- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 12 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/12/05
- 0 رائ
تاريخى اعتبار سے شيعه مذهب کے ماننے والے کو سب سے پھلے حضرت علي(ع) کا شيعہ يا پيرو کار کھا گيا ھےـ مذھب شيعہ کى پيدائش يا آغاز کا زمانہ وہ زمانہ ھے جب پيغمبر اکرم(ص) اس دنيا ميں موجود تھے ـ پيغمبر اکرم کى ولادت سے لے کر23 سالہ زمانۂ بعثت تک اور تحريک اسلام کى ترقى کے دوران بھت سے ايسے اسباب و واقعات رونما ھوئے جن کے نتيجے ميں خود رسول خدا(ص) کے اصحاب ميں ايک ايسى جماعت کا پيدا ھونا ناگزير اور لازمى ھوگيا تھا ـمندرجہ ذيل امور اس امر کى توثيق کرتے ھيں(1)
(1) رسول خدا کو اپنى بعثت کے اوائل ميں ھى قرآن مجيد کى آيت کے مطابق حکم ملا کہ اپنے خويش و اقارب کو اپنے دين کى طرف بلائيں ـ لھذا آپ نے واضح طور پر ان لوگوں سے فرمايا کہ جو شخص تم ميں سب سے پھلے ميرى دعوت کو قبول کرے گا وھى ميرا وصى ، وزير او ر جانشين ھوگا ـ حضرت علي(ع) نے سب سے پھلے اسلام قبول کيا اور پيغمبر اکرم (ص) نے بھى ان کے ايمان کو تسليم کرليا اور اپنے وعدہ کو پورا کيا ـ
فطرى طور پر يہ بات محال ھے کہ ايک تحريک کا قائد اور رھبر اپنى تحريک کے آغاز ميں اپنے قرابت داروں اور ـ دوستوں ميں سے ايک شخص کو اپنے وزير ، جانشين يا نائب کے طور پر دوسروںکے سامنے پيش کرے ليکن اپنے فداکاراور جاں نثار اصحاب اور دوستوں سے اس کا تعارف نہ کرائے يا اسکى صرف وزارت اورجانشينى کو خود بھى قبول کرے اوردوسروں سے بھى قبول کرائے ليکن اپنى دعوت اور تحريک کے پورے عرصے ميں اس کو وزارت اور جانشينى کے فرائض سے معزول رکھے اور اسکى جانشينى کو نظر انداز کرتے ھوئے اس کے اور دوسروں کے درميان کوئى فرق روانہ رکھےـ
(2) پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے کئى مستفيض اور متواتر روايات جو شيعہ اور سنى دونوں ذرائع سے ھم تک پھنچى ھيںکے ذريعے واضح طور پر فرمايا ھے کہ حضرت على عليہ السلام اپنے قول و فعل ميں خطا اور گناہ سے پاک ھيں ، وہ جو کچھ بھى کھتے ھيں يا جوکام بھى انجام ديتے ھيں وہ دين اسلام کى دعوت و تبليغ کے ساتھ مطابقت رکھتا ھے نيز وہ اسلامى معارف کے بارے ميں سب سے زيادہ جانتے ھيں ـ
(3) حضرت على عليہ السلام نے بھت گراں بھا خدمات انجام ديں اور بے اندازہ فداکارياں کيں مثلاً ھجرت کى رات دشمنوںکے نرغے ميں پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے بستر مبارک پر سوئےـ بدر ، احد ، خندق اور خيبرکى جنگوں ميںاسلام کوحاصل ھونے والى فتوحات آپ ھى کے ايثار کانتيجہ تھيں اگر ان ميں سے ايک معرکے ميں بھى على عليہ السلام موجود نہ ھوتے تو دشمنان حق کے ھاتھوں اسلام اور اھل اسلام کى بيخ کنى ھوجاتى ـ(2)
(4) غدير خم کا واقعہ جس ميں پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے حضرت على عليہ السلام کواپنے جانشين کے طور پر مسلمانوں کے سامنے پيش کيا اور ان کو اپنا وصى بناياـ (3)
ظاھر ھے کہ ان خصوصى امتيازات اور فضائل(4) کے علاوہ جو سب افراد کے لئے قابل قبول تھے حضرت على عليہ السلام کے ساتھ پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کى بے اندازہ محبت(5) نے فطرى طور پر رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے اصحاب ميں سے ايک بڑى تعداد کو ان کى فضيلت اور حقيقت کا شيفتہ بنا ديا تھاـ يھى وجہ تھى کہ انھوں نے حضرت على عليہ السلام کو منتخب کيا اور ان کے گرد جمع ھوگئے اور ان کى پيروى اور اطاعت شروع کردى يھاں تک کہ بعض لوگوں نے اس پسنديدگى کى وجہ سے آپ سے حسد بھى کرنا شروع کر ديا اور آپ کے دشمن ھو گئےـ
ان سب کے علاوہ شيعۂ علي(ع) اور شيعۂ اھلبيت(ع) کا لفظ پيغمبر اکرم(ص) کى احاديث ميں بھت زيادہ نظر آتا ھے ـ
شيعہ اقليت کى سنى اکثريت سے جدائى کى وجہ اور اختلافات کا پيدا ھونا
رسول پاک صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم ، صحابۂ کرام اور تمام مسلمانوں کى نظر ميں حضرت على عليہ السلام کى قدرو منزلت کے باعث آپ کے پيروکاروں کو يقين تھا کہ آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کى رحلت کے بعد خلافت اور رھبرى حضرت على عليہ السلام کا مسلمہ حق ھے ـ اس کے علاوہ تمام شواھد و حالات بھى اس عقيدے کى تصريح کرتے تھے ، سوائے ان واقعات کے جو پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کى بيمارى کے زمانے ميں رونما ھو,(ئے(6) ليکن ان لوگوں کى توقعات کے بالکل بر خلاف ٹھيک اس وقت جبکہ پيغمبراکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے رحلت فرمائى اور ابھى آپ کى تجھيز و تکفين بھى نھيں ھوئى تھى اور اھلبيت عليھم السلام اور بعض اصحاب کفن ودفن کے انتظامات کررھے تھے ،خبر ملى کہ ايک جماعت نے جو بعد ميں اکثريت کى حامل ھوئى ،نھايت جلد بازى ميں پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے اھل و عيال ، رشتہ داروں اور پيروکاروں سے مشورہ کئے بغير حتى ان کو اطلاع ديئے بغير ، ظاھرى خير خواھى اور مسلمانوں کى بھبودى کى خاطر مسلمانوں کے لئے خليفہ کا انتخاب کرلياھےـ اس کى خبر حضرت على عليہ السلام اور آپ کے پيرروکاروں کوخليفہ کے انتخاب کے بعد دى گئى تھى ـ(7)
حضرت رسول اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے کفن ودفن کے بعد جب حضرت على عليہ السلام اور آپ کے پيروکاروں عباس، زبير ، سلمان، ابوذر، مقداد اور عمار وغيرہ کو اس واقعے کى اطلاع ملى تو انھوں نے انتخابى خلافت اور خليفہ کو انتخاب کرنے والوں پر سخت اعتراضات کئے اور اس ضمن ميں احتجاجى جلسے بھى ھوئے مگر جواب ديا گيا کہ مسلمانوں کى اسى ميں بھترى ھےـ
يھى اعتراضات تھے جنھوں نے اقليت کو اکثريت سے جدا کر ديا تھا اور حضرت على عليہ السلام کے پيروکاروں کو معاشرے ميں ”شيعۂ علي(ع) “ کے نام سے پھچنوايا تھا البتہ حکومت اور خلافت کے مامو رين بھى سياسى لحاظ سے کڑى نظر رکھے ھوئے تھے کہ مذکورہ اقليت اس نام سے مشھور نہ ھو اوراسلامى معاشرہ اکثريتى اور اقليتى گروھوں ميں تقسيم نہ ھونے پائے کيونکہ وہ خلافت کو اجماع امت جانتے تھےـ
البتہ شيعہ شروع سے ھى وقتى سياست کے محکوم ھو گئے تھے ليکن صرف اعتراضات کے ذريعے کوئى کام انجام نھيں دے سکتے تھےـ ادھر حضرت على عليہ السلام بھى مسلمانوں اور اسلام کى خاطر اور کافى طاقت و قوت نہ رکھنے کى وجہ سے ايک خونى انقلاب برپا نہ کرسکے ليکن يہ اعتراض کرنے والے اپنے عقيدے اورنظريے کے لحاظ سے اکثريت کے تابع نہ ھوئے اور پيغمبر اکرم کى جانشينى اورعلمى رھبرى کو حضرت علي(ع) کاحق سمجھتے نيز علمى ومعنوى مرکز صرف حضرت علي(ع) کوھى مانتے رھے اورساتھ ھى دوسروں کو بھى حضرت علي(ع) کى طرف دعوت ديتے رھے ـ
جانشينى اور علمى رھبرى کے دو مسائل
اسلامى تعليمات کے مطابق شيعوں نے جو کچھ سيکھا تھا اس پرمعتقد تھے ـ جو چيز معاشرے کے لئے سب سے زيادہ اھميت کى حامل تھى وہ يہ تھى کہ اسلامى تعليمات اور دينى ثقافت کو واضح کياجائے اور دوسرے مرحلے ميں ان کومعاشرے ميں مکمل طورپر نافذ اور جارى کياجائے ـ
دوسرے يہ کہ ايک دينى حکومت ، حقيقى اسلامى انتظام اور نظم ونسق کو معاشرے ميں مضبوط اور محفوظ رکھاجائے اور اسے نافذ کياجائے اس طرح کہ لوگ خدا کے سواکسى اور کى پرستش نہ کريں اور مکمل آزادى اور انفرادى و اجتماعى انصاف سے بھرہ ور ھوں ـ
يہ دونوں کام اس شخص کے ھاتھوں انجام پائيں جس کى عصمت او ر حفاظت خداوند تعاليٰ کى طرف سے ھو ـ ورنہ ممکن ھے ايسے اشخاص اقتدار و حکومت اورعلمى رھبرى کواپنے ھاتہ ميں لے ليں جو اپنے فرائض کى ذمہ دارى ميں فکرى انحراف ياخيانت سے محفوظ نہ ھوں اور اس طرح اسلام کى آزادى بخش عادلانہ حکومت اور ولايت آھستہ آھستہ استبدادى سلطنت اور قيصر و کسريٰ جيسى حکومتوں ميں تبديل ھوکر رہ جائے ـمقدس دينى علوم او رديگر معارف ميں تبديلياں پيداھوجائيں اور بوالھو س و خود غرض دانشورياعام افراد ان ميں اپنى مرضى سے کمى بيشى کرديںـلھذاايک ايسے شخص کى ضرورت تھى جس کى تصديق پيغمبر اکرم نے کى ھو او ر وہ شخص اپنے قول و فعل ميں پاک اور پختہ ھو، اس کے طور طريقے کتاب خدا اورسنت رسول کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتے ھوںـ ايسے شخص صرف حضرت علي(ع) تھےـ(8)
اگر چہ اکثر لوگ کھتے ھيں کہ اگر قريش حضرت علي(ع) کى خلافت حقہ کے مخالف تھے تو اس صورت ميں ضرورى تھا کہ مخالفوں کو حق کى اطاعت پر مجبور کياجاتا اور سرکش لوگوں کو سر اٹھانے کى اجازت نہ دى جاتى نہ کہ قريش کى مخالفت کے ڈر سے حق کو پامال کيا جاتا، جيسا کہ خليفۂ اول نے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کى تھى جنھوں نے زکوٰة دينا بند کردى تھى ليکن زکوٰة لينے سے چشم پوشى نھيں کى تھى ـ
حقيقت يہ ھے کہ جس چيز نے شيعوں کو انتخابى خلافت کے قبول اور تسليم نہ کرنے پرابھارا وہ يہ تھى کہ ان کو بعد ميں رونما ھونے والے ناگوار اتفاقات و حوادث کاخوف تھا يعنى اسلامى حکومت کے نظام اور طريقوں ميں بدعنوانى اور فساد کے نتيجے ميں دين مبين اسلام کى بنيادى تعليمات ميں خرابى لازمى نظر آتى تھى ـ
اتفاق سے بعد ميں رونما ھونے والے حوادث بھى اس عقيدے يا پيشينگوئى کو تقويت دے رھے تھےـ جس کے نتيجے ميں شيعہ جماعت اپنے عقيدے پر زيادہ سے زيادہ مضبوط ھوتى جارھى تھى يا يوں کھاجائے کہ ظاھرى طور پر ايک چھوٹى سى جماعت ايک بڑ ى اکثريت کو اپنے اندر ضم کرنے چلى تھى ليکن باطنى طور پر اھلبيت(ع) سے اسلامى تعليمات کے حصول اور اپنے طريقے کى طرف لوگوں کو دعوت دے رھى تھى اور اپنے عقائد پرمصر تھى مگر اس کے ساتھ ھى اسلامى طاقت کى ترقى اور حفاظت کے پيش نظر حکومت کے ساتھ اعلانيہ مخالفت بھى نھيں کرتى تھى حتى کہ شيعہ ،اکثريت کے دوش بدوش جھاد پر جاتے اوررفاہ عامہ کے کاموں ميں حصہ ليتے تھے اور خود حضرت علي(ع) اسلام کے مفادات کى خاطر لوگوں کى رھنمائى کيا کرتے تھے (9)
انتخابى خلافت کا سياسى طريقہ اور اسکا شيعى عقيدے کے ساتھ اختلاف
شيعہ جماعت کا عقيدہ تھا کہ اسلام کى آسمانى اور خدائى شريعت جسکا سارا مواد خدا کى کتاب اور پيغمبر اکرم (ص)کى سنت ميں واضح کيا جاچکا ھے ، قيامت تک اپنى جگہ پر قائم ودائم ھے اور ھرگز قابل تغيير نھيں ھے ـ لھذا اسلامى حکومت کے پاس اس قانون شريعت کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لئے کوئى عذر يابھانہ نھيں ھے کہ اس شريعت کى خلاف ورزى کرےـ اسلامى حکومت کا اولين فرض يہ ھے کہ شريعت اسلامى کى حدود ميں مشورے اورمصلحت وقت کے پيش نظر فيصلے کرے اور قدم اٹھائے ليکن شيعوں کى سياسى و مصلحتى بيعت اور اسى طرح کاغذ ، قلم اور دوات کا واقعہ جو پيغمبر اکرم (ص) کى زندگى کے آخرى ايام ميں پيش آيا تھا ، سے ظاھر تھاکہ انتخابى خلافت کے طرفداروں اور اس کے چلانے والوں کا اعتقاد تھا کہ خدا کى کتاب (قرآن مجيد )بنيادى قانون کى طرح محفوظ رھے
ليکن پيغمبراکرم (ص) کى احاديث اور سنت اپنى جگہ پر ثابت نھيں سمجھتے ان کا عقيدہ تھا کہ اسلامى حکومت ، زمانے کى ضروريات او ر مصلحت وقت کے سبب اسلامى احکام کے نفاذ کو نظر انداز کرسکتى ھے اور يہ عقيدہ ان بھت سى احاديث وروايات کے ذريعے جو بعد ميں نقل ھوئيں ، صحابہ کے حق ميں ثابت ھوگياتھا کہ وہ مجتھد ھيں اور اگر اجتھاد يا مصلحت انديشى ميں اختلاف کريں تومجبورھيں اور خطاکريں تو معذور ـ اس کا اھم ترين نمونہ وہ ھے جبکہ خليفہ کا گورنر خالد بن وليد رات کے وقت ايک مشھور مسلمان (مالک بن نويرہ) کے گھر مھمان ھوا اور پھر موقع پاکر اس کو قتل کرديا ـ اس کا سرکاٹ کر بھٹى ميں جلاديا اور پھر اسى رات مالک بن نويرہ کى بيوى کے ساتھ اس نے زنا کيا ـ اس شرمناک واقعے کے بعد چونکہ خليفۂ وقت کوايسے گورنرکى ضرورت تھى لھذا شريعت کى حد کو خالد بن وليد کے حق ميں جارى نہ کيا گيا ـ (10) اسى طرح اھلبيت(ع) کو خمس کا حصہ نہ ديا گيا، پيغمبر اکرم کى احاديث کا لکھنا بالکل ممنوع کرديا گيا ، اگر کوئى حديث کسى جگہ لکھى ھوئى نظر آتى يا کسى سے ملتى تواس کو فوراً ضبط کرکے جلا دياجاتا(11)ـ يہ ممنوعيت تمام خلفا ئے راشدين کے زمانے سے ليکر عمربن عبد العزيز اموى خليفہ (99تا102ھجرى )کے عھد تک جارى رھي (12)ـ خليفہ دوم کے زمانے ميں يہ سياست بالکل واضح ھوگئى تھى ـ خليفۂ وقت نے بعض شرعى احکام مثلاً حج تمتع ، نکاح متعہ اوراذان ميں” حى على خير العمل“ کھنا ممنوع قرار ديدياتھاـ تين طلاق دينے کى رسم نافذ کى گئى اور ايسے ھى کئى دوسرے احکام ـ (13)
ان کى خلافت کے دوران بيت المال کا حصہ عوا م کے درميان فرق اور اختلاف سے تقسيم ھو ا (14)جس کے نتيجے ميں عجيب طبقاتى اختلاف اور خطرناک خونى مناظر سامنے آئے ـ ان کے زمانے ميں معاويہ، شام ميں قيصروکسريٰ جيسے شاھانہ ٹھاٹ باٹ اور رسم و رواج کے ساتھ حکومت کرتا تھا ـيھاں تک کہ خليفہ ٴوقت بھى اسے کسريٰ عرب (عرب کا بادشاہ )کھہ کر خطاب کيا کرتا اور کبھى اس کے اس حال پر اعتراض نہ کرتا تھا ـ
خليفہٴ دوم 23 ھ ميں ايک ايرانى غلام کے ھاتھوں قتل ھوئے اورچھ رکنى کميٹى کى اکثريت رائے سے جو خليفہ دوم کے حکم سے تشکيل پائى تھى ،خليفۂ سوم نے زمام امور سنبھالى ـانھوںنے اپنے عھد خلافت ميں اپنے اموى خويش واقارب کو لوگوں پر مسلط کرديا تھا اور اس طرح حجاز ، عراق ، مصر اورتمام اسلامى ممالک ميں عنان حکومت ان کے ھاتہ ميں سونپ دى تھي (15)ـ انھوں نے لاقانونيت کى بنيادرکھى اور آشکار ا طور پر ظلم وستم اور فسق وفجور اور اسلام کى خلاف ورزى اسلامى حکومت ميں شروع کردى تھيـ دارالخلافہ ميں ھر طرف سے شکايتوں کے طومار آنے لگے ليکن خليفہ اپنى اموى کنيزوں ، لونڈيوں اور خاص کر مروان بن الحکم(16)کے زير اثر ان شکووں اور شکايتوں پرتوجہ ھى نہ کرتے تھے اور اس طرح ظلم وستم کا انسداد کرنے کى نوبت ھى نہ آتى تھى بلکہ کبھى کبھى حکم ديتے کہ شکايت کرنے والوں پر مقدمہ چلايا جائے اورآخر کار 35ھ ميں لوگوں نے ان کے خلاف مظاھرے کئے اور چند روز تک ان کے مکان کو گھيرے رکھا اور پھر ماردھاڑ کے بعد ان کو قتل کردياگيا ـ
خليفہ ٴسوم نے اپنے دور ان خلافت ميں شام کى حکومت معاويہ کو دے رکھى تھى جو ان کے اموى خويش واقارب ميں بھت ھى اھم شخص تھا ـ وہ معاويہ کو زيادہ سے زيادہ مدد ديتے اوراس کو مضبوط کيا کرتے تھے ـ در اصل شام خلافت کا اصلى مرکز بن چکا تھا اور مدينہ ميں صرف نا م کى حکومت باقى رہ گئى تھى ـ(17)خليفہ ٴاول کى خلافت اکثريت صحابہ کى رائے اور انتخاب سے معين ھوئى تھى اور خليفہ دوم ، اول کى وصيت سے منتخب ھوئے اور خليفہ سوم چھ رکنى مشاورتى کميٹى کى رائے کے ساتھ انتخاب کئے گئے تھے اس کميٹى کا دستور العمل اورمنشو ربھى خود خليفۂ دوم نے ترتيب ديا تھا ـمجموعى طور پر تين خلفاء کا انتظام حکومت دارى ،جنھوں نے 25 سال تک حکومت کى تھى ، يوں تھا کہ اسلامى قوانين ، اجتھاد اور مصلحت وقت کے مطابق معاشرے ميں نافذ کئے جائيں اور اس مصلحت بينى کو خود خليفۂ وقت تشخيص دے ـ
اس زمانے ميں اسلامى علوم ومعارف کاطريقہ يہ تھا کہ صرف قرآن کو وہ بھى کسى تفسير اور غور و خوض اور معانى کو سمجھے بغير پڑھا اور پيغمبر اکرم کى احاديث کو لکھے بغير ھى بيان کياجائے يعنى سننے يابتانے سے تجاوز نہ کيا جائے ـ قرآن کريم کى کتابت پربھى اجارہ دارى تھى ـ حديث کى کتابت تو ممنوع ھى تھى ـ(18)جنگ يمامہ جو 12 ھ ميں ختم ھوئى تھى اور اس جنگ ميں صحابہ اور قرآن کے قاريوں کى ايک بھت بڑى تعداد شھيد ھوگئى تھى ،کے بعد عمر بن الخطاب نے خليفہ ٴاول کو تجويز پيش کى کہ قرآنى آيات کو ايک مصحف (جلد )ميں جمع کردياجائے کيونکہ خدانخوستہ اگر ايسى ھى ايک اورجنگ رونما ھوگئى اورباقيماندہ قارى بھى شھيد ھوگئے تو قرآن مجيد ھمارے ھاتھوں سے نکل جائے گاـلھذا ضرورى ھے کہ قرآنى آيات کو ايک مصحف (جلد )ميں جمع کردياجائےـ (19)
قرآن مجيد کے بارے ميں تويہ فيصلہ کردياگيا مگر احاديث رسول اکرم (ص)جوقرآن مجيد کے بعد دوسرے درجے پرآتى ھيں، کے بارے ميں کوئى اقدام نھيں کياگياجبکہ احاديث کو بھى وھى خطرہ در پيش تھايعنى معانى اورکتابت ميں کمى بيشى ، جعل ، فراموشى اور دست بردسے محفوظ نھيں تھيں ليکن احاديث شريف کى حفاظت کے لئے کوئى کوشش نہ کى گئى بلکہ احاديث کى کتابت تک کو ممنوع قراردے دياگياـجب بھى کوئى لکھى ھوئى حديث ھاتہ لگتى تواس کو جلا ديا جاتا تھا ، يھاں تک کہ اسلامى احکام و ضروريا ت مثلا ً نماز کے بارے ميں بھى متضاد اور متعدد احاديث وروايات پيدا ھوگئيں تھيں اسى طرح دوسرے تمام علمى موضوعات کے متعلق بھى کوئى خاطرخواہ اقدا م نہ کياگيا ـ قرآن مجيد او ر احاديث نبوى ميں اجتھاد و تفقہ کرنے کے بارے ميں جو احترام اور تاکيد موجود ھے اور علوم کو وسعت وترقى دينے پر جس قدر زور ديا گيا ھے وہ سب کے سب بے اثر ھوکر رہ گيا ـ
اکثر لوگ اسلامى فوجوں کى پے درپے فتوحات ميں سرگرم اور بے اندازہ مال غنيمت سے راضى اورخوش تھے جو ھر طرف سے جزيرة العرب ميں آرھا تھا، لھذا اب خاندان رسالت مآب کے علوم کى طرف کوئى توجہ نہ تھى جس کے بانى حضرت علي(ع) تھےـ پيغمبر اکرم نے ان کو سب سے زيادہ عالم اور قرآن و اسلام کا شناسا کھہ کر لوگوں سے متعارف کرايا تھا ـ حتيٰ کہ قرآن شريف کو جمع کرنے کے واقعے ميں (باوجوديہ کہ سب جانتے تھے کہ آپ نے رسول اکرم کى رحلت کے بعد ايک مدت تک گوشۂ عزلت ميں بيٹھ کر قرآن مجيد کو ايک مصحف ميں جمع کرديا تھا )بھى آپ کوشامل نہ کيا گيا (20)، حتيٰ کہ آپ کا نام تک نہ ليا گياـ يہ اور ايسے ھى دوسرے امور تھے جو حضرت علي(ع) کے پيروکاروں کواپنے عقيدے ميں زيادہ سے زيادہ راسخ اور مضبوط کررھے تھے اور ان کو واقعات سے متعلق زيادہ ھوشيا ر بنا رھے تھے ـ اس طرح روز بروز يہ لوگ اپنى سرگرميوں ميں اضافہ کررھے تھےـ حضرت على عليہ السلام بھى جو تمام لوگوں کى تربيت کرنے سے قاصر تھے صرف اپنے خاص لوگوں کى تربيت پر توجہ دے رھے تھے ـ
ان پچيس بر سوں ميں حضرت علي(ع) کے چار خاص اصحاب اور دوستوں ميں سے تين وفات پاگئے تھے جوھر حال ميں آپ کى پيروى ميں ثابت قدم رھے تھے يعنى سلمان فارسى ، ابوذر غفارى اور مقداد ليکن اس مدت ميں اصحاب اور تابعين کى ايک خاصى بڑى جماعت حجاز ، يمن ، عراق اور دوسرے ممالک ميں حضرت علي(ع) کے پيروکاروں ميں شامل ھوگئى تھى اورآخر کار خليفہ ٴسوم کے قتل کے بعد ھرطرف سے عوام نے آپ کى طرف رجوع کرنا شروع کرديا تھا يھاں تک کہ آپ کے ھاتہ پر بيعت کرکے آپ کو خلافت کے لئے انتخاب کرليا ـ
حضر ت علي(ع) کى خلافت اور آپ کا طريقہٴ کار
حضرت علي(ع) کى خلافت 35 ھ کے آخر ميں شروع ھوئى اور تقريباً چار سال نو مھينے جارى رھى ـ حضرت علي(ع) نے اپنى خلافت کے دوران پيغمبر اکرم (ص)کى سنت کو رائج کيا اور خود بھى اسى طريقہ پر کار بندرھے(21)ـ اسلام ميں ان اکثر تبديليوں کو جو پھلے خلفائے راشدين کے زمانہ ميں پيدا ھوگئى تھيں ،اپنى اصلى حالت ميں واپس لائے اور اس کے ساتھ ھى ظالم اور نالائق حاکموں کو جو ايک مدت سے عنان حکومت اپنے ھاتھوں ميں لئے ھوئے تھے معزول کرديا(22) يعنى حقيقت ميں آپ کى حکومت ايک انقلابى تحريک تھى مگر آپ کے سامنے مشکلات ومسائل کا ايک ڈھير موجود تھاـ
حضرت علي(ع) نے اپنى خلافت کے پھلے ھى دن تقرير کرتے ھوئے يوں خطاب فرمايا تھا:
”خبر دار! تم لوگ جن مشکلات و مصائب ميں پيغمبر اکرم کى بعثت کے موقع پر گرفتار تھے آج دوبارہ وھى مشکلات تمھيں در پيش ھيں اور انھى مشکلات نے پھر تمھيںگھيرليا ھے ـتمھيں چاھئے کہ اپنے آپ کو ٹھيک کرلو صاحبان علم و فضيلت کو سامنے آنا چاھئے جو پيچھے ڈھکيل دئيے گئے ھيں اور وہ لوگ جو ناجائز اور بےجا طور پر سامنے آگئے ھيں ان کو پيچھے ھٹا دينا چاھئے آج حق و باطل کا مقابلہ ھے، جو شخص اھليت و صلاحيت رکھتاھے اسے حق کى پيروى کرنى چاھئے اگر آج ھر جگہ باطل کا زور ھے تو يہ کوئى نئى چيز نھيں ھے اور اگر حق کم ھوچکا ھے تو کبھى کبھى ھوتا ھے کہ جو چيز ايک دفعہ ھاتہ سے نکل جائے وہ پھر دوبارہ واپس آجائےـ،،(نھج البلاغہ خطبہ 15)