- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- 2024/11/02
- 0 رائ
سید رضی اسلامی تاریخ میں علم و ادب، تقویٰ اور علمی خدمات کے حوالے سے ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ آپ کی تربیت شیخ مفید جیسے عظیم استاد کے زیر سایہ ہوئی اور علم فقہ و ادب میں مہارت حاصل کی۔ نہج البلاغہ ان کی مشہور تصنیف ہے، جس میں حضرت امام علی(علیہ السلام) کے خطبات، خطوط اور اقوال کو جمع کیا گیا ہے۔ تاریخ تشیع، ان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ سید رضی نے متعدد کتابوں کے علاوہ، ایک ایسا علمی مرکز قائم کیا جہاں طلاب کی تعلیم و تربیت کے ساتھ قیام کا بھی انتظام تھا جسے دارالعلوم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
سید رضی کی ولادت اور ان کے خاندان کا تعارف
مشہور یہی ہے کہ سید رضی ۳۵۹ ہجری قمری میں بغداد میں پیدا ہوئے اور تمام مؤرخین کی تصدیق کرتے ہیں۔ پیدا ہوتے ہی بچے کا نام محمد رکھا، بعد میں ’’الشریف الرضی“ اور ”ذوالحسبین“ مشہور ہوئے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت حسین ابن ابی محمد اطروش تھیں۔ حضرت امام علی(ع) کی نسل سے تھیں (فاطمہ بنت الحسین بن ابی محمد احسن الاطروش بن علی بن احسن بن علی بن عمر بن علی بن ابی طالبعلیہم السلام)۔ آپ با کردار، بلند نظر خاتون تھیں۔ سید رضی آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:
لَوْ كَانَ مِثلَكِ كُلُّ أُمٍّ بَرّةٍ غَنِيَ الْبَنُونَ بِهَا عَنِ الْآبَاءِ[1]
اگر ساری مائیں آپ جیسی نیک ہوتیں تو بچے باپ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
آپ کے والد حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں، جن کا نام ابواحمد حسین بن موسیٰ ہے (ابو احمد الحسین بن موسیٰ بن محمد بن موسی بن ابراہیم بن الامام ابی ابراہیم موسی الکاظم علیہم السلام)۔ آپ عباسی اور آل بویہ حکمرانوں کے نزدیک عظیم مقام رکھتے تھے۔ آپ کو ابونصر بہاؤ الدین نے ’’الطاھر الاوحد“ کا لقب دیا۔
ابواحمد پانچ مرتبہ طالبیین (آل ابوطالبعلیہ السلام) کے سرپرست و رئیس رہے۔ جب آپ کی وفات ہوئی تو یہ گروہ آپ کو نقیب و بزرگ کے عنوان سے یاد کرتا تھا۔ سید رضی ایسے ماں باپ کے ہاں پیدا ہوئے اور آپ نے پاک خاندان میں پرورش پائی، بچپن ہی سے آپ کے چہرے سے بزرگی کے آثار نمایاں تھے۔
مرحوم علامہ امینی ، (صاحب الغدیر)، سید رضی کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’سید رضی کا تعلق خاندان نبوت کے ان صاحبان افتخار افراد سے ہے، جن پر علم و دانش اور حدیث و ادب کے لحاظ سے دین و مذہب کو فخر ہے۔‘‘ انہوں نے تمام نیک افراد کی نیکیاں میراث میں پائی ہیں جبکہ عظیم دانشور، بہترین زندگی کے مالک اور صائب و ثاقب نظر، بلند طبع، بہترین ادیب، پاکیزه حسب کے مالک تھے۔
خاندانِ نبوی سے تعلق رکھتے تھے کہ ان کی عظمت حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا) سے تھی اور بزرگی و سیادت حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے میراث میں ملی، سید رضی کئی ایسے دیگر فضائل کے مالک ہیں کہ قلم ان کو بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔[2]
علامہ امینی چالیس سے زیادہ ایسی کتابوں کا ذکر کرتے ہیں، جن میں سید رضی کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں تحریریں موجود ہیں اور مزید فرماتے ہیں: ”ان کی عظمت بلندی، علامہ شیخ عبدالحسین حلی نے مقدمے کے طور پر تفسیر کی پانچویں جلد میں ص ۱۱۲ پر بیان کی ہے۔ اسی طرح ان کی بلند شخصیت ’’عبقریة الشریف الرضي‘‘ میں بیان کی گئی ہے، جو معروف مصنف ”زکی مبارک‘‘ نے دو جلدوں میں پیش کی ہے۔ ان دو افراد سے قبل علامہ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء نے ان کے بارے میں کتاب لکھی ہے۔
سید رضی کے اساتذہ
علامه امینی چودہ افراد کے نام بطور استاد سید رضی ذکر کرتے ہیں، چنانچہ چند کے نام درج ذیل ہیں:
۱۔ ابوسعید حسن بن عبد اللہ بن مرزبان نحوی المعروف به سیرانی (متوفی ۳۶۸ھ) اس وقت سید رضی دس سال کے بھی نہیں تھے، جب ان کے پاس علم نحو سیکھا۔
۲۔ ابوعلی حسن ابن احمد فارسی، جو کہ نحوی معروف تھے، (متوفی ۳۷۷ھ)
۳۔ ہاون ابن موسی۔
۴۔ ابویحییٰ عبدالرحیم بن محمد جو کہ ’’ابن نباتہ‘‘ مشہور تھے، اور زبردست خطیب تھے۔ (متوفی ۳۹۴ھ)
۵- قاضی عبدالجبار، شافعی معتزلی مشہورعالم تھے۔
۶۔ سید رضی کے اصل استاد فقیہ محدّث، متکلم اور شیعہ عظیم شخصیت شیخ مفید ہیں۔ یہاں سید رضی اور سید مرتضی کی شاگردی کی داستان قابل ذکر ہے۔
’’الدرجات الرفيعۃ‘‘ کے مؤلف کہتے ہیں: شیخ مفید نے خواب دیکھا کہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا) اپنے دونوں چھوٹے بچوں کا ہاتھ پکڑے مسجد کرخ (جو بغداد کے قدیم محلے میں واقع ہے) میں تشریف لاتی ہیں، دونوں کو میرے حوالے کرتے ہوئے فرماتی ہیں میرے حسن و حسین (علیھما السلام) کو فقہ کی تعلیم دو۔
’’وَ قَالَتْ لَهُ: عَلَّمْهُمَا الفِقْهَ‘‘ شیخ مفید ، حیرانی کے عالم میں بیدار ہوتے ہیں؛ معمول کے مطابق مسجد تشریف لے جاتے ہیں؛ کچھ دیر بعد محترمہ فاطمہ، سید رضی وسید مرتضی کی والدہ اپنے بچوں سید رضی ، سید مرتضی اور خادموں کے ساتھ مسجد میں تشریف لاتی ہیں؛ شیخ مفید ان کو دیکھ کر اپنی جگہ سے کھڑے ہو جاتے ہیں؛ فاطمہ کو سلام کرتے ہیں؛ فاطمہ شیخ مفید کی طرف دیکھ کر کہتی ہیں:
’’اے شیخ! یہ دو میرے بچے ہیں، ان کو آپ کے پاس لائی ہوں تا کہ علم فقہ کی تعلیم حاصل کریں۔“
شیخ مفید اپنے رات کے خواب میں محو ہو جاتے ہیں، رونے لگتے ہیں اور خواب بیان کرتے ہیں۔ اس طرح شیخ مفید نے ان دونوں بچوں کی تعلیم و تربیت کی؛ خداوند عالم نے ان پر احسان کیا اور ان پر علم وفضل کے نئے باب کھولے اور آج بھی ان کے آثار باقی و موجود ہیں۔[3]
سید رضی کے شاگرد
بہت سے شیعہ وسنی بزرگوں نے بیان کیا ہے کہ علامہ امینی نے نو (۹) افراد کو ان کا شاگر د شمار کیا ہے، جنہوں نے سید رضی سے روایت کی، ان میں سے آپ کے بھائی سید مرتضی اور شیخ الطائفہ، ابو جعفر محمد بن حسن طوسی ہیں۔ سید رضی نے مدرسہ قائم کیا، جہاں طلاب، درس و تدریس کے ساتھ قیام بھی کرتے تھے اور اس کا نام ”دار العلوم“ رکھا۔ سید رضی وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نے اس طرح کا مدرسہ جہاں طلاب کی تعلیم کے ساتھ رہائش کا بھی مکمل انتظام ہو اور لائبریری بھی ہو، قائم کیا۔[4]
سید رضی کی تالیفات
علامہ امینی ، سید رضی کے آثار و تالیفات میں سے انیس (۱۹) کتابوں کا ذکر فرماتے ہیں، جن میں سے اہم ترین تالیف ’’نہج البلاغہ‘‘ ہے، جو مولائے کائنات کے فرامین و خطوط پر مشتمل ہے۔ علامہ امینی ان اکیاسی (۸۱) کتابوں کا ذکر کرتے ہیں، جو ان کے دور حیات تک نہج البلاغہ کی شرح کے عنوان سے لکھی جا چکی تھیں۔
سید رضی کی تالیفات میں سے اہم ترین کتب درج ذیل ہیں:
۱۔ خصائص الائمہ(علیہم السلام): جس کی طرف مؤلف نے نہج البلاغہ کے مقدمے میں اشارہ کیا ہے۔
۲- مجازات آثار النبویہ (ص): جو ۱۳۲۸ ہجری میں بغداد سے طبع ہوئی۔
۳۔ علمی خطوط (تین جلدوں پر مشتمل ہے)۔
۴- معانی القرآن
۵- حقائق التاویل فی متشابہ التنزیل (جسے ’’کشّی ‘‘ نے حقائق التنزیل سے تعبیر کیا ہے)
مرحوم شیخ عباس اپنے استاد محدث نوری سے نقل فرماتے ہیں اور ابوالحسن عمری بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ’’حقائق التنزیل‘‘ شیخ طوسی کی کتاب ’’تبیان‘‘ سے بھی زیادہ بڑی، مفید اور جامع ہے، ہمیں اس کتاب کی پانچویں جلد ملی، جس میں سورۂ آل عمران کی ابتدا سے لے کر سورۂ نساء کے وسط تک (قرآن کی) تفسیر ہے۔
اس کتاب میں سید رضی کی قابل قدر روش یہ رہی ہے کہ ایک مشکل آیت کو بیان کرتے ہیں اور اس میں موجود پیچیدگیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان اشکالات کا مفصل جواب دیتے ہیں اور اسی ضمن میں دیگر آیات کی بھی تفسیر کرتے ہیں۔ لہذا انہوں نے تمام آیتوں کی تفسیر نہیں کی ہے بلکہ مشکل اور مبہم آیتوں کی تفسیر لکھی ہے۔[5]
سید رضی اور شعر
سید رضی شعرگوئی میں بھی مشہور تھے، لیکن شعرگوئی نے ان کی عظمت میں اضافہ نہیں کیا، بلکہ وہ خود پہلے ہی عظیم تھے، سید رضی ابھی دس سال کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ ’’قصیدہ غرّاء‘‘ لکھا، جس میں انھوں نے اپنا نسب عالی بیان کیا۔ بہت سے دانشمندوں نے آپ کو قریش کا بہترین شاعر کہا ہے۔
خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے، محمد بن عبد اللہ کا تب سے سنا ہے، ایک بزرگ جن کا نام ابوالحسین بن محفوظ ہے، انہوں نے کہا، میں نے ادبیات کے ماہرین سے سنا کہ سید رضی زبردست شاعر قریش تھے۔ ابن محفوظ نے جواب دیا، یہ صحیح ہے کہ قریش میں اچھے شاعر جو اچھے شعر کہتے تھے بہت تھے مگر وہ کم کہتے تھے لیکن ایسے شاعر جو زیادہ اور اچھے شعر کہتے ہوں، سید رضی کے علاوہ کوئی اور نہیں۔
سید رضی کے القاب اور ان کی سماجی شخصیت
بهاء الدولہ دیلمی نے ۳۸۸ھ میں سید رضی ’’شریف اجل‘‘ کا لقب دیا۔ ۳۹۲ھ میں ”ذوالمنقبتین“ کا اور ۳۹۸ھ میں ’’رضی ذو الحسبین“ کا لقب ملا۔ ۴۰۱ھ میں بہاء الدولہ نے حکم دیا کہ تمام تقاریر اور مکاتیب میں سید رضی کو ’’شریف اجل‘‘ کے لقب سے یاد کیا جائے۔
سید رضی کو ۳۸۰ھ میں جب آپ کی عمر مبارک ۲۱ سال سے زیادہ نہ تھی، عباسی خلیفہ ” الطائع باللہ‘‘ کی جانب سے طالببین (آل ابوطالب علیہ السلام) کی سرداری، حاجیوں کی سر پرستی، دیوان مظالم کی ذمہ داری جیسے عہدوں سے نوازا گیا۔ ۱۶ محرم ۴۰۳ھ میں تمام شہروں میں موجود سادات کرام کے ولی اور سرپرست منصوب ہوئے، اور ’’نقیب النقباء‘‘ کہلائے جانے لگے۔ نقابت، وہ منصب تھا جو ممتاز محبوب عالم با تقوی کو دیا جاتا تھا۔ لوگ اس کی طرف رجوع کرتے تھے، منصب ھذا کا مالک درج ذیل امور کو انجام دیتا تھا اور اسے خلیفہ وقت کی تائید حاصل ہوتی تھی۔
ا۔ سادات گھرانوں کی حفاظت و پرورش -۲- اخلاقی و ادبی لحاظ سے لوگوں کی پرورش ۳- لوگوں کو پست مشغلوں اور غیر مشروع کاموں سے دور رکھنا ۴۔ شریعت محمدی کی بے حرمتی سے روکنا ۵۔ دوسروں پر ظلم کرنے سے روکنا۔ ۶۔ حقوق کی حفاظت و ادائیگی ۷۔ بیت المال سے لوگوں کے حقوق طلب کرنا ۸۔ خواتین اور ان کی بیٹیوں کی شادیوں کی نگرانی کرنا ۹۔ عدالت کا قیام ۱۰۔ موقوفات پر نظارت رکھنا۔[6]
سید رضی نے اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو خوب نبھایا، یہاں تک کہ خلیفہ عباسی القادر باللہ کے زمانے میں خادم حرمین شریفین قرار پائے۔ اگرچہ یہ بات بہت واضح ہے کہ سید رضی کو یہ ذمہ داریاں اور اعلیٰ مناصب سونپنے کا اہم سبب جناب سید رضی کا بنی ہاشم، سادات اور علویوں میں خاص اہمیت کا حامل ہونا تھا، چنانچہ عباسی خلفاء کے نزدیک سوائے اس کے کہ وہ سید رضی ہی کی طرح کے لوگوں کو یہ منصب دیں، کوئی اور چارہ کار نہیں تھا۔
سید رضی کے متعلق دانشوروں کے اقوال
بہت سے دانشوروں نے سید رضی کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے لیکن ہم چند افراد کے اقوال نقل کرتے ہیں:
ا۔ ثعلبی جو آپ کے ہم عصر تھے، کہتے ہیں: سید رضی آج کے زمانے کے روشن فکر اور شریف ترین عراقی سید ہیں، وہ حسب و نسب کے لحاظ سے اصیل اور ان کی شرافت، ادب و فضل آشکار ہے۔
۲۔ ابن جوزی نے ’’المنتظم‘‘ میں لکھا: سید رضی بغداد کے طالبین کے بڑوں میں سے تھے۔ جب آپ کی عمرتین سال تھی کہ آپ نے بہت جلد قرآن حفظ کیا، اور فقہ کو بہت جلد مکمل کیا، آپ دانشمند، فاضل، زبردست شاعر، بلند ہمت اور دین دار تھے۔ بیان کیا جاتا ہے ایک دن آپ نے ریشمی کپڑا ایک عورت سے پانچ درہم میں خریدا، جب گھر لے جا کر اسے کھولا تو اس میں ابن علی بن مقلہ کا لکھا ہوا کا غذ پایا؛
سید رضی نے خادم سے کہا، اس عورت کو بلاؤ؛ جب عورت آئی تو اس سے کہا، میں نے تم سے جو کپڑا خریدا تھا اس میں ابن علی بن مقلہ کے ہاتھوں کی تحریر ہے، اب تمہاری مرضی ہے اس کاغذ کو لے لو یا اس کی قیمت مجھ سے وصول کر لو، عورت نے پیسے لے کر سید رضی کے لیے دُعا کی اور چلی گئی۔ سید رضی کی سخاوت مندانہ زندگی میں اس طرح کے منفرد واقعات بہت زیادہ ہیں۔
۳۔ معاصرین میں سے مصر کے مشہور دانشمند ڈاکٹر ’’زکی مبارک‘‘ جو خود بہترین مصنف بھی ہے، لکھتے ہیں: ”بلا شبہ سید رضی ایک عظیم مصنف ہیں لیکن ان کی روش، علمی روش ہے، فنی روش نہیں۔ اگر چہ بعض جگہ فنی روش نظر آتی ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر کہتے ہیں:
’’جب سید رضی کے شعر سننے کے بعد ان کی نثر اور دوسری تحریروں پر نظر ڈالتے ہیں تو لگتا ہے کہ سید رضی ایک اور شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ایسے دانشمند ہیں، جن کی تحریر گواہی دیتی ہے کہ قابل فخر ادیبوں میں سے ایک ہیں، ایسا دانشور جو لغت اور شریعت سے متعلق علوم پر لکھتا ہے تو ادبیات کی بہترین خوشبو چھوڑ جاتا ہے۔“
وہ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
’’اگر سید رضی کے تمام آثار قلمی محفوظ رہ جاتے تو اس وقت ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ تمام مؤلفوں اور مصنفوں میں یگانہ روزگار اور ایسے عظیم مؤلف ہیں جن کی مثال نہیں۔‘‘[7]
سید رضی کی وفات
سید رضی ۶ محرم الحرام ۴۰۶ ہجری میں (۴۷ سال کی عمر میں) اس دارفانی کو الوداع کہہ گئے۔ آپ کی وفات کی خبر سن کر وزراء، قضات اور دوسری اہم شخصیات اور ہر طبقے کے افراد ننگے پاؤں ان کے گھر کی طرف روانہ تھے۔ آپ کا گھر محلہ کرخ میں تھا، جہاں بے مثال مراسم ادا ہوئے۔ بہت سے مؤرخوں کے مطابق آپ کے جسد کو کربلا منتقل کیا گیا۔ آپ کو آپ کے والد کے برابر میں سپرد خاک کیا گیا۔
جو چیز تاریخ سے ملتی ہے، وہ یہ ہے کہ آپ کی قبر حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے حرم میں ہے۔ سید مرتضی، سید رضی کے بھائی، شدت غم کی وجہ سے جنازے میں شریک نہیں ہوئے اور انھوں نے نماز جنازہ ادا نہیں کی، اور بھائی کا آخری دیدار بھی کرنے کی تاب نہیں رکھتے تھے اور اسی غم میں امام موسی کاظم (علیہ السلام) کے حرم یعنی قبر امام موسی کاظم (علیہ السلام) کے قریب مدت تک بیٹھے رہے۔ بہت سے شعرائے کرام من جملہ سید مرتضی نے آپ کی وفات پر مرثیے کہے۔[8]
خاتمہ
سید رضی نے اسلامی علم و ادب میں گراں قدر خدمات انجام دیں اور اپنی زندگی کو علم و فضل کے فروغ کے لیے وقف کیا۔ ان کی تالیف “نہج البلاغہ” آج بھی معارف علوی کی تشریح میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے اور دنیا بھر کے اہل علم کے لیے مرجع ہے۔ ان کے اخلاق، سخاوت اور علمی بصیرت نے انہیں نہ صرف اپنے دور میں بلکہ بعد کے زمانوں میں بھی ممتاز شخصیت بنایا۔ ۴۷ سال کی عمر میں انتقال کر گئے، مگر ان کی علمی وراثت ہمیشہ قائم و دائم رہے گی۔ سید رضی کی زندگی اور ان کا علمی ورثہ آج بھی علمی حلقوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
نوٹس:
[1]۔ امین، أعيان الشيعة، ج ۸، ص۳۹۰۔
[2]۔ امینی، الغدیر، ج۴، ص۱۸۱۔
[3] ۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۴۱۔
[4]۔ سید علوی، یادنامه علامه سید رضی، ص۲۹۔
[5]۔ قمی، سفینة البحار، ماده ’’رضا‘‘۔
[6]۔ امینی، الغدیر، ج۴، ص۲۰۵ تا ۲۰۷ (تلخیص)۔
[7]۔ زکی مبارک، عبقریۃ الشریف الرضی، ص۲۰۴۔۲۰۵۔
[8]۔ سید رضی کی زندگی کے بارے میں الغدیر،ج ۴، ص۱۸۱ تا ۲۱۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، عبقریۃ الشریف الرضى، سفینة البحار اور یادنامه علامه شریف رضی دیکھیے)۔
کتابیات
- زکی مبارک، محمد، عبقریة الشریف الرضي، بیروت لبنان، دار الجيل، ۱۴۰۸ھ ۔
- قمی، عباس، سفينة البحار و مدينة الحکم و الآثار، مشهد مقدس ایران، آستان قدس رضوی، بنياد پژوهشهای اسلامى، ۱۳۸۸ش – ۱۴۳۰ھ ۔
- سید علوی، ابراهیم، یادنامه علامه شریف رضی، تهران ایران، نشر روشنگر، ۱۳۶ش۔
- امین، محسن، و امین، حسن، أعیان الشیعة، بیروت لبنانٟ، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۳ھ ۔
- امینی، عبدالحسین،اَلْغَدیر فِی الْکِتابِ وَ السُّنّة وَ الْاَدَب، تهران ایران، کتابخانه بزرگ اسلامی، ۱۳۶۸ش۔
- ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن هبه الله، شرح نهج البلاغة، بغداد عراق، دار الکتاب العربي، ۱۴۲۸ھ – ۲۰۰۷ء۔
منبع: مکارم شیرازی، ناصر اور دیگر علماء اور دانشوران، کلام امیر المؤمنین علی علیہ السلام (نہج البلاغہ کی جدید، جامع شرح اور تفسیر)، ترجمہ سید شہنشاہ حسین نقوی (زیر نگرانی)، مصباح القرآن ٹرسٹ، لاہور، ۲۰۱۶، ج۱، ص۳۱ تا ۳۶۔