شیعہ عقیدہ ہے کہ امامت ایک الٰہی منصب ہے، جو صرف خدا کے منتخب کردہ افراد کو عطاء ہوتا ہے۔ شیعہ عقیدہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ امام معصوم اور دین کے تمام اصولوں پر حجت ہوتا ہے۔ مزید برآں، اس عقیدے کے مطابق امام کا تعین عوام نہیں بلکہ خدا اور رسول ﷺ کی جانب سے کیا جاتا ہے۔
امام کسے کہتے ہیں؟
یہ وہی عظیم منصب ہے جو خدا نے ابراہیم خلیل اللہ کو نبوت اور رسالت کا راستہ طے کرنے اور متعدد امتحانات میں کامیابی کے بعد عطاء کیا۔ انہوں نے بھی خدا کے حضور اپنی ذریّت اور اولاد میں سے بعض کےلئے اس عظیم منصب کی درخواست کی اور انہیں یہ جواب ملا کہ ظالم اور گناہ گار لوگ ہرگز اس رتبے پر فائز نہیں ہوسکیں گے۔
’’وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ‘‘[1]
یعنی اس وقت کو یاد کرو کہ جب خدا نے ابراھیم (ع) کو مختلف چیزوں سے آزمایا اور وہ خدا کی آزمائش سے سرخ رو ہوکر نکلا۔ خدا نے فرمایا: میں نے تجھے لوگوں کا امام بنایا ہے۔ ابراھیم (ع) نے عرض کی، میری نسل میں سے بھی امام بنائیے۔ خدا نے فرمایا: میرا یہ عہدہ (امامت) ہرگز ظالموں کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ (اور تیری نسل سے فقط معصوم لوگوں کو حاصل ہوگا)۔ واضح رہے کہ اتنا عظیم منصب صرف ظاہری حکومت سے عبارت نہیں ہوسکتا۔ اگر امامت کا جلوہ وہ نہ ہو جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے تو مذکورہ بالا روایت کا کوئی واضح مفہوم نہیں رہے گا۔
شیعہ عقیدہ ہے کہ: تمام اولوالعزم انبیاء کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا۔ جو کچھ انہوں نے اپنی رسالت کے ذریعے پیش کیا اس پر خود عمل کیا۔ وہ لوگوں کے معنوی، مادی، ظاہری اور باطنی قائد تھے۔ خاص کر پیغمبر اسلام ﷺ کو اپنی نبوت کے آغاز سے ہی امامت اور رہبری کے عظیم مرتبے پر فائز تھے۔ ان کا کام فقط خدا کے احکام کو آگے پہنچانا نہیں تھا۔
شیعہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کے بعد امامت کا سلسلہ ان کی پاک ذریت کے درمیان جاری رہا ہے۔ امامت کی جو تعریف اوپر کی گئی ہے اس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اس، کام تک رسائی دشوار شرائط کی حامل ہے۔ خواہ تقویٰ (ہر گناہ سے معصوم ہونے کی حد تک) کے لحاظ سے ہو یا علم و دانش اور دین کے تمام معارف و احکامات کو جاننے نیز انسانوں کی شناخت اور ہر عصر میں ان کی ضروریات کو پہچاننے کے حوالے سے۔
شیعہ عقیدہ اور امام کی خصوصیات
شیعہ عقیدے کے مطابق امام، انسانوں کے منتخب کردہ خلیفہ کی نسبت اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔ امام کو اللہ کی جانب سے منتخب کیا جاتا ہے اور وہ عصمت و علمِ لدنی جیسی صفات کا حامل ہوتا ہے۔ امام کی رہنمائی صرف ظاہری امور تک محدود نہیں بلکہ دینی و روحانی ہدایت بھی اس کے ذمے ہوتی ہے۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق امام کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
شیعہ عقیدہ امامت اور عصمت
شیعہ عقیدہ ہے کہ: امام کو ہر گناہ اور غلطی سے معصوم ہونا چاہئے، کیونکہ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں بیان شدہ بات کے علاوہ غیر معصوم شخص پر مکمل اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور اس سے دین کے اصول و فروع اخذ نہیں کئے جاسکتے۔ اس لئے شیعہ عقیدہ ہے کہ امام کی گفتگو اس کے افعال اور تقریر کی حجت اور شرعی دلیل ہے۔ (تقریر سے مراد یہ ہے کہ امام کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور وہ اپنی خاموشی کے ذریعے اس کی تائید کرے)
امام شریعت کا محافظ اور رہنما
شیعہ عقیدہ ہے کہ: امام ہرگز اپنے ساتھ کوئی شریعت یا دین لے کر نہیں آتا بلکہ اس کی ذمہ داری پیغمبر ﷺ کے دین کی حفاظت اور آپ کی شریعت کی نگہبانی ہے۔ اس کا کام دین کی تبلیغ، تعلیم، دین کی حفاظت اور لوگوں کو اس دین کی طرف بلانا ہے۔
امام سب سے زیادہ اسلام شناس شخصیت
نیز شیعہ عقیدہ ہے کہ: امام کو اسلام کے تمام اصول و فروع، احکام و قوانین اور قرآن کے معانی و تفسیر سے مکمل طور پر آگاہ ہونا چاہئے۔ ان چیزوں کے متعلق اس کے علم کا سر چشمہ خدا کی ذات ہے اور یہ علم پیغمبروں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ جی ہاں! اس طرح کے علم پر ہی لوگوں کو مکمل اعتماد ہوسکتا ہے اور اسلام کی حقیقتوں کو سمجھنے کےلئے اس پر ہی اعتماد کیا جاسکتا ہے۔
امام کا انتخاب
شیعہ عقیدہ ہے کہ: امام (جانشین پیغمبر ﷺ) کو منصوص ہونا چاہئے، یعنی اس کی امامت پیغمبر ﷺ کے صریح اور واضح پیغام کے مطابق ہونی چاہئے اور بعد والے امام کےلئے پہلے امام کی تصریح ضروری ہے۔ با الفاظ دیگر امام بھی پیغمبر کی طرح خدا کی طرف سے (پیغمبر ﷺ کے ذریعے) تعین ہوتا ہے۔ جس طرح ہم نے ابراہیم (ع) کی امامت سے متعلق آیت میں پڑھا ’’إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا‘‘ یعنی میں نے تجھے لوگوں کا امام قرار دیا ہے۔
اس کے علاوہ (عصمت کی حد تک) تقویٰ اور بلند علمی مقام (جو تمام احکامات اور تعلیمات الھٰی پر ایسے احاطہ کی صورت میں ہو جس میں غلطی اور اشتباہ کی گنجائش نہ ہو) کی موجودگی کا علم صرف خدا اور رسول ﷺ کے پاس ہی ہو سکتا ہے۔ بنانبر ایں ہمارے عقیدہ کی رو سے معصوم اماموں کی امامت لوگوں کی رائے سے نہیں حاصل ہوسکتی۔
امام کا تقرر
شیعہ عقیدہ ہے کہ: پیغمبر اکرم ﷺ نے اپنے بعد والے اماموں کو متعین فرمایا ہے۔ حدیث ثقلین (جو مشہور و معروف ہے) میں حضور ﷺ نے اماموں کا اجمالی ذکر کیا ہے۔ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ”خم“ نامی جگہ پر پیغمبر اکرم ﷺ نے کھڑے ہوکر ایک خطبہ دیا۔ اس کے بعد فرمایا: میں عنقریب تم لوگوں سے جدا ہو جاؤں گا۔ ’’أنّي تارك فيكم الثقلين: أوّلهما كتاب اللّه فيه الهدى والنور وأهل بيتي، اُذكّركم اللّه في أهل بيتي‘‘[2]
یعنی میں تمہارے درمیان دو گران قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ ان میں سے پہلی چیز کتاب اللہ ہے جس میں نور اور ہدایت ہے اور (دوسری چیز) میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ میرے اہل بیت کے سلسلے میں خدا کو فراموش نہ کرنا (آنحضرت ﷺ نے یہ جملہ تین بار دہرایا)۔
صحیح ترمذی میں بھی اس بات کا ذکر ہوا ہے اور صریحاً مذکور ہے کہ اگر ان دونوں سے متمسک رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔[3] یہ حدیث سنن دارمی[4]، خصائص نسائی[5]، مسند احمد[6]، اور کتاب کنز العمال[7] اور دیگر مشہور و معروف اسلامی کتب میں مذکور ہے۔ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہوسکتا۔ حقیقت میں اس حدیث کا شمار ان متواتر احادیث میں ہوتا ہے جن کا انکار کوئی مسلمان نہیں کرسکتا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ مختلف مواقع پر یہ حدیث بیان فرمائی ہے۔
واضح سی بات ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کی ذرّیت کے سارے لوگ اس عظیم مرتبے کے حامل اور قرآن کے ہم پلّہ نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا یہ پیغمبر اکرم ﷺ کی ذرّیت میں سے فقط معصوم اماموں کی طرف اشارہ ہے (یاد رہے کہ صرف کمزور اور مشکوک احادیث میں اہل بیتی کی جگہ لفط سنّتی مذکور ہے)۔
اس سلسلے میں ہم ایک اور معروف حدیث سے استدلال کریں گے (جو صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ترمذی، صحیح ابوداؤد، مسند حنبل اور دیگر کتب میں مذکور ہے)۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’لَا يَزَالُ الدِّينُ قَائِمًا حتى تَقُومَ السَّاعَةُ أو يَكُونَ عَلَيْكُمْ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً‘‘[8] یعنی دین اسلام قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے یا بارہ خلیفہ تم پر حکومت کریں، یہ خلفاء سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ شیعہ عقیدہ ہے کہ: ان روایات کی قابل قبول تفسیر صرف وہی ہوسکتی ہے جو بارہ اماموں کے متعلق شیعہ امامیہ نے کی ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ کیا اس کے علاوہ کوئی معقول تفسیر ہو سکتی ہے؟
خاتمہ
شیعہ عقیدہ کے مطابق امامت ایک الٰہی منصب ہے جس کی اہم خصوصیات ہوتی ہیں۔ جو انسانوں کی ہدایت اور دین کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ شیعہ عقیدہ یہ مانتا ہے کہ امام معصوم، صاحبِ علم اور خدا کی طرف سے منصوص ہوتے ہیں۔ یہی شیعہ عقیدہ امام کو صراطِ مستقیم کا حقیقی رہنما اور اسلام کے تسلسل کا ضامن سمجھتا ہے۔
[1]۔ بقرہ: ۱۲۴۔
[2]۔ مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۴، ص۱۸۷۳۔
[3]۔ ترمذی، صحیح ترمذی، ج۵، ص۶۶۲۔
[4]۔ درامی، سنن دارمی، ج۲، ص ۴۴۲۲۔
[5]۔ نسائی، خصائص نسائی، ص۲۱۔
[6]۔ ابن حنبل، مسند احمد، ج۵، ص۱۸۲۔
[7]۔ متقی، کنز العمال، ج۱۰، ص۱۸۵، حدیث ۹۴۵۔
[8]۔ مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۴۵۳؛ (یہی عبارت مختصر سے فرق کے ساتھ ملاحظہ ہو) مسلم بن حجاج، صحیح بخاری، ج۴، ص۱۰۱؛ ترمذی، صحیح ترمذی، ج۴، ص۵۰۱؛ ابوداود، صحیح ابی داؤد، ج۴، کتاب المہدی۔
کتابیات
1۔ قرآن مجید۔
2۔ ابن حنبل، احمد بن محمد، مسند أحمد بن حنبل، بیروت، مؤسسة الرسالة، ۱۴۱۶ق۔
3۔ ابوداود، سلیمان بن اشعث، صحيح سنن أبي داود، کویت، غراس، ۱۴۲۳ق۔
4۔ ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذي، بیروت، دارالفكر، ۱۴۰۳ق۔
5۔ دارمی، عبدالله بن عبدالرحمن، سنن الدارمي، ریاض، مرکز التراث الثقافي المغربي، ۱۴۲۱ق۔
6۔ متقی، علی بن حسام الدین، کنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال، بیروت، مؤسسة الرسالة، ۱۴۰۹ق۔
7۔ مسلم بن حجاج، صحيح مسلم، بیروت، دار إحياء التراث العربي، 1374ق۔
8۔ نسائی، احمد بن علی، خصائص أميرالمؤمنين علي بن أبي طالب (النسائی)، بیروت، المکتبة العصرية، ۱۴۲۴ق۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
مکارم شیرازی، ناصر، ہمارے عقیدے (ترجمہ اردو: آيين ما)، ص 57-61، (یہ کتاب برقی شکل میں نشر ہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (ع) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے)۔