- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/06/14
- 0 رائ
امام محمد تقی علیہ السلام اگرچہ مدینہ میں قیام فرما تھے لیکن فرائض کی وسعت نے آپ کو مدینہ ہی کے لے محدود نہیں رکھا تھا آپ مدینہ میں رہ کراطراف عالم کے عقیدت مندوں کی خبرگیری فرمایا کرتے تھے یہ ضروری نہیں کہ جس کے ساتھ کرم گستری کی جائے وہ آپ کے کوائف وحالات سے بھی آگاہ ہو عقیدہ کا تعلق دل کی گہرائی سے ہے کہ زمین و آسمان ہی نہیں ساری کائنات ان کے تابع ہوتی ہے انہیں اس کی ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ کسی سفر میں طے مراحل کے لیے زمین اپنے قدموں سے نانپا کریں، ان کے لیے یہی بس ہے کہ جب اور جہاں چاہیں چشم زدن میں پہنچ جائیں اور یہ عقلا محال بھی نہیں ہے ایسے خاصان خدا کے اس قسم کے واقعات قران مجید میں بھی ملتے ہیں۔
آصف بن برخیا وصی جناب سلیمان علیہ السلام کے لیے علماء نے اس قسم کے واقعات کا حوالہ دیا ہے ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ مدینہ منورہ سے روانہ ہو کر شام پہنچے، وہاں ایک شخص کو اس مقام پرعبادت میں مصروف و مشغول پایا جس جگہ امام حسین کا سر مبارک لٹکایا گیا تھا آپ نے اس سے کہا کہ میرے ہمراہ چلو وہ روانہ ہوا، ابھی چند قدم نہ چلا تھا، کہ کوفہ کی مسجد میں جا پہنچا وہاں نماز ادا کرنے کے بعد جو روانگی ہوئی، تو صرف چند منٹوں میں مدینہ منورہ جا پہنچے اور زیارت و نماز سے فراغت کی گئی، پھر وہاں سے چل کر لمحوں میں مکہ معظمہ رسیدگی ہوئی، طواف و دیگرعبادت سے فراغت کے بعد آپ نے چشم زدن میں اسے شام کی مسجد میں پہنچا دیا۔
اور خود نظروں سے اوجل ہو کر مدینہ منورہ جا پہنچے پھر جب دوسرا سال آیا تو آپ بدستور شام کی مسجد میں تشریف لے گئے اور اس عابد سے کہا کہ میرے ہمراہ چلو، چنانچہ وہ چل پڑا آپ نے چند لمحوں میں اسے سال گزشتہ کی طرح تمام مقدس مقامات کی زیارت کرا دی پہلے ہی سال کے واقعہ سے وہ شخص بے انتہا متاثر تھا ہی، کہ دوسرے سال بھی ایسا ہی واقعہ ہو گیا اب کی مرتبہ اس نے مسجد شام واپس پہنچتے ہی ان کا دامن تھام لیا اور قسم دے کر پوچھا کہ فرمائیے آپ اس عظیم کرامت کے مالک کون ہیں آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں محمد بن علی (امام محمد تقی ہوں) اس نے بڑی عقیدت اور تعظیم و تکریم کے مراسم ادا کئے۔
آپ کے واپس تشریف لے جانے کے بعد یہ خبر بجلی کی طرح تمام پھیل گئی جب والی شام محمد بن عبد الملک کو اس کی اطلاع ملی اور یہ بھی پتہ چلا کہ لوگ اس واقعہ سے بے انتہا متاثر ہوگئے ہیں تو اس نے اس عابد پر”مدعی نبوت“ ہونے کا الزام لگا کر اسے قید کر دیا اور پھر شام سے منتقل کراکے عراق بھجوا دیا اس نے والی کو قید خانہ سے ایک خط بھیجا جس میں لکھا کہ میں بے خطا ہوں، مجھے رہا کیا جائے، تو اس نے خط کی پشت پر لکھا کہ جو شخص تجھے شام سے کوفہ اور کوفہ سے مدینہ اور وہاں سے مکہ اور پھر وہاں سے شام پہنچا سکتا ہے اپنی رہائی میں اسی کی طرف رجوع کر۔
اس جواب کے دوسرے دن یہ شخص مکمل سختی کے باوجود، سخت ترین پہرہ کے ہوتے ہوئے قید خانہ سے غائب ہو گیا، علی بن خالد راوی کا بیان ہے کہ جب میں قید خانہ کے پھاٹک پر پہنچا تو دیکھا کہ تمام ذمہ داران حیران و پریشان ہیں، اور کچھ پتہ نہیں چلتا کہ عابد شامی زمین میں سما گیا یا آسمان پر اٹھا لیا گیا، علامہ مفید علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے علی بن خالد جو دوسرے مذہب کا پیرو تھا، امامیہ مسلک کا معتقد ہوگیا(شواہدالنبوت ص ۲۰۵، نورالابصار ص ۱۴۶، اعلام الوری ص ۷۳۱، ارشاد مفید ص ۴۸۱)۔
صاحب تفسیرعلامہ حسین واعظ کاشفی کا بیان ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے کرامات بے شمار ہیں(روضة الشہدا ص ۴۳۸) میں بعض کا تذکرہ مختلف کتب سے کرتا ہوں۔
علامہ عبدالرحمن جامی تحریر کرتے ہیں کہ:
۱ ۔ مامون رشید کے انتقال کے بعد حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اب تیس ماہ بعد میرا بھی انتقال ہوگا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
۲ ۔ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کیا کہ ایک مسماة(ام الحسن) نے آپ سے درخواست کی ہے کہ اپنا کوئی جامہ کہنہ دیجیے تاکہ میں اسے اپنے کفن میں رکھوں آپ نے فرمایا کہ اب جامہ کہنہ کی ضرورت نہیں ہے روای کا بیان ہے کہ میں وہ جواب لے کر جب واپس ہوا تو معلوم ہوا کہ ۱۳ ۔ ۱۴ دن ہو گئے ہیں کہ وہ انتقال کر چکی ہے۔
۳ ۔ ایک شخص(امیہ بن علی) کہتا ہے کہ میں اور حماد بن عیسی ایک سفر میں جاتے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ سے رخصت ہولیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم آج اپنا سفر ملتوی کردو، چنانچہ میں حسب الحکم ٹہر گیا، لیکن میرا ساتھی حماد بن عیسی نے کہا کہ میں نے سارا سامان سفر گھر سے نکال رکھا ہے اب اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ سفر ملتوی کردوں، یہ کہہ کر وہ روانہ ہوگیا اور چلتے چلتے رات کو ایک وادی میں جا پہنچا اور وہیں قیام کیا، رات کے کسی حصہ میں عظیم الشان سیلاب آگیا، اور وہ تمام لوگوں کے ساتھ حماد کو بھی بہا کر لے گیا(شواہد النبوت ص ۲۰۲)۔
۴ ۔ علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ معمر بن خلاد کا بیان ہے کہ ایک دن مدینہ منورہ میں جب کہ آپ بہت کمسن تھے مجھ سے فرمایا کہ چلو میرے ہمراہ چلو! چنانچہ میں ساتھ ہو گیا حضرت نے مدینہ سے باہر نکل کر ایک وادی میں جاکر مجھ سے فرمایا کہ تم ٹھر جاؤ میں ابھی آتا ہوں چنانچہ آپ نظروں سے غائب ہو گئے اور تھوڑی دیر کے بعد واپس ہوئے واپسی پر آپ بے انتہاء ملول اور رنجیدہ تھے، میں نے پوچھا: فرزند رسول! آپ کے چہرہ مبارک سے آثار حزن و ملال کیوں ہویدا ہیں ارشاد فرمایا کہ اسی وقت بغداد سے واپس آرہا ہوں وہاں میرے والد ماجد حضرت امام رضاعلیہ السلام زہر سے شہید کر دئیے گئے ہیں میں ان پر نماز وغیرہ ادا کرنے گیا تھا۔
۵ ۔ قاسم بن عبادالرحمن کا بیان ہے کہ میں بغداد میں تھا میں نے دیکھا کہ کسی شخص کے پاس تمام لوگ مسلسل آتے جاتے ہیں میں نے دریافت کیا کہ جس کے پاس آنے جانے کا تانتا بندھا ہوا ہے یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ابوجعفر محمد بن علی علیہ السلام ہیں ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ آپ ناقہ پر سوار اس طرف سے گذرے، قاسم کہتا ہے کہ انہیں دیکھ کر میں نے دل میں کہا کہ وہ لوگ بڑے بیوقوف ہیں جو آپ کی امامت کے قائل ہیں اورآپ کی عزت و توقیر کرتے ہیں، یہ تو بچے ہیں اور میرے دل میں ان کی کوئی وقعت محسوس نہیں ہوتی، میں اپنے دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ آپ نے قریب آکر فرمایا کہ اے قاسم بن عبدالرحمن جو شخص ہماری اطاعت سے گریزاں ہے وہ جہنم میں جائے گا آپ کے اس فرمانے پر میں نے خیال کیا کہ یہ جادوگر ہیں کہ انہوں نے میرے دل کے ارادے کو معلوم کر لیا ہے جیسے ہی یہ خیال میرے دل میں آیا آپ نے فرمایا کہ تمہارے خیال بالکل غلط ہیں تم اپنے عقیدے کی اصلاح کرو یہ سن کر میں نے آپ کی امامت کا اقرار کیا اور مجھے ماننا پڑا کہ آپ حجت اللہ ہیں۔
۶ ۔ قاسم بن الحسن کا بیان ہے کہ میں ایک سفر میں تھا، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مفلوج الحال شخص نے مجھ سے سوال کیا، میں نے اسے روٹی کا ایک ٹکڑا دیدیا ابھی تھوڑی دیر گذری تھی کہ ایک زبردست آندھی آئی اور وہ میری پگڑی اڑا کر لے گئی میں نے بڑی تلاش کی لیکن وہ دستیاب نہ ہوسکی جب میں مدینہ پہنچا اور حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے ملنے گیا تو آپ نے فرمایا کہ اے قاسم تمہاری پگڑی ہوا اڑالے گئی میں نے عرض کی جی حضور! آپ نے اپنے ایک غلام کو حکم دیا کہ ان کی پگڑی لے آؤ غلام نے پگڑی حاضر کی میں نے بڑے تعجب سے دریافت کیا کہ مولا! یہ پگڑی یہاں کیسے پہنچی ہے آپ نے فرمایا کہ تم نے جو راہ خدا میں روٹی کا ٹکڑا دیا تھا، اسے خدا نے قبول فرما لیا ہے، اے قاسم خداوند عالم یہ نہیں چاہتا جو اس کی راہ میں صدقہ دیے وہ اسے نقصان پہنچنے دے۔
۷ ۔ ام الفضل نے حضرت امام محمد تقی کی شکایت اپنے والد مامون رشید عباسی کو لکھ کر بھیجی کہ ابو جعفر میرے ہوتے ہوئے دوسری شادی بھی کررہے ہیں اس نے جواب دیا کہ میں نے تیری شادی ان کے ساتھ اس لیی نہیں کی که حلال خدا کو حرام کردوں انہیں قانون خداوندی اجازت دیتا ہے کہ وہ دوسری شادی کریں، اس میں تیرا کیا دخل ہے دیکھ آئندہ سے اس قسم کی کوئی شکایت نہ کرنا اور سن تیرا فریضہ ہے کہ تو اپنے شوہر ابوجعفر کو جس طرح ہو راضی رکھ اس تمام خط و کتابت کی اطلاع حضرت کو ہو گئی (کشف الغمہ ص ۱۲۰)۔
علامہ شیخ حسین بن عبد الوہاب تحریرفرماتے ہیں کہ ایک دن ام الفضل نے حضرت کی ایک بیوی کو جوعمار یاسر کی نسل سے تھی دیکھا تو مامون رشید کو کچھ اس طرح سے کہا کہ وہ حضرت کے قتل پرآمادہ ہوگیا، مگر قتل نہ کر سکا(عیون المعجزات ص ۱۵۴ طبع ملتان)۔