- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : محمد کامل
- 2024/12/07
- 0 رائ
قرآن مجید کی عظمت اور اس کے معارف کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) کے بعد سب سے زیادہ جاننے والے حضرت علی (ع) ہیں۔ حضرت علی (ع) کی اہم ترین خصوصیات میں آپ کا قرآن کے ساتھ ہونا اور اس سے جدا نہ ہونا شامل ہے چنانچہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: “علی مع القرآن و القرآن مع علی“۔[1] علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے۔ قارئین کرام آئیے قرآن مجید کی عظمت کو حضرت علی (ع) کے گہربار کلمات میں تلاش کرتے ہیں۔
حضرت علی (ع) اور قرآن مجید سے انسیت
حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: “خدا کی کتاب کے بارے میں مجھ سے پوچھو! خدا کی قسم کوئی ایسی آیت نہیں جو دن کو، رات کو، چلتے یا پھرتے نازل ہوئی ہو اور پیغمبر اکرم (ص) نے اسے میرے لئے تلاوت نہ کی ہو اور اس کی تفسیر و تاویل مجھ سے بیان نہ کی ہو۔”[2] امیرالمؤمنین علی (ع) نے اپنے کئی خطبوں میں قرآن مجید کی عظمت کو بیان کیا ہے۔ ہم یہاں قرآن مجید کی عظمت کے بارے میں حضرت علی کے کلام کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔
قرآن مجید خداوند متعال کی تجلّی نور
قرآن مجید کی عظمت میں حضرت علی (ع) کا ایک فصیح ترین کلام یہ ہے: “فتجلّی لهم سبحانه فی کتابه من غير أن يکونوا راءوه”۔ خداوند متعال نے اپنی کتاب میں بندوں کے لئے ایسی تجلّی نازل کی ہے کہ جس کا وہ مشاہدہ نہیں کرتے۔[3]
امام جعفر صادق (ع) نے قرآن کی عظمت کو ایک دوسری نورانی عبارت میں یوں بیان فرمایا ہے: “قد تجلّی اللّه لخلقه فی کلامه و لکنهم لا يبصرون“۔ خداوند متعال نے اپنے کلام میں لوگوں کے لئے نور کی تجلّی پیش کی ہے لیکن وہ (اسے) نہیں دیکھتے۔[4] قرآن مجید کی عظمت اور اس توصیف تک رسائی کے لئے خداوند عالم نے مخلوقات کے لئے تجلّی کا عنوان ذکر کیا ہے۔
خداوند متعال کی ذات اقدس کی تجلّی اس قدر پرعظمت ہے جس کو مضبوط و مستحکم پہاڑ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ حضرت موسیٰ اور خداوند متعال کے ما بین کلام کی داستان میں ذکر ہوا ہے کہ جب حضرت موسیٰ نے خداوند متعال کے دیدار کی درخواست کی تو خداوند سبحان نے موسیٰ کے جواب میں فرمایا: تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ ہاں تم اس پہاڑ پر نگاہ ڈالو اگر وہ اپنی جگہ پر قائم رہے تو اس صورت میں تم مجھے دیکھ سکتے ہو۔ خداوند متعال نے پہاڑ پر تجلّی نازل فرمائی اور پہاڑ کو پاش پاش کردیا۔
قرآن مجید کا ارشاد ہے: “چنانچہ جب موسیٰ ہمارا وعدہ پورا کرنے کے لئے پہاڑ پر آیا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے کہا: پروردگارا! مجھے اپنا جلوہ دکھا۔ ارشاد ہوا: “تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ البتہ تم پہاڑ کی طرف دیکھو۔ اگر وہ اپنی جگہ پرقائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکتے ہو۔ اس کے بعد جب پہاڑ پر پروردگار عالم کا نور چمکا تو پہاڑ چورچور ہوگیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑا”۔[5]
پہاڑ اپنے استحکام اور اپنی صلابت کے باوجود خداوند متعال کی تجلّی کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ دوسری جانب خداوند متعال نے قرآن مجید کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے ایک مثال پیش کی ہے: {لَوْ أَنْزَلْنا هذَا الْقُرْآنَ عَلى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خاشِعاً مُتَصَدِّعاً مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَ تِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُون}[6]
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم پہاڑ کو خوف خدا سے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھتے۔ ہم ان مثالوں کو انسانوں کے لئے بیان کرتے ہیں کہ شاید وہ کچھ غور و فکر کریں۔ مذکورہ دو آیتوں اور امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) کے قول کی روشنی میں اس نکتہ کی دلیل واضح ہوجاتی ہے کہ پائیدار اور مضبوط پہاڑ بھی قرآن مجید کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید خداوند متعال کی ذات اقدس کی تجلّی ہے۔ یہ قرآن مجید کی عظمت کی خاص دلیل ہے۔ ایک عام انسان کے لئے اس کا تصور ممکن نہیں ہے۔[7]
قرآن مجید کی عظمت امام علی (ع) کے کلام میں
حضرت امیر المؤمنین علی (ع) قرآن مجید کی عظمت کے بارے میں فرماتے ہین: “آگاہ رہو! یہ قرآن مجید نصیحت کرنے والا ہے۔ یہ انسان کو کبھی دھوکہ نہیں دیتا۔ یہ ایسا ہدایت کرنے والا ہے جو کبھی گمراہ نہیں کرتا۔ یہ ایسا ترجمان ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ جو شخص قرآن مجید کے ساتھ ہم نشینی اختیار کرتا ہے وہ زیادتی و کمی اور نفع و نقصان سے روبرو ہوتا ہے۔ نفع اور زیادتی ہدایت پانے کے زاویے سے اور نقصان و کمی، دل کی سیاہی اور جہالت میں کمی کے اعتبار سے۔
ہوشیار رہو! جو شخص قرآن مجید کا ہم نشین ہوگا وہ فقر و بدبختی سے دو چار نہیں ہوگا۔ کوئی شخص قرآن سے زیادہ کسی اور چیز کے طفیل مستغنی اور بےنیاز نہیں ہوسکتا۔ اس لئے تمہیں چاہئے کہ اپنی بیماریوں کے لئے اس سے مدد طلب کرو کیونکہ قرآن مجید کے اندر کفر و نفاق اور گمراہی و ضلالت جیسی مہلک بیماریوں کا علاج موجود ہے۔ پس جو کچھ چاہتے ہو اسے قرآن مجید کے ذریعے خداوند متعال سے حاصل کرو۔ قرآن مجید سے لو لگانے کے لئے خداوند متعال کی طرف توجہ کرو۔
خداوند متعال کی کتاب کو مخلوق سے مانگنے کا وسیلہ نہ بناؤ (اسے اپنے مادی مقاصد کے حصول کا وسیلہ قرار نہ دو) کیونکہ وہ تمام وسائل جن سے بندہ خداوند متعال کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے قرآن مجید سے زیادہ محترم نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ قرآن مجید کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ ایک ایسا شافع ہے جس کی شفاعت مقبول ہے۔ یہ ایسا متکلم ہے جس کی بات تصدیق شدہ ہے۔ قیامت کے دن قرآن مجید جس کی شفاعت کرے گا اسے شفاعت ملے گی اور جس کی شکایت کرے گا اس کے خلاف اس کی شہادت قبول کی جا ئے گی۔
قیامت کے دن ایک منادی آواز دے گا: ہوشیار رہو! آج ہر بونے والا اپنی کھیتی اور اپنے کئے ہوئے کا انجام دیکھ لے گا، سوائے قرآن مجید بونے والوں کے (جو قرآن مجید کو سیکھنے، اس کا مطالعہ کرنے اور اس کا بیج بونے میں مشغول تھے)۔ تمہیں قرآن (سیکھنے والوں) اور اس کا بیج بونے والوں اور اس کی پیروی کرنے والوں میں سے ہونا چاہئے۔ قرآن مجید کے ذریعے اپنے خدا کو پہچانو، اس کے وجود پر استدلال قائم کرو، اس کے ذریعے نصیحت حاصل کرو، اور اپنی رائے (اگر قرآن کے خلاف ہو تو اس) کی مذمت کرو اور قرآن مجید کی عظمت کے مقابلے میں اپنی خواہشات کو نادرست سمجھو”۔
اس خطبے کو جاری رکھتے ہوئے مزید آپ ارشاد فرماتے ہیں: “خداوند متعال نے قرآن مجید میں ذکر شدہ مطالب کے علاوہ کسی اور چیز کے ذریعے موعظہ نہیں کیا ہے کیونکہ قرآن مجید، خدا کا مستحکم رشتہ اور اس کا قابل اعتماد وسیلہ ہے۔ قرآن مجید میں دلوں کی بہار اور علم کے چشمے موجود ہیں۔ فکر و قلب کو جلا بخشنے کے لئے قرآن مجید سے زیادہ مناسب کوئی اور چیز موجود نہیں ہے، کر ایسے حالات میں جب ہوشیار اور آگاہ لوگ چل بسے ہوں اور لاپروا اور غفلت میں پڑے ہوئے افراد باقی رہ گئے ہوں…”[8]
قرآن مجید ایک مکمل رہنما
امیرالمؤمنین علی (ع) نے اس خطبے میں قرآن مجید کی عظمت اور اوصاف بیان کرتے ہوئے انسان کی ہدایت کے لئے نیز اس کی انتہائی ضرورت کے طور پر قرآن مجید کے پیغام کی طرف اشارہ کیا ہے۔
امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) کے بیانات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید ایک مکمل رہنما ہے اور اس کی باتیں سراسر خیر خواہی پر مبنی ہیں۔ یہ آسمانی کتاب انسان کو حق کے راستے پر گامزن رہنے کی ترغیب دیتی ہے اور اس راہ میں اس کی پوری مدد کرتی ہے۔ فطری طور پر انسان اثر قبول کرنے والا ہے جبکہ قرآن مجید کی عظمت کا تقاضا ہے کہ ذاتی طور پر اثر ڈالنے والا ہے۔
انسان جس چیز کے ساتھ انس و محبت رکھتا ہے اور جس کی ہم نشینی اختیار کرتا ہے اس سے متاثر ہوتا ہے۔ پس جو شخص بھی قرآن مجید سے تھوڑا بہت انس رکھتا ہے تو قرآن مجید کی عظمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اس کی روح میں اثر ڈالتا ہے، اس کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے اور اس کے وجود کی تاریکی کو کم کرتا ہے۔ اسی طرح جو شخص قرآن مجید کی ہم نشینی اختیار کرتا ہے اسے اس کے نفع و نقصان سے حصہ ملتا ہے۔ نفع ہدایت کے لحاظ سے اور نقصان و کمی دل کی سیاہی اور جہالت کے خاتمے کے زاویے سے۔
قرآن مجید گراں بہا خزانہ
قرآن مجید کی عظمت پر آپ کا یہ جملہ ملاحظہ ہو: “ہوشیار رہو، کوئی شخص قرآن مجید کے ہوتے ہوئے فقر و بدبختی سے دوچار نہیں ہوسکتا اور کوئی شخص قرآن مجید سے زیادہ کسی اور چیز کی بدولت (دوسری چیزوں سے) مستغنی اور بےنیاز نہیں ہوسکتا”۔ یہ فقرہ بجائے خود قرآن مجید کی عظمت اور اس کی غیر معمولی قدر و منزلت کی طرف اشارہ ہے۔ انسان قرآن کو سیکھ کر ایک گراں بہا خزانے کا مالک بن جاتا ہے۔ اس لئے قرآن کے حامل شخص کو فقیر اور تنگدست شمار نہیں کیا جا سکتا اگرچہ اس کے پاس مادی مال و دولت نہ ہو۔
اس کے برعکس جس شخص کے پاس یہ گراں بہا خزانہ نہ ہو وہ ہر حالت میں فقیر اور تنگدست ہے کیونکہ انسان کی زندگی میں کوئی چیز قرآن مجید کا نعم البدل نہیں بن سکتی۔ تربیتی نقطہ نظر سے یہ کتابِ اس قدر موثر ہے کہ یہ تمام معنوی بیماریوں کے لئے شفا ہے یہاں تک کہ یہ کفر، نفاق، وسواس اور گمراہی و ضلالت جیسی مہلک اور قلبی بیماریوں کا علاج کرتی ہے اور مردہ دلوں کو زندہ کرتی ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: قرآن مجید کی عظمت کس قدر شاہکار ہے کہ، کفر و نفاق اور گمراہی و ضلالت جیسی بیماریوں کے لئے شفا ہے۔
قرآن مجید کی معنوی جہات
ممکن ہے اس جملے میں قرآن مجید کی عظمت اور اسی کی معنوی جہات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہو۔ اس کتاب کے جملہ اثرات کو عام معیاروں سے نہیں جانچا جاسکتا۔ خداوند متعال نے اس کتاب کو روحانی و جسمانی بیماریوں کے لئے شفا قرار دیا ہے۔ کوئی عام کتاب ان خصوصیات کی حامل نہیں ہوسکتی۔ اسی لئے امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) قرآن مجید کی عظمت اور اس کی معنوی جہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
پس جو چاہو قرآن مجید کے ذریعے خدا سے مانگو اور قرآن مجید سے دوستی کرتے ہوئے خدا کی طرف توجہ دو کیونکہ قرآن مجید سے زیادہ محترم کوئی چیز نہیں ہے جس کے ذریعے بندہ خدا کا قرب حاصل کرتا ہے۔ جان لو! قرآن مجید شفاعت کرنے والا ہے اور اس کی شفاعت مقبول ہے۔ یہ ایسا متکلم ہے جس کا کلام تصدیق شدہ ہے۔ قیامت کے دن قرآن مجید جس جس کی شفاعت کرے گا وہ قبول ہوگی۔ قرآن مجید جس کی بھی شکایت کرے گا وہ شکایت مانی جائے گی۔
جو شخص قرآن مجید کو چھوڑ کر کسی اور چیز سے فکری مدد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا وہ قیامت کے دن اپنے عمل کے عواقب سے دوچار ہوگا کیونکہ قرآن مجید کے علاوہ، حق کہیں اور موجود نہیں ہے۔ اس لحاظ سے جو شخص قرآن کو چھوڑ کر کسی اور چیز سے فکری غذا حاصل کرتا ہے اس کی روح میں جو اثر مرتب ہوتا ہے وہ جہالت سے یکسر خالی نہیں ہوسکتا۔
وہ آیتِ شریفہ: {كُلُّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ رَهينَة}[9] کے مطابق قیامت کے دن اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہو گا اور اسے اس کی سزا ملے گی کیونکہ قرآن مجید ایک ایسا نور ہے جس میں تاریکی اور ظلمت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہذا اگر کوئی اس سے معارف حاصل کرنے کی کوشش کرے اور اس کے طریقے پر گامزن ہو یعنی خود قرآن مجید کے اسلوب سے، جسے حضرت محمد اور آپ کے معصوم اوصیاء نے مقرر فرمایا ہے، استفادہ کرے تو اس کی یہ کوشش اس کی روح پر وہ منفی اثرات مرتب نہیں ہونے دے گی جس کی وجہ سے وہ قیامت کے دن مشکلات سے دوچار ہو۔
قرآن مجید آخرت کی کامیابی کا راستہ
قرآن مجید کی عظمت پر امیرالمؤمنین (ع) کا یہ بیان: “قیامت کے دن ایک منادی آواز دے گا: ہوشیار رہو! ہر کھیتی کرنے والا اور ہر زحمتکش اپنی زحمتوں کا نتیجہ حاصل کرنے کے لئے سرگردان نظر آئے گا، سوائے قرآن مجید سے استفادہ کرنے والے کے (جو قرآن مجید کو سیکھنے، اس کا مطالعہ کرنے اور اس کا بیج بونے میں مشغول تھا)۔ پس تمہیں قرآن مجید (سیکھنے والوں) اور اس کا بیج بونے والوں اور اس کی پیروی کرنے والوں میں سے ہونا چاہئیے”۔
اسی مفہوم اور اسی معنی کی طرف اشارہ ہے، قرآن مجید کی عظمت کے بارے میں بیان کی گئی یہ خصوصیات پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے اہل بیت (ع) کے بیانات سے مربوط ہیں کیونکہ بنیادی طور پر پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت (ع) کے بیانات قرآن مجید کے حقائق و معارف کی تفسیر کے مترادف ہیں۔ یہ بیانات قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہیں۔ اس لئے اہل بیت (ع) کی احادیث اور تعلیمات کی تحقیق کئے بغیر قرآن مجید کی حقیقت اور اس کی معنوی گہرائیوں تک پہنچنا انسان کے لئے ممکن نہیں ہے۔
اس کے بعد امیرالمؤمنین علی (ع) اس خطبہ میں قرآن سے استفادہ کرنے والوں اور اس کا مطالعہ کرنے والوں کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “پس تمہیں چاہئے کہ تم قرآن کا بیج بونے والوں (قرآن سیکھنے والوں اور اس سے فکری فائدہ لینے والوں) اور اس کی پیروی کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ قرآن مجید کے ذریعے اپنے خدا کو پہچانو اور اس کے واقعات سے نصیحت حاصل کرو۔ اپنی رائے (اگر قرآن کے خلاف ہو تو اس) کی مذمت کرو اور قرآن مجید کی عظمت کے مقابلے میں اپنی خواہشات کو نادرست جانو”۔
قرآن مجید ایمان کا معدن و مرکز
امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) ایک دوسرے خطبہ میں قرآن مجید کی عظمت اور اس کی خصوصیات کو یوں بیان فرماتے ہیں: “پھر آسمانی کتاب یعنی قرآن مجید کو پیغمبر اکرم (ص) کے قلب پر نازل فرمایا: یہ ایسا نور ہے جس کی روشنی کبھی خاموش ہونے والی نہیں ہے۔ یہ ایسا چراغ ہے جس کا نور زائل ہونے والا نہیں ہے۔ یہ ایسا سمندر ہے جس کی گہرائی قابل ادراک نہیں ہے۔ یہ ایسا راستہ ہے جس میں گمراہی نہیں ہے۔ یہ ایسی کرن ہے جس کی روشنی کبھی دھیمی ہونے والی نہیں ہے۔ یہ فرقان ہے یعنی حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہے۔ اس کی حفاظت کی دلیل کبھی کٹنے والی نہیں ہے۔
یہ ایسی عمارت ہے جس کی بنیادیں منہدم ہونے والی نہیں ہیں۔ یہ ایسا علاج ہے جس کے ہوتے ہوئے بیماریوں سے وحشت نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسی طاقت ہے جس سے وابستہ لوگوں کے لئے ہرگز ناکامی نہیں ہے۔ یہ ایسا حق ہے جو مدد کرنے والوں کو ترک نہیں کرتا۔ یہ (قرآن مجید) ایمان کا معدن و مرکز ہے، علم کا بحر ذخار ہے، عدل و انصاف کا بوستان اور بہت بڑا تالاب ہے۔ یہ قرآن اسلام کی عمارت اور اس کی بنیاد ہے۔ ایسا خالص ہے جس سے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
یہ ایسا سمندر ہے جو ہر پیاسے کو سیراب کرنے کے باوجود ختم نہیں ہوتا۔ یہ ایسا بہتا ہوا آبشار ہے جس کا پانی کبھی کم نہیں ہوتا۔ یہ ایسا مخزن ہے جس میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہ ایسی منزل ہے جس کا مسافر تھکتا نہیں اور جس پر چلنے والا بھٹکتا نہیں۔ یہ ایسی نشانی ہے جو سیر کرنے والی آنکھوں سے پوشیدہ نہیں رہتی۔ یہ ایسا کوہسار ہے جو راہگذر کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتا”۔
مزید ایک دوسری جگہ پر قرآن مجید کی عظمت کو اس طرح بیان کیا ہے: “تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے والا، دلوں کو اطمینان بخشنے والا اور صالحین کے لئے ایک وسیع راستہ قرار دیا ہے۔ قرآن مجید ایک ایسی دوا ہے جس کو استعمال کرنے کے بعد بیماری کا نام و نشان باقی نہیں رہتا۔ یہ ایسا نور ہے جس میں کسی قسم کی تاریکی نہیں ہے۔ یہ ایسی رسی ہے جس کو پکڑنے والا مطمئن ہو جاتا ہے۔ یہ ایسی پناہ گاہ ہے جس کی بلند چوٹیاں دشمنوں سے محافظت کا ذریعہ ہیں۔
یہ اس سے تمسک رکھنے والے کے لئے پناہ گاہ ہے اور اس میں داخل ہونے والے کے لئے پر امن جگہ ہے۔ اس کی پیروی کرنے والوں کے لئے یہ رہنما ہے۔ اس کو اپنا مذہب جاننے والوں کے لئے فریضہ کی ادائیگی ہے۔ اس کے کلام سے استدلال کرنے والوں کے لئے یہ ایک برہان ہے۔ اس سے گفتگو کرنے والوں کے لئے شاہد و گواہ ہے، اس سے دلیل قائم کرنے والوں کے لئے کامیابی اور غلبہ ہے، اس کے حامل اور اس پر عمل کرنے والوں کے لئے یہ نجات بخش نسخہ ہے۔
یہ اس سے استفادہ کرنے والوں کے لئے تیز رفتار سواری ہے، اسے علامت قرار دینے والوں کے لئے نشانی ہے، جنگی لباس پہننے والوں کے لئے سپر ہے، حفظ کرنے والوں کے لئے علم ودانش ہے، اسے بیان کرنے والوں کے لئے ایک گراں بہا کلام ہے اور قضاوت و فیصلہ انجام دینے والوں کے لئے یہ حکم اور فرمان ہے”۔[10]
بحث کا خلاصہ
حضرت علی (ع) کے کلام میں قرآن مجید کی عظمت اور اس کے معارف، دینی، دنیوی، علمی، ادبی، اخلاقی، ثقافتی، اجتماعی، انفرادی، بلکہ زندگی کے ہر لمحے اور شعبے میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر دینی دنیاوی مرض کا مسیحا ہے جس سے روگردانی سراسر خسارہ اور انکار، آشکار جہالت کے مترادف ہے۔ قرآن مجید کی عظمت اور اس کے فلسفہ کو سمجھنے کے لئے مولا علی (ع) کے کلام کو بغور مطالعہ اور دقیق پڑھنا ضروری ہے۔
حوالہ جات
[1] طوسی، الا مالی، ص479؛ حاکم نیشا پوری، المستدرک، ج3، ص124۔
[2] طوسی، الامالی، ص523؛ طبرسی، الاحتجاج، ج1، ص388۔
[3] کلینی، الکافی، ج8، ص387؛ نہج البلاغہ، ج2، ص30۔
[4] مجلسی، بحارالانوار، ج89، ص107۔
[5] سورہ اعراف (7)، آیہ143۔
[6] سورہ حشر (59)، آیت 21۔
[7] آملی، قرآن در قرآن، ج1، ص44۔
[8] مجلسی، بحار الانوار، ج89، ص24؛ نہج البلاغہ، خطبہ 176۔
[9] سورہ مدثر (74)، آیه 38 (ہر نفس اپنے اعمال کے ہاتھوں گرفتار ہے۔)
[10] نہج البلاغہ، خطبہ 198؛ مجلسی، بحار الانوار، ج89، ص21۔
فہرست منابع
- القرآن الکریم
- کلینی، ابو جعفر محمد بن یعقوب، اصول کافی، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، 1407 ہجری قمری۔
- مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، موسسہ الوفا، قم، 1403 ہجری قمری۔
- آملی، عبد اللہ جوادی، قرآن در قرآن، اسراء، قم، 1397 ش۔
- طوسی، محمد بن حسن، الامالی، دار الثقافہ، قم، 1414ق۔
- طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، نشر المرتضی، مشہد ایران، 1403ق۔
- حاکم نیشابوری، محمد بن عبد اللہ، المکتبہ العصریہ، بیروت لبنان، 1420ق۔
مضمون کا مآخذ (ترمیم ساتھ)
ترابی، مرتضی، اہل بیت کی قرآنی خدمات، ترجمہ سید قلبی حسین رضوی، اہل البیت قم، ج1۔ ص 38 تا 48۔