- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : محقق نمبر چار
- 2024/12/21
- 0 رائ
قرآن کی عظمت اور اس کی قدر و منزلت کسی بھی عاقل انسان پر پوشیدہ نہیں بلکہ روز روشن کی طرح عیاں ہے یہ اور بات ہے کہ اکثر انسانوں کی عقلوں پر ظلمت و استکبار و غرور و سرکشی کا پردہ پڑا ہوا ہے اگر کبر و غرور و انانیت کی عینک کو اتار کر قرآن کی عظمت اور اس کے معارف کو دیکھا اور سمجھا جائے تو ہر عاقل اس کی انمول موتیوں کو اپنے دل میں جگہ دے گا اور قرآن کی حقیقت پر ایمان لاکے رہے گا۔
قرآن کی عظمت امام جعفر صادق (ع) کی نظر میں
امام جعفر صادق (ع) قرآن کی عظمت اور قدر و منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “خداوند متعال کے نزدیک تین چیزیں (بہت) عزیز و محترم ہیں:
۱.اس کی کتاب، جو حکمت اور نور ہے۔
۲.اس کا گھر جسے اس نے لوگوں کے لئے قبلہ قرار دیا ہے کیونکہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ کی طرف کسی کا رخ کرنا اسے منظور نہیں ہے۔
۳.تمہارے پیغمبر (ص) کے اہل بیت (ع)”۔[1]
اس حدیث شریف کے مطابق قرآن مجید، کعبہ شریف اور اہل بیت (ع) اس دنیا سے لیکر قیامت تک کے تمام مقدسات سے برتر ہیں۔ ان تینوں میں سب سے پہلے قرآن مجید کا ذکر اس کی خاص اہمیت کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔
اس حدیث میں ان تین چیزوں کے قابل احترام ہونے کی دلیل کو بھی اشارتاً بیان کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق قرآن مجید کے محترم ہونے کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید خدا کے نور و حکمت کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ اس حدیث میں پیغمبر اکرم (ص) کے مقام و مرتبے کی طرف اشارہ نہ کرنا شاید اس لئے ہوکہ اس حدیث میں ان مقدسات کو مدنظر رکھا گیا ہے جو قیامت تک دنیا میں موجود ہیں۔ کعبہ معظمہ اور اہل بیت (ع) کا ذکر بھی اسی لحاظ سے ہے۔
لیکن بظاہر بیت اللہ کی حرمت جیسا کہ حدیث میں اشارہ ہوا ہے اس کی تشریعی منزلت اور لوگوں کا قبلہ ہونے کے لحاظ سے ہے۔ ادھر اہل بیت (ع) کی حرمت ان کی پیغمبر اکرم (ص) سے خاص نسبت کی وجہ سے ہے کیونکہ اہل بیت (ع) پیغمبر اکرم (ص) کے علوم کے وارث اور آپ کے اوصیاء ہیں۔
یہاں پر اس نکتہ کا ذکر بے فائدہ نہیں ہے کہ اگرچہ پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت (ع) لوگوں کو دینداری کی تعلیم و تربیت دینے کے لئے، کعبہ اور قرآن مجید کا احترام کرنے کے پابند اور ذمہ دار تھے، یہاں تک کہ ان کی حفاظت کے لئے جان تک کی قربانی دینے کے لئے حاضر تھے۔ جس کی بنا پر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہل بیت (ع) کے نزدیک قرآن کی عظمت اور کعبہ مکرمہ کی پاسداری کا کتنا لحاظ تھا۔ البتہ یہ دونوں چیزیں اہل بیت (ع) کی نگاہ میں نصب العین کی حیثیت رکھتی تھیں۔
بنابریں ان (پیغمبر و اہل بیت) کا حجرالاسود، ارکان کعبہ، قرآن مجید اور اس کی تحریر مثلاً اسماء و صفات کا احترام کرنا اسی نقطہ نظر سے ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان چیزوں کی عظمت و منزلت ان (پیغمبر و اہل بیت) سے بڑھ جائے۔[2]
البتہ یہ بات قرآن کی عظمت کے ظاہری اور تحریری وجود کے بارے میں ہے۔ رہے قرآن کی عظمت اور اس کے بلند مراتب تو وہ آیتِ شریفہ: “بَلْ هُوَ آياتٌ بَيِّناتٌ في صُدُورِ الَّذينَ أُوتُوا…“[3] مطابق حضرت پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت (ع) کے نور سے متحد اور یکساں ہیں اور انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح مزید حضرت امام جعفر صادق (ع) نے قرآن کی عظمت کے بارے میں فرمایا ہے:
“جب خداوند متعال اپنی تمام مخلوقات کو اول سے آخر تک اکٹھا کرنا چاہے گا تو اچانک ایک شخص خدا کے حضور آتے ہوئے دکھائی دے گا جس سے زیادہ خوبصورت کسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔ مؤمنین نگاہیں اٹھاکر دیکھیں گے کہ یہ قرآن مجید ہے اور کہیں گے: یہ ہم سے ہے۔ یہ سب سے بہتر چیز ہے جسے ہم نے اب تک دیکھا ہے۔ وہ ان کے پاس پہنچنے کے بعد ان سے گزر کر انبیاء کے پاس پہنچے گا تو وہ کہیں گے : یہ قرآن مجید ہے۔ وہ ان سے بھی گزر کر ملائکہ کے پاس پہنچے گا۔ وہ بھی کہیں گے: یہ قرآن مجید ہے۔
اس کے بعد ان سے بھی گزر کر عرش کی دائیں جانب کھڑا ہوگا تو خداوند جبار (اس سے مخاطب ہوکر) فرمائے گا: مجھے اپنی عزت و جلالت اور عظمت کی قسم! جس نے تیرا احترام کیا ہے آج میں اس کا احترام کروں گا اور جس نے تیری بےاحترامی اور اہانت کی ہے میں اس کی اہانت اور بےاحترامی کروں گا”۔[4]
امام جعفر صادق (ع) کا یہ ارشاد قیامت کے دن قرآن کی عظمت و فضیلت کی تجلّی کی دلیل ہے۔ اس دن فرضی امور جو حقیقت سے عاری ہیں ہٹ جائیں گے تاکہ ہر چیز کی حقیقت عیاں ہوجائے اور ہر چیز اپنی حقیقی اور مناسب جگہ پر قرار پائے اور تمام فیصلے حق کے مطابق انجام پائیں۔ اس دن قرآن کی عظمت کا جلوہ اس قدر نمایاں ہوگا کہ تمام صاحبانِ فضیلت و منزلت یہاں تک کہ مقرب فرشتوں اور انبیا و مرسلین کی توجہ بھی اپنی طرف جذب کرلے گا۔ اس دن خداوند متعال اہل عالم کی تعظیم و تکریم کو قرآن مجید کی تعظیم و تکریم سے مشروط کرے گا۔
قیامت کے دن صرف وہی لوگ لائق تعظیم و تکریم قرار پائیں گے جنہوں نے قرآن مجید کی تعظیم کر کے اپنے اندر تعظیم و تکریم کی لیاقت و صلاحیت پیدا کی ہوگی کیونکہ اس حدیث مبارک کے مطابق زمین و آسمان کے تمام باشندے (خواہ وہ پیغمبر آخرالزمان کی امت ہو یا دوسری امتیں) اپنی اجمالی یا تفصیلی معرفت کی حد میں، خدا کی آخری کتاب یعنی قرآن کی عظمت و احترام اور تعظیم کرنے کے پابند ہوں گے۔
قرآن کی عظمت اور اس کی سورتوں کے بارے میں اہل بیت (ع) سے متعدد روایتیں وارد ہوئی ہیں۔ یہ تمام حدیثیں بیان کرتی ہیں کہ قرآن مجید کا اپنے ظاہر جیسے حروف، تلفظ یا تحریر کے علاوہ ایک باطن بھی ہے جو خداوند متعال کی خاص تجلیات میں سے ہے۔ یہ قیامت کے دن ایک نورانی مخلوق کی صورت میں مجسم ہوگا اور کچھ لوگوں کے حق میں شفاعت اور کچھ لوگوں کے بارے میں شکایت کرے گا۔ اس کی شفاعت اور شکایت دونوں خداوند متعال کی بارگاہ میں قبول کی جائیں گی۔ ہم آئندہ مباحث میں اس موضوع سے مربوط بعض احادیث کا ذکر کریں گے۔
قرآن کی عظمت امام رضا (ع) کی نظر میں
ایک دن حضرت امام رضا (ع) نے قرآن کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے قرآنی دلائل، اس کی آیتوں اور اس کے نظم و ترتیب کے معجزہ ہونے کے متعلق فرمایا:
“قرآن خداوند متعال کی مضبوط رسی، اس کا مستحکم وسیلہ اور بہترین راستہ ہے جو (انسان کو) بہشت تک پہنچاتا ہے اور جہنم کی آگ سے نجات دلاتا ہے۔ وہ زمانے کی گردش سے کہنہ نہیں ہوتا اور زبانوں پر ناخوشگوار نہیں لگتا کیونکہ اسے کسی خاص زمانے کے لئے قرار نہیں دیا گیا ہے بلکہ یہ ہر انسان کے لئے دلیل، برہان اور حجت ہے۔ اس میں باطل کے داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ خداوند متعال کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے”۔[5]
امام (ع) نے اس حدیث میں بندوں پراتمام حجت اور قرآنی تعلیمات کے ابدی ہونے کا ذکر تمام کرنے کے بعد قرآن کی عظمت کی طرف اشارہ کیا ہے اور قرآن مجید کی توصیف کرتے ہوئے اسے “خدا کی مضبوط رسی، اس کا مستحکم وسیلہ اور اس کا واضح راستہ” قرار دیا ہے جس کی پیروی میں حتمی نجات ہے۔
واضح ہے کہ جب اس قسم کے خدائی وسیلے تک رسائی میسر ہو تو کوئی بھی شخص اپنی گمراہی کے لئے کوئی دلیل، عذر یا حجت پیش نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے کہ خدا کی یہ کتاب چونکہ ایک خاص زمانے میں نازل ہوئی ہے اس لئے یہ ہر زمانے میں کس طرح انسان کے لئے نجات بخش ہوسکتی ہے؟ آپ نے قرآن مجید کی ہمہ گیری اور جامعیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: یہ کتاب گردش زمانہ کے باعث کہنہ نہیں ہوتی۔
قرآن مجید کا ماورائے طبیعی پہلو اس قدر قوی ہے کہ اس نے زمانے کے اثرات سے اسے خارج کردیا ہے کیونکہ قرآن مجید علم و برہان ہے اور اس میں باطل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہذا اس کے معارف ہمیشہ زندہ اور شاداب رہتے ہیں۔
قرآن مجید کے الفاظ اسی دنیا سے متعلق ہیں اور الفاظ قابل تغیر ہوتے ہیں لیکن زبان کی جدّت اور طرز بیان قرآن مجید کو متاثر نہیں کرسکتے، کیونکہ قرآن مجید کی قوت بیان اور معانی کی عظمت اس قدر مستحکم ہے کہ وہ خود اپنی نازل شدہ صورت میں زبان اور طرز بیان کا محافظ ہے اور زبان کے تغیّر میں دخیل اسباب و عوامل سے متاثر نہیں ہوتی۔
قرآن مجید کے حوالے سے ہمارے فہم و ادراک کا محدود اور نسبی ہونا بھی اس کتاب الہی کے سمجھنے میں پریشانی کا سبب اور اس کے پائیدار حقائق تک پہنچنے میں مانع نہیں بنتا، کیونکہ خداوند متعال نے اس کتاب کی تعلیمات کے تحفظ اور اس کے صحیح مفاہیم کو پیش کرنے کے لئے اپنی طرف سے مسلسل محافظ قرار دئیے ہیں۔ ان کی تفسیر اور ان کا فہم ہر دور میں صحیح تفسیر کا معیار ہیں۔ وہ اہل بیت (ع) اور ان کے نائبین، یعنی فقہائے جامع الشرائط ہیں۔
بحث کا خلاصہ
حضرت امام صادق (ع) اور امام رضا (ع) کے کلام میں قرآن کی عظمت اور اس کے معارف، پر مختلف جہات سے روشنی ڈالنا اور ہر لحاظ سے اس کے احترام کی تاکید کرنا بلکہ ائمہ معصومین علیہم السلام کا عملی طور سے قرآن کا احترام کر کے بتانا، اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ائمہ معصومین علیہم السلام کی زندگی میں قرآن اتنا رچ بس گیا تھا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و اہل بیت علیہم السلام میں جدائی ناممکن بلکہ محال جیسی صورت نظر آتی ہے اور اس کی طرف اشارہ خود رسول گرامی اسلام نے اپنی ایک مشہور حدیث (انی تارک فیکم الثقلین …) میں فرمایا ہے۔
حوالہ جات
[1]. صدوق، الامالی، ص 366؛ مجلس 48، حدیث 13۔
[2]. کاشف الغطا، کشف الغطاء، ج2، ص298۔
[3]. سورہ عنکبوت (29) آیت: 49۔
[4]. کلینی، کافی، ج2، ص602۔
[5]. مجلسی، بحار الانوار، ج89، ص14۔
فہرست منابع
- کلینی، ابو جعفر محمد بن یعقوب، اصول کافی، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، 1407ہجری قمری۔
- مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، موسسہ الوفا، بیروت، 1403 ہجری قمری۔
- صدوق، ابن بابویہ محمد بن علی، امالی، کتابچی، تہران، 1376ش
- کاشف الغطا، جعفر، کشف الغطاء عن مبهمات الشریعة الغراء، بوستان کتاب، قم، 1422 ہجری قمری۔
مضمون کا مآخذ (ترمیم ساتھ)
ترابی، اہل بیت کی قرآنی خدمات، ترجمہ سید قلبی حسین رضوی، اہل البیت قم، ج1، 1442 ہجری قمری۔