بلاشبہ، اگر اس دنیا کی زندگی کو محض ایک محدود، فانی اور تنہا وجود سمجھا جائے تو یہ ایک بے معنی اور فضول زندان کی مانند ہوگی، جہاں مشکلات کے درمیان ہاتھ پاؤں مارنا اور بڑھاپے میں خاموش ہوجانا ایک بے نتیجہ عمل دکھائی دے گا۔ لیکن عقیدہ معاد ہمیں یہ بصیرت عطاء کرتا ہے کہ یہ زندگی دراصل ایک عظیم حقیقت کا ابتدائی مرحلہ اور ابدی عالم کی تیاری کےلئے درس گاہ ہے۔ عقیدہ معاد کی روشنی میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہر عمل کا ایک انجام ہے، اور اس دنیا کے بعد ایک دائمی زندگی ہے جہاں انصاف، جزا اور سزا کا مکمل نظام قائم ہوگا۔ یہی عقیدہ معاد ہماری موجودہ زندگی کو گہرا مفہوم بخشتا ہے۔
عقیدہ معاد پر ایمان رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟
اگر ہم اس دنیا کی زندگی کو دوسری دنیا (آخرت) کی زندگی سے قطع نظر تصور کریں تو یہ بالکل بے معنی اور فضول ہوگی۔ اس صورت میں ہماری اس دنیا کی زندگی بالکل اس کی مانند ہوگی کہ ہم جنین (fetus) کے دوران بچے کی زندگی اس دنیا کی زندگی سے قطع نظر تصور کریں۔
ماں کے شکم میں موجود بچہ، جو اس محدود و تنگ و تاریک زندان میں مہینوں قید و بند رہتا ہے، اگر عقل و شعور رکھتا اور اپنی جنین والی زندگی کے بارے میں فکر کرتا تو وہ بیشک تعجب کرتا کہ میں کیوں اس تاریک زندان میں قید و بند ہوں؟ میں کیوں اس پانی اور خون میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہوں؟ آخر میری زندگی کا کیا نتیجہ ہوگا؟ میں کہاں سے آیا ہوں اور میرے آنے کا کیا فائدہ ہے؟ لیکن اگر اسے بتایا جائے کہ یہ تیرے لئے ایک ابتدائی مرحلہ ہے یہاں پر تمہارے اعضاء بن جائیں گے، توانا ہو جاؤ گے اور ایک بڑی کوشش و حرکت کےلئے آمادہ ہوجاؤ گے۔
نو مہینے گزرنے کے بعد اس زندان سے تمہاری رہائی کا حکم جاری کیا جائے گا۔ اس کے بعد تم ایک ایسی دنیا میں قدم رکھو گے جہاں پر چمکتا سورج، روشن چاند، سرسبز درخت، پانی کی جاری نہریں اور انواع و اقسام کی نعمتیں ہوں گی۔ یہ سننے کے بعد وہ اطمینان کا سانس لے کر کہے گا! اب میں سمجھ گیا کہ یہاں پر میری موجودگی کا فلسفہ کیا ہے! یہ ایک ابتدائی مرحلہ ہے، یہ چھلانگ لگانے کا چبوترہ ہے، یہ ایک بڑی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کےلئے ایک کلاس ہے۔
لیکن اگر جنین والی زندگی کا رابطہ اس دنیا سے کٹ جائے تو تمام چیزیں تاریک اور بے معنی ہوکر رہ جائیں گی اور جنین والی زندگی ایک وحشتناک، تکلیف دہ، اور بے نتیجہ زندان میں تبدیل ہوجائے گی۔ اس دنیا کی زندگی اور موت کے بعد والی دنیا کے درمیان بھی ایسا ہی رابطہ ہے۔
کیا ضروری ہے کہ ہم اس دنیا میں ستر سال یا اس سے کم یا زیادہ زندگی گزاریں اور مشکلات کے درمیان ہاتھ پاؤں مارتے رہیں؟ کچھ مدت بے تجربہ اور خام رہیں، جب ہماری خامی پختگی میں تبدیل ہو تو ہماری عمر تمام ہوجائے! ایک مدت تک علم و دانش حاصل کریں، جب ہم معلومات کے لحاظ سے پختہ ہوجاتے ہیں تو بڑھاپا ہمارے سر پر آن پہنچتا ہے!
آخر ہم کس لئے زندگی بسر کرتے ہیں؟ غذا کھانے، لباس پہنے اور سونے کےلئے؟ اسی حالت میں زندگی کو دسیوں سال تک جاری رکھنے کا مطلب کیا ہے؟ کیا حقیقت میں یہ کشادہ آسمان، وسیع زمین، یہ سب مقدمات، یہ علم اور تجربے حاصل کرنا، یہ سب اساتذہ اور مربّی سب کے سب صرف اسی کھانے پینے اور لباس پہننے اور پست و تکراری زندگی کےلئے ہیں؟
یہاں پر عقیدہ معاد کو قبول کرنے والوں کےلئے زندگی کا فضول ہونا یقینی بن جاتا ہے، کیونکہ وہ ان معمولی امور کو زندگی کا مقصد قرار نہیں دے سکتے اور موت کے بعد والی دنیا پر تو ایمان ہی نہیں رکھتے۔ لہذا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ خودکشی کا اقدام کر کے اس بے مقصد زندگی سے نجات پانا چاہتے ہیں۔
لیکن اگر ہم یقین کریں کہ دنیا ”آخرت کی کھیتی“ ہے یعنی دنیا ایسا کھیت ہے جس میں ہمیں بیج بونا ہے تاکہ اس کی فصل کو ہم ایک جاودانی اور ابدی زندگی میں کاٹ سکیں۔ دنیا ایک ایسا کالج ہے جس میں ہمیں آگاہی حاصل کرنی ہے تاکہ ایک ابدی عالم کےلئے خود کو آمادہ کرسکیں، دنیا ایک گزرگاہ اور پل ہے جس سے ہمیں عبور کرنا ہے۔
اس صورت میں ہماری دنیوی زندگی بے مقصد اور فضول نہیں ہوگی، بلکہ ایک ایسی ابدی اور جاودانی زندگی کا مقدمہ ہوگی جس کےلئے ہم جس قدر کوشش کریں کم ہے۔ جی ہاں عقیدہ معاد انسان کی زندگی کو مفہوم اور معنی بخشتا ہے اور اسے اضطراب، پریشانی اور بے ہودگی سے نجات دلاتا ہے۔
عقیدہ معاد کا انسان کی تربیت میں اہم کردار
اس کے علاوہ آخرت میں ایک عظیم عدالت کے وجود کا عقیدہ ہماری اس زندگی میں غیر معمولی طور پر مؤثر ہے۔ فرض کریں ایک ملک میں یہ اعلان ہوجائے کہ سال کے فلاں دن کسی بھی جرم کی سزا نہیں ہوگی، اس دن کوئی کیس درج نہیں ہوگا اور لوگ مکمل اطمینان کے ساتھ اس دن کو کسی سزا کے بغیر گزار سکتے ہیں، اس دن پولیس اور امن و انتظام کے مأمورین تعطیل کریں گے، عدالتیں بند ہوں گی، یہاں تک کہ دوسرے دن جب زندگی معمول پر آجائے گی، گزشتہ کل کے جرائم کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جائے گا۔ ذرا غور کیجئے اس دن معاشرے کی کیا حالت ہوگی؟
قیامت کے دن لگنے والی عدالت کی خصوصیات
قیامت پر ایمان در حقیقت ایک عظیم عدالت پر ایمان ہے جو اس دنیا کی عدالتوں کے ساتھ قابل موازنہ نہیں ہے۔ اس عظیم عدالت کی خصوصیات حسب ذیل ہیں:
۱۔ ایک ایسی عدالت ہے، جس میں نہ سفارش چلے گی اور نہ روابط کی حکمرانی ہوگی اور نہ جھوٹے مدارک پیش کر کے اس کے قاضیوں کی سوچ کو تبدیل کیا جاسکے گا۔
۲۔ ایک ایسی عدالت ہے جس میں اس دنیا کی عدالتوں کی مانند عدالتی کاروائی نہیں ہوگی اور اسی لئے وہاں پر لمبے اور تفصیلی مراحل نہیں ہیں، تحقیقات کے بعد صحیح اور دقیق حکم جاری کردیا جاتا ہے۔
۳۔ ایک ایسی عدالت ہے جہاں پر مجرموں کے جرائم کے دلائل و مدارک خود ان کے اعمال ہوں گے، یعنی اس عدالت میں خود اعمال حاضر ہوکر گواہی دیں گے، اور مجرم کے ساتھ اپنے ارتباط کو وہ خود اس طرح مشخص کریں گے کہ انکار کی کو ئی گنجائش نہیں ہوگی۔
۴۔ اس عدالت کے گواہ انسان کے اپنے ہاتھ، پاؤں، کان، آنکھیں، زبان اور اس کے بدن کی جلد حتیٰ جس جگہ پر گناہ یا ثواب انجام دیا ہوگا اس کی زمین اور در و دیوار ہوں گے، یہ ایسے گواہ ہیں جو انسان کے اعمال کے فطری آثار کی مانند قابل انکار نہیں ہیں۔
۵۔ اس عدالت کا قاضی اور حاکم خدا ہے، جو ہر چیز سے آگاہ اور بے نیاز اور سب سے بڑا عادل ہے۔
۶۔ اس کے علاوہ اس عدالت کی جزا و سزا قراردادی نہیں ہیں، اکثر خود ہمارے اعمال ہی مجسّم ہوکر ہمارے سامنے ظاہر ہوتے ہیں اور ہمیں اذیت و آزار پہنچاتے ہیں یا ہمیں نعمت و آسائش میں غرق کرتے ہیں۔
امام علی (ع) اور عقیدہ معاد
اس قسم کی عدالت کا یقین انسان کو ایک ایسی جگہ پر پہنچاتا ہے، جہاں پر وہ علی (ع) کی مانند کہتا ہے: ”خدا کی قسم اگر مجھے نرم بستر کے بجائے راتوں کو صبح تک مہلک کانٹوں پر جاگتے ہوئے گزارنا پڑے اور دن کو میرے ہاتھوں اور پاؤں میں زنجیریں باندھ کر مجھے گلی اور بازاروں میں گھسیٹا جائے، یہ مجھے اس سے کہیں زیادہ پسند ہے کہ میں اللہ کی عدالت میں اس حال میں حاضر کیا جاؤں کہ میں نے کسی بندے پر ظلم کیا ہو یا کسی کا حق غصب کیا ہو‘‘[1]
یہ اس عدالت کا ایمان ہے جو انسان (حضرت علیؑ) کو مجبور کرتا ہے کہ وہ آگ میں دہکتا ہوا سرخ لوہا اپنے بھائی کے ہاتھ کے قریب لے جائے، جو بیت المال سے اپنے حصہ سے زیادہ کا طالب تھا، جب اس کا بھائی ڈر کے مارے فریاد بلند کرتا ہے، تو اسے نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے: ”تم اس آگ سے ڈرتے ہو جو ایک کھلونے کی مانند انسان کے ہاتھ میں ہے، لیکن اپنے بھائی کو ایک ایسی ہولناک آگ کی طرف دھکیل رہے ہو جسے خدا کے قہر و غضب کے شعلوں نے بھڑکایا ہے؟“[2]
کیا ایسے ایمان رکھنے والے انسان کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے؟ کیا رشوت سے اس کے ایمان کو خریدا جاسکتا ہے؟ کیا اسے لالچ اور دھمکی سے حق کی راہ سے ظلم کی طرف منحرف کیا جاسکتا ہے؟
قرآن مجید فرماتا ہے: جب گناہ گار اپنے اعمال ناموں کو دیکھیں گے تو چیختے ہوئے کہیں گے: ’’مَالِ هَٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا‘‘[3]
ہائے ہماری رسوائی! یہ کیسا نامۂ اعمال ہے؟ اس نے کسی چھوٹی اور بڑی بات کو نہیں چھوڑا (بلکہ) سب کو درج کرلیا ہے۔
اس طرح ہر کام انجام دیتے وقت انسانی روح کی گہرائیوں میں ذمہ داری کے احساس کی ایک طاقتور موج پیدا ہوتی ہے اور یہی احساس اسے ہر قسم کے انحرافات، گمراہی اور ظلم و زیادتی سے بچاتا ہے۔
خاتمہ
عقیدہ معاد پر ایمان انسانی زندگی میں اطمینان اور سکون پیدا کرتا ہے، پریشانیوں اور اضطراب کو دور کرتا ہے اور انسان کی روحانی و اخلاقی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ یقین کہ موت کے بعد ایک عظیم عدالت قائم ہوگی، جہاں روابط اور سفارش نہیں چلے گی بلکہ ہر عمل کا حساب ہوگا، ہمیں ہر کام کرتے وقت ذمہ داری اور جواب دہی کا احساس دلاتا ہے۔ درحقیقت، عقیدہ معاد انسان کو محض وقتی فائدوں سے بالاتر ابدی کامیابی کی فکر عطاء کرتا ہے۔ یہی عقیدہ معاد ہماری دنیوی زندگی کو بے معنی اور فضول ہونے کے بجائے ایک بامقصد اور باوقار بنا دیتا ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ شریف رضی، محمد حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۲۲۴، تہران، مطبوعات النجاح، ۱۴۰۲ق۔
[2]۔ شریف رضی، محمد حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۲۲۴، تہران، مطبوعات النجاح، ۱۴۰۲ق۔
[3]۔ کہف: ۴۹۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
مکارم شیرازی، ناصر، نوجوانوں کےلئے اصول عقائد کے پچاس سبق، ترجمہ: سید قلبی حسین رضوی، ص ۳۶۹-۳۷۶، قم، مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ۲۰۰۸م۔