- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/10/11
- 0 رائ
رسول خداﷺ کو جب خداوند عالم نے دین اسلام کا پرچم پھیلانے کے لئے زمین عرب پر بھیجا، تو یہ زمین، وہ زمین تھی جہاں جاہلیت بہت زیادہ تھی، زندہ لڑکیوں کو دفن کردینا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر تلواریں نکال لینا اور مہینہ مہینہ جنگیں کرنا، اس زمانہ میں رسول خداﷺ نے سب سے پہلے اپنی امانت داری اور اپنی صداقت کو منوایا اور پھر دین اسلام کی ترویج کے لئے آگے بڑھیں اور اس کے بعد لوگوں نے اسلام کو قبول کرنا شروع کیا، اسی میں ایک ذات جناب عبد اللہ بن عباس کی ہے، جو پیغمبر اکرمﷺ کے چچا کے بیٹے تھے، جنہوں نے ہر موقع پر پیغمبر اکرمﷺ کی مدد کی اور دین اسلام کے لئے سینہ سپر رہیں۔
جناب عبد اللہ ابن عباس
جناب عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلبؓ، رسول خداﷺ کے بعد اہل بیت علیہم السلام کی امامت کے قائل تھے اور اس پر ایمان بھی رکھتے تھے، اس کی بہترین دلیل وہ گفتگو ہے جو امام حسنؑ کے سامنے معاویہ اور جناب عبداللہ بن جعفر اور جناب عبداللہ بن عباس کے درمیان انجام پائی۔[1] نیز وہ روایات جنہیں ابن خزاز قمی نے “کفایت الاثر” میں بارہ اماموں اور ان کے اسمائے مبارک کے بارے نقل کیا ہے۔[2] اہل بیت علیھم السلام کے حق کی شناخت رکھتے تھے اور آپ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ان کی مدد اور ان کے پرچم کے سایہ میں جہاد کرنا، نماز اور روزہ کے مانند واجب ہے۔ امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ سے آپ کا رویہ، آپ کی اس معرفت و ایمان اور یقین پر کھلی دلیل ہے۔
علامہ نے “خلاصة الاقوال” میں لکھا ہے: جناب عبد اللہ بن عباس، پیغمبر اکرمﷺ کے صحابی اور امیر المومنینؑ کے ساتھی اور ان کے شاگرد تھے۔ امیر المؤمنینؑ کی نسبت، آپ کا اخلاص اور آپ کا مقام اس سے کہیں بالاتر ہے کہ اسے مخفی کیا جاسکے۔[3]
ابن عباس اس بات پر ناز اور افتخار کیا کرتے کہ خداوند متعال نے انہیں اہل بیت علیہم السلام کی دوستی اور ان کی اطاعت کی نعمت سے نوازا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ ایک روز آپ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی سواری کی رکاب تھامے تھے کہ مدرک بن زیاد نے دیکھ لیا تو اعتراض کرتے ہوئے کہنے لگا: اے ابن عباس، آپ ان سے بڑے ہیں اور ان کی رکاب تھامے ہوئے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اے ناداں کیا تجھے معلوم ہے کہ یہ کون ہیں؟ یہ پیغمبر خداﷺ کے فرزند ہیں، کیا یہ باعث افتخار نہیں ہے کہ میں ان کی رکاب تھام کر انہیں نیچے اتاروں؟[4]
جناب عبد اللہ ابن عباس، نے امام حسینؑ کی شہادت کے سلسلہ میں جو کچھ رسول خداﷺ اور امیر المومنینؑ سے سُنا تھا وہ آپ کے ذہن نشین تھا اور یہ فرمایا کہ جب ہم، حضرت علیؑ کے ہمراہ جنگ صفین کے لئے جارہے تھے تو جیسے ہی نینوا، ساحل فرات پر پہنچے تو حضرت علیؑ نے بلند آواز سے فرمایا: اے ابن عباس کیا اس جگہ کو پہچانتے ہو؟
میں نے عرض کیا: نہیں یا امیر المومنین، آپؑ نےفرمایا: اگر تم بھی میری طرح اس جگہ کی شناخت رکھتے ہوتے تو میری طرح یہاں سے گریہ کیئے بغیر نہ گذرتے! ابن عباس کہتے ہیں: پھر اس قدر روئے کہ آپ کی ریش مبارک تر ہوگئی اور سینہ پر آنسو جاری ہونے لگے اور ہم نے بھی ان کے ساتھ گریہ کیا۔
حضرت علیؑ نے فرمایا: آہ آہ! مجھے خاندان ابو سفیان سے کیا سروکار؟ مجھے خاندان حرب، حزب شیطان اور کفر کے دوستوں سے کیا سروکار؟ اے ابو عبد اللہ صبر کر جو کچھ (صدمہ) تمہیں ان سے ملا ہے وہ تمہارے باپ کو بھی مل چکا ہے۔”[5]
اب یہ سوال پیش آتا ہے کہ کس لئے جناب عبد اللہ ابن عباس کاروان حسینی کے ہمراہ نہ ہوئے؟ کیا وہ دنیا سے دل لگائے بیٹھے تھے اور ساری عمر راہ خدا میں جہاد کے بعد اب زندگی کے آخری ایام میں دنیا کو آخرت پر ترجیح دے بیٹھے! جو شخص آپ کی سیرت سے آگاہ ہے وہ ہرگز ایسے سوال کو ذہن میں لاہی نہیں سکتا!
کیا یہ وہی عبد اللہ ابن عباس نہیں ہیں کہ جنھوں نے شعبان المعظم سن ۶۰ ہجری میں مکہ مکرمہ میں امام حسینؑ کی خدمت میں عرض کیا تھا: “اے فرزند رسول خداﷺ میں آپؑ پر قربان ہو جاؤں گویا آپ مجھے اپنی مدد کے لئے دعوت دے رہے ہیں اور مجھ سے امید باندھے ہیں! خدائے یکتا کی قسم، اگر آپ کے سامنے اس شمشیر سے مار ڈالا جاؤں اور سب کچھ ہاتھ سے کھو بیٹھوں، تب بھی ایک فیصد بھی آپ کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ اب میں آپ کی خدمت میں ہوں جو چاہیں امرفرمائیں”۔ کیا اس بنا پر عمر کا زیادہ ہو جانا ان کے لئے امام حسینؑ کی مدد کرنے میں رکاوٹ بن گیا تھا؟
ہم جانتے ہیں کہ جناب عبد اللہ ابن عباس نے ۶۸ یا ۶۹ ہجری میں۷۰ یا ۷۱ سال کی عمر میں دار فانی سے وداع کیا۔[6] اس لحاظ سے سن۶۰ ہجری میں ان کی عمر ۶۲ یا ۶۳ سال تھی اور وہ امام حسینؑ سے تقریباً پانچ سال بڑے تھے۔ لہذا جسمانی طور پر وہ جہاد کی طاقت رکھتے تھے۔ خصوصاً کوئی ایسی چیز بھی نقل نہیں ہوئی جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ وہ بھی محمد حنفیہ کی طرح مریض تھے۔ پس ان کے کاروان حسینی کے ہمراہ نہ جانے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ ان کے ہمراہی نہ کرنے کے سبب کو بیان کرنے سے پہلے دو نکات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے جو ان کے معذور ہونے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں:
جناب عبد اللہ بن عباس کا امام حسینؑ کی ہمراہی نہ کرنے کی وجہ
۱- امام حسینؑ کی طرف سے مدد کی براہ راست درخواست کا نہ ہونا
مکہ مکرمہ میں امام حسینؑ کے ساتھ ان کی تمام تر گفتگو میں کہیں پر یہ دکھائی نہیں دیتا کہ امام حسینؑ نے بلا واسطہ ان سے مدد طلب کی ہو جیسا کہ عبداللہ بن عمر سے مدد کرنے کو کہا۔ خصوصاً حب امام حسینؑ نے جناب عبداللہ ابن عباس اور ابن عمر سے گفتگو میں فرمایا: “خداوندا تو گواہ رہنا” ابن عباس نے امام حسینؑ کے اس جملہ کی روح کو جان لیا لہذا ان کے ہمراہ جہاد اور ان کی مدد کے لئے آمادگی کا اعلان کیا۔ علاوہ بریں کسی قسم کا کوئی اشارہ یا کنایہ نہیں ملتا کہ امام حسینؑ نے ان سے مدد طلب کی ہو۔
۲- اہل بیت کی جانب سے ان کی عدم ملامت و تنقید
جہاں تک ہم نے کوشش کی ہے کسی تاریخی روایت میں یہ نہیں ملتا کہ اہل بیتؑ نے آپ کو امام حسینؑ کے ہمراہ نہ جانے کے سبب انہیں قصور وار ٹھہرایا ہو یا ان کی سرزنش کی ہو بلکہ امام صادقؑ سے منقول ہے کہ امام باقرؑ، آپ سے انتہائی محبت کرتے تھے۔[7] فقط ابن شهر آشوب نے ایک مرسل روایت میں کہا ہے: جب آپ کو امام حسینؑ کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے سرزنش کی گئی تو انہوں نے کہا: حسینؑ کے ساتھیوں میں سے نہ تو کوئی کم ہوا اور نہ ہی زیادہ، ہم انہیں دیکھے بغیر ان کو ناموں سے پہچانتے تھے۔[8]
اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جناب عبد اللہ ابن عباس کے پاس امام کو چھوڑنے کا کوئی عذر موجود نہیں تھا۔ لیکن روایت کا مرسل ہونا اور پھر سرزنش کرنے والے کا معلوم نہ ہونا، دوسری جانب اہل بیتؑ سے آپ کی دوستی و محبت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ روایت قابل اطمینان نہیں ہے۔
۳- عمر کے آخری ایام میں نابینا ہونا
نیز، یہ یاد دہانی کروانا بھی ضروری ہے کہ مورخین کا اس پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ جناب عبد اللہ ابن عباس اپنی زندگی کے آخری ایام میں نابینا ہو چکے تھے اور سعید بن جبیر ان کی راہنمائی کیا کرتے۔[9]
“المعارف” میں ابن قتیبہ کی گفتگو سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ آنکھوں کی بینائی کا کم ہونا معاویہ کے زمانہ سے شروع ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک ہی خاندان کے تین افراد کی آنکھوں کی بینائی کم ہو چکی تھی: جناب عبد اللہ بن عباس، ان کے والد، جناب عباس بن عبد المطلب اور ان کے والد جناب عبد المطلب بن ہاشم، یہی وجہ ہے کہ معاویہ نے ان سے کہا: تم بنی ہاشم آنکھ کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہو؟[10] تو آپ نے جواب میں فرمایا: تم بنی امیہ دل کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہو۔
واضح کی بات ہے کہ اگر آپ کی آنکھوں بینائی زیادہ کم نہ ہوئی ہوتی تو معاویہ کو یہ موقع فراہم نہ ہوتا۔
مسروق کہتا ہے: جب میں نے عبد اللہ ابن عباس کو دیکھا تو کہا کہ: یہ سب لوگوں سے حَسین، جب ان کی گفتگو سنی تو کہا: سب سے فصیح انسان، اور جب ان سے حدیث سنی تو کہا: سب سے دانا انسان ہے۔مسروق ۶۲ یا ۶۳ ہجری میں مرا، اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ۶۲ یا ۶۳ ہجری سے پہلے بھی آپ کی بینائی کم ہو چکی تھی چونکہ مسروق نے بھی اس کا تذ کرہ کیا ہے۔
عمر بن خطاب، آپ کو اپنے پاس بٹھایا کرتا اور سب صحابہ کے ہمراہ ان سے مشورہ کیا کرتا۔ زندگی کے آخری ایام میں ان کی آنکھوں کی بینائی کم ہو گئی تھی۔[11]
اس مقام پر ایک اور روایت بھی موجود ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ۶۱ ہجری کے اوائل میں امام حسینؑ کی شہادت کی خبر کے مدینہ منورہ پہنچنے کے وقت بھی آپ نابینا تھے۔
اس روایت کو شیخ طوسیؒ نے امالی میں جناب عبد اللہ ابن عباس کے راہنما ابن جبیر سے نقل کیا ہے کہ آپ کہتے ہیں: میں گھر میں آرام کر رہا تھا کہ اچانک زوجہ پیغمبر ام سلمی کے گھر سے رونے کی فریاد بلند ہوئی۔ میں باہر نکلا اور میرے راہنما نے مجھے ان کے گھر تک پہونچایا اہل مدینہ وہاں آنے لگے۔ جب میں وہاں پہنچا تو کہا: اے ام المؤمنین کس لئے گریہ و زاری کر رہی ہیں؟ انهوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور بنی ہاشم کی عورتوں کے پاس جاکر کہنے لگیں: اے عبد المطلب کی بیٹیو! میرا ساتھ دو اور مل کر گریہ کرو کہ جوانان جنت کے سردار شہید کر دیئے گئے۔ خدا کی قسم سبطِ رسول خداﷺ اور ان کے لخت جگر شہید کر دیئے گئے۔
لوگ کہنے لگے: یا ام المومنین آپ کو کیسے خبر ملی؟ جناب ام سلمی نے فرمایا: میں نے ابھی ابھی خواب میں رسول خداﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ پریشان اور مصیبت زدہ تھے۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا: آج میرا فرزند حسینؑ اپنے خاندان کے ہمراہ شہید کردیا گیا اور میں ابھی اس کو سپرد خاک کرکے فارغ ہوا ہوں۔
ام سلمی کہتی ہیں کہ میں اٹھی، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور میں گھر میں کچھ تلاش کرنے لگی، یہاں تک کہ میری نظر خاکِ حسینؑ پر پڑی جسے جبرائیل کربلا سے لائے تھے اور کہا تھا کہ جب یہ خاک خون میں تبدیل ہو جائے تو سمجھ لینا کہ آپ کا فرزند شہید کر دیا گیا اور پیغمبرﷺ نے وہ خاک میرے سپرد کی اور فرمایا: اسے شیشی میں رکھ لیں، جب خون میں تبدیل ہو جائے تو سمجھ جائیں کہ حسینؑ شہید کر دیئے گئے، اور اب جب میں نے اس شیشی کو دیکھا تو وہ خاک، خون میں تبدیل ہوگئی ہے!
پھر جناب ام سلمی نے اس خون کو لیا اور اپنے چہرہ پر مل لیا اور اس دن حُسینؑ پر ماتم اور نوحہ کیا۔ اس کے بعد جب کاروان واپس پلٹا تو خبر دی کہ حسینؑ اسی دن شہید کئے گئے تھے۔
جناب عبد اللہ ابن عباس کا یہ کہنا کہ “میں اپنے راہنما کی ہمراہی میں ام سلمی کے گھر پہنچا” اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ وہ اس وقت نابینا ہو چکے تھے کیونکہ راہنما خود ان کو لے کر گیا تھا نہ کہ ان کی سواری کو، چونکہ جناب ام سلمی کا گھر ان کے گھر کے اس قدر نزدیک تھا کہ گریہ کی آواز وہاں تک سنائی دے رہی تھی اور انہوں نے یہ بھی جان لیا کہ یہ آواز انہیں کے گھر سے ہے۔ [12]
گذشتہ مطالب سے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ سن ۶۰ ہجری میں آپ نابینا ہو چکے تھے اور یہی امر باعث بنا کہ آپ امام حسینؑ کے ہمراہ عراق جاکر جہاد نہ کر سکے۔
امام حسینؑ نے بھی ان کے معذور ہونے کی وجہ سے انہیں جہاد اور اپنی ہمراہی کی دعوت نہیں دی اور اس امر کی اجازت دی کہ مدینہ لوٹ جائیں اور وہاں سے بنی امیہ کی خبریں ان تک پہنچائیں اور امام حسینؑ نے فرمایا: اے ابن عباس، آپ میرے بابا کے چچا زاد بھائی ہیں اور میں نے جب سے آپ کو پہچانا ہے آپ نے ہمیشہ نیکی کا حکم دیا ہے۔ آپ میرے بابا کے ہمراہ رہے۔ انہیں اچھی تجاویز دیتے رہے اور وہ بھی ہمیشہ آپ سے خیر خواہی کا تقاضہ اور آپ سے مشورت کرتے رہتے اور آپ بھی درست رائے دیا کرتے رہے، خدا کی پناہ میں، مدینہ واپس پلٹ جائیں اور وہاں کی کوئی خبر مجھ سے مخفی نہ رکھیں۔
نتیجہ
جناب عبد اللہ بن عباس، پیغمبر اکرمﷺ کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے بارہ اماموں کی امامت کے قائل تھے اور ان کی امامت پر ایمان بھی رکھتے تھے۔ آپ، پیغمبر اکرمﷺ کے صحابی اور امیر المومنینؑ کے ساتھی اور ان کے شاگرد تھے ۔ آپ اس بات پر افتخار کیا کرتے کہ خداوند متعال نے انہیں اہل بیت علیہم السلام کی دوستی اور ان کی اطاعت کی نعمت سے نوازا ہے۔ کچھ نا جاننے والے یہ سوال پیش کرتے ہیں کہ کس لئے آپ، کاروان حسینی کے ہمراہ نہ گئے؟
در حقیقت اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور واقعات اور روایات کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سن ۶۰ ہجری میں جناب عبد اللہ ابن عباس نابینا ہو چکے تھے اور یہی امر باعث بنا کہ آپ امام حسینؑ کے ہمراہ عراق جاکر جہاد نہ کر سکے۔ امام حسینؑ نے بھی ان کے معذور ہونے کی وجہ سے انہیں جہاد اور اپنی ہمراہی کی دعوت نہیں دی اور اس امر کی اجازت دی کہ مدینہ لوٹ جائیں اور وہاں سے بنی امیہ کی خبریں ان تک پہنچائیں۔
حواله جات
[1] ہلالی، کتاب سلیم بن قیس، ص۲۳۱-۲۳۸
[2] خزار قمی، کفایة الاثر، ص۱۰- ۲۲
[3] حلی، خلاصہ، ص۱۰۳؛ شاھرودی، مستدرکات علم الرجال، ج۵، ص۴۳
[4] ابن شھر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص ۱۳۰۰؛ ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۲، ص۱۷۸
[5] ابن بابویہ، امالی، ص۲۷۸
[6] کشی، اختیار معرفة الرجال، ج۱، ص ۱۲۷۲؛ ابن اثیر، اسد الغابۃ، ج۳، ص۱۹۵
[7] کشی، اختيار معرفة الرجال، ص۵۸
[8] مامقانی، تنقیح المقال، ج۲، ص۱۹۱
[9] مامقانی، تنقیح المقال، ج۲، ص۱۹۱
[10] ابن قتیبہ، المعارف، ص۵۸۹
[11] کشی، اختیار معرفة الرجال، ج۱، ص۲۷۲؛ مامقانی، تنقیح المقال، ج۲، ص۱۹۱
[12] طوسی، امالی، ص۳۱۴-۳۱۵
منابع
۱- ابن اثیر،علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، دار الفکر، بیروت، ۱۴۰۹ ھ ق.
۲- ابن بابویہ، محمد بن علی، امالی، کتابچی، تھران، ۱۳۷۶ ھ ش.
۳- ابن خلکان، احمد بن محمد،وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان، الشریف الرضی، قم، ۱۳۶۴ ھ ش.
۴- ابن شھر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، دار الاضواء، بیروت، ۱۴۱۲ ھ ق.
۵- ابن قتیبہ، عبد اللہ بن مسلم، المعارف، الهیئة المصریة العامة للکتاب، قاهرہ، ۱۹۸۲ ع.
۶- خزاز رازی، علی بن محمد، کفایة الاثر، بیدار ،قم، ۱۴۰۱ ھ ش.
۷- رجال کشی، محمد بن عمر،اختیار معرفة الرجال، مؤسسة آل البیت (علیهم السلام) لإحیاء التراث – قم، ۱۴۰۴ ھ ق.
۸- سلیم بن قیس ھلالی، کتاب سلیم بن قیس، مؤسسة البعثة. قسم الدراسات الإسلامية، تهران، ۱۴۰۷ ھ ق.
۹- طوسی ، محمد بن حسن، امالی، دار الثقافۃ، بیروت، ۱۴۱۴ ھ ق.
۱۰- علامہ حلی، حسن بن یوسف،خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، موسسۃ نشر الفقاھۃ، ۱۴۱۷ ھ ق.
۱۱- مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، مؤسسة آل البیت علیهمالسلام لإحیاء التراث، قم، ۱۴۳۱ ھ ق.
۱۲- نمازی شاھرودی، علی، مستدرکات علم الرجال الحدیث، فرزند مولف، تھران، ۱۴۱۴ ھ ق.
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
امام حسینؑ کے مکّی ایّام، شیخ نجم الدین طبسی، ترجمہ ناظم حسین اکبر، دلیل ما، قم، ۱۳۹۲ ھ ق.