- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/10/03
- 4 رائ
خدا نے دنیا میں دین اسلام کو بھیجا تو اس کے لئے کچھ محافظوں کا بھی انتظام کیا۔ تاکہ وہ محافظین دین اسلام کی حفاظت کریں، انہیں محافظین کو نبی، رسول، اور امام کہا جاتا ہے، وہ دین جس کو پیغمبر اکرم ﷺ لائیں، اس کی حفاظت ہمشیہ ان لوگوں نے انجام دی، کبھی علم کے ذریعہ، کبھی جان و مال کے ذریعہ، اور اسی دین کو بچانے کے لئے امام حسینؑ کو اپنا عزیز وطن، مدینہ کو چھوڑنا پڑا اور صحرائے کربلا بسانا پڑا، البتہ اس زمانہ مین کچھ ایسے افراد بھی تھے جو یہ نہیں چاہتے تھے کہ امامؑ قیام کریں اور وہ امامؑ کو مشورہ دیں رہے تھے۔ کچھ افراد کا مشورہ امامؑ کی خیر خواہی کے لئے تھا اور کچھ افراد کا مشورہ اس بات پر تھا کہ وہ خود اپنی حکومت بنانا چاہتے تھے جن میں سے ایک ذات عبد اللہ بن زبیر کی ہے۔
امام حسینؑ کی موجودگی اور عبد اللہ بن زبیر کی پریشانی
امام حسینؑ کے بیعت کا انکار کرکے مکہ مکرمہ میں سکونت پذیر ہونے کے بعد، عبد اللہ بن زبیر کے لیے امام حسینؑ کے وجود کو تحمّل کرنا سخت دشوار تھا۔ چونکہ اس نے ابتداء ہی سے یہ ارادہ کر رکھا تھا کہ مکہ معظمہ کو اموی حکومت کے خلاف اپنی شورش کا مرکز قرار دیتے ہوئے کامیابی کی صورت میں اس شہر کو پایہ تخت کے طور پر انتخاب کرے گا۔ لہذا اسے اس بات کی ضرورت تھی کہ مکہ مکرمہ اس کے کسی بھی رقیب سے خالی ہو تاکہ کسی قسم کی مزاحمت کی ضرورت نہ پڑے بالخصوص ایسا باعظمت رقیب جس کی موجودگی میں لوگ عبد اللہ بن زبیر پر توجہ ہی نہ کریں اور اس کے ہونے یا نہ ہونے کا کسی کو احساس ہی نہ ہو!
امام حسینؑ کے مکہ مکرمہ میں موجودگی کے دوران زمین مکہ اپنی تمام تر وسعتوں کے با وجود ابن زہیر پر تنگ ہو چکی تھی گویا اس کا گلا گھونٹ رہی تھی مگر وہ اس مدت میں ناچار ہو کر ظاہری طور پر صبر و تحمّل کا اظہار کرتا رہا اور اپنی نیت و کینہ کو مخفی رکھا۔
تاریخ میں آیا ہے کہ: (یہ موضوع عبد اللہ بن زبیر پر بہت گراں گذرا) چونکہ وہ یہ امید لگائے بیٹھا تھا کہ اہل مکہ اس کی بیعت کریں گے یہی وجہ ہے کہ جب امام حسینؑ مکہ پہنچے تو وہ سخت پریشان ہوا مگر اس نے اپنے دل کی بات کو کبھی ظاہر نہیں کیا بلکہ امام حسینؑ کے پیچھے نماز ادا کیا کرتا، امام حسینؑ کی محفل میں بھی بیٹھا کرتا اور امام حسینؑ کی باتوں کو بغور سنا کرتا۔ وہ بخوبی جانتا تھا کہ امام حسینؑ کی مکہ میں موجودگی کے دوران لوگ ہرگز اس کی بیعت نہیں کریں گے کیونکہ لوگوں کے درمیان امام حسینؑ کا مقام ابن زبیر سے بہت زیادہ تھا۔ [1]
بنابریں، عبد اللہ بن زبیر کی پوری خواہش تھی کہ امام حسینؑ مکہ مکرمہ کو کسی طرح ترک کردیں تاکہ اس کے لیے راہ ہموار ہو جائے۔ عبد اللہ بن زبیر یہ سمجھتا تھا کہ کوئی بھی اس کے ارادے سے آگاہ نہیں ہے جبکہ اہل دانش بطور مثال عبد اللہ بن عباسؓ پر اس کا یہ ارادہ مخفی نہیں تھا چه جائیکہ امام حسینؑ پر کوئی بات پوشیدہ رہتی!
عبد اللہ بن زبیر کی خواہشات اور امام حسینؑ کا اثر
طبری نے نقل کیا ہے کہ عبد اللہ بن زبیر، حسینؑ کے پاس پہنچا اور کہا: مجھے نہیں معلوم کہ کس لیے لوگ ہم سے دور ہیں جبکہ ہم مہاجرین و اولی الامر کی اولاد ہیں نہ کہ وہ، مجھے بتائیں کہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟
امام حسینؑ نے فرمایا: خدا کی قسم میں نے خود سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ کوفہ جاؤں چونکہ ہمارے شیعوں اور کوفہ کے سرداروں نے مجھے نامے لکھے ہیں اور میں بھی خدا سے بھلائی کا طلبگار ہوں۔
عبد اللہ بن زبیر نے کہا: اگر آپ کے شیعوں کے مانند میرے شیعہ بھی ہوتے تو میں اس شہر کو ہرکز نظر انداز نہ کرتا! اور پھر تمہت کے خوف سے کہنے لگا: البتہ اگر آپؑ یہیں حجاز میں رک کر ان کی سر پرستی کرتے رہیں تب بھی انشاء اللہ کوئی آپ کی مخالفت نہیں کرے گا! اور پھر اٹھ کر چل دیا۔
عبد اللہ بن زبیر کے چلے جانے کے بعد امام حسینؑ نے فرمایا: اس شخص کے نزدیک میرے حجاز سے جانے سے محبوب تر کوئی چیز دنیا میں نہیں ہے۔ وہ سمجھ چکا ہے کہ میرے یہاں پر ہوتے ہوئے وہ کچھ نہیں کر سکتا اور لوگ اسے میرے برابر نہیں سمجھتے لہذا وہ یہ چاہتا ہے کہ میں حجاز سے چلا جاؤں تا که میدان اس کے لیے خالی رہ جائے۔[2]
مرّی نے لکھا ہے: عبد اللہ بن زبیر ہر شب و روز، امامؑ کے پاس جایا کرتا اور انہیں یہ تجویز پیش کیا کرتا کہ عراق چلے جائیں کیونکہ وہاں آپ اور آپ کے باپ کے شیعہ ہیں۔[3]
دینوری نے لکھا ہے کہ: جب عبد اللہ بن زبیر کو امام حسینؑ کے ارادے کی خبر ملی تو ان کی خدمت میں پہنچا اور کہا: اگر آپ خانہ کعبہ میں رک جائیں اور یہاں سے اہل عراق اور اپنے شیعوں کو قاصد بھیج کر انہیں یہاں بلوالیں تو اس طرح آپؑ کی طاقت میں اضافہ ہو جائے گا اور پھر یزید کے عملے کو یہاں سے نکالنے کا موقع مل جائے گا۔ اگر آپ میری اس تجویز پر عمل کریں گے اور خانہ خدا میں حکومت تشکیل دیں تو میں بھی آپ کی مدد کا وعدہ کرتا ہوں کیونکہ یہ شہر لوگوں کے جمع ہونے کی جگہ ہے اور یہاں دنیا کے تمام نقاط سے لوگوں کی رفت وآمد رہتی ہے۔ خدا نے چاہا تو آپؑ اپنی تمام تر آرزوؤں کو پالو گے۔ [4]
واضح سی بات ہے کہ عبد اللہ بن زبیر، امام حسینؑ کی گفتگو سے یہ جان چکا تھا کہ امام حسینؑ بہت جلد عراق جانے والے ہیں اور یہ بھی جان چکا تھا کہ امام حسینؑ سے اس کی یہ آخری ملاقات ہو گی لہذا اس نے آخری لمحات میں یہ کوشش کی کہ امام حسینؑ کے وجود سے بہرہ مند ہوسکے۔ اور پوچھا: اے فرزند رسول خداﷺ شاید آج کے بعد ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں، مجھے بتائیں کہ مولود کب میراث کا مالک بنتا ہے اور دوسرے کب اس کے وارث بنتے ہیں؟ نیز، کیا بادشاہ سے انعلامات لینا جائز ہے یا حرام؟ امام حسینؑ نے جواب میں فرمایا: مولود جب گریہ کرنے لگے۔۔۔ اور بادشاہ اگر لوگوں کا مال غصب کرکے انعام دے تو حلال نہیں ہے۔ [5]
غور و خوض
۱-عبد اللہ بن زبیر کی امام حسینؑ سے گفتگو میں متناقض آراء سامنے آئی ہیں کبھی تو وہ اپنے باطن کو مخفی کرتے ہوئے امام حسینؑ کو مکہ مکرمہ میں رک جانے کی تجویز پیش کرتا ہے اور کہ کبھی باطن پر توجہ کیے بغیر اپنے دل کی خواہشات کا اظہار کر بیٹھتا ہے اور یوں امام حسینؑ کو عراق جانے پر تشویق کرتا دکھائی دیتا ہے! اور پھر جب متوجہ ہوتا ہے کہ کہیں اس پر امام حسینؑ کے عراق جانے کی وجہ سے خوشحالی کی تہمت نہ لگ جائے تو فوراً یہ پیشکش کرتا ہے کہ آپؑ مکہ ہی میں رک جائیں۔
۲-اسی طرح حکومت و ریاست کی محبت اس قدر اس کے دل میں رچ چکی تھی کہ وہ پہاڑ کی چوٹی اور گڑھے کی پستی میں کوئی فرق نہیں دیکھ پارہا تھا اور خود کو امام حسینؑ کے برابر قرار دیتے ہوئے اپنے کو خلافت اور جانشینی کا اہل قرار دے رہا تھا جب یہ کہا کہ ہم اولی الامر کی اولاد اور خلافت کے سزاوار ہیں۔
۳-ان تمام تر گفتگو میں بالکل واضح ہے کہ امام حسینؑ نے انتہائی ادب و احترام کی رعایت کی جبکہ یہ جانتے تھے کہ عبد اللہ بن زبیر اہل بیتؑ سے بغض رکھتا ہے۔
۴-امام حسینؑ نے عبد اللہ بن زبیر کو بتا دیا کہ وہ شہید کر دیئے جائیں گے اور شاید امام حسینؑ کا مقصد یہ تھا کہ عبد اللہ بن زبیر پر اپنی مدد کی حجت تمام کر دیں۔
۵۔عبد اللہ بن زبیر کی کوئی بھی نصیحت یا تجویز امام حسینؑ کو متاثر نہ کر سکی کیونکہ آپؑ اس کی اہل بیتؑ رسول سے دشمنی کو جانتے تھے یہی وجہ ہے کہ عبد اللہ بن زبیر کی گفتگو کا کہیں بھی قیام حسینی پر اثر دکھائی نہیں دیتا۔
۶-یہیں پر ابن ابی الحدید کے کلام کی کمزوری بھی سامنے آجاتی ہے جہاں وہ یہ کہتا ہے کہ امام حسیؑن کو ابن زبیر نے دھوکہ دیا اور یہ مشورہ دیا کہ مکہ میں آپؑ کی بیعت کرنے والا کوئی نہیں ہے لہذا آپ عراق چلے جائیں کیونکہ وہاں کے لوگ آپ کو چھوڑ کر کہیں اور نہیں جائیں گے۔ جس کے نتیجہ مین امام حسینؑ عراق گئے اور وہی ہوا جو ہم نے دیکھا۔[6]
نتیجہ
عبد اللہ بن زبیر کی خواہش تھی کہ امام حسینؑ مکہ چھوڑ دیں تاکہ وہ بغیر کسی رقیب کے اپنے مقاصد حاصل کرسکے۔ عبد اللہ بن زبیر نے امام حسینؑ کے ساتھ وقت گزارا اور ان کی باتوں کو بغور سنا، لیکن وہ جانتا تھا کہ امام حسینؑ کی موجودگی اس کی سیاسی حیثیت کے لئے خطرہ ہے۔ جب امام حسینؑ نے کوفہ جانے کا ارادہ کیا تو عبد اللہ بن زبیر نے آخری لمحے میں انہیں روکنے کی کوشش کی، مگر امام حسینؑ کا عزم اور دین اسلام کے لئے وفاداری ان کے فیصلے میں رکاوٹ نہ بن سکی۔
حوالہ جات
[1] نقدی،زینب الکبری،ص۸۷ ؛ ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۱؛ طبرسی، اعلام الوری، ص ۱۲۲۳؛ ابن کثیر، البداية والنهایة،ج۵، ص۱۵۳؛ فتال نیشاپوری، روضه الواعظین،ص۱۷۲
[2] طبری، تاریخ طبری، ج۳، ص ۱۲۹۵؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص ۵۴۶؛ ابن کثیر، البداية والنهاية، ج ۸، ص۱۷۲، ابن حیون،شرح الاخبار،ج۳، ص۱۳۵
[3] حافظ مزی، تہذیب الکمال،ص۲۸۹
[4] دینوری،اخبار الطوال،ص۲۴۴
[5] قرشی،حیاۃ الامام الحسین بن علی علیہ السلام، ج۳، ص۵۲
[6] ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۶،ص۱۰۲
منابع
۱-ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ھبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) مکتبۃ ایۃ اللہ العظمی المرعش النجفی، قم، ایران،۱۳۶۳، ھ ش
۲-ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، ۱۴۰۷، ھ ق
۳- ابن اعثم کوفی، محمد بن علی، الفتوح، بیروت، لبنان،۱۴۱۱، ھ ق
۴- ابن حیون، نعمان بن محمد، شرح الاخبار فی فضایل الائمۃ الاطھار، جماعة المدرسين في الحوزة العلمیة، مؤسسة النشر الإسلامي، قم، ایران، ۱۴۰۹، ھ ق
۵-ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البداية والنهایة، دار الفکر، بیروت، لبنان، ۱۳۵۷، ھ ش
۶- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، اساطیر، تھران،۱۳۶۲، ھ ش
۷- حافظ مزی، یوسف بن عبد الرحمن، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، ۱۴۰۶، ھ ق
۸-دینوری، احمد بن دادود، اخبار الطوال، الشریف الرضی، ۱۳۷۳، ھ ق
۹-طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری، باعلام الھدی؛ موسسۃ آل البیت علیھم السلام لاحیاء التراث، قم، ایران، ۱۳۷۶، ھ ش
10- فتال نیشاپوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین، الشریف الرضی، قم، ایران، ۱۳۷۵، ھ ش
۱۱-قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسین بن علی علیہ السلام، العتبة الحسينية المقدسة، قسم الشؤون الفکریة و الثقافیة، کربلای معلی، عراق ۱۴۳۲، ھ ق
۱۲-نقدی، شیخ جعفر، زینب الکبری(ع)، ھاد، ۱۳۹۴، ھ ش
مضمون کا ماخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
امام حسینؑ کے مکّی ایّام، شیخ نجم الدین طبسی، ترجمہ ناظم حسین اکبر، دلیل ما، قم، ۱۳۹۲، ھ ش
Mashallah good
Very nice
عالی
Bhut khub