- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/10/09
- 0 رائ
تاریخ اسلام میں اگر دیکھا جائے تو ملتا ہے کہ خاندان بنی ہاشم یہ ایک ایسا خاندان تھا جس نے دین اسلام کو بچایا ہے اور نجات بخشی ہے، ورنہ اس دور کے لوگوں نے ہر طریقہ سے دین اسلام کو مٹانے کی کوشش کی، لیکن بنی ہاشم نے کبھی بھی ایسا ہونے نہیں دیا، اسی خاندان بنی ہاشم میں ایک ذات جناب محمد حنفیہ کی ہے جنہوں نے اس گھرانہ میں تربیت حاصل کی۔
محمد حنفیہ
محمد حنفیہ کا امام حسینؑ کے ہمراہ نہ جانے کے سلسلہ میں تنہا ایک ہی روایت ملتی ہے، جسے جناب ابن فروخ کتاب “بصائر الدرجات” نے حمزہ بن حمران کے توسط سے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے۔
حمزہ کہتے ہیں کہ امام صادقؑ کے سامنے امام حسینؑ کے قیام اور محمد حنفیہ کا ان کا ساتھ نہ دینے کی بات ہوئی تو آپؑ نے فرمایا: میں تمہیں اس کے بارے میں بتاتا ہوں لیکن اس کے بعد ایسی بات نہ کرنا۔ جب امام حسینؑ نے جانے کا ارادہ کیا تو ایک کاغذ منگوایا اور اس پر تحریر فرمایا: “بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ” حسین بن علیؑ کی جانب سے بنی ہاشم کے نام: اما بعد، جو بھی ہم سے ملحق ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو ہم سے جدا رہا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ والسلام”[1]
جناب ابن قولویہؒ نے بھی اس حدیث کو کتاب “کامل الزیارات” [2] میں زرارہ کے واسطہ سے امام باقرؑ سے نقل کیا ہے کہ حسین بن علیؑ نے مکہ سے محمد بن علی کو لکھ بھیجا: “بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ” حسین بن علیؑ کی جانب سے بنی ہاشم کے نام، اما بعد “جو بھی ہم سے ملحق ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو ہم سے جدا رہا وہ ہلاک ہوگا۔ والسلام”
نیز کتاب “الرسائل” جناب کلینیؒ نے ایک اور سند سے حمزہ بن عمران کے واسطہ سے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: اے حمزہ میں تمہیں ایسی روایت بتاتا ہوں کہ اس کے بعد مجھ سے اس بارے میں سوال نہ کرنا۔[3]
علامه مجلسیؒ اس روایت کی یوں تشریح کرتے ہیں:
۱- امامؑ کے اس جملہ “وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا” سے مراد یہ ہے کہ وہ دنیا میں کامیابی حاصل نہیں کر پائے گا۔ اور یہ خود ایک طرح سے سرزنش ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ امام حسینؑ نے انہیں اختیار دے دیا ہو اور ایسی صورت ان کے ساتھ نہ ملنے والے گنہگار نہیں ہوں گے![4]
۲-اس جملہ سے مراد یہ ہے کہ دنیا یا آخرت اور یا پھر دونوں طرح کی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکتا ہے۔
شاید امام صادقؑ کے اس فرمان سے مراد یہ ہو کہ جو بھی امام حسینؑ کا ساتھ نہیں دے گا وہ یاران حسینی کے مقام و منزلت سے محروم رہ جائے گا. لہذا سزاوار یہ ہے کہ ہر مومن کو چاہیے کہ وہ اس پر حسرت کرتے ہوئے یہ کہے: اے کاش میں بھی آپ کے ہمراہ ہوتا اور اس عظیم کامیاب سے بہرہ مند ہوتا۔ البتہ مخفی نہ رہے کہ ہمارے بہت سے علماء نے لکھا ہے کہ جناب محمد حنفیہ، امام حسینؑ کی روانگی کے وقت مریض تھے اور شمشیر نہیں اٹھا سکتے تھے۔
جن میں سب سے پہلے سید بن طاؤوس ہیں جو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ابی مخنف کہتے ہیں: محمد حنفیہ کی انگلیاں خراب ہو چکی تھیں اور وہ مریض تھے چونکہ امام حسینؑ کو ایک داودی زرہ تحفہ کے طور پر ملی تھی جب انہوں نے زیب تن کی تو وہ ایک گز اور چار انگشت بڑی تھی تو محمد حنفیہ نے اس اضافی مقدار کو ہاتھ پر لپیٹا اور اسے توڑ ڈالا۔ جس پر وہ نظر بد کا شکار ہوگئے اور ایک عرصہ تک ان کے ہاتھ کی انگلیوں سے خون ٹپکتا رہا۔ یہی چیز باعث بنی کہ امام حسینؑ کے ہمراہ کربلا نہ جاسکیں چونکہ وہ قبضہ تلوار یا نیزہ کو پکڑنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔[5]
نیز علامہ حلیؒ سے جب یہ پوچھا گیا: محمد حنفیہ کیا وہ اپنے بھائی اور امام زین العابدینؑ کی امامت کو مانتے تھے؟ اور کیا ہمارے علماء کے نزدیک امام حسینؑ کے ہمراہ نہ جانے پر ان کے پاس کوئی عذر موجود تھا یا نہیں؟ اور محمد حنفیہ کے پاس کوئی عذر نہ ہو تو ان کا کیا حکم ہوگا؟ اسی طرح عبد اللہ بن جعفر اور ان کے مانند دیگر افراد؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا: اصول امامت میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ایمان کے ارکان یہ ہیں: توحید، ایمان، عدل، نبوت اور امامت، محمد حنفیہ اور عبداللہ بن جعفر اس سے کہیں بلند مرتبہ ہیں کہ وہ اس کے برعکس کوئی عقیدہ رکھتے ہوں اور اس ایمان کو ہاتھ سے دے بیٹھے ہوں جو سعادت ابدی اور عذاب سے نجات کا سبب بنتا ہے۔
ہاں البتہ یہ کہ کس لیے انہوں نے امام حسینؑ کا ساتھ نہ دیا، اہم ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مریض تھے اور ان کے علاوہ دیگر افراد کے بارے میں یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ وہ امام حسینؑ کے ساتھ پیش آنے والے حالات سے آگاہ نہیں تھے، وہ لوگ، خیانتکار اہل کوفہ کے ناموں کی وجہ سے یہ سوچ رہے تھے کہ وہ ان کی مدد کریں گے۔[6] جبکہ ہماری رائے یہ ہے کہ لوگوں کی عدم آگاہی صحیح نہیں ہے جیسا کہ علامہ حلیؒ بھی فرما چکے ہیں چونکہ ممکن نہیں ہے کہ محمد حنفیہ امام حسینؑ کی شہادت سے متعلق پیغمبر اکرمﷺ اور امام علیؑ و امام حسنؑ کی بیان کردہ بہت سی احادیث سے آگاہ نہ رہے ہوں۔
اسی طرح دربندی نے “اسرار الشھادة” میں ابی مخنف سے نقل کیا ہے کہ: محمد حنفیہ نے مدینہ میں امام حسینؑ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: خدا کی قسم آپ کی دوری غمگین کردے گی اور میری بیماری کی شدت آپؑ کی ہمراہی نہ کرسکنے کا باعث بن رہی ہے۔ اے بھائی جان، مجھ میں تلوار کا قبضہ یا نیزہ تھامنے کی قوت نہیں رہی ہے۔ خدا کی قسم آپؑ کے بعد کبھی بھی خوشحال نہیں رہوں گا اور پھر اس قدر شدید گریہ کیا کہ غش کھا گئے اور جب ہوش میں آئے تو کہا: اے برادر جان، اے مظلوم شہید آپؑ کو خدا کے حوالے کرتا ہوں۔[7]
شیخ حبیب اللہ کاشانیؒ نیز اس موضوع کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کہ محمد حنفیہ مریض تھے یہاں تک کہ قبضہ شمشیر اور نیزہ کو پکڑنے یا جھاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔[8]بلکہ وہ یہاں تک لکھتےہیں کہ: محمد حنفیہ، مدینہ ہی میں بیمار تھے۔ [9]
” قابل ذکر ہے کہ محمد بن یزید مبرد، اپنی کتاب “الکامل” میں محمد حنفیہ کا زرہ کو ہاتھ سے توڑنے کی داستان کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:
“عبد اللہ بن زبیر، محمد حنفیہ اور ان کے خاندان سے بغض رکھتا تھا اور ان کی شجاعت اور جرئت پر رشک کیا کرتا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن حضرت علیؑ نے محمد حنفیہ کو ایک بلند زرہ دی اور کہا کہ اسے اس جگہ سے کاٹ دیں۔ محمد حنفیہ نے اسے لیا اور ہاتھ سے اسے معین شدہ جگہ سے توڑ ڈالا! جب بھی یہ داستان عبداللہ بن زبیر کے پاس نقل کی جاتی تو غصہ میں آجاتا اور اس پر رعشہ طاری ہو جاتا تھا۔ “[10]
ایک جعلی داستان
ابن عساکر نے اپنی “تاریخ” میں اور اس کے بعد مزّی اور ذہبی نے انهوں سے نقل کیا ہے کہ جب محمد حنفیہ کو یہ یقین ہوگیا کہ امام حسینؑ عراق جانے کا مصمم ارادہ کرچکے ہیں اور وہ انہیں اس سے منصرف کرنے سے ناامید ہو چکے تو اپنے بیٹوں کو عراق جانے سے روک لیا۔
وہ یوں لکھتے ہیں:
امام حسینؑ نے مدینہ منورہ ایک نامہ بھیجا جس کے نتیجہ میں باقی ماندہ بنی ہاشم جو 19 مرد اور عورتیں اور بچے تھے آپ کی خدمت میں پہنچے، جبکہ محمد حنفیہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ محمد حنیفہ نے امام حسینؑ سے ملاقات کرکے اپنی رائے پیش کی کہ وہ قیام کا ارادہ نہیں رکھتے مگر امام حسینؑ نے محمد حنفیہ کی رائے کو قبول نہ کیا۔ محمد حنفیہ نے بھی اپنے بیٹوں کو ساتھ جانے سے روک دیا اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہ جانے دیا۔
امام حسینؑ، محمد حنفیہ سے سخت نالاں ہوئے اور کہا: کیا اپنے بیٹوں کو ایسی جگہ بھیجنے سے انکار کر رہے ہو جہاں میں قتل کیا جاؤں گا؟
محمد حنفیہ نے جواب میں کہا: “مجھے اس سے کیا غرض کہ آپ بھی قتل ہو اور وہ بھی آپ کے ہمراہ مار دیئے جائیں اگر چہ آپؑ کی مصیبت ان کی نسبت مجھ پر گراں ہے”[11]
اگر چہ یہ مطلب کہ محمد حنفیہ نے اپنی اولاد کو ساتھ جانے سے روک لیا، نہ تو ہماری کسی کتاب میں اور نہ ہی ان کی کسی کتاب میں ذکر ہوا ہے۔ صرف ابن عساکر، مزّی اور ذہبی نے نقل کیا ہے! ذہبی اور مزّی نے اس داستان کو مرسل نقل کیا ہے۔ شاید انھوں نے یہ روایت ابن عساکر سے لی ہے۔ نیز اس روایت کی سند میں ایک سے زیادہ مجہول راوی ہیں جنہیں خود ابن عساکر نے بھی ضعیف العقیدہ قرار دیا ہے۔ جیسے: بزاز اور ابن فہم۔ [12]
علاوہ بریں اگر محمد حنفیہ نے اپنے بیٹوں کو امام حسینؑ کی ہمراہی سے روکا ہوتا تو دیگر بنی ہاشم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے ان کی سرزنش کی جاتی جبکہ دوسری جانب محمد حنفیہ اور ان کے فرزند اپنا دفاع کرتے دکھائی دیتے اور یہ سب کتب تاریخ میں نقل ہوتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو کسی تاریخی کتاب میں بنی ہاشم یا ائمہ معصومین علیھم السلام کی طرف سے کوئی ایسی بات ذکر ہوئی ہے اور نہ محمد حنفیہ نے اپنا دفاع کیا۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابن عساکر نے تاریخ کے صفحات پر مزید ایک اور جھوٹ کا اضافہ کرنا چاہا، یا یہ احتمال بھی دیا جا سکتا ہے کہ اس روایت کا راوی بنی امیہ کا ایجنٹ تھا جس نے قیام حسینی کے سلسلہ میں بنی ہاشم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی مذموم کوشش کی۔ جیسا کہ شیخ مفیدؒ نے لکھا ہے کہ اس روایت کی سند میں محمد بن عمر واقدی موجود ہے جو عثمانی مذہب اور امیر المؤمنینؑ سے سخت بیزار تھا۔
نتیجہ
جناب محمد حنفیہ کی شخصیت روز روشن کی طرح واضح ہے، کیونکہ آپ کی تربیت اس گھرانے میں ہوئی جو دین اسلام کی بنیادوں کا منبع ہے۔ یہ وہ خاندان ہے جہاں سے قرآن کی آیات کو زندگی ملی، اور علم، حلم، شجاعت، صبر اور قربانی کا درس دیا گیا۔ اس خاندان نے ہر لحاظ سے دین اسلام کی مدد کی اور اپنی جانوں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور خانوادے کو بھی قربان کیا۔
ایسے عظیم خاندان کے ایک تربیت یافتہ فرد پر انگلی اٹھانا اور جعلی داستانوں کے ذریعے ان کی عظمت کو مٹانے کی کوشش کرنا عقلمندی نہیں ہے۔ تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے، جیسا کہ بہت سے علمائے تاریخ نے بھی لکھا ہے، کہ بعض افراد بیماری کی حالت میں تھے اور ان میں طاقت نہیں تھی۔ محمد حنفیہ نے کئی بار امام حسینؑ سے نہ جانے پر افسوس کا اظہار کیا اور غمگین ہوئے۔
حوالہ جات
[1] صفار، بصائر الدرجات، ج۳۸۱.
[2] ابن قولویہ، کامل الزیارات، ح۱۵، باب۲۴.
[3] مجلسی، بحار الانوار، ج۴۴، ص۳۳۰.
[4] مجلسی، بحار الانوار، ج۴۴، ح۱۲.
[5] ابن طاوؤس، حكاية المختار في اخذ الثار، ص۳۳.
[6] حلی، المسائل المهنائية، ص۳۸.
[7] دربندی، اسرار الشھادۃ، ص۲۴۶؛ مازندرانی،معالی السبطین، ج۱، ص۲۳۰.
[8] کاشانی، تذکرۃ الشھداء، ص۷۱.
[9] کاشانی، تذکرۃ الشھداء، ص۸۲.
[10] مبرد، الکامل، ج۳، ص ۲۷۷.
[11] ابن عساکر، تاریخ دمشق، ص ۲۰۴.
[12] ذھبی، سیر اعلام النبلاء، ج۱۳،ص ۴۲۷؛ بغدادی، تاریخ بغداد، ج۸، ص۹۳.
منابع
۱- ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق الکبیر، دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،۱۴۲۱ ه ق.
۲- ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، دار المرتضویۃ، نجف اشرف، ۱۳۵۶ه ش.
۳- ابن طاوؤس، علی بن موسی، حكاية المختار في اخذ الثار بروایۃ ابی مخنف، منشورات موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۹۹۳ع.
۴- حائری مازندرانی، مھدی، معالی السبطین، تھذیب، قم، ایران، ۱۳۸۹ه ش.
۵- حلی، حسن بن یوسف، اجوبۃ المسائل المهنائية، مطبعۃ الخیام، قم، ا یران، ۱۴۰۱ ه ش.
۶- خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد او مدینہ السلام، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، ۱۴۱۷ه ق.
۷- دربندی، میرزا محمد حسین، اسرار الشھادۃ، طوبی محبت، بغیر تاریخ کے۔
۸- ذھبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، ۱۴۱۴ ه ق.
۹- صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات، موسسۃ الاعلملی للمطبوعات، بیروت، لبنان، ۱۴۳۱ ه ق.
10- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر الاخبار الائمۃ الاطھار، دار التعارف للمطبوعات، بیروت، لبنان، ۱۴۲۱ ه ق.
11- کاشانی، ملا حبیب شریف، تذکرۃ الشھداء، شمس الضحی، ۱۳۹۰ ه ش.
12- مبرد، محمد بن یزید، الکامل فی التاریخ، دار الکتب العلمية، بیروت، لبنان، ۱۴۰۷ ه ق.
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
طبسی، نجم الدین، امام حسینؑ کے مکّی ایّام، ترجمہ ناظم حسین اکبر، دلیل ما، قم، ۱۳۹۲ ه ش.