حدیث غدیر کو سمجھنے کی کنجی یہ ہے کہ جملہ "من کنت مولاہ فعلی مولاہ” میں وارد شدہ لفظ مولا کو سمجھ لیں۔ لفظ مولا کے معنی کو سمجھنے کے بعد قدرتی طور پر حدیث غدیر اور لفظ مولا کا مفہوم بھی واضح ہوجائے گا۔
قرآن میں لفظ مولا کے معنی
سب سے پہلے یہ امر قابل غور ہے کہ قرآن مجید میں لفظ مولا، "اولی” اور "ولی” کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسے:
فَٱلْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ وَلَا مِنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مَأْوَىٰكُمُ ٱلنَّارُ هِىَ مَوْلَىٰكُمْ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ[1]
تو آج (قیامت کے دن) نہ تم سے کوئی فدیہ یا عوض لیا جائے گا اور نہ کفار سے، تم سب کا ٹھکانا جہنم ہے وہی تم سب کا صاحب اختیار (مولا) ہے اور تمہارا بدترین انجام ہے۔
اسلام کے بڑے اور نامور مفسرین اس آیت شریفہ کی تفسیر میں کہتے ہیں: اس آیت میں لفظ مولا "اولی” کے معنی میں ہے، کیونکہ یہ افراد، جو ناشائستہ اور برے اعمال کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کے لئے ان اعمال کے عوض جہنم کی آگ کے سوا کوئی اور چیز سزاوار نہیں ہے۔
يَدْعُوا۟ لَمَن ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِ لَبِئْسَ ٱلْمَوْلَىٰ وَلَبِئْسَ ٱلْعَشِيرُ[2]
"یہ اس بت کو پکارتا ہے جس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ قریب تر ہے وہ اس کا بدترین سرپرست (ولی) اور بدترین ساتھی ہے”۔
یہ آیت شریفہ اپنے مضمون اور دیگر آیات کے قرینے کی روشنی میں مشرکوں اور بت پرستوں کے عمل سے متعلق ہے کہ وہ بتوں کو اپنا صاحب اختیار (ولی) جانتے تھے اور اسے اپنے سرپرست (ولی) کی حیثیت سے مانتے تھے اور "ولی” کی حیثیت سے ہی ان کو پکارتے تھے۔
ان دو آیتوں اور اسی طرح دوسری آیات، جن کے ذکر سے ہم صرف نظر کرتے ہیں، سے اجمالی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ لفظ مولا کے معنی وہی "اولیٰ” اور "ولی” کے ہیں۔
من کنت مولاہ کا مقصد
اب دیکھنا یہ ہے کہ جملہ "من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ” کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس کا مقصد وہی نفوس (جانوں) پر تصرف رکھنے میں اولیٰ ہونا ہے جس کا لازمہ کسی شخص کا انسان پر ولایت مطلقہ رکھنا ہے یا حدیث کا مفہوم کچھ اور ہے۔ جیسا کہ بعض لوگوں نے تصور کیا ہے کہ حدیث غدیر میں لفظ مولا دوست اور ناصر کے معنی میں ہے۔
بے شمار قرائن اس کے گواہ ہیں کہ لفظ مولا سے مراد وہی پہلا معنی ہے جسے علماء اور دانشوروں نے ولایت مطلقہ سے تعبیر کیا ہے اور قرآن مجید نے خود پیغمبر ﷺ کے بارے میں فرمایا ہے:
"ٱلنَّبِىُّ أَوْلَىٰ بِٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ”[3]
بیشک نبی تمام مؤمنین سے ان کے نفوس کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔
اگر کوئی شخص (تسلط اور تصرف کے لحاظ سے) کسی کی جان پر خود اس سے زیادہ شائستہ و سزاوار ہوتو وہ قدرتی طور پر اس کے مال پر بھی یہی اختیار رکھتا ہوگا۔ اور جو شخص کسی انسان کی جان و مال پر اولی بالتصرف (صاحب اختیار) ہو، وہ اس کے بارے میں ولایت مطلقہ رکھتا ہے۔
اس بنا پر انسان کو اس (ولی) کے تمام احکام کی اطاعت کرنی چاہئے اور جس چیز سے وہ منع کرے اس سے باز رہنا چاہئے۔
یہ عہدہ اور منصب، خدا کی طرف سے پیغمبر ﷺ کو دیا گیا تھا۔ آپ ﷺ خود ذاتی طور پر ہرگز اس منصب و مقام کے حامل نہیں تھے۔
واضح تر الفاظ میں یوں کہا جائے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے پیغمبر ﷺ کو لوگوں کی جان و مال پر مسلط فرمایا ہے۔ آپ ﷺ کو ہر قسم کے امر و نہی کے اختیارات دئیے ہیں اور آپ کے احکام و اوامر کی مخالفت کو خدا کے احکام کی مخالفت جانا ہے۔
چونکہ قطعی اور یقینی دلائل سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اس حدیث میں لفظ مولا کے معنی وہی ہیں جو آیت شریفہ میں "اولیٰ” کے ہیں، لہذا قدرتی طور پر امیر المؤمنین حضرت علی (ع) اسی منصب و مقام کے حامل ہوئے جس کے آیت شریفہ کی نص کے مطابق پیغمبر ﷺ تھے۔
یعنی اپنے زمانے میں امت کے پیشوا اور معاشرے کے رہبر اور لوگوں کی جان و مال پر اولی بالتصرف (صاحب اختیار) تھے۔ اور امامت کا یہی وہ عظیم اور بلند مرتبہ ہے جسے ولایت الٰہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے (یعنی وہ ولایت جو خدا کی طرف سے بعض خاص افراد کو وسیع پیمانے پر عطاء ہوتی ہے)۔
لفظ مولا کے معنی کے لئے دیگر دلائل
اب ہم وہ قرائن و شواہد بیان کرتے ہیں جن سے پوری طرح ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث میں لفظ مولا کے معنی تمام امور میں "اولی بالتصرف” اور صاحب اختیار ہونے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ ذیل میں ایسے چند شواہد ملاحظہ ہوں:
پہلی دلیل
غدیر کے تاریخی واقعہ کے دن پیغمبر ﷺ کے شاعر حسّان بن ثابت حضور اکرم سے اجازت حاصل کرکے کھڑے ہوئے اور پیغمبر اکرم ﷺ کے بیانات کے مضمون کو اشعار کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا۔ یہاں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس فصیح، بلیغ، اور عربی زبان کے رموز سے واقف شخص نے لفظ مولا کی جگہ پر امام و ہادی استعمال کیا ہے، ملاحظہ ہو:
فَقَالَ لَهُ: قُمْ يَا عَلِيُّ فَإِنَّنِي رَضِيتُكَ مِنْ بَعْدِي إِمَاماً وَ هَادِياً[4]
یعنی پیغمبر ﷺ نے حضرت علی (ع) کی طرف رخ کرکے ان سے فرمایا: "اٹھو کہ میں نے تمہیں اپنے بعد لوگوں کا امام و ہادی مقرر کردیا ہے۔”
واضح رہے کہ حسّان نے پیغمبر ﷺ کے کلام میں موجود لفظ مولا سے امت کی امامت، پیشوائی اور ہدایت کے علاوہ کوئی اور معنی نہیں لئے ہیں۔
صرف حسّان ہی لفظ مولا سے یہ نہیں سمجھے، بلکہ اس کے بعد بھی اسلام کے عظیم شعرا۔ جن میں سے اکثر اعلیٰ درجے کے شعرا اور بعض عربی زبان کے استاد شمار ہوتے تھے۔ نے بھی اس لفظ سے وہی معنی لئے ہیں جو حسان نے سمجھے تھے، یعنی امت کی امامت و پیشوائی۔
دوسری دلیل
امیر المؤمنین (ع) نے معاویہ کو لکھے گئے اپنے چند اشعار میں حدیث غدیر کے بارے میں یوں فرمایا ہے:
"وَ أَوْجَبَ لِي وَلَايَتَهُ عَلَيْكُمْ رَسُولُ اللَّهِ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍ”[5]
” پیغمبر ﷺ نے میری ولایت کو تم لوگوں پر غدیر کے دن واجب فرمایا ہے۔”
علی (ع) سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو ہمارے لئے حدیث کے حقیقی مفہوم کو واضح کرسکے؟ جبکہ شیعہ و سنی آپ (ع) کے علم، امانتداری اور تقویٰ کے سلسلے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت (ع) حدیث غدیر سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"پیغمبر خدا ﷺ نے غدیر کے دن میری ولایت کو تم لوگوں پر واجب فرمایا۔”
کیا اس وضاحت سے یہ مطلب نہیں نکلتا ہے کہ غدیر کے دن حاضر تمام لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے بیانات سے دینی سرپرستی اور معاشرے کی رہبری کے علاوہ کوئی اور مفہوم نہیں سمجھا تھا؟
تیسری دلیل
خود حدیث میں ایسے قرائن موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ کے اس جملے کا وہی مطلب، یعنی حضرت علی (ع) کا "اولی بالتصرف” و صاحب اختیار ہونا ہے۔ کیونکہ پیغمبر ﷺ نے جملہ "من کنت مولاہ” فرمانے سے پہلے یوں فرمایا تھا:
"ألست أولي بكم من أنفسكم"
کیا میں تم لوگوں پر تمہارے نفوس سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا ہوں؟
اس جملے میں پیغمبر ﷺ نے "اولی بکم من انفسکم” سے استفادہ فرمایا ہے اور اپنے آپ کو تمام لوگوں پر ان کے نفوس سے زیادہ صاحب اختیار بتایا ہے۔
اس کے فوراً بعد فرماتے ہیں: "من كنت مولاه فهذا علي مولاه”۔
ان دو جملوں کی ترتیب سے ذکر کئے جانے کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس سے پیغمبر ﷺ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ علی (ع) بھی میری طرح لوگوں کے نفوس پر صاحب اختیار ہیں جسے آپ نے پہلے اپنے لئے ثابت فرمایا اور یہ جو آپ نے فرمایا کہ: "اے لوگو! وہی منصب و مقام جس کا میں حامل ہوں، علی (ع) بھی اسی منصب کے حامل ہیں۔” اگر پیغمبر ﷺ کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ہوتا تو اپنی اولویت کے بارے میں پہلے لوگوں سے اقرار لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
چوتھی دلیل
پیغمبر ﷺ نے اپنی تقریر کی ابتداء میں لوگوں سے اسلام کے تین اہم اصول (توحید، نبوت، معاد) کے بارے میں اقرار لیتے ہوئے فرمایا:
"أَلَسْتُمْ تَشْهَدُونَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ وَ أَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَ النَّارَ حَقٌّ”
یعنی، کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے ہوکہ خدا کے سوا کوئی پروردگار نہیں ہے، محمد اس کا بندہ اور رسول ہے اور بہشت و جہنم حق ہیں۔
یہ اقرار لینے کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ لوگوں کے ذہنوں کو اس پر آمادہ کرنا چاہتے تھے کہ علی کے بارے میں جس منصب کا اعلان کرنے والے ہیں وہ انہی اصولوں کے مانند اہم ہے، اور لوگ جان لیں کہ آپ کی ولایت و خلافت کا اقرار اسلام کے مذکورہ تین اصول کے مانند ہے جس کا سب نے اقرار و اعتراف کیا ہے؟
اگر لفظ مولا کا مقصد دوست اور مددگار لیا جائے تو اس صورت میں جملوں کا سلسلہ ہی ٹوٹ جاتا ہے اور پیغمبر ﷺ کے کلام کی بلاغت و پائداری ختم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ منصب ولایت سے الگ ہٹ کر حضرت علی (ع) خود ایسے عظیم مسلمان تھے جنہوں نے ایسے معاشرے میں پرورش پائی تھی جہاں پر تمام مؤمنوں سے دوستی کی ضرورت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔
چہ جائیکہ علی (ع) جیسے مؤمن سے دوستی جسے پیغمبر ﷺ اس اہتمام و شان کے ساتھ ایک بڑے اجتماع میں اعلان فرماتے! اور اس صورت میں یہ امر اتنا اہم بھی نہیں تھا کہ اسلام کے تین بنیادی اصولوں کے برابر قرار پاتا۔
پانچویں دلیل
پیغمبر ﷺ اپنے خطبے کے آغاز میں اپنی رحلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"أنّه يوشك أن أُدعى فأُجيب”
"قریب ہے کہ میں دعوت حق کو لبیک کہوں”
یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ اپنی رحلت کے بعد کے لئے کوئی اہتمام و اقدام کرنا چاہتے تھے تاکہ اپنے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کریں۔
اور بلاشبہ واضح ہے کہ جو چیز اس خلا کو پُر کرسکتی تھی وہ صرف حضرت علی (ع) کی خلافت و امامت تھی کہ رسول خدا کی رحلت کے بعد امور کی باگ ڈور حضرت علی (ع) اپنے ہاتھ میں لے لیں، نہ کہ علی (ع) کی محبت و دوستی یا ان کی نصرت و مدد!
چھٹی دلیل
پیغمبر اسلام ﷺ نے جملہ "من کنت مولاہ” کے بعد یوں فرمایا:
"اللَّهُ أَكْبَرُ عَلَى إِكْمَالِ الدِّينِ وَ إِتْمَامِ النِّعْمَةِ وَ رِضَى الرَّبِّ بِرِسَالَتِي وَ الْوَلَايَةِ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ”
میں خدا کی طرف سے تکمیل دین، اتمام نعمت، اپنی رسالت اور علی (ع) ابن ابی طالب کی ولایت پر تکبیر کہتا ہوں۔
ساتویں دلیل
اس سے واضح اور بہتر کیا گواہی ہوسکتی ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کے منبر سے نیچے تشریف لانے کے بعد شیخین اور اصحاب رسول کی ایک بڑی جماعت نے حضرت علی (ع) کی خدمت میں مبارک باد پیش کی اور مبارک بادی کا یہ سلسلہ سورج ڈوبنے تک جاری رہا؟
مزے کی بات یہ ہے کہ شیخین پہلے افراد تھے جنہوں نے امام (ع) سے کہا:
"هَنيئاً يَا بْنَ أَبي طالِبٍ أَصْبَحْتَ وَ أَمْسَيْتَ مَوْلى كُلِّ مُؤمِنٍ وَ مُؤمِنَةٍ"
"مبارک ہوآپ کو یہ منصب، اے علی (ع)! کہ آپ ہر مومن زن و مرد کے مولا ہوگئے”
حقیقت میں حضرت علی (ع) اس روز امت کی سرپرستی و رہبری کے علاوہ کسی اور منصب کے مالک نہیں بنے تھے تبھی وہ اس قسم کی مبارکباد کے مستحق قرار پائے اور اسی وجہ سے اس دن ایسی بے مثال تقریب اور ایسے عظیم اجتماع کا اہتمام کیا گیا۔
آٹھویں دلیل
اگر مقصد صرف علی (ع) کی دوستی کا اعلان تھا تو یہ ضروری نہیں تھا کہ پیغمبر اسلام ﷺ ایسے گرمی کے موسم میں حجاج کے ایک لاکھ کے مجمع کو روک کر اور لوگوں کو تپتی ریت پر بٹھا کر مفصل خطبہ بیان کرتے اور اس کے بعد اس مسئلہ کو پیش کرتے۔
کیا قرآن مجید نے مؤمن افراد کو ایک دوسرے کا بھائی نہیں پکارا ہے؟ جیسا کہ فرمایا ہے:
إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ[6]
"با ایمان لوگ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں”
کیا قرآن مجید نے مؤمنوں کا تعارف ایک دوست کے دوسرے کی حیثیت سے نہیں کرایا ہے جیسا کہ فرماتا ہے:
وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ[7]
"با ایمان لوگ ایک دوسرے کے دوست ہیں”
علی (ع) بھی تو اسی با ایمان معاشرے کے ایک فرد تھے، اس لئے اس کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ پیغمبر ﷺ الگ سے اور وہ بھی اس اہتمام کے ساتھ علی (ع) کی دوستی اور محبت کا اعلان فرماتے!!
نتیجہ
غدیر خم کے موقع پر پیغمبر اکرم ﷺ کے خطبے میں استعمال ہونے والے لفظ مولا کو صرف دوستی یا مدد کے معنی تک محدود کرنا حقائق سے انحراف ہے۔ خطبے کے سیاق و سباق اور تمام قرائن و شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہاں لفظ مولا کا استعمال ولایت، وصایت، سیادت، خلافت، جانشین، سرپرست اور صاحب اختیار ہونے کے معنی میں ہوا ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ سورہ حدید، آیت ۱۵۔
[2]۔ سورہ حج، آیت ۱۳۔
[3]۔ سورہ احزاب، آیت ۶۔
[4]۔ الخوارزمي، مناقب خوارزمی، ص۸۰۔
[5]۔ العاملي، الإلهيات على هدى الكتاب والسُّنة والعقل، ج۴، ص۹۸۔
[6]۔ سورہ حجرات، آیت ۱۵۔
[7]۔ سورہ توبہ، آیت ۷۱۔
فہرست منابع
1۔ قرآن مجید۔
2۔ الخوارزمي، الموفق بن احمد، مناقب خوارزمی، قم، مؤسسة النشر الإسلامي ، ۱۴۱۱ھ ق.
3۔ محمّد مكي، الإلهيات على هدى الكتاب والسُّنة والعقل، قم، المركز العالمي للدراسات الإسلامية، ۱۴۱۲ھ ق۔
مضمون کا مآخذ
سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی فصل، بیسویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ ھ ش۔