حضرت فاطمہ زہرا (س) کی حضرت علی (ع) سے شادی

حضرت فاطمہ زہرا (س) کی حضرت علی (ع) سے شادی

کپی کردن لینک

پیغمبر اسلام ﷺ نے شوہر کے انتخاب میں عورت کو مکمل آزادی دی ہے۔ جب متعدد اشرافِ عرب حضرت فاطمہ زہرا (س) سے شادی کا پیغام لے کر رسول ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو بی بی (س) کے چہرۂ مبارک پر ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوئے۔ اس سے پیغمبر ﷺ نے سمجھ لیا کہ حضرت فاطمہ زہرا (س) ان سے راضی نہیں ہیں۔ لیکن جب علی (ع) شادی کا پیغام لے کر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کے سامنے ان کی پیشکش بھی رکھی۔ اس موقع پر بی بی (س) نے کوئی ناراضگی ظاہر نہیں فرمائی اور خاموشی اختیار کی، جس پر پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اللّه أکبر سکوتها إقرارها‘‘۔

حکم الہی اور سنت حسنہ پر عمل پیرا ہونے کےلئے حضرت علی (ع) کےلئے ضروری تھا کہ جوانی کے بحران سے نکلنے کےلئے اپنی زندگی کی کشتی کو سکون و آرام دیں، مگر حضرت علی (ع) جیسی شخصیت کےلئے ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی کو وقتی آرام و آسایش کےلئے اپنی شریک حیات بنائیں اور اپنی زندگی کے بقیہ ایام کو ایسے ہی چھوڑ دیں۔

لہٰذا ایسی شریک حیات چاہتے ہیں جو ایمان، تقویٰ، علم اور بصیرت، نجابت و اصالت میں ان کی کفو اور ان کی ہم پلہ ہو۔ اور ایسی شریک حیات سوائے پیغمبر ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) جن کی تمام خصوصیات بچپن سے لے کر اس وقت تک آپ واقف تھے، کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) سے شادی کے خواہشمند افراد

حضرت علی (ع) سے پہلے بہت سے دوسرے افراد مثلاً ابوبکر، عمر نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کے ساتھ شادی کےلئے پیغمبر ﷺ کو رشتہ دیا تھا اور دونوں نے پیغمبر ﷺ سے ایک ہی جواب سنا تھا آپ نے فرمایا تھا کہ میں زہرا (س) کی شادی کے سلسلے میں وحی کا منتظر ہوں۔

ان دونوں نے جو حضرت فاطمہ زہرا (س) سے شادی کے سلسلے میں ناامید ہو چکے تھے رئیس قبیلہ اوس، سعد معاذ کے ساتھ گفتگو کی اور آپس میں سمجھ لیا کہ حضرت علی (ع) کے علاوہ کوئی بھی زہرا (س) کا کفو نہیں بن سکتا، اور پیغمبر ﷺ کی نظر انتخاب بھی علی (ع) کے علاوہ کسی پر نہیں ہے۔ اسی بنا پر یہ لوگ ایک ساتھ حضرت علی (ع) کی تلاش میں نکلے اور بالآخر انہیں انصار کے ایک باغ میں پایا۔ آپ اپنے اونٹ کے ساتھ کجھور کے درختوں کی سینچائی میں مصروف تھے، ان لوگوں نے علی (ع) کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

قریش کے شرفا نے پیغمبر ﷺ کی بیٹی سے شادی کےلئے رشتہ دیا تو پیغمبر ﷺ نے ان کے جواب میں کہا کہ زہرا (س) کی شادی کے سلسلے میں میں حکم خدا کا منتظر ہوں ہمیں امید ہے کہ اگر تم نے (اپنے تمام فضائل کی وجہ سے) حضرت فاطمہ زہرا (س) سے شادی کی درخواست کی تو تمہاری درخواست ضرور قبول ہو جائے گی اور اگر تمہاری مالی حالت اچھی نہیں ہے تو ہم سب تمہاری مدد کریں گے۔

اس گفتگو کو سنتے ہی حضرت علی (ع) کی آنکھو میں خوشی کے آنسو آگئے اور کہا: میری بھی یہی آرزو ہے کہ میں پیغمبر ﷺ کی بیٹی سے شادی کروں۔ اتنا کہنے کے بعد آپ کام چھوڑ کر پیغمبر ﷺ کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے، اس وقت پیغمبر ﷺ ام سلمہ کے پاس تھے۔ جس وقت آپ نے دروازے پر دستک دی۔ پیغمبر ﷺ نے فوراً ام سلمہ سے کہا جاؤ اور دروازہ کھولو، کیونکہ یہ وہ شخص ہے جسے خدا اور اس کا رسول ﷺ دوست رکھتا ہے۔

ام سلمہ کہتی ہیں کہ اس شخص کو دیکھنے کےلئے میرا دل بے چین ہو گیا کہ جس شخص کی پیغمبر ﷺ نے ستائش کی ہے۔ میں اٹھی کہ دروازہ کھولوں۔ عنقریب تھا کہ میرے پیر لڑکھڑا جاتے۔ میں نے دروازہ کھولا حضرت علی (ع) داخل ہوئے اور پیغمبر ﷺ کے پاس بیٹھ گئے، لیکن پیغمبر ﷺ کی عظمت و جلالت کی وجہ سے حیا مانع بن رہی تھی کہ پیغمبر ﷺ سے گفتگو کریں، اس لئے سر کو جھکائے بیٹھے تھے یہاں تک کہ پیغمبر ﷺ نے خاموشی کو ختم کیا اور کہا:

شاید کسی کام سے آئے ہو؟ حضرت علی (ع) نے جواب دیا: ہماری رشتہ داری و محبت خاندان رسالت ﷺ سے ہمیشہ ثابت و پائدار رہی اور ہمیشہ دین و جہاد کے ذریعے اسلام کو ترقی کے راستے پر لگاتے رہے ہیں، یہ تمام چیزیں آپ کےلئے روشن و واضح ہیں۔ پیغمبر ﷺ نے فرمایا: جو کچھ تم نے کہا تم اس سے بلند و بالا ہو۔ حضرت علی (ع) نے کہا: کیا آپ میری شادی فاطمہ (س) سے کرسکتے ہیں۔

حضرت علی (ع)، شادی کے پیغام کے وقت ایک سنت پر عمل کررہے تھے، جبکہ ان پر بہت زیادہ حیا طاری تھی۔ آپ بذات خود اور بغیر کسی و اسطے کے پیغام دے رہے تھے، اور یہ روحی شجاعت و بہادری، عفاف کے ہمراہ لائق تقدیرہے۔ حضرت علی (ع) نے اپنا پیغام دیتے وقت تقویٰ اور اپنے گذرے ہوئے روشن سابقہ اور اسلام پر اعتماد کیا، اور اس طرح سے دنیا والوں کو یہ پیغام دیا کہ معیار فضیلت یہ چیزیں ہیں نہ کہ خوبصورتی، دولت اور منصب وغیرہ۔

پیغمبر اسلام ﷺ نے شوہر کے انتخاب میں عورت کو آزاد رکھا ہے اور حضرت علی (ع) کے جواب میں فرمایا: تم سے پہلے کچھ لوگ اور بھی میری بیٹی سے شادی کی درخواست لے کر آئے تھے، میں نے ان کی درخواست کو اپنی بیٹی کے سامنے پیش کیا لیکن اس کے چہرے پر ان لوگوں کےلئے عدم رضایت کو بہت شدت سے محسوس کیا۔ اب میں تمہاری درخواست کو اس کے سامنے پیش کروں گا پھر جو بھی نتیجہ ہوگا تمہیں مطلع کروں گا۔

پیغمبر اسلام ﷺ حضرت فاطمہ زہرا (س) کے گھر آئے حضرت فاطمہ زہرا (س) ان کی تعظیم کےلئے اٹھیں، آپ ﷺ کے کاندھے سے ردا اٹھائی اور آپ ﷺ کے پیر سے جوتے اتارے اور پائے اقدس کو دھلایا پھر وضو کر کے آپ ﷺ کے پاس بیٹھ گئیں۔ پیغمبر ﷺ نے حضرت فاطمہ زہرا (س) سے اس طرح گفتگو شروع کی: چچا ابوطالب کا نور نظر علی (ع) وہ ہے جس کی فضیلت و مرتبہ اسلام کی نظر میں ہم پر واضح و روشن ہے۔

میں نے خدا سے دعا کی تھی کہ خدا کی بہترین مخلوق سے تمہارا عقد کروں اور اس وقت وہ تم سے شادی کی درخواست لے کر آیا ہے اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے مکمل خاموشی اختیار کرلی، لیکن اپنے چہرے کو پیغمبر ﷺ کے سامنے سے نہیں ہٹایا اور ہلکی سی ناراضگی کے آثار بھی چہرے پر رونما نہ ہوئے۔ رسول اسلام ﷺ اپنی جگہ سے اٹھے اور فرمایا: ’’اَللّٰهُ اَکْبَرُ سُکُوْتُهٰا اِقْرَارُهٰا‘‘[1] یعنی خدا بہت بڑا ہے، میری بیٹی کی خاموشی اس کی رضایت کی دلیل ہے۔

روحی، فکری اور اخلاقی اعتبار سے برابر ہونا

یہ حقیقت ہے کہ اسلام کے آئین میں ہر مرد مسلمان ایک دوسرے مسلمان کا کفو اور ہم پلہ ہے۔ اور ہر مسلمان عورت جو ایک مسلمان مرد کے عقد میں آتی ہے اپنے برابر و کفو سے عقد باندھتی ہے لیکن اگر روحی و فکری اعتبار سے دیکھا جائے تو بہت سی عورتیں بعض مردوں کے ہم شان و ہم رتبہ نہیں ہیں یا اس کے برعکس بعض مرد بعض عورتوں کے برابر و ہم رتبہ نہیں ہیں۔

شریف و مومن اور متدین مسلمان جو انسانیت کے بلند و بالا مراتب اور اخلاق و علم و دانش کے وسیع مراتب پر فائز ہیں انہیں چاہئے کہ ایسی عورتوں کو اپنی شریک حیات بنائیں جو روحی و اخلاقی اعتبار سے ان کے ہم مرتبہ اور ان سے مشابہ ہوں۔

یہ امر پاک دامن اور پرہیزگار عورتوں، جو فضائل اخلاقی اور اعلی ترین علم و اندیشہ سے مالا مال ہیں، کےلئے بھی ہے۔ شادی کا سب سے اہم مقصد، پوری زندگی میں سکون و اطمینان کا ہونا ہے اور یہ چیز بغیر اس کے ممکن نہیں ہے اور جب تک اخلاقی مشابہت اور روحی ہم آہنگی پوری زندگی پر سایہ فگن نہیں ہوتیں شادی عبث اور بے کار ہو جاتی ہے۔

اس حقیت کے بیان کرنے کے بعد خدا کے اس کلام کی حقیقت روشن ہو جاتی ہے جو اس نے اپنے پیغمبر ﷺ سے فرمایا تھا:

’’لو لم اخلق علیا لما کان لفاطمه ابنتک کفو علی وجه الارض آدم فمن دونه‘‘[2] اگر میں نے علی کو پیدا نہ کیا ہوتا تو روئے زمین پر ہرگز تمہاری بیٹی فاطمہ کا کفو نہ ہوتا۔

بطور مسلم اس برابری اور کفو سے مراد مقام و مرتبے میں برابری ہے۔

شادی کے اخراجات

حضرت علی (ع) کے پاس مال دنیا میں صرف تلوار اور زرہ تھی جس کے ذریعے آپ راہ خدا میں جہاد کرتے تھے اور ایک اونٹ تھا کہ جس کے ذریعے سے مدینہ کے باغوں میں کام کر کے خود کو انصار کی مہمانی سے بے نیاز کرتے تھے۔

منگنی اور عقد وغیرہ کے بعد وہ وقت بھی آن پہونچا کہ حضرت علی (ع) اپنی شریک زندگی کےلئے کچھ سامان آمادہ کریں اور اپنی نئی زندگی کو پیغمبر ﷺ کی بیٹی کے ساتھ شروع کریں۔ پیغمبر ﷺ نے قبول کرلیا کہ حضرت علی (ع) اپنی زرہ کو بیچ دیں اور اس کی قیمت سے فاطمہ (س) کی مہر کے عنوان سے پیغمبر ﷺ کو کچھ ادا کریں۔

زرہ چار سو درہم میں فروخت ہوئی۔ پیغمبر ﷺ نے اس میں کچھ درہم بلال کو دیا تاکہ زہرا (س) کےلئے عطر خریدیں اور اس میں سے کچھ درہم عمار یاسر اور اپنے کچھ دوستوں کو دیئے تاکہ علی (ع) و فاطمہ (س) کے گھر کےلئے کچھ ضروری سامان خریدیں۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا جہیز

حضرت فاطمہ زہرا (س) کے جہیز کو دیکھ کر اسلام کی عظیم خاتون کی زندگی کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پیغمبر ﷺ کے بھیجے ہوئے افراد بازار سے واپس آگئے اور جو کچھ بھی سامان انھوں نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کےلئے آمادہ کیا تھا وہ یہ ہیں:

پیراہن 7 درہم کا، روسری 1 درہم کی، کالی چادر جو پورے بدن کو چھپا نہیں سکتی تھی، ایک عربی تخت جو لکڑی اور کھجور کی چھال سے بنا تھا، دو مصری کتان سے بنی ہوئی توشک جس میں ایک ریشمی اور دوسری کھجور کی چھال سے بنی تھی، چار مسندیں جو دو ریشم اور دو کھجور کی چھال سے بنی ہوئیں، پردہ، ہجری چٹائی، چکی، بڑا طشت، چمڑے کی مشک، دودھ کےلئے لکڑی کا پیالہ، پانی کےلئے چمڑے کے کچھ برتن، لوٹا، پیتل کا بڑا برتن، چند پیالے، چاندی کے بازو بند۔

پیغمبر ﷺ کے دوستوں نے جو کچھ بھی بازار سے خریدا تھا پیغمبر ﷺ کے حوالے کیا اور پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنی بیٹی کے گھر کا سامان دیکھ کر فرمایا: ’’اللَّهُمَّ بَارِكْ لِقَوْمٍ جُلُّ آنِيَتِهِمُ الْخَزَفُ‘‘ یعنی خداوندا جو لوگ زیادہ تر مٹی کے برتن استعمال کرتے ہیں ان کی زندگی کو مبارک قرار دے۔[3]

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا مہر

پیغمبر اسلام ﷺ کی بیٹی کی مہر پانچ سو درہم تھا اور ہر درہم ایک مثقال چاندی کے برابر تھا (ہر مثقال 18 چنے کے برابر ہوتا ہے)۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی عظیم المرتبت بیٹی کا عقد بہت زیادہ سادگی اور بغیر کسی کمی کے ہوا عقد ہوئے ایک مہینہ سے زیادہ گزر گیا پیغمبر ﷺ کی عورتوں نے حضرت علی (ع) سے کہا: اپنی بیوی کو اپنے گھر کیوں نہیں لے جاتے؟ حضرت علی (ع) نے ان لوگوں کو جواب دیا: لے جاؤں گا۔ ام ایمن پیغمبر ﷺ کی خدمت حاضر ہوئیں اور کہا اگر خدیجہ زندہ ہوتیں تو وہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کے مراسم ازدواج کو دیکھ کر خوش ہوجاتیں۔

پیغمبر ﷺ نے جب خدیجہ کا نام سنا تو آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوگئیں اور کہا: اس نے میری اس وقت تصدیق کی تھی جب سب نے مجھے جھٹلا دیا تھا۔ اور خدا کے دین کو دوام بخشنے کےلئے میری مدد کی اور اپنے مال کے ذریعے اسلام کے پھیلانے میں مدد کی۔[4]

ام ایمن نے کہا: حضرت فاطمہ زہرا (س) کو ان کے شوہر کے گھر بھیج کر ہم سب کو خوشحال کیجئے۔ رسول اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ ایک کمرے کو حضرت فاطمہ زہرا (س) کے زفاف کےلئے آمادہ کرو اور انہیں آج کی رات اچھے لباس سے آراستہ کرو۔[5] جب حضرت فاطمہ زہرا (س) کی رخصتی کا وقت قریب آیا تو پیغمبر ﷺ نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کو اپنے پاس بلایا۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) پیغمبر ﷺ کے پاس آئیں، جبکہ ان کے چہرے پر شرم و حیا کا پسینہ تھا اور بہت زیادہ شرم کی وجہ سے پیر لڑکھڑا رہے تھے اور ممکن تھا کہ زمین پر گر جائیں۔ اس موقع پر پیغمبر ﷺ نے ان کے حق میں دعا کی اور فرمایا: ’’أقالك اللّه العثرة في الدنيا و الآخرة‘‘ خدا تمہیں دونوں جہان کی لغزش سے محفوظ رکھے، پھر زہرا (س) کے چہرے سے حجاب ہٹایا اور ان کے ہاتھ کو علی (ع) کے ہاتھ میں دیا اور مبارکباد پیش کر کے فرمایا: ’’بٰارِکْ لَکَ فِی اِبْنَةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ یَا عَلِیُّ نِعْمَتِ الزُّوْجَةُ فَاطِمَةُ‘‘

پھر حضرت فاطمہ زہرا (س) کی طرف رخ کر کے کہا: ’’نِعْمَ الْبَعْلُ عَلِيٌّ‘‘ پھر دونوں کو اپنے گھر جانے کےلئے کہا اور بزرگ شخصیت مثلاً سلمان کو حکم دیا کہ جناب زہرا کے اونٹ کی مہار پکڑیں اور اس طرح اپنی باعظمت بیٹی کی جلالت کا اعلان کیا۔

جس وقت دولہا و دولہن حجلہ عروسی میں گئے تو دونوں شرم و حیا سے زمین کی طرف نگاہ کئے ہوئے تھے، پیغمبر ﷺ ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور ایک برتن میں پانی لیا اور تبرک کے طور پر اپنی بیٹی کے سر اور بدن پر چھڑکا، پھر دونوں کے حق میں اس طرح سے دعا کی: ’’للهم هذه ابنتی و احب الخلق الی، اللهم و خذا اخی و احب الخلق الی، اللهم اجعله لک ولیا و بک حفیا و بارک له فی اهله…. ‘‘[6]

اے اللہ! یہ میری بیٹی ہے اور مخلوق میں سے مجھے سب سے پیاری ہے، اے اللہ! یہ میرا بھائی ہے اور مخلوق میں سے مجھے سب سے پیارا ہے، اے اللہ! تو اسے اپنا ولی بنا لے اور اپنا مقرب کر لے، اور اس کے اہل و عیال میں برکت عطا فرما۔

خاتمہ

حضرت فاطمہ زہرا (س) سے امام علی (ع) کی شادی کی درخواست پر پیغمبر اکرم ﷺ نے بی بی (س) سے ان کی رضامندی دریافت کی۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے امام علی (ع) کے مال و متاع کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کے فضائل کی وجہ سے اپنی خاموشی سے رضامندی کا اظہار فرمایا۔ اور یہاں پر اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے جو اللہ نے پیغمبر اکرم ﷺ کو جبرائیل کے ذریعے بتائی کہ: اگر میں نے علی کو پیدا نہ کیا ہوتا تو روئے زمین پر ہرگز تمہاری بیٹی فاطمہ کا کفو نہ ہوتا۔

منابع

[1]۔ کشف الغمہ، ج۱، ص۵۰۔
[2]۔ بحار الانوار، ج۴۳، ص۹۔
[3]۔ بحار الانوار، ج۴۳، ص۹۴؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۳۵۹۔ (کشف الغمہ کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا (س) کے گھر کے تمام سامان کل 63 درہم میں خریدے گئے تھے)۔
[4]۔ بحار الانوار، ج۴۳، ص۱۳۰۔
[5]۔ بحار الانوار، ج۴۳، ص۵۹۔
[6]۔ بحار الانوار، ج۴۳۔ ص۹۶۔

کتابیات

1۔ اربلی، علی بن عیسی، كشف الغمة في معرفة الأئمة، تبریز، بني هاشمي، ۱۳۸۱ھ ق۔
2۔ مجلسي، محمد باقربن، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، بيروت، داراحياء التراث العربي، ۱۴۰۱ھ ق۔

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

سبحانی، جعفر، فروغ ولايت؛ ترجمہ، سید حسین اختر رضوی، تیسرا باب، چوتھی فصل، ص ۷۹ تا ۸۶، قم، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام، ۱۴۲۹ھ ق۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے