اس وعدہ کا پورا کرنا ہمارے ذمہ ہے اور ہم اسے ضرور پورا کرکے رہیں گے”
آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
” واُحذّرکم الدنیافانھا منزل قُلعۃ ، ولیست بدارنُجعۃ ، قد تزیّنت بغرورھا، وغرّت بزینتھا، دارھانت علیٰ ربھا، فخلط حلالھا بحرامھا، وخیرھا بشرھا، و حیاتھا بموتھا، و حلوھا بمرّھا، لم یصفّھا اﷲ تعالیٰ لاولیائہ، ولم یَضنّ بھا علیٰ أعدائہ۔۔۔ ” (۱۵)
”میں تمہیں اس دنیا سے ہو شیار کر رہا ہوں کہ یہ کوچ کی جگہ ہے۔آب ودانہ کی منزل نہیں ہے۔یہ اپنے دھوکے ہی سے آراستہ ہو گئی ہے اور اپنی آرائش ہی سے دھو کا دیتی ہے۔اس کا گھر پروردگار کی نگاہ میں با لکل بے ارزش ہے اسی لئے اس نے اس کے حلال کے ساتھ حرام۔خیر کے ساتھ شر، زندگی کے ساتھ موت اور شیریں کے ساتھ تلخ کو رکھ دیاہے اور نہ اسے اپنے اولیاء کے لئے مخصوص کیا ہے اور نہ اپنے دشمنوں کو اس سے محروم رکھا ہے۔اس کا خیر بہت کم ہے اور اس کا شر ہر وقت حاضر ہے۔ اس کا جمع کیا ہو ا ختم ہوجانے والا ہے اور اس کا ملک چھن جانے والا ہے اور اس کے آباد کو ایک دن خراب ہوجانا ہے۔ بھلا اُس گھر میں کیا خوبی ہے جوکمز ور عمارت کی طرح گرجائے اور اس عمر میں کیابھلائی ہے جو زادراہ کی طرح ختم ہوجائے اور اس زندگی میں کیا حسن ہے جو چلتے پھرتے تمام ہوجائے۔
دیکھو اپنے مطلوبہ امور میں فرائض الٰہیہ کو بھی شامل کرلو اوراسی سے اس کے حق کے ادا کرنے کی توفیق کا مطالبہ کرو اپنےکانوں کو موت کی آواز سنا دو قبل اس کے کہ تمہیں بلالیا جائے
دنیا کے سلسلہ میں ہی فرماتے ہیں:
”۔۔۔ عباد اﷲ اُوصیکم بالرفض لھذہ الدنیا التارکۃ لکم وان لم تحبوا ترکھا، و المبلیۃلأجسامکم و ان کنتم تحبون تجدیدھا، فانّما مثلکم و مثلھا کسَفْرٍ سلکوا سبیلاً فکأنّھم قد قطعوہ۔۔۔” (۱۶)
”بندگانِ خدا! میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ اس دنیا کو چھوڑ دو جوتمہیں بہر حال چھوڑنے والی ہے چاہے تم اس کی جدائی کو پسند نہ کرو۔ وہ تمہارے جسم کو بہرحال بوسیدہ کردے گی تم لاکھ اس کی تازگی کی خواہش کرو۔ تمہاری اور اس کی مثال ان مسافروں جیسی ہے جو کسی راستہ پر چلے اور گویا کہ منزل تک پہونچ گئے۔ کسی نشان راہ کا ارادہ کیا اور گویا کہ اسے حاصل کرلیا اور کتنا تھوڑا و قفہ ہوتا ہے اس گھوڑا دوڑانے والے کے لئے جو دوڑاتے ہی مقصد تک پہونچ جائے۔اس شخص کی بقا ہی کیا ہے جس کا ایک دن مقرر ہو جس سے آگے نہ بڑھ سکے اور پھر موت تیز رفتاری سے اسے ہنکا کرلے جارہی ہو یہانتک کہ بادل ناخواستہ دنیا کو چھوڑدے۔ خبردار دنیا کی عزت اور اس کی سربلندی میں مقابلہ نہ کرنا اور اس کی زینت و نعمت کو پسند نہ کرنا اور اس کی دشواری اور پریشانی سے رنجیدہ نہ ہونا کہ اس کی عزت وسربلندی ختم ہوجانے والی ہے اور اس کی زنیت و نعمت کو زوال آجانے والا ہے اوراس کی تنگی اور سختی بہرحال ختم ہوجانے والی ہے۔یہاں ہر مدت کی ایک انتہا ہے اور ہر زندہ کے لئے فنا ہے۔کیا تمہارے لئے گذشتہ لوگوں کے آثار میں سامان تنبیہ نہیں ہے ؟اور کیا آباء واجداد کی داستانوں میں بصیرت وعبرت نہیں ہے؟
اگر تمہارے پاس عقل ہے!کیا تم نے یہ نہیں دیکھا ہے کہ جانے والے پلٹ کر نہیں آتے ہیں اور بعد میں آنے والے رہ نہیں جاتے ہیں ؟کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اہل دنیا مختلف حالات میںصبح وشام کرتے ہیں۔کوئی مردہ ہے جس پر گریہ ہو رہا ہے اور کوئی زندہ ہے تو اسے پرسہ دیاجارہا ہے۔ ایک بستر پر کوئی غفلت میں پڑا ہوا ہے تو زمانہ اس سے غافل نہیں اور اس طرح جانے والوں کے نقش قدم پر رہ جانے والے چلے جارہے ہیں۔آگاہ ہوجاؤ کہ ابھی موقع ہے اسے یاد کرو جو لذتوں کو فنا کردینے والی۔ خواہشات کو مکدر کردینے والی اور امیدوں کو قطع کردینے والی ہے ایسے اوقات میں جب برے اعمال کا ارتکاب کر رہے ہو اور ﷲ سے مدد مانگو تاکہ اس کے واجب حق کو ادا کردو اور ان نعمتوں کا شکریہ ادا کر سکو جن کا شمار کرنا ناممکن ہے ”
یہ زندگانی دنیا کا پہلا رخ ہے چنانچہ دنیا کے اس چہرے کی نشاندہی کرنے کے لئے ہم نے روایات کو اسی لئے ذرا تفصیل سے ذکر کیا ہے کیونکہ اکثر لوگ دنیا کے باطن کو چھوڑ کراس کے ظاہر پر ہی ٹھہرجاتے ہیں اور ان کی نظر یں باطن تک نہیں پہونچ پاتیں۔شاید ہمیں انہیں روایات میں ایسے اشارے مل جائیں جن کے سہارے ہم ظاہر دنیا سے نکل کر اس کے باطن تک پہونچ جائیں۔
………………………..
حواله جات
۱۔ بحارالانوارج۷۷ص۳۵۲۔
۲۔ نہج البلاغہ حکمت ۷۷وبحارالانوار ج۷۳ص۱۲۹
۳۔ بحارالانوارج۷۷ص۳۷۴۔
۴۔ بحارالانوارج۷۸ ص۲۳۔
۵۔ غررالحکم ج۱ص۱۰۹۔
۶۔ بحارالانوارج۷۸ص۳۱۱۔
۷۔ نہج البلاغہ خطبہ ۲۲۶۔
۸۔ نہج البلاغہ خطبہ۸۳
۹۔ نہج البلاغہ مکتوب ۳۔
۱۰۔ نہج البلاغہ خطبہ ۸۲۔
۱۱۔ نہج البلاغہ مکتوب۶۸۔
۱۲۔ نہج البلاغہ خطبہ ۵۲۔
۱۳۔ سورئہ کہف آیت۴۵۔
۱۴۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۱،آیت ۱۰۴ ازسورئہ انبیائ
۱۵۔ نہج البلاغہ خطبہ۱۱۳۔
۱۶۔ نہج البلاغہ خطبہ۹۹۔