- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
امام صادقؑ کی سیرت میں اجتماعی تربیت کے پہلو
پیغمبراکرم اور اهل بیت , اهل بیت(ع) کے بارے میں , آپ کے اخلاقی فضـائل , اسلامی تعلیم و تربیت- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : دکتر محمدجواد یعقوبی
- 2024/05/02
- 0 رائ
امام صادقؑ کی سیرت میں اجتماعی زندگی کے اصول و قوانین بیان کئے گئے ہیں چونکہ انسان فطرتاً ایک ایسی مخلوق ہے جو اجتماعی زندگی کو فردی زندگی پر ترجیح دینا پسند کرتا ہے اسی لئے اسلام نے شادی، افزائش نسل، لوگوں کے حقوق کی رعایت خاص کر ہمسایہ کے حقوق وغیرہ پر بہت توجہ دی ہے لہٰذا اسے دوسرے لوگوں کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنے کے لئے اجتماعی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ امام صادقؑ کی سیرت میں ان اجتماعی اور سماجی تربیت کے اصولوں کو بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ مقالے میں معصومین (ع) کے درمیان امام صادق ؑ کی سیرت کے مطالعہ پر توجہ دی گئی ہے کیونکہ ان کے پاس دوسرے ائمہ (ع) کے مقابلے میں زیادہ وقت و مواقع موجود تھے۔
امام صادقؑ کا زمانہ
امام صادقؑ کا زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ جہاں پر بہت زیادہ سیاسی اتار چڑھاؤ پایا جاتا ہے بنی امیہ سے حکومت بنی عباس کی طرف منتقل ہو رہی تھی لہذا امام صادقؑ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور جہاں ایک طرف ہم امام صادقؑ کی سیرت میں ایک جگہ زنادقہ اور دہریہ کو دیکھتے ہیں جیسے کہ ابن ابی العوجا، ابو شاکر دیصانی، ابن مقفع جیسے افراد اپنے سوال لیکر آتے ہیں اور اطمینان بخش جواب حاصل کرتے ہیں۔ اور آج بھی وہ جوابات اور طولانی مناظرے کتابوں میں موجود ہیں جیسے کہ توحید مفضل۔
امام صادقؑ کی سیرت میں جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ آپؑ نے ایک طرف اپنے علمی کردار کا لوہا منوایا وہیں دوسری طرف تربیت کے ایسے اصول بیان فرمائے جو انسان کی اجتماعی زندگی میں چار چاند لگا دیتے ہیں لہذا ہم کو بھی امام صادقؑ کی سیرت پاک سے ان نکات کو تلاش کرنا ہوگا کہ جو ہمارے لئے کامیابی کا سبب بن جائیں اور آخرت میں ہمارے لئے پروانہ نجات بن جائیں۔
اجتماعی تربیت
اجتماعی تربیت کا مطلب ہے کس شخص میں وہ تمام اجتماعی تربیت کے اصول موجود ہوں جو ہمارے اجتماع کو خوبصورت بنانے میں مددگار ہوں، جس میں دوسروں کی رہنمائی، غیر معقول رائے کی مخالفت، اتفاق اور موافقت اور اس طرح کی چیزیں شامل ہیں۔[1]
واضح رہے کہ اجتماعی تربیت کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص کسی بھی معاشرے میں خود کو اس معاشرے کے مطابق ڈھال لے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسروں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا صحیح طریقہ سیکھے اور شریعت اور عقل سے اخذ کردہ اصولوں اور معیاروں کے مطابق دوسروں کے سلسلے میں صحیح طرز عمل کو اپنائے۔
تمام سیرتوں اور کلاموں میں امام صادقؑ کی سیرت اور کلام میں اجتماعی تربیت اور ان کے اصول اور قوانین پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے اگر انسان امام صادقؑ کی سیرت میں پائے جانے والے اصول اور قوانین کی رعایت کرے تو سماج اور اجتماعی معاشرے میں یہ اصول بہت موثر ہوں گے۔
امام صادقؑ کی سیرت میں مہمان نوازی
امام صادقؑ کی سیرت میں ملتا ہے کہ ایک مقام پر مہمان کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ “لا تقل لاخیک اذا دخل علیک اکلت الیوم شیئا؟ و لکن قرب الیہ ما عندک“[2] کہ اگر کوئی مہمان تمہارے گھر آئے تو اس سے یہ نہ کہو کیا تم نے کچھ کھایا؟ بلکہ جو کچھ ہو اس کے سامنے لا کر پیش کر دو۔
امام صادقؑ کی سیرت میں لوگوں کی مدد کرنا
امام صادقؑ کی سیرت اجتماعی تربیت کے پہلو سے ایک واقعہ اور آپ کی زندگی سے ملتا ہے مفضل بن فرید نقل کرتے ہیں امام صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مجھے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ میں کچھ ہدیہ بنی ہاشم کی خدمت میں پیش کروں امام صادقؑ بالکل میرے پیچھے کھڑے ہوئے تھے حالانکہ میں متوجہ نہیں تھا جیسے ہی متوجہ ہوا مجھ سے اس چیز کے بارے میں پوچھا جس کے سلسلے میں معمور تھا میں نے وہ فہرست جس میں ہدیہ دینے والوں کے نام لکھے تھے امام کو دکھایا امام ؑ نے فرمایا: یہاں اسماعیل کا نام نہیں ہے تو میں نے کہا مجھے تو یہی فہرست دی گئی ہے اس کے بعد میں نے
امام صادقؑ سے کہا کہ آپ پر قربان جاؤں کیا آپ دیکھ رہے ہیں اس قوم میں میرا کیا مرتبہ ہے تو امام صادقؑ نے جواب دیا جو کچھ بھی تم تک پہنچ رہا ہے اسے اپنے ارد گرد افراد میں تقسیم کرو۔[3]
اس لئے کہ خداوند عالم فرماتا ہے: “إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ“[4] کہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔
امام صادقؑ کی سیرت میں اگر ہم مشاہدہ کریں تو ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عہدے یاکسی بھی طریقے کا اختیار رکھتا ہے تو اسے اپنے عہدے اور پوسٹ کے ذریعے لوگوں کی مدد کرنی چاہیے اور اگر اقتصادی اعتبار سے معاشرہ کمزور ہے تو اسے مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
امام صادقؑ کی سیرت میں امانت داری
امام صادقؑ کی سیرت میں اجتماعی تربیت کے حوالے سے جو دوسرا درس ہمیں ملتا ہے وہ امانت داری ہے۔
عبدالرحمٰن بن سایبہ کہتے ہیں کہ میرے والد کے انتقال کے بعد ان کا ایک دوست اظہار تعزیت کے لیے ہمارے گھر آیا اور والد کے میراث کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتایا کہ میراث کے طور پر کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے تو اس نے ہماری ضروریات زندگی کے لیے کچھ رقم ہمیں دی اور ہم سے یہ مطالبہ کیا کہ اس کو ضروریات زندگی میں خرچ کرو اور جب منافع اور فائدہ اتنا ہو جائے کہ خود کا کاروبار کر سکو تو مجھے میرا اصل مال واپس کر دینا۔
لہٰذا اس مال سے میں نے کرائے کا کمرہ لیا اور کپڑے کی سلائی کا کام شروع کیا اور جب حج کا موسم آیا تو مجھے خانہ خدا کی زیارت کا شوق ہوا تو میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ پہلے اس بندہ خدا کی امانت کو واپس کر دو پھر حج کو جاؤ لہذا میں نے اس کی امانت جس نے مجھے ضروریات زندگی میں خرچ کرنے کے لیے دی تھی اس کو واپس کیا اور خانہ خدا کی زیارت کے لئے مکہ مکرمہ چلا گیا، واپسی پر میں کچھ لوگوں کے ساتھ حضرت صادق ؑکی خدمت کے لئے مدینہ پہنچا، کیونکہ میں نوجوان اور کم سن تھا، میں بالکل آخر میں بیٹھ گیا۔
ہر ایک ان سے سوال کرتا اور وہ جواب دیتے۔ جونہی خلوت ہوئی، انھوں نے مجھے آگے بلایا، اور مجھ سے پوچھا کچھ کام ہے؟ میں نے کہا میں سیابہ کا بیٹا عبدالرحمٰن ہوں، انھوں نے میرے والد کے بارے میں پوچھا، میں نے کہا کہ ان کا انتقال ہوگیا، حضرت غمگین ہوئے اور ان کے لئے استغفار کیا، پھر پوچھا کہ کیا مال و دولت چھوڑا ہے؟ میں نے کہا کچھ بھی نہیں چھوڑا، انھوں نے پوچھا پھر آپ حج پر کیسے آگئے؟ میں نے اپنے والد کے دوست کی کہانی اور انکی مدد کا قصہ سنایا، لیکن
انھوں نے مجھے یہ سب بتانے نہیں دیا۔ بلکہ درمیان میں ہی پوچھا کیا تم نے اس کی امانت واپس کی؟ میں نے کہا ہاں، انھوں نے کہا بہت اچھا کیا، اب میں تمہیں وصیت کرتا ہوں۔ پھر فرمایا ” علیک بصدق الحدیث و اداء الامانۃ تشرک الناس فی اموالھم ھکذا و جمع بین اصابعہ“ [5] تمہارے لئے ضروری ہیکہ سچ بولو اور امانت ادا کرو تم لوگوں کے مال میں ایسے شریک ہوگے جیسے یہ میرے ہاتھوں کی انگلیاں، (پھر آپ ؑ نے اپنی انگلیوں کی طرف اشارہ کیا)۔
میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور اس پر عمل کیا اور میری مالی حالت اس مقام پر پہنچ گئی کہ ایک سال کی زکوٰۃ ایک لاکھ درہم تھی۔
امام صادقؑ کی سیرت میں دوسروں کی اذیت پر صبر کرنا
امام صادقؑ کی سیرت میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امام ؑ کس طرح اپنے اصحاب کو دوسروں کی اذیت کے سلسلے میں صبر و تحمل کا درس دیتے ہیں اور عملی طور پر ان کو سکھاتے بھی ہیں کہ غلط رویوں کے خلاف صبر اور نفس پر کنٹرول تعلقات قائم کرنے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کا ایک مؤثر اور کارگر طریقہ ہے۔
اسی حوالے سے امام صادقؑ کی سیرت میں آپ کے صحابی مرازم کا ایک واقعہ ملتا ہے کہ جب امام صادقؑ منصور دوانقی کے یہاں سے آزاد ہوئے اور”حیرا”(جہاں امامؑ کو رکھا گیا تھا ) سے حرکت کیا ابھی غروب ہوا تھا کہ ایک مقام جس کا نام ” سالحین” تھا وہاں پہنچے منصور دوانقی کا ایک سپاہی جو وہاں پر مامور تھا اس نے آپ کو آگے جانے سے روک دیا امام ؑنے بہت اصرار کیا تاکہ وہ وہاں سے جانے دے لیکن اس نے بڑی شدت سے امام کو منع کیا اور آگے جانے سے روک دیا ۔
مرازم فرماتے ہیں میں اور مصادف (صحابی) جو امام کے ہمراہ تھے مرازم نے کہا امامؑ میں آپ پر قربان جاؤں یہ بدتمیز آدمی معلوم ہوتا ہے جو آپ کو اذیت دے رہا ہے مجھے ڈر ہے کہیں آپ کو واپس وہیں نہ پلٹا دے اور پتہ نہیں منصور آپ کے ساتھ دوبارہ کیا کرے میں اور مرازم یہاں پر ہیں اگر آپ اجازت دیں تو ہم اسے قتل کر کے اس کی لاش کو نہر میں پھینک دیتے ہیں ۔
امام ؑنے فرمایا: اے مصادف اس کام سے پرہیز کرو اور تھوڑا صبر کرو امامؑ مسلسل اصرار کرتے رہے آخر کار نصف شب گزرنے کے بعد اس نے امامؑ کو جانے کی اجازت دے دی امام ؑفرماتے ہیں: مرازم یہ کام بہتر ہے یا وہ جو تم کہہ رہے تھے میں نے عرض کیا قربان جاؤں یہ کام جو آپ نے کیا یہ بہتر تھا (یعنی صبر) امام ؑفرماتے ہیں “ان الرجل یخرج من الذل الصغیر فیدخله ذلک فی الذل الکبیر” بہت سے ایسے لوگ ہیں جو نا صبری کی بنیاد پر چھوٹے سے کام سے نجات تو پا جاتے ہیں لیکن وہ بڑی پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
امام صادقؑ کی سیرت سے ہمیں صبر کا بہترین درس ملتا ہے کہ ہمیں چھوٹی چھوٹی تکلیفیں اور اذیتوں کے سامنے صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ قرآن اور اہل بیت علیھم السلام کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے صبر کو گلے لگائے رکھنا چاہیے جو اجتماعی تربیت کے حوالے سے ایک بہترین اور موثر روش ہے۔
امام صادقؑ کی سیرت میں علمی جلسات بر گزار کرنا
ایک اور روش جو امام صادقؑ کی سیرت میں پائی جاتی ہے وہ یہ کہ آپ علمی جلسات برگزار کرتے تھے جس کے اندر بحث و گفتگو، اشکال و اعتراض اور سوال و جواب کی صورت میں لوگ آپ سے جڑے رہتےتھے اور اس کام سے لوگوں کی فکری صلاحیت کو امام اجاگر کرتے تھے۔
جیسا کہ امام صادقؑ کی سیرت میں حسین بن نعیم صحاف کا ایک واقعہ پایا جاتا ہے جو کہ آپ کے صحابی ہیں وہ امام سے گفتگو کے دوران عرض کرتے ہیں کہ میں اپنے دوستوں اور دینی بھائیوں کو کھانا کھلاتا ہوں ان کی مہمان نوازی کرتا ہوں اور جب تک میرے دسترخوان پر دو یا تین افراد موجود نہ ہوں میں کھانا نہیں کھاتا ہوں امام ؑ فرماتے ہیں: فقال ابوعبدالله: اما ان فضلهم علیک اعظم من فضلک علیهم. آگاہ رہو ان کا لطف تمہارے نسبت سے بہت زیادہ ہے۔
امامؑ کا یہ جملہ ہر شخص جو وہاں موجود تھا اس کے ذہن میں سؤال پیدا کرتا ہے کہ مہمان نوازی تو صحاف کر رہے ہیں پھر مہمانوں کا فضل اور ان کی عظمت میزبان سے کیسے زیادہ ہے صحاف نے امام ؑسے پوچھا: فقلت: “اطعمهم عامی اوطئهم رحلی و یکون فضلهم علی اعظم”؟ مولا میں اپنے حلال کمائی سے ان کے لئے دسترخوان سجاتا ہوں اپنے گھر کو ان کی آمد کے لئے صاف کرتا ہوں کیا اس کے باوجود بھی ان کا لطف مجھ سے زیادہ ہے؟ امام (ع) جواب میں فرماتے ہیں:
“قال: نعم انهم اذا دخلوا منزلک دخلوا بمغفرتک و مغفره عیالک و اذا خرجوا من منزلک خرجوا بذنوبک وذنوب عیالک“[6] ہاں، اس لئے کہ جب وہ (مہمان) تمہارے گھر میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنے ساتھ تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے لئے مغفرت لے کر آتا ہے اور جب وہ باہر جاتا ہے تو تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے گناہوں کو بھی باہر لے کے چلا جاتا ہے۔
اس واقعے میں امام صادقؑ کی سیرت سے کتنی آسانی سے مطرح کئے ہوئے قرآنی اصول ملتے ہیں “تفکر و تدبر” آپ نے مخاطب اور حاضرین مجلس کے ذہن میں سوال پیدا کر دیا اور انہیں سوچنے اور فکر کرنے پر مجبور کر دیا اور یہ واضح کر دیا کہ ایک سماج کو بہتر بنانے کے لئے اس طرح کی مجلسوں کا ہونا کتنا اہم اور موثر ہے۔
امام صادقؑ کی سیرت میں مریضوں کی عیادت کرنا
امام صادقؑ کی سیرت میں ایک اور عظیم درس جو اجتماعی تربیت کے حوالے سے پایا جاتا ہے وہ مریضوں کی عیادت ہے امام صادقؑ کی سیرت میں ملتا ہے کہ آپؑ جب کسی کی بیماری کی خبر سنتے تھے تو آپ اس کی عیادت کے لئے جاتے تھے اور یہ کام اس کے دل میں آپ کی محبت کا سبب بن جایا کرتا ہے امام ؑ ایک مقام پر اسی حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں: “ینبغی لِلْمَرِیضِ مِنْکمْ أَنْ یؤْذِنَ إِخْوَانَهُ بِمَرَضِهِ فیعُودُونَهُ وَ یؤْجَرُ فِیهِمْ وَ یؤْجَرُونَ فیہ” مریض کے لئے سزاوار ہیکہ وہ اپنے مومن بھائی کو اپنی عیادت کی اجازت دے تاکہ مریض اور عیادت کرنے والے اس کے ذریعے ثواب حاصل کریں۔
لوگوں نے امام علیہ السلام سے پوچھا عیادت کرنے والے اپنی عیادت کے ذریعے تو ثواب حاصل کرتے ہیں لیکن مریض کس طریقے سے ثواب حاصل کرتا ہے؟
امام علیہ السلام نے جواب دیا: “بِاكْتِسَابِهِ لَهُمُ اَلْحَسَنَاتِ فَيُؤْجَرُ فِيهِمْ فَيُكْتَبُ لَهُ بِذَلِكَ عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَ يُرْفَعُ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ وَ يُمْحَى بِهَا عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ “[7] ۔مریض کا اجازت دینا یہ سبب بنتا ہے کہ عیادت کرنے والے عیادت کریں اس اجازت کے بدلے اللہ اس کو نیکی عطا کرتا ہے اور اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں دس بلندیاں بڑھائی جاتی ہیں اور دس گناہ اس کے معاف کیے جاتے ہیں اور اس طریقے سے مریض بھی ثواب کا حقدار بن جاتا ہے۔
لہذا امام صادقؑ کی سیرت میں بھائی چارہ اور اخوت پر جتنا زور دیا گیا ہے اگر ہم امام صادقؑ کی سیرت سے ان اجتماعی تربیت کے پہلوؤں کو اپنی زندگی میں اپنائیں تو یقینا ہمارا سماج ایک ایسا سماج بنے گا کہ جو دینی سماج ہوگا اور یقینا وہ سماج ہمارے وقت کے امام ؑکے ظہور کا مقدمہ بھی بنے گا۔ انشاء اللہ
نتیجه
امام صادقؑ کی سیرت میں اجتماعی زندگی کے جو نکات ہمیں ملتے ہیں وہ مہمان نوازی، امانت داری، دوسروں کی اذیت پر صبر کرنا، مریضوں کی عیادت کرنا، علمی جلسات بر گزار کرنا وغیرہ امام ؑنے اخلاقی، فکری اور علمی تینوں چیزوں کو ایک بہترین سماج اور اجتماع کے لئے بنیادی رکن قرار دیا ہے اسی لئے امامؑ نے علمی میدان میں درس ودروس کا سلسلہ، فکری میدان میں علمی جلسات اور بحث و مباحثہ کا آغاز اس کے ساتھ ساتھ اخلاق کا وہ مظاہرہ پیش کیا جو اجتماعی تربیت کےلئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور امام صادقؑ کی سیرت کسی خاص مذہب یا فرقے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جو بھی سماج اپنے سماج کو تربیتی حوالے سے بہترین بنانا چاہتا ہے اس کے لئے امام صادقؑ کی سیرت میں پائے جانے والے اجتماعی نکات بہت معاون و مددگار ثابت ہوں گے۔ انشاءاللہ
حوالہ جات
[1] -ایمانی، تربیت اجتماعی، فصلنامہ تربیت، ص31
[2] ۔ مجلسی، بحار الانوار، ج72، ص455
[3] ۔ حر عاملی، تفصیل وسائل الشیعہ، ج17، ص198
[4] ۔ سورہ ہود، آیت 114
[5] ۔ شیخ عباس قمی،سفینۃ البحار، لفظ عبد الرحمٰن، ج3، ص299
[6] ۔ کلینی، الکافی، ج8، ص87
[7] ۔ نوری، مستدرک الوسائل و مستنبط الوسائل، ج24، ص305
فهرست منابع
1. قرآن مجید
2. حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعہ، آل البیت، اشاعت دوم، موسسہ آل البیت الاحیاءالتراث، 1414 ق۔
3. ایمانی، محسن، تربیت اجتماعی، فصل نامہ تربیت، شمارہ ششم، سال سوم، اسفند ٦٦۔
4. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعہ لدرر اخبار الائمہ الاطہار، اشاعت دوم، اسلامیہ، تہران ١٣٦٣۔
5. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، اشاعت دوم، اسلامیہ، تہران ١٣٦٣۔
6. طبرسی، فضل بن حسن، مکارم الاخلاق، اشاعت چھارم، شریف رضی، قم،1370
7. نوری، حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط الوسائل، موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، قم، 1408ق۔
8. قمی، شیخ عباس، سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و لآثار،اشاعت سوم آستان قدس رضوی، مشہد 1388
9. سیرہ اخلاقی و تربیتی امام صادقؑ
مضمون کا مآخذ
موسوی، سمیه السادات، روش های تربیت اجتماعی در سیره امام صادق علیه السلام، فصلنامه علمی تخصصی مطالعات قرآنی نامه جامعه، دوره 2، شماره 113 – شماره پیاپی 113، فروردین 1394، ص121-141.