نہج البلاغہ کے خطبہ ہفتم (۷) میں امام علی (ع) نے شیطان کی تصویرکشی کو بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیان کیا ہے، جہاں شیطان کے انسانوں کے قلب و ذہن پر تدریجی اثرات اور اس کے فریب کی گہرائی کو واضح کیا گیا ہے۔ اس خطبے میں شیطان کی تدریجی نفوذ کی حقیقت کو نمایاں کیا گیا ہے، جو اس کے پیروکاروں کے وجود کو آہستہ آہستہ اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ اس میں شیطانی حربوں اور فریب کاری کو مرحلہ وار پیش کیا گیا ہے تاکہ انسانوں کو اس خطرے سے آگاہ کیا جا سکے۔
نہج البلاغہ میں شیطان کی تصویرکشی
اتَّخَذُوا الشَّيْطَانَ لأَمْرِهِمْ مِلَاكاً واتَّخَذَهُمْ لَه أَشْرَاكاً فَبَاضَ وفَرَّخَ فِي صُدُورِهِمْ ودَبَّ ودَرَجَ فِي حُجُورِهِمْ – فَنَظَرَ بِأَعْيُنِهِمْ ونَطَقَ بِأَلْسِنَتِهِمْ – فَرَكِبَ بِهِمُ الزَّلَلَ وزَيَّنَ لَهُمُ الْخَطَلَ فِعْلَ مَنْ قَدْ شَرِكَه الشَّيْطَانُ فِي سُلْطَانِه ونَطَقَ بِالْبَاطِلِ عَلَى لِسَانِه![1]
’’ان لوگوں نے شیطان کو اپنے امور کا مالک و مختار بنالیا ہے اور اس نے انہیں اپنا آلہ کار قرار دے دیا ہے اور ان کے سینوں میں انڈے دے کر بچے نکالے ہیں اور وہ انہیں کی آغوش میں پلے بڑھے ہیں۔ اب شیطان انہیں کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور انہیں کی زبان سے بولتا ہے، انہیں لغزشوں کی راہ پر لگا دیا ہے اور ان کے لیے غلط باتوں کو آراستہ کر دیا ہے، جیسے کہ اس نے انہیں اپنے کاروبار میں شریک بنا لیا ہو اور اپنی غلط باتوں کو انہیں کی زبان سے ظاہر کرتا ہو۔‘‘
انسان شیطان کا پیروکار کیسے بن جاتا ہے؟
اس خطبے میں شیطان کی تصویرکشی کی ساتھ ساتھ، نفس انسانی میں اس کے نفوذ اور پھر اس کے آثار اور موت کے پیغامات کی واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے۔ شیطان غافلوں کو اپنے چنگل میں پھنساتا ہے، پھر ان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ شیطان کی تصویرکشی، تمام پیروان حق کے لیے ایک انتباہ ہے کہ شیطان کے تدریجی نفوذ پر توجہ رکھیں۔ اس کے نفوذ کے معمولی آثار بھی آشکار ہو جائیں تو مقابلے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
اگرچہ اس خطبے میں طلحہ، زبیر یا امیر شام کے لشکر، نہروان کے خوارج کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے جو پچھلے زمانے میں شیطان کے چنگل میں گرفتار ہوئے تھے، لیکن یہ صرف ان پر منحصر نہیں ہے، بلکہ شیطان کی تصویرکشی اور حقیقت گوئی عمومی طور پر ان تمام لوگوں کے بارے میں حجت ہے جو شیطان کے فریب میں آ جاتے ہیں۔
اس خطبے میں شیطان کے اپنے پیروکاروں میں مرحلہ وار نفوذ کرنے کے طریقے کو امام علی (ع) نے اپنی مخصوص فصاحت و بلاغت کے ساتھ خوبصورت اور قابل فہم مثالوں کے ذریعے بیان فرمایا ہے۔ اس سے زیادہ حسن بیان کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یوں شیطان کی تصویرکشی اس سے بہتر انداز میں ممکن نہ تھا۔
امام علی (ع) نے شیطان کی تصویرکشی کو کئی ایک مراحل کی صورت میں وضاحت کی ہیں:
پہلا مرحلہ: دل کے دروازے پر شیطان کی دستک
شیطان کی تصویرکشی کے پہلے مرحلے کے بارے میں امام علی (ع) فرماتے ہیں: شیطان کا نفوذ ہر انسان کے وجود میں اجباری نہیں، بلکہ اختیاری ہے۔ یہ انسان ہے جو اسے سبز باغ دکھاتا ہے، اپنے وجود میں اُس کے لیے داخل ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ فرماتے ہیں:
اتَّخَذُوا الشَّيْطَانَ لأَمْرِهِمْ مِلَاكاً
’’(اس بری صفت کی سیرت رکھنے والوں نے) شیطان کو اپنے امور کا معیار قرار دیا ہے۔”
’’ملاک‘‘، اصل میں ’’مِلک‘‘ سے مشتق ہے، یعنی کسی چیز کی بنیاد۔ مثلاً کہا جاتا ہے جسم کا مالک دل ہے یعنی اُس کی بنیاد اور جڑ کو تشکیل دیتا ہے۔
لہذا کہہ سکتے ہیں کہ امام علی (ع) کی شیطان کی تصویرکشی، قرآن سے اخذ کیا گیا ہے۔ جس کا قرآن مجید میں بھی واضح طور پر ذکر ہوا ہے، ارشاد رب العزت ہے:
إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ
’’اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایماندار ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں ان پر اس کا قابو نہیں چلتا، اس کا قابو چلتا ہے تو بس ان ہی لوگوں پر جو اس کو دوست بناتے ہیں اور جو لوگ اس کو (خدا کا) شریک بناتے ہیں۔‘‘[2]
بنابرایں مذکورہ کلام، آیات قرآنی کی طرح ایک ایسا جواب ہے اُن لوگوں کے لیے جو فرزندان آدم پر شیطان کی حکمرانی اور شیطان کی تصویرکشی پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خداوند متعال نے اس خطرناک موجود کو بنی نوع انسان پر مسلط کر دیا ہے، جبکہ ان سے کہا گیا ہے کہ وہ شیطان کی پیروی نہ کریں۔
قابل ذکر ہے کہ شیطان دیوار اور چھت سے داخل نہیں ہوتا، بلکہ دستک دیتا ہے جس نے دروازے کو کھولا، وہ اسی کے دل کے گھر میں داخل ہوتا ہے اور جس نے دروازے کو نہیں کھولا وہ واپس پلٹ جاتا ہے، یہی صحیح ہے کہ وہ دستک دیتے وقت بہت شدید اصرار کرتا ہے لیکن اس کے مد مقابل فرشتگان الہی بھی خبردار کرتے ہیں اور مدد بھی کرتے ہیں۔
دوسرا مرحلہ: سینوں کی گہرائی میں ابلیس کا آشیانہ
’’وہ اس طرح کہ انہیں اپنے کاموں میں شریک اور اپنا ہمسفر بنا لیتا ہے۔‘‘
پھر اس مرحلے میں پچھلے سربستہ جملے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: فَبَاضَ وفَرَّخَ فِي صُدُورِهِمْ[4]
’’اس نے اُن کے سینوں کے اندر تخم گزاری کی، پھر اسے چوزے میں تبدیل کر دیا۔‘‘
اس خوبصورت مثال میں امام (ع) نے شیطان کی تصویرکشی میں مزید نکھار لاتے ہوئے شیطانی اوصاف رکھنے والوں کے سینوں کو ابلیس کے آشیانے اور اس کے انڈے دینے کی جگہ سے تشبیہ دی ہے اور اس کے بعد مزید اضافہ کیا: ودَبَّ ودَرَجَ فِي حُجُورِهِمْ
’’یہ شیطانی چوزے اُن کے سینوں کے اندر سے نکلتے ہیں اور انہیں کی آغوش میں حرکت اور پرورش پاتے ہیں۔‘‘
نہج البلاغہ کے بعض شارحین نے شیطان کی تصویرکشی کے اس مرحلے کی یوں وضاحت کی ہے کہ ’’دَبَّ ‘‘ اصل میں، ’’دبیب‘‘ سے کمزور حرکت اور ’’دَرَجَ‘‘ نسبتاً طاقتور حرکت مراد ہے، اس مختصر حرکت کی مانند جو بچے ماں کے دامن اور باپ کی آغوش میں کرتے ہیں۔ ’’دَرَجَ‘‘ کی تعبیر ممکن ہے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہو کہ شیطانی افکار اور صفات عمومی طور پر انسان کے وجود میں اچانک پیدا نہیں ہوتیں، بلکہ تدریجی طور پر پیدا ہوتی ہیں۔[5]
جیسا کہ قرآن مجید کے کئی مقامات پر شیطان کی تصویرکشی کی اس مرحلے کو ’’خطوات الشیطان‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور شیطان کے قدم سے مؤمنین کو خبردار کیا ہے۔ اس سے بخوبی نشاندہی ہوتی ہے کہ شیطان ہر ہر قدم پر انسان کو بہکانے اور ضلالت و گمراہی کی طرف کھینچتا ہے۔
تیسرا مرحلہ: اندرونی شیطان کا ظہور
شیطان کی تصویرکشی کے تیسرے مرحلے میں، امام (ع) فرماتے ہیں: اُن کا کام یہاں تک پہنچا:
فَنَظَرَ بِأَعْيُنِهِمْ ونَطَقَ بِأَلْسِنَتِهِمْ
’’شیطان ان کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ان کی زبان سے گفتگو کرتا ہے۔‘‘
شیطان کی تصویرکشی کے اس مرحلے میں کہہ سکتے ہیں کہ بالآخر یہ شیطانی انڈے چوزے میں تبدیل ہوکر، پرورش پا کر، اور مضبوط ہو کر ایک ایسے شیطان میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جو ان کے تمام رگ و پے میں داخل ہو جاتا ہے۔
اس طریقے سے وہ دو چہرہ والی شخصیت کا حامل بن جاتا ہے، ایک رخ سے انسان اور دوسرے رخ سے شیطان نظر آتا ہے، اُن کے ظاہر انسانوں کی مانند اور اندرونی طور پر وہ شیطان ہیں، ان کی آنکھ، کان، زبان، ہاتھ اور پیر سب کے سب شیطان کے ماتحت ہیں اور فطری بات ہے کہ ہر چیز کو شیطانی رنگ سے دیکھتے ہیں اور ان کے کان شیطان کے نغمے سننے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
چوتھا مرحلہ: گمراہی کے رہوار پر سوار ہونا
شیطان کی تصویرکشی کے چوتھے مرحلے کے بارے میں فرماتے ہیں: جب یہ انسان بتدریج اس مرحلے تک پہنچے: فَرَكِبَ بِهِمُ الزَّلَلَ وزَيَّنَ لَهُمُ الْخَطَلَ[6]
’’تو شیطان نے انہیں آلودگیوں اور گناہوں کے رہوار پر سوار کرایا، ایسا رہوار جو انھیں ضلالت و گمراہی اور مختلف گناہان کبیرہ کی طرف دھکیل تا ہے، اور فاسد، بے ہودہ اور باطل گفتگو ان کی نظر میں زینت بن جاتی ہے۔‘‘
یہ گفتگو امام (ع) کے دوسرے کلام سے مشابہ ہے، جہاں فرمایا: أَلَا وَ إِنَّ الْخَطَايَا خَيْلٌ شُمُسٌ حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا. ..[7]
’’خطائیں اور گناہ ان سواریوں کی مانند ہیں، جو سرکش اور بے لگام ہیں اور گنہگار لوگ ان پر سوار ہوتے ہیں۔‘‘
پانچواں مرحلہ: شیطان کے یرغمال بن جانے کی حالت
شیطان کی تصویرکشی کے پانچویں مرحلے کے بارے میں، امام عالی مقام (ع) فرماتے ہیں:
فِعْلَ مَنْ قَدْ شَرِكَه الشَّيْطَانُ فِي سُلْطَانِه ونَطَقَ بِالْبَاطِلِ عَلَى لِسَانِه[8]
ان کے اعمال ایسے شخص کے اعمال کی طرح ہیں، جسے شیطان نے یرغمال بنا لیا ہے اور ان کی زبان پر باطل جملے جاری کر دیے ہیں، ان کے اعمال بخوبی گواہی دیتے ہیں کہ شیطان نے اُن میں نفوذ کیا ہے اور اپنے راستے پر چلانا چاہتا ہے۔ ان کی گفتگو اور نگاہ شیطان کی ہے، ان کے مجموعی کردار میں شیطان کا نقش بخوبی دکھائی دیتا ہے۔ در حقیقت حضرت امام علی (ع) چاہتے ہیں اس مرحلے میں اس قسم کے افراد کی شناخت ہو جائے جو شیطانی کردار رکھتے ہیں۔
اگرچہ نہج البلاغہ کی معروف شرحوں میں شیطان کی تصویرکشی کے اس مرحلے کی ایسی وضاحت نہیں ملتی، جو اس بات کی نشاندہی کرے کہ اس خطبے میں حضرت امام علی (ع) کا مقصد کون لوگ تھے اور کسی گروہ کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ کچھ افراد مثلاً طلحہ و زبیر اور ان کے حواری، امیر شام کا لشکر، خوارج اور ان کے ہم فکر افراد کی جانب امام (ع) کے اس کلام میں اشارہ ہے لیکن یہ مسلّم ہے کہ یہ دقیق اور پرمغز گفتگو صرف ان کے ساتھ مختص نہیں ہے، بلکہ اس میں تمام وہ لوگ بھی شامل ہیں جو شیطان کے راستے پر چلتے ہیں اور اُس کے پابند ہیں۔
شیاطین کے بارے میں اہم نکتہ
شیطان کی تصویرکشی کے بارے میں بحث بہت طولانی اور پیچیدہ ہے، شیطان کو خلق کرنے کا فلسفہ، شیطان انسانوں میں کسی طرح نفوذ کرتا ہے، شیطان کی طویل عمری، داستان حضرت آدم (ع) و شیطان، شیطان کے لشکری، شیاطین جن و انس، انسانوں میں شیطان کے نفوذ کی علامت وغیرہ۔ ان تمام مسائل کی تفصیل کا یہاں محل نہیں ہے، صرف ان مباحث پر روشنی ڈالتے ہوئے اشارہ کریں گے، جن کے لیے مذکورہ خطبے کے مضامین پر اکتفا کیا ہے۔
شیطان کی تصویرکشی کو بہتر سمجھنے کے لیے آیات قرآنی سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ شیطان شروع میں ایک شریر کی حیثیت سے خلق نہیں ہوا تھا، بلکہ فرشتوں کے درمیان میں تھا، اگرچہ فرشتہ نہیں تھا لیکن اس نے اپنی ذات سے شدید محبت، خودخواہی اور تکبر کی وجہ سے آدم کو سجدہ کرنے کے حوالے سے حکم خداوندی سے انکار کیا اور نہ صرف گناہ کا مرتکب ہوا، بلکہ خدا کے علم و حکمت پر بھی اعتراض کر دیا، خدا کے دستور کو حکیمانہ نہیں سمجھا اور کفر و ضلالت کی وادی میں قدم رکھ دیا۔
اس نے خداوند متعال سے درخواست کی کہ اسے قیامت تک زندہ رکھے، خداوند متعال نے بھی ’’وقت معلوم‘‘ تک زندہ رکھنے کو قبول فرمایا اور یہ اس لیے تھا تاکہ اپنے بندوں کو شیطان اور اس کے لشکر کے ذریعے آزما سکے یا دوسری تعبیر میں جیسا کہ انسان کے وجود میں خواہشات نفسانی اور عقل و ایمان کا معرکہ رکھا ہے، جو خدا کے حکم کی تعمیل کے لیے قوت و طاقت کا سبب ہے، اسی طرح شیطان کے وسوسوں اور انسان کا شدید مقابلہ اس کے مقابل تکامل کا سبب بنتا ہے، کیونکہ دشمن کا وجود حرکت، طاقت وقوت، پیش قدمی اور تکامل کا سبب ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کے وجود میں شیطان جبری طور پر نفوذ کرے، بلکہ یہ خود انسان ہے کہ اسے وسوسے کی اجازت دیتا ہے، قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے: إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ[9]
’’میرے بندوں پر جبری حکمرانی نہیں ہے۔‘‘
دوسری جگہ پر شیطان کی تصویرکشی کرتے ہوئے فرمایا: إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ[10]
’’اس کی حکمرانی ان لوگوں پر نہیں ہے جو صاحبان ایمان اور اپنے پروردگار پر بھروسا رکھتے ہیں۔‘‘
اور اللہ تعالی شیطان کے قول کو یوں نقل کرتا ہے: وَمَا كَانَ لِي عَلَيْكُمْ مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ فِي فَلَا تَلُوْمُونِي وَلُوْمُوا أَنفُسَكُمْ[11]
’’وہ قیامت کے دن اپنے پیروکاروں سے کہے گا تم لوگوں پر میری حکمرانی نہیں تھی، صرف یہ کہ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت کو قبول کیا۔ پس مجھے ملامت نہ کرو بلکہ خود کو ملامت کرو۔‘‘
خداوند متعال نے شیاطین کے وسوسوں کو ناکام بنانے کے لئے لشکروں کو خلق کیا ہے۔ من جملہ ان میں سے عقل و خرد، فطرت، وجدان اور پیغمبران الہی اور فرشتے ہیں، جو شیاطین کے وسوسوں کے مد مقابل اہل ایمان کے محافظ ہیں، جو کوئی ان کے نقش قدم پر چلے تو ان کی مدد کرتے ہیں اور شیطان کے وسوسوں کو دور کرتے ہیں اور جو کوئی خود کو شیاطین کے راستے پر ڈال دے اور ان سے انکار و گستاخی کرے تو وہ اس کی حمایت کرنے سے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔
یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ شیطان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسان کے دل کی گہرائی پر نفوذ کرے اور اس طرح اُس کے کردار پر اثر چھوڑے، جیسا کہ اوپر کے خطبے میں اشارہ ہوا ہے، گویا اُس نے سینوں کے اندر انڈے دئے ہیں، اور اپنے چوزوں کی پرورش کرتا ہے، پھر انہیں خود انسان اپنی آغوش میں پرورش کرتا ہے، یہاں تک وہ اُس کے وجود کے ساتھ ایک ہو جاتا ہے۔ پھر آنکھ، کان، زبان، ہاتھ اور پیر سب شیطانی رنگ پکڑتے ہیں اور شیطانی آثار پیدا ہوتے ہیں۔
غرر الحکم میں امیر المؤمنین (ع) شیطان کی تصویرکشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: احْذَرُوا عَدُوٌّ نَفَذَ فِي الصُّدُورِ خَفِيًّا وَنَفَتَ فِي الْآذَانِ نَجِيًّا
’’اس دشمن سے بچو! جو سینوں میں پوشیدہ نفوذ کرتا ہے اور کانوں میں آہستہ سے پھونکتا ہے۔‘‘
اس سے ملتی جلتی تعبیر تھوڑے سے فرق کے ساتھ نہج البلاغہ کے خطبہ ۸۳ میں بھی آئی ہے اور خطبہ ۱۲۱ میں یوں کہا گیا ہے: إِنَّ الشَّيْطَانَ يُسَنِّي لَكُمْ طُرُقَهُ وَ يُرِيدُ أَنْ يَحُلَّ دِينَكُمْ عُقْدَةً عُقْدَةً۔
’’شیطان اپنے راستوں کو تمہارے لئے آسان بنا کر پیش کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ تمہارے دین کے عہد و پیمان کی ہر گرہ کو کھول دے۔‘‘
شیطان کی تصویرکشی کے بارے میں آخری نکتہ جس کی طرف مختصر اشارہ کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی بعض صریح آیتوں کی روشنی میں شیاطین صرف ابلیس اور اُس کے پوشیدہ لشکر پر منحصر نہیں ہیں، بلکہ بعض انسانوں کو بھی شیطان کہا گیا ہے، کیونکہ ان کا کام بھی شیاطین کا کام ہے۔ آیہ مجیدہ: وَ كَذلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِي عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً۔[12]
’’اور اے رسول جس طرح یہ کفار تمہارے دشمن ہیں اسی طرح (گویا) ہم نے (خود آزمائش کے لئے) شریر آدمیوں اور جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا وہ لوگ ایک دوسرے کو فریب دینے کی غرض سے چکنی چپڑی باتوں کی سرگوشی کرتے ہیں۔‘‘
خاتمہ
شیطان کی تصویرکشی کے ذریعے امام علی (ع) نے شیطان کے انسان کے قلب و کردار پر اثرات اور اس کے فریب کے طریقوں کو بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ یہ شیطان کے نفوذ سے بچنے اور خدا کی جانب رجوع کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ شیطان کی تصویرکشی کے مختلف مراحل سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے ایک انسان شیطانی وسوسوں کی زد میں آ کر گمراہی میں مبتلا ہو سکتا ہے، اور یہ بھی کہ اس سے بچاؤ کے لئے ایمان و عقل کا استعمال ضروری ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ حسینی، مصادر نہج البلاغہ میں آیا ہے کہ یہ خطبہ زمخشری نے ربیع الابرار کی ج۱، ص۱۰۹ پر درج کیا ہے، نیز این اثیر نے النہایۃ و غریب الحدیث، ج۱، ص ۵۹ میں اس کے بعض حصوں کا ذکر کیا ہے۔
[2]۔ سورہ نحل، آیات ۹۹ و ۱۰۰۔
[3]۔ شراک شریک اور شَرک دونوں کی جمع ہے (بر وزن نمک) جال کے معنی میں ہے۔
[4]. جملہ فاء تفریع سے شروع ہوا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ پہلے مجمل جملے کی شرح ہے۔
[5]۔ سور بقرہ، آیات۱۴۸ و ۲۰۸، سورہ انعام، آیت۱۴۲ و سورہ نور، آیت۲۱۔
[6]۔ یہ تفسیر اس بنا پر ہے کہ ’’بھم‘‘ میں حرف باء، تعدیہ کے لئے ہو لیکن اگر ہم باء کی استعانت کے معنی میں تفسیر کریں تو جملے کا مفہوم یہ ہوگا اُن کی مدد کے لئے شیطان خود خطا اور لغزش کی سواری پر سوار ہوتا ہے۔ لیکن جملہ و زین لهم الخطل کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ’’فرکب‘‘ میں فاء، تفریع کے لئے ہو تو پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے۔ (غور کریں)۔
[7]. سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ ۱۶۔
[8]۔ مصادر نہج البلاغہ میں آیا ہے کہ یہ خطبہ زمخشری نے ربیع الابرار کی ج۱، ص۱۰۹ پر درج کیا ہے۔ نیز ابن اثیر نے النھایۃ اور غریب الحدیث، ج۱، ص ۵۹ پر اس کے بعض حصوں کا ذ کر کیا ہے۔
[9]۔ سورہ اسراء، آیت۶۵۔
[10]۔ سورہ نحل، آیت۹۹۔
[11]۔ سورہ ابراھیم، آیت۲۲۔
[12]۔ سوره انعام، آیت۱۱۲۔
منابع و مآخذ
۱۔ قرآن مجید۔
۲۔ ابن اثیر، مبارک بن محمد، النہایة في غریب الحدیث و الأثر، قم ایران، اسماعيليان، ۱۳۶۷ش۔
۳۔ حسینی، عبد الزهراء، مصادر نہج البلاغۃ و أسانیده، بیروت لبنان، دار الزهراء، ۱۴۰۹ھ – ۱۹۸۸ء۔
۴۔ زمخشری، محمود بن عمر، ربیع الأبرار و نصوص الأخبار، بیروت لبنان، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، ۱۴۱۲ھ –۱۹۹۲ء۔
۵۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغه، تصحیح صبحی صالح، قم ایران، هجرت، ۱۴۱۴ھ۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
مکارم شیرازی، ناصر اور دیگر علماء اور دانشور، کلام امیر المؤمنین علی علیہ السلام (نہج البلاغہ کی جدید، جامع شرح اور تفسیر)، ترجمہ سید شہنشاہ حسین نقوی (زیر نگرانی)، لاہور، مصباح القرآن ٹرسٹ، ۲۰۱۶ء، ج۱، ص۳۷۱ تا ص۳۷۷۔