- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/11/13
- 0 رائ
وصی رسول، زوج بتول، امام اول، پدر ائمہ، مولود کعبہ حضرت علی علیہ السلام کی تاریخ ولادت با سعادت، ۱۳/رجب کے موقع پر ہم شیعیان اہل بیت علیہم السلام اور تمام مسلمانوں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب تقوے و عدالت کے مجسمے، آزادی کے علمبردار امام علی علیہ السلام کی تمنائیں، آپ کے عظیم بیٹے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ذریعے پوری ہوں گی، اس وقت انسان امام علی علیہ السلام کے ذریعے بیان کیے گئے کمالات کے مطالب کو اچھای طرح سمجھے گا۔
چونکہ اس عظیم شخصیت کے کردار کو ایک مقالہ میں بیان کرنا نا ممکن ہے، لہذا اس پر مسرت موقع پر ہم صرف خانہ کعبہ میں آپ کی ولادت کے واقعہ کو ”مولود کعبہ“ کے عنوان سے اس مقالہ میں آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری یہ کوشش ربّ کعبہ کی بارگاہ میں قبول ہوگی۔
ہمارے ذہن اور ضمیر میں بہت سے ایسے سوالات چھپے ہوئے ہیں جو کسی مناسب وقت اور موقع پر ہی ظاہر ہوتے ہیں۔ انھیں سوالوں میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کعبہ میں کیوں پیدا ہوئے؟ جب حج کے موقع پر مسجد الحرام میں داخل ہو نے پر خانہ کعبہ کو دیکھتے ہیں اور اس کے گرد طواف کرتے ہیں تو دل و دماغ میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا حضرت علی علیہ السلام حقیقتاً کعبہ میں پیدا ہوئے ہیں یا یہ صرف خطیبوں و شاعروں کے ذہن کی اپج ہے؟ اگر آپ کی ولادت کا واقعہ سچ ہے توآپ کی ولادت کعبہ میں کس طرح ہوئی؟ کیا شیعوں اور سنیوں کی پرانی کتابوں میں اس واقعہ کا ذکر ملتا ہے؟ یہ مقالہ اسی سوال کا جواب ہے۔
شیخ صدوق کا نظریہ
شیخ صدوق نے اپنی تین کتابوں میں متصل سند کے ساتھ سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں یزید بن قعنب کو یہ کہتے سنا کہ میں عباس بن عبد المطلب اور بنی عبد العزیٰ کے کچھ لوگوں کے ساتھ خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک فاطمہ بن اسد (مادر حضرت علی علیہ السلام) خانہ کعبہ کی طرف آئیں۔ وہ نو ماہ کے حمل سے تھیں اور ان کے درد زایمان ہو رہا تھا۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں کو دعا کے لیے اٹھایا اور کہا کہ اے اللہ! میں تجھ پر، تیرے نبیوں پر اور تیری طرف سے نازل ہونے والی کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں۔ میں اپنے جد ابراہیم علیہ السلام کی باتوں کی تصدیق کرتی ہوں اور یہ بھی تصدیق کرتی ہوں کہ اس مقدس گھر کی بنیاد انھوں نے ہی رکھی ہے۔ بس اس گھر کی بنیاد رکھنے والے کے واسطے سے اور اس بچے کے واسطے سے جو میرے شکم میں ہے، میرے لئے اس پیدائش کے مرحلہ کو آسان فرما۔
یزید بن قعنب کہتا ہے کہ ہم نے دیکھا کہ خانہ کعبہ میں پشت کی طرف درار پیدا ہوئی۔ فاطمہ بن اسد اس میں داخل ہو کر ہماری نظروں سے چھپ گئیں اور دیوار پھر سے آپس میں مل گئی۔ ہم نے اس واقعہ کی حقیقت جاننے کے لیے خانہ کعبہ کا تالا کھولنا چاہا، مگر وہ نہ کھل سکا، تب ہم نے سمجھا کہ یہ امر الہی ہے۔
چار دن کے بعد فاطمہ بنت اسد علی کو گود میں لئے ہوئے خانہ کعبہ سے باہر آئیں اور کہا کہ مجھے پچھلی تمام عورتوں پر فضیلت دی گئی ہے۔ کیونکہ آسیہ بن مزاحم (فرعون کی بیوی) نے اللہ کی عباد ت وہاں چھپ کر کی جہاں اسے پسند نہیں ہے (مگر یہ کہ ایسی جگہ صرف مجبوری کی حالت میں عبادت کی جائے۔) مریم بنت عمران (مادر حضرت عیسیٰ علیہ السلام) نے کھجور کے پیڑ کو ہلایا تا کہ اس سے تازی کھجوریں کھا سکے۔ لیکن میں وہ ہوں جو بیت اللہ میں داخل ہوئی اور جنت کے پھل اور کھانے کھائے۔ جب میں نے باہر آنا چاہا تا ہاتف نے مجھ سے کہا کہ اے فاطمہ! آپ نے اس بچے کا نام علی رکھنا۔ کیونکہ وہ علی ہے اور خدائے علی و اعلیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اس کا نام اپنے نام سے مشتق کیا ہے، اسے اپنے احترام سے احترام دیا ہے اور اپنے علم غیب سے آگاہ کیا ہے۔ یہ بچہ وہ ہے جو میرے گھر سے بتوں کو باہر نکالے گا، میرے گھر کی چھت سے آذان کہے گا اور میری تقدیس و تمجید کرے گا۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس سے محبت کرتے ہوئے اس کی اطاعت کریں اور بد بخت ہیں وہ لوگ جو اس سے دشمنی رکھیں اور گناہ کریں۔
شیخ طوسی کا نظریہ
شیخ طوسی نے اپنی آمالی میں متصل سند کے ساتھ ابن شاذان سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ ابراہیم بن علی نے اپنی سند کے ساتھ امام صادق علیہ السلام سے اور انھوں نے اپنے آباء و اجداد کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ عباس بن مطلب و یزید بن قعنب کچھ بنی ہاشم و بنی عبد العزی کے ساتھ خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک فاطمہ بنت اسد (مادر حضرت علی علیہ السلام) خانہ کعبہ کی طرف آئیں۔ وہ نو مہینے کی حاملہ تھیں اور انھیں درد زہ اٹھ رہا تھا۔ وہ خانہ کعبہ کے برابر میں کھڑی ہوئیں اور آسمان کی طرف رخ کرکے کہاکہ اے اللہ! میں تجھ پر، تیرے نبیوں پر اور تیری طرف سے نازل ہونے والی تمام کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں۔ میں اپنے جد ابراہیم علیہ السلام کے کلام کی اور اس بات کی تصدیق کرتی ہوں کہ اس گھر کی بنیاد انھوں نے رکھی۔ بس اس گھر، اس کے معمار اور اس بچے کے واسطے سے جو میرے شکم میں ہے اور مجھ سے باتیں کرتا ہے، جو کلام کے ذریعے میرا انیس ہے اور جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ یہ تیری نشانیوں میں سے ایک ہے، اس پیدائش کو میرے لیے آسان فرما۔
عباس بن عبد المطلب اور یزید بن قعنب کہتے ہیں کہ جب فاطمہ بنت اسد نے یہ دعا کی تو خانہ کعبہ کی پشت کی دیوار پھٹی اور فاطمہ بنت اسد اندر داخل ہوکر ہماری نظروں سے غائب ہوگئیں اور دیوار پھر سے آپس میں مل گئی۔ ہم نے کعبہ کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کی تاکہ ہماری کچھ عورتیں ان کے پاس جاسکیں، لیکن در نہ کھل سکا، اس وقت ہم نے سمجھا کہ یہ امر الہی ہے۔
فاطمہ تین دن تک خانہ کعبہ میں رہیں۔ یہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ مکہ کے تمام مرد و زن گلی کوچوں میں ہر جگہ اسی بارے میں بات چیت کرتے نظر آتے تھے۔ تین دن بعد دیوار پھر اسی جگہ سے پھٹی اور فاطمہ بنت اسد علی علیہ السلام کو گود میں لیے ہوئے باہر تشریف لائیں اور آپ نے فرمایا کہ:
اے لوگو! اللہ نے اپنی مخلوقات میں سے مجھے چن لیا ہے اور گزشتہ تمام عورتوں پر مجھے فضیلت دی ہے۔ پچھلے زمانے میں اللہ نے آسیہ بنت مزاحم کو چنا اور انہوں نے چھپ کر، اس جگہ (فرعون کے گھر میں) عبادت کی جہاں پر مجبوری کی حالت کے علاوہ اسے اپنی عبادت پسند نہیں ہے۔ اس نے مریم بنت عمران کو چنا اور ان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کو آسان کیا۔ انھوں نے بیابان میں کھجور کے سوکھے درخت کو ہلایا اور اس سے ان کے لیے تازی کھجوریں ٹپکیں۔ ان کے بعد اللہ نے مجھے چنا اور ان دونوں اور تمام گزشتہ عورتوں پر فضیلت دی کیوں کہ میں نے خانہ خدا میں بچے کو جنم دیا، تین دن تک وہاں رہی اور جنت کے پھل و کھانے کھاتی رہی۔
جب میں نے بچے کو لے کر وہاں سے نکلنا چاہا تو ہاتف غیبی نے آواز دی، اے فاطمہ! میں علی و اعلیٰ ہوں۔ اس بچے کا نام علی رکھنا۔ میں نے اسے اپنی قدرت عزت اور عدالت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ میں نے اس کا نام اپنے نام سے مشتق کیا ہے اور اپنے احترام سے اسے احترام دیا ہے۔ میں نے اسے اختیار دیے ہیں اور اپنے علم غیب سے بھی آگاہ کیا ہے۔ میرے گھر میں پیدا ہونے والا یہ بچہ سب سے پہلے میرے گھر کی چھت سے اذان کہے گا، بتوں کو باہر نکال پھینکے گا، میری عظمت، مجد اور توحید کا قائل ہوگا۔ یہ میرے پیغمبر و حبیب، محمد کے بعد ان کا وصی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس سے محبت کرتے ہوئے اس کی مدد کریں اور دھکار ہے ایسے لوگوں پر جو اس کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کے حق سے انکار کردیں۔
نکتہ
کچھ کتابوں میں یہ صراحت کے ساتھ ملتا ہے کہ ہم نے دیکھا کہ کعبہ پشت کی طرف سے کھلا اور فاطمہ بنت اسد اس میں داخل ہوگئیں۔ اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پشت کعبہ کہاں ہے؟
بہت سی روایتوں میں وجہ کعبہ (کعبہ کے فرنٹ) کا ذکر ہوا ہے اور اس سے مراد وہ حصہ ہے جس میں کعبہ کا دروازہ لگا ہوا ہے اور برابر میں مقام ابراہیم علیہ السلام ہے۔ لہذا اس بنیاد پر پشت کعبہ کا وہ مقام ہے جو رکن یمانی و رکن غربی کے بیچ واقع ہے۔
ابن مغازلی کا نظریہ
اوپر ہم دو شیعہ علماء کا نظریہ بیان کرچکے ہیں۔ اب ہم یہاں پانچویں صدی کے سنّی عالم ابن مغازلی کا نظریہ بیان کر رہے ہیں۔
ابن مغازلی متصل سند کے ساتھ موسیٰ بن جعفر﷼ سے وہ اپنے بابا امام صادق﷼ سے وہ اپنے بابا امام محمد باقر﷼ سے اور انھوں نے اپنے بابا امام سجاد علیہم السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں اور میرے بابا امام (حسین علیہ السلام) جد بزرگوار (پیغمبر اسلام) کی قبر
کی زیارت کے لیے گئے تھے۔ وہاں پر بہت سے عورتیں جمع تھیں، ان میں سے ایک ہمارے پاس آئی۔ میں نے اس سے پوچھا خدا تجھ پر رحمت کرے! تو کون ہے؟
اس نے کہامیں زیدہ بنت قریبہ بن عجلان قبیلہ بنی ساعدہ سے ہوں۔
میں نے اس سے کہا کہ کیا تو کچھ کہنا چاہتی ہے؟
اس نے جواب دیا ہاں! خدا کی قسم میری ماں امّ عمارہ بنت عبادہ بن نضلہ بن مالک بن العجلان ساعدی نے مجھ سے نقل کیا ہے کہ میں کچھ عرب عورتوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ ابوطالب غمگین حالت میں ہمارے پاس آئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اے ابوطالب! آپ کے کیا حال ہیں؟ ابو طالب نے مجھ سے کہا کہ فاطمہ بنت اسد درد زہ سے تڑپ رہی ہیں۔ یہ کہہ کر انھوں نے اپنا ہاتھ ماتھے پر رکھا ہی تھا کہ اچانک محمد وہاں پر تشریف لائے اور پوچھا کہ چچا آپ کے کیا حال ہیں؟ ابوطالب نے جواب دیا کہ فاطمہ بنت اسد درد زہ سے پریشان ہیں۔ پیغمبر نے ابوطالب کا ہاتھ پکڑا اور وہ دونوں فاطمہ بنت اسد کے ساتھ کعبہ پہونچے۔ پیغمبر اسلام نے انھیں کعبہ کے دروازے کے پاس بٹھایا اور کہا کہ اللہ کا نام لیکر یہاں بیٹھ جاؤ۔
فاطمہ بنت اسد نے کعبہ کے دروازے پر یک ناف بریدہ بچے کو جنم دیا۔ اس جیسا خوبصورت بچہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ ابوطالب نے اس بچے کا نام علی رکھا اور پیغمبر اسلام انھیں گھر لے کر آئے۔
امام سجاد علیہ السلام نے امّ عمارہ کی اس روایت کو سننے کے بعد کہا کہ میں نے اتنی اچھی بات کبھی نہیں سنی۔ ابن مغازلی کی یہ روایت اوپر بیان کی گئی دونوں شیعہ روایتوں سے مختلف ہے۔ لیکن یہ روایت حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت پر دلالت کرتی ہے۔
دوسرے علماء کا نظریہ
حضرت علی السلام کی کعبہ میں ولادت کے سلسلہ میں ہم اب تک آپ کے سامنے تین تفصیلی روایتیں بیان کر چکے ہیں۔ ان روایتوں کے علاوہ بہت سے شیعہ و سنّی علماء نے مختصر طور پر بھی اس روایت کو بیان کیاہے۔ یعنی کعبہ میں ولادت کو تو بیان کیا ہے مگر اس کے جزیات کو بیان نہیں کیا ہے۔
علامہ امینی (مرحورم) نے اپنی کتاب الغدیر میں حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت کے واقعہ کو اہل سنت کی سولہ اور شیعوں کی پچاس اہم کتابوں کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ دوسری صدی ہجری سے کتاب لکھے جانے تک کے ۴۱/ شاعروں کے نام لکھے ہیں جنھوں نے اس واقعہ کو نظم کیا ہے اور کچھ شعر بھی نقل کیے ہیں۔
علامہ مجلسی (مرحوم) نے بحار الانوار میں حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت کے واقعہ کو ۱۸/ شیعہ کتابوں سے نقل کیا ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی (مرحوم) نے احقاق الحق کی شرح کی ساتویں جلد میں حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت کے واقعہ کو اہل سنت کی ۱۲/ کتابوں کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔
اور سترہویں جلد میں اس واقعہ کو اہل سنت کی اکیس کتابوں سے نقل کیا ہے۔ اس کے بعد علامہ آقا مہدی صاحب قبلہ کی کتاب علی والکعبہ کے حوالے سے اہل سنت کے ان ۸۳/ علماء کے نام لکھے ہیں، جنھوں نے حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کو کعبہ میں تسلیم کیا ہے۔
نوٹ
شیعہ و سنّی کتابوں کی تعداد میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ کچھ علماء کا بہت زیادہ تحقیق کا ارادہ نہیں تھا۔ بس ان کے پاس جتنی کتابیں تھیں یا انھوں نے جتنی کتابوں میں پڑھا تھا انہی کے نام لکھے ہیں۔ یا امکانات کمی کی وجہ سے وہ تمام کتابوں کو نہیں دیکھ سکے۔ کچھ علماء کا پوری تحقیق کا ارادہ تھا اور ان کے پاس امکانات بھی موجود تھے، لہذا انھوں نے زیادہ کتابوں کے حوالے سے لکھا۔ چونکہ آج وسائل اور کتابیں موجود ہیں لہذا اگر اب کوئی اس بارے میں تحقیق کرنا چاہے تو اسے ایسی بہت سی کتابیں اور علماء مل جائیں گے جنھوں نے حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کو کعبہ میں تسلیم کیا ہے۔