- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 13 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/12/17
- 0 رائ
سوال۱۔ حضرت علی نے شهادت حضرت زهرا کے بعد ان کے دشمنوں سے کیوں انتقام نهیں لیا اور نہ انتقام لینے کا ارادہ کیا؟
پہلا جواب: جس دلیل کے پیش نظر نبی اکرم نے اپنے قتل کے خلاف سازشیں کرنے والوں سے انتقام نہیں لیا،جبکہ صحیح مسلم کے نقل کے مطابق[1]«اثنى عشر منهم حرب لله ولرسوله في الحياة الدنيا ويوم يقوم الاشهادان میں بارہ لوگ خدا اور اسکے رسولﷺ سے جنگ کرنے والے تھے،اور جب حذیفہ اور عمار یاسر نے انکے قتل کے بارے میں سوال کیا تو نبی اکرم ﷺنے فرمایا بہتر نہیں ہے کہ لوگ یہ کہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے قتل کی سازش کرنے والے اصحاب کو قتل کر دیا«أكره أن يتحدّث الناس أنّ محمداً يقتل أصحابه»[2] اسی دلیل کے پیش نظر علی نے بھی زہرا کے قاتلوں سے انتقام نہیں لیا۔
نبی اکرم ؐ نے فتح مکہ کے بعد اپنے چچا حمزہ کے قاتل وحشی سے انتقام نہیں لیا اسی سنت کی پیروی کرتے ہوئے علیؑ نے بھی زہرا کے قاتلوں سے انتقام نہیں لیا
سوال۲۔ کیوں حضرت علیؑ کے نبی اکرم کی بیٹی کے قاتل سے روابط تھےَ؟
حضرت علیؑ حضرت زہرا کے قاتلوں سے نہ صرف یہ کہ قطع تعلق رکھتے تھے بلکہ صحیح بخاری میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت علیؑ عمر کا چہرہ بھی دیکھنا نہیں چاہتے تھے ’’ كَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ‘‘ اسی طرح آپ عمر کو ستمگر جانتےتھے .
وَلَكِنَّكَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالأَمْرِ[3]
سوال۳۔ کیوں ہمیشہ عمر کی تعریف کرتے تھے؟
پہلی بات تو یہ ہے کی وہ چیز جس کی نسبت دیتے ہیں( کہ علیؑ نے نہج البلاغہ کے خطبہ 228 میں عمر کی تعریف کہ ہے) وہ سراسر جھوٹ اور غلط ہے کیوں اس میں کہیں بھی عمر کا نام ذکر نہیں ہوا ہے اہل سنت کے ایک بہترین عالم صبحی صالح اس بارے میں لکھتے ہیں کہ حضرت علیؑ کا کوئی ایک صحابی مراد ہے.[4]
دوسری بات: حضرت علیؑ نہج البلاغہ کے تیسرے خطبہ میں عمر کو تشدد پسند سختگیر، غلط بہانے بنانے والا جانتے تھے جیسا کہ فرماتے ہیں
خدا کی قسم لوگ خلافت کے دوسرے دور میں بڑے ہی رنج و الم میں گرفتار ہو گئے تھے،مرض نفاق میں مبتلا اور معترض ہو گئے تھے۔ میں نے اس طویل دردناک مدت میں صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں دیکھا۔
تیسری بات: صحیح مسلم کی روایت کے مطابق عمر اور ابو بکر کے بارے میں حضرت علیؑ کا نظریہ یہ تھا کہ وہ جھوٹے، گناہگار، مکار اور خائن ہیں[5]
سوال. ۴ کیوں حضرت علی کو اپنے خلافت کے زمانے میں حضرت زہرا کی شہادت کی یاد نہیں آئی
پہلی بات: نہج البلاغہ کے خطبہ 203 میں آیا ہے کہ حضرت علیؑ نے جناب زہرا کو دفن کرتے ہوئے یہ مرثیہ پڑھا أَمَّا حُزْنِي فَسَرْمَدٌ وَ أَمَّا لَيْلِي فَمُسَهَّدٌ ‘‘اب اس کے کے بعد سے موت کی آغوش تک میری راتیں غم و اندوہ اور جاگتے ہوئے کٹیں گی۔
دوسری بات: حضرت علیؑ نے اپنی حکومت کے دوران سلیم بن قیس کے سامنے شہادت حضرت زہرا کو بیان کیا اور فرمایا: فاطمہ دنیا چلی گئی مگر تازیانوں کے نشان بازو پر بازو بند کی طرح باقی رہے[6]
تیسر بات: ابن عباس کہتے ہیں کہ جنگ صفین میں علیؑ نے ایک کتاب جو نبی اکرمؐ کئ املا اور حضرت علیؑ کے خط مبارک سے لکھی ہوئے تھی پڑھا کہ کس طرح حضرت زہرا کی شہادت واقع ہوئی ہے[7]
سوال۵۔ کیوں علیؑ نے اپنے تین بیٹوں کا نام عمر، بکر اور عثمان رکھا؟
پہلا جواب: اس زمانے میں یہی نام مرسوم تھا ایسا نہیں ہے کہ حضرت علیؑ نے کسی کی محبت میں یہ نام رکھا ہو جیسا کہ ابن حضر عسقلانی نے اپنی کتاب الاصابہ فی معرفۃ الصحابہ‘‘ میں 21 صحابیوں کا نام ذکر کیا یے جن کا نام عمر، 26 لوگوں کا عثمان اور تین لوگوں کو ابوبکر تھا ذکر کیا ہے۔
دوسرا جواب: ائمہ کے بعض اصحاب کا نام یزید بن حاتم، یزید بن عبد الملک، یزید بن عمر، بن طلحہ و۔۔۔ کیا یہ اس وجہ سے تھا کہ یہ سب کے سب یزید سے محبت کرتے تھے؟
ابو بکر حضرت علیؑ کے ایک بیٹے کی صرف کنیت ہے ورنہ اسکا نام محمد ہے
کیا اس زمانے میں اپنے بچوں کا نام ابوبکر سلفی اور ظالموں کے رہبر ابو بکر بغدادی کی محبت میں ہے[8]
حضرت نے عثمان بن مظعون کی محبت میں اپنے فرزند کا نام عثمان رکھا تھا.[9]
عمر ابن خطاب نے حضرت علیؑ سے اپنی ذاتی دشمنی کی بنیاد ہر علیؑ کے بیٹے کے نام کو اپنا نام قرار دیا ’’و كان عمر بن الخطاب سمّى عمر بن عليّ بإسمه[10]
اسی طرح بہت سے مسلمانوں کا نام بدلا[11]
چوتھا جواب: اگر نام رکھنا بہترین رابطے کا اظہار ہے تو خلفاء نے اپنے کسی بیٹے کا نام علیؑ، حسن، اور حسین کیوں نہیں رکھا؟.
سوال ۶۔ کیوں حضرت علیؑ نے اپنی بیٹی ام کلثوم جو اسی شہیدہ ماں کے بطن مبارک سے پیدا ہوئی تھی اس ماں کے قاتل کے ساتھ بیاہ دیا؟
پہلا جواب: جب علیؑ نے عمر سے ازدواج کرنے کو منع کر دیا تو عمر نے ابن عباس سے کہا اگر علیؑ نے مجھ سے اپنی بیٹی کی شادی نہیں کی تو لوگوں کو تیار کروں گا کہ وہ علیؑ کے خلاف گواہی دیں کہ علیؑ نے شوری کیا ہے اور اس کے سزا میں علیؑ کا ہاتھ کاٹوں گا.[12]
دوسرا جواب: اہل سنت کے بزرگ عالم دین ہیثمی لکھتے ہیں کہ اس ازدواج پر عقیل کے اعتراض کے جواب میں حضرت نے عباس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: درة عمر أحرجته الي ماتري‘‘عمر کی زبردستی اس ازدوج کا باعث ہے.[13]
تیسرا جواب: اہل سنت کے علماء اس بارے میں لکھتے ہیں کہ عمر ام کلثوم کے ازدواج سے پہلے ان کے پنڈلی کو چھوتا اور انکو اپنی گود میں لیکر چومتا ہے، ام کلثوم نے اس غلظ کام سے ناراض ہوکر اس سے کہا اگر تم خلیفہ نہیں ہوتے تو تمہاری گردن مروڈ دیتی اور آنکھ پھوڑ کر اندھا بنا دیتی[14]
اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو پھر خلیفہ کے طرفدار جواب دیں کیا حاکم اسلامی جو لوگوں کی ناموس کا محافظ ہو وہ خود لوگوں کی ناموس کے ساتھ ایسا کرے،لوگوں کی ناموس کی عزت کو پامال کرے؟
اہل سنت کے مشہور عالم دین سبط ابن جوزی کہتے ہیں
وهذا قبيح والله، ثمّ بإجماع المسلمين لايجوز لمس الأجنبيّة فكيف ينسب عمر إلى هذا؟
خدا کی قسم یہ کام جو عمر کی جانب منسوب کیا گیا ہے وہ قبیح ہے نا محرم لڑکی کو ہاتھ لگانا حرام ہے[15]
کیوں حضرت امام حسنؑ اور امام حسینؑ نے پوری زندگی عمر کے ہاتھوں اپنے ماں کی ہونے والی شہادت کو یاد نہیں کیا اس بارے میں شیعہ و سنی منابع میں کوئی ایک مطلب بھی ذکر نہیں ہوا ہے؟
پہلا جواب: امام حسنؑ نے جو معاویہ اور اس کے کارندوں سے مناظرہ کیا ہے اس میں مغیرہ بن شعبہ کو خطاب کرکے فرمایا: تم وہی ہو جس نے دختر پیغمبر اکرمؑ کو طمانچہ مارا جس سے وہ خون سے آلودہ ہو گئیں اور ان کے رحم میں جو بچہ تھا وہ شہید ہو گیا.[16]
دوسرا جواب: امام حسنؑ نقل کرتے ہیں کہ امام علی نے فاطمہ زہرا کو دفن کرتے ہوئےفرمایا: اس عظیم مصیبت پر اس ماں کی طرح جس کا بچہ اس دنیا سے چلا ہو گریہ کر رہے تھے، یا رسول اللہ آپکی بیٹی کو خدا کے حضور میں رات کی تاریکی میں سپرد لحد کیا، آپ کی بیٹی کا حق چھین کر اسے اس کے حق سے محروم کر دیا گیا جبکہ ہم ابھی آپ کے رحلت کے غم سے مغموم تھے ابھی تو آپ کا کفن بھی میلا نہیں ہوا.
تیسرا جواب: جس زمانے میں عمر ابن خطاب تازہ میت پر رونے کے بہانے رات کی تاریکی میں بغیر اجازت لوگوں کے گھر میں گھس کر عورتوں کو مارتے اور انکے سر سے چادر کو کھینچ لیتے تھے ایسے حالات میں کیا عزاداری برپا کی جا سکتی تھی؟[17]
کیوں مدینہ کے لوگوں نے نبی اکرمؐ کی بیٹی کے قتل پر سکوت اختیار کر لیا اور کسی نے کوئی اقدام نہیں کیا؟
پہلا جواب: مدینہ کے لوگوں کا عمل حقانیت کی علامت ہے یا امیر المومنین کا ؟نبی اکرمؐ نے صرف اور صرف حضرت علیؑ کے لئے فرمایا ہے: {علي مع الحق والحق مع علي} علي حق کے ساتھ ہیں اور حق علي کے ساتھ ہے[18]
تیسرا جواب: کیا وہ مدینہ کے لوگ نہیں تھے جنھوں نے قتل عثمان اور ان کی بیوی پر دست درازی کے خلاف خاموش رہے اور کوئی اقدام نہیں کیا، ان کی لاش کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیا آخر کا ر مجبور ہو کر انھیں یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا جسے بعد میں معاویہ نے وسیع کرکے جنت البقیع سے ملا دیا.[19]
سوال ۷۔ کیوں تم لوگ چند سال پہلے سے حضرت زہرا کی شہادت سے بے خبر تھے،اب تمھیں یاد آئی ہے 1372 شمسی سال سے پہلے کلنڈر میں کہیں کوئی تذکرہ نہیں تھا اور آج زور پر ہے؟
پہلا جواب: اہل سنت کے عالم جوینی ذہبی کے تائید شدہ استاد غصب حق فاطمہ زہرا آپ کے پہلو توڑنے، آپ کے محسن کی شہادت اور خود آپ کی شہادت کو نبی اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں.[20]
دوسرا جواب:حضرت علیؑ نے جناب فاطمہ زہرا کو دفناتے ہوئے فرمایا: وَ سَتُنْبِئُكَ ابْنَتُكَ بِتَظَافُرِ أُمَّتِكَ عَلَى هَضْمِهَا
عنقریب آپ کی بیٹی آپکو آگاہ کرے گی کہ آپکی امت نے اس پر ظلم ڈھانے میں کس طرح ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ایک ہو گئے، فاطمہؐ سے سوال کریں، میرے غمگین حالت کو ان سے پوچھیں ابھی تو آپ کا کفن بھی میلا نہیں ہوا ہے ابھی تو ہم آپکو بھلا بھی نہیں پائے ہیں)[21]
تیسرا جواب: آٹھویں سوال کے جواب میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کا قول حضرت زہرا ؐ کی شہادت کے بارے میں نقل کر چکے ہیں
چوتھا جواب: کلینی امام کاظم علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا: إِنَّ فَاطِمَةَ (عليها السلام ) صِدِّيقَةٌ شَهِيدَةٌ .. فاطمه صديقه اور شهيده ہیں.[22]
پانچواں جواب: ہر زمانے میں اہل بیت کے چاہنے والے شیعہ ایام عزائے فاطمیہ میں شہادت حضرت کے موقعہ پر عزاداری برپا کرتے تھے انقلاب اسلامی ایران کے بعد بھی یہ عزاداری مراجع عظام اور رہبر اسلام کے گھروں میں منعقد ہوتی ہے.
چھٹا جواب: امام خميني(ره) نے 18 اسفند 1360 (ماہ شمسی) مطابق (13 جمادى الاول 1402ہجری) کو فرمایا: میں شہزادیٔ کونین کی شہادت عظمہ پر تمام مسلمین، فوج اور فورس کے تما م سپاہی اور امام زمانہ ارواحنا لہ الفداء کی خدمت میں تسلیت عرض کرتا ہوں.[23]
ساتواں جواب: اہل سنت کے عالم دین شھرستانی لکھتے ہیں:
عمر نے بیعت کے دن فاطمہ زہراؐ کے شکم مبارک پر اس طرح مارا کہ آپکے شکم میں پلنے والا بچہ سقط ہو گیا،عمر بلند آواز میں کہہ رہا تھا اس گھر کو اس کے اہل و عیال کے ساتھ آگ لگا دو اور گھر میں علیؑ و فاطمہؐ، حسن و حسینؑ کے سوا کوئی نہیں تھا.[24]
آٹھواں جواب: ابن تيميه حراني،حضرت فاطمہؐ کے گھر پر حملہ کرنے کو قبول کرتے ہیں مگر اہل بیت کی دشمنی کی وجہ سے اسکی توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.[25]
سوال ۸۔ جب گھر میں حضرت علیؑ موجود تھے تو کیوں خود انھوں نے دروازہ کیوں نہیں کھولا؟
کیا ایک مرد کی غیرت اس بات کو گوارا کرتی ہے کہ اسکے ہوتے ہوئے اسکی بیوی جاکر دروازہ کھولے؟
بعض روایتوں کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زہراؐ اہنے گھر کے صدر دروازہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں،عمر اور انکے ساتھیوں کو آتا دیکھ کر دروازہ کو بند کر لیا.
مرحوم عياشى اپنی تفسيراور شيخ مفيداپنی کتاب الإختصاص میں لکھتے ہیں
عمر نے کہا چلو علیؑ کے پاس چلیں یہ سنکر ابوبكر، عمر، عثمان، خالد بن وليد، مغيرة بن شعبة، ابوعبيد جراح، سالم مولى ابوحذيفة، قنفذ اور میں اسکے ساتھ چل دئے جیسے ہی فاطمہ نے ہمیں آتا دیکھا گھر کا دروازہ بند کر دیا،آپکو اس بات کا گمان بھی نہیں تھا کہ انکی اجازت کے بغیر کوئی انکے گھر میں داخل ہو جائےگا،عمر نے لات مار کر دروازہ کو توڑا اور گھر میں گھس گئے اور علیؑ کو پکڑ کر باہر لائے اور اس کامیابی پر نعرۂ تکبیر بلند کر رہے تھے۔
حضرت فاطمہ کو اس بات کا گمان بھی نہیں تھا کہ لوگ میرے گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہو جائے گے چونکہ قرآن کہتا ہے کہ کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہو
يَأَيهاُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَدْخُلُواْ بُيُوتًا غَيرْ بُيُوتِكُمْ حَتىَ تَسْتَأْنِسُواْ وَتُسَلِّمُواْ عَلىَ أَهْلِهَا ذَالِكُمْ خَيرْ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اے صاحبان ایمان اپنے گھر کے علاوہ کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل نہ ہو،اور جب کسی کے گھر میں داخل ہو تواسکے گھر میں رہنے والوں کو سلام کرو اور یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ انبیاء کے گھر کا ایک خاص احترام ہے بغیر اجازت کے انکے گھر میں داخل ہونا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے.
يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاتَدْخُلُواْ بُيُوتَ النَّبِىِ إِلا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ.[26]
اے صاحبان ایمان نبی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل مت ہونا.
اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت زہراؐ کا گھر انبیاءکا گھر شمار ہوتا ہے جیسا کہ اہل سنت کی متعدد تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں مذکور ہے فِى بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُو يُسَبِّحُ لَهُو فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْأَصَالِ.[27]
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حضرت زہراؐ کو سوگوار سمجھ کر احترام رسول میں ان ایام میں کسی قسم کی بے احترامی کرنے سے پر ہیز کرتےجیسا کہ کچھ لوگ صدیقہؐ طاہرہ کے گریہ کی آواز سن کر لوٹ آئے تھے
نتیجه
پہلی بات یہ کہ صدیقہؐ طاہرہ دروازہ کئ پیچھے نہیں گئیں تھی بلکہ دروازے کے سامنے کھڑی تھیں، عمر اور ان کے ساتھیوں کو آتا دیکھ کر دروازہ بند کرکے گھر میں چلی گئیں تھیں اسی لئے یہ اشکال ہی پیش نہیں آتا کہ کیوں حضرت زہراؐ دروازہ کے پیچھے گئیں۔
دوسری باتی یہ ہے کہ اگر مان لیا جائے کہ بی بی دروازے کے پیچھے گئیں تھیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جسے حضرت زہراؐ نےانجام دیا ہے بلکہ اس طرح کے بہت مواقع نبی اکرم ﷺکے ساتھ پیش آئے جب نبی اکرم ﷺنے اپنی زوجہ کو حکم دیا ہے کہ وہ جاکر دروازہ کھولیں لھذا یہ اشکال بے بنیاد ہے۔
سوال۹۔ کیوں بنی ہاشم اور حضرت علیؑ کے اصحاب و انصار نے اپنے حق کا دفاع نہیں کیا۔؟
دفاع نہ کرنے کے سلسلے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بعض خطبوں میں بیان کیا ہے جسکی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں
خدا کی بارگاہ میں حضرت کا علی علیہ السلام کا استغاثه
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَعْدِيكَ عَلَى قُرَيْشٍ وَمَنْ أَعَانَهُمْ فَإِنَّهُمْ قَدْ قَطَعُوا رَحِمِي وَأَكْفَئُوا إِنَائِي وَأَجْمَعُوا عَلَى مُنَازَعَتِي حَقّاً كُنْتُ أَوْلَى بِهِ مِنْ غَيْرِي وَقَالُوا أَلَا إِنَّ فِي الْحَقِّ أَنْ تَأْخُذَهُ وَفِي الْحَقِّ أَنْ تُمْنَعَهُ فَاصْبِرْ مَغْمُوماً أَوْ مُتْ مُتَأَسِّفاً فَنَظَرْتُ فَإِذَا لَيْسَ لِي رَافِدٌ وَلَا ذَابٌّ وَلَا مُسَاعِدٌ إِلَّا أَهْلَ بَيْتِي فَضَنَنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَنِيَّة….
خداوندا قریش اور انکے انصار پر کامیابی کے لئے تجھ سے مدد مانگتا ہوں،[28]
سوال ۱۰۔ کیا مدینہ کے لوگوں کے گھروں میں لکڑی کے دروازے تھے؟
ایک سب سے اہم شبہہ جسے وہابیوں نے آج کل زیادہ ہوا دے رکھا ہے وہ یہ ہے کہ کیا مدینہ کے لوگوں کے گھروں میں لکڑی کا دروازہ تھا ؟
روایتوں میں چھان بین کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ کے زمانے بھی مدینے کے لوگوں کے گھروں میں لکڑی کا دروازہ تھا
علامه سيد جعفر مرتضى اس روایت کے جواب میں کہتے ہیں
فأمير المؤمنين إذن يصف حالة الفقر المدقع الذي كان يعاني منه أهل البيت(عليهم السلام)، ويذكر إيثار رسول الله ﷺ حتى أهل النعم والأموال بما يتوفر لديه منها، مع ملاحظة: أن أبواب أهل البيت (عليهم السلام) بيوتهم كانت من جريد النخل الذي هو أصل السعفة بعد جرد الخوص عنها، أما غيرهم (عليهم السلام) فكان لبيوتهم ستائر، وكانت أبوابها من غير جريد النخل أيضا، ومنها الأخشاب لا مجرد ستائر ومسوح كما يدعون.
حضرت علیؑ خاندان پیغمبراسلام کے اس نا قابل برداشت فاقہ کا تذکرہ کرتےاور نبی اکرمﷺ کے پاس موجود اموال کی عطا و بخشش کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس فقر و فاقہ کے باوجود بھی اہلبیت کا دروازہ کھجور کی لکڑی کا تھا،اہل بیت کے علاوہ دوسروں کے دروازے کھجور کی لکڑی کے علاوہ دوسری لکڑیوں کا تھا اور اس پر پردے بھی لگے ہوئے تھے۔
خدا وند متعال نے صحابہ اور دوسرے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ جن گھروں کی چابھیاں انکے ہاتھ میں ہے ان گھروں سے وہ کھانا کھا سکتے ہیں۔
اب ذرا عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر بتاؤ جن گھروں میں لکڑی یا لوہے کا دروازہ نہ ہوں اس میں چابھی کا کیا کام ہے۔
لَيْسَ عَلَى الْأَعْمى حَرَجٌ وَلا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلا عَلَى الْمَريضِ حَرَجٌ وَلا عَلى أَنْفُسِكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا مِنْ بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبائِكُمْ … أَوْ ما مَلَكْتُمْ مَفاتِحَهُ أَوْ صَديقِكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَأْكُلُوا جَميعاً أَوْ أَشْتاتاً. (النور/ 61 )
اہل سنت کا اس روایت اور حضرت علیؑ کے فرمان « لا سُقُوفَ لِبُيُوتِنَا وَ لا أَبْوَابَ» سے استدلال کرنا انکو انکے مقصد تک نہیں پہنچا سکتا ہے پہلی بات یہ کہ اشکال کرنے والے نے حضرت علیؑ کے فرمان کو ناقص نقل کیا ہے جسکو پڑھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اہل بیت کے پاس کوئی معقول گھر نہیں تھا کیونکہ جس میں در،دیوار چھت نہ ہو وہ گھر نہیں کہا جا سکتا ہے جبکہ حدیث کی عبارت اس طرح ہے نحن اهل بيت محمد(ص) لا سقوف لبيوتنا ولا أبواب ولا ستور (شيخ مفيد کی نقل میں، ستور کا معنی دیوار ہے) الا الجرائد وما اشبهها.
اس حدیث کے الفاظ میں جستجو کرنے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ خرمے کی لکڑی کا دروازہ تھا کیونکہ ’’جریدہ‘‘جسکو کاٹنے کے بعد صاف صفائی کرکے استعمال کے قابل بنایا گیا ہو کہ جسکو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر دروازہ بنایا جاتا ہے تاکہ گھر کے در و دیوار میں اسکو استعمال کیا جا سکے۔
خلاصہ: اس روایت اور بقیہ دوسری روایتوں میں غور فکر کرنے کے بعد یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اہل بیت خصوصاً علیؑ و فاطمہؐ کے گھر میں لکڑی کا دروازہ تھا
سوال ۱۱: کیا حضرت زہراؐ کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی دی گئی؟
طبری اور ابن ابی شیبہ کی نقل کے مطابق عمر نے قسم کھا رکھی تھی کہ اگر امیر المومنین کے گھر میں اجتماع کرنے ابوبکر سے بیعت کرنے کے گھر سے باہر نہ نکلے تو علیؑ کے گھر کو انکے اہل و عیال کے ساتھ آگ لگا دوں گااورحضرت زہرا نے عمر کے اس جملہ کو حضرت علیؑ اور زبیر سے ذکر بھی کیا کہ عمر نے قسم کھا رکھی ہے اور وہ اپنے قسم کو پورا کرے گا۔
وَايْمُ اللَّهِ مَا ذَاكَ بِمَانِعِيَّ إِنِ اجْتَمَعَ هؤُلاَءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ أَنْ آمُرَ بِهِمْ أَنْ يُحْرَقَ عَليْهِمُ الْبَيتُُ، قَالَ فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاؤُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيَحْرِقَنَّ عَلَيكُمُ الْبَيْتَ، وَايْمُ اللَّهِ لَيُمْضِيَنَّ مَا حَلَفَ عَلَيْهِ.
خدا کی قسم ان افراد کا تمہارے گھر میں جمع ہونا مجھے تمہارے گھر کو جلانے میں مانع نہیں ہو سکتا ہے عمر کے جانے کے بعد جب علیؑ اور زبیر گھر لوٹ کر آئے تو نبی کی بیٹی نے علیؑ اور زبیر سے کہا کہ ابھی عمر میرے پاس آیا تھا اور قسم کھا کر کہہ رہا تھا کہ اگر اس گھر میں دوبارہ اجتماع ہوا تو میں اس گھر کو آگ لگا دوں گا اور خدا کی قسم جو میں نے قسم کھایا ہے اسکو وفا کروں گا۔
دوسری طرف یہ بات بھی قطعی طور پر ثابت ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے عمر کی دھمکیوں پر کوئی توجہ نہیں دی اور نہ ہی بیعت کے لئے حاضر ہوئے۔
محمد بن اسماعيل بخارى لکھتے ہیں:
فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِى بَكْرٍ فِى ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ، وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِىِّ، صلى الله عليه وسلم، سِتَّةَ أَشْهُرٍ… وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الأَشْهُر.
حضرت فاطمه سلام الله عليها ابوبكر پرغضبناک تھیں اور مرتے دم تک اس سے کلام نہیں کیا،آپ نبی اکرمؐ کے اس دنیا سے جانے بعد چھ ماہ تک زندہ تھیں ان چھ مہینوں میں علیؑ ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔
اسی لئے عمر کا قسم کھانا کہ اگر بیعت نہیں کیا تو گھر کو آگ لگا دوں گا یہ قطعی اور یقینی ہے دوسری جانب جب علی نے بیعت نہیں کی عمر اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا اور گھر میں آگ لگا دیا۔
بلاذری کی روایت ملاحظہ فرمائیں
فلم يبايع، فجاء عمر و معه فتيلة. فتلقته فاطمة علي الباب فقالت فاطمة: يابن الخطاب! أتراک محرّقا عليّ بابي؟! قال: نعم.
چونکہ علی نے ابو بکر کی بیعت نہیں کی تو عمر ہاتھوں میں آگ کا شعلہ لیکر حضرت کے گھر کی پر گیا یہ دیکھ حجرت زہرا دروازے کے پیچھے آئیں اور کہا اے پسر خطاب کیا تم میرے گھر کو آگ لگا دو گے؟ عمر نے کہا ہاں
مسعودى شافعى اپنی كتاب اثبات الوصيه میں لکھتے ہیں کہ عمر نے علیؑ کے گھر کو آگ لگا دیا۔
فهجموا عليه و أحرقوا بابه و استخرجواه منه كرهاً وضغطوا سيّدة النساء بالباب حتّى أسقطت محسناً.
منبع؛ http://baltistan-qosooro.blogfa.com –
[1] . (تفسير ابن كثير ج 8 ص 123)
[2] . تفسير ابن كثير ج 2 ص 323)
[3] . (صحيح بخاري: 5/82 ، ح4240)
[4] . (نهج البلاغة ، صبحي صالح ، خطبه 228 ، ص 350)
[5] . (.صحيح مسلم : ج 5 ص 52 ح 4468)
[6] . (كتاب سليم بن قيس ، ص674)
[7] . (كتاب سليم بن قيس الهلالي، ص915)
[8] . (التنبيه والاشراف ص 297، الارشاد ج 1 ص 354)
[9] . مقاتل الطالبيين، ص 55 و تقريب المعارف، ص 294.
[10] . (أنساب الأشراف ج 1 ص 192، تهذيب التهذيب ج 7 ص 427)
[11] . (اسدالغابة ج 3 ص 284، طبقات ج 6 ص 76 ، الاصابة ج 5 ص472)
[12] . (کافي ، ج 5 ، ص 346.
[13] . مجمع الزوائد ج 4 ص 272، معجم كبير ج 3ص45.
[14] . (الاصابه، ابن حجر: 8/464 و سير أعلام النبلاء، ذهبي:3/501. تاريخ بغداد، الخطيب البغدادي، ج 6، ص 180)
[15] . (تذكرة خواص الأمة : 321)
[16] . احتجاج طبرسي ، ج1، ص 278.
[17] . المصنف ، عبد الرزاق ج 3 ، ص 557
[18] . تاريخ بغداد:14/322 ومجمع الزوائد :7/237.
[19] . (تاريخ طبري ج 3 ص 468 و43)
[20] . (فرائد السمطين ، ج2 ، ص34 و35)
[21] . نهج البلاغه خطبه 202
[22] . كافي ج1، ص 458.
[23] . صحيفه امام/ 16/87.
[24] . الملل والنحل ، شهرستاني ، ص83.
[25] . منهاج السنة ، ج4 ، ص220
[26] . الأحزاب /53.
[27] . النور/36.
[28] . نهج البلاغه، خطبه 217.