- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 12 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2024/01/04
- 0 رائ
(01) قال رسول اللَّه صلى اللَّه عليه و آله وسلم:
“ابنتى فاطمه، و انها لسيده نساء العالمين فقيل: يا رسول اللَّه! اهى سيده نساء عالمها؟ فقال: ذاك لمريم بنت عمران، فاما ابنتى فاطمۃ فهى سيده نساء العالمين من الاولين و الاخرين و انها لتقوم فى محرايها فيسلم عليها سبعون الف ملك من الملائكه المقربين و ينادونها بمانادت به الملائكه کمريم فيقولون يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نساء العالمين”
“میری بیٹی حضرت فاطمہ علیھا السلام دونوں جہاں کے عورتوں کی سردار ہیں۔
پوچھا گیا: اے رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم! اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں؟
فرمایا: یہ خصوصیت مریم بنت عمران کی ہے لیکن میری بیٹی فاطمہ علیھا السلام دونوں جہاں کی اولین اور آخرین، تمام عورتوں کی سردار ہیں اور وہ جب محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں تو ستّر ہزار مقرب فرشتے ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہیں جس طرح حضرت مریم علیھا السلام سے گفتگو کرتے تھے، وہ کہتے ہیں؛ اے فاطمہ ؑ!اللّہ تعالی نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و منزہ قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہاں کی تمام خواتین پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔(عوالم العلوم، ج 11، ص 99)
(02) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: “لولا علی لم یکن لفاطمہ کفو”
اگر علیؑ نہ ہوتے تو فاطمہؑ کا کوئی کفو اور ہمسر نہ ہوتا۔(مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج١، ص١٠٧، حدیث٣٨، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج٢، ص٦٨)
(03) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم:
“يا فاطِمَةُ، مَنْ صَلَّی عَلَیكِ غَفَرَ اللهُ لَهُ وَألْحَقَهُ بي حَيثُ كنْتُ مِن الجَنَّة؛”
اے فاطمہؑ! جو بھی آپ پر صلوات بھیجے، خداوند متعال اس کو بخش دے گا اور میں جنت کے جس حصے میں ہوں گا، اللہ اس کے مجھ سے ملحق کردے گا۔(کشف الغمۃ، ج2، ص100۔، بحار الأنوار، ج43، ص55، ج97، ص194۔، الخصائص الفاطمیۃ، ج2، ص467۔ مستدرک الوسائل، ج10، ص211۔ جامع أحادیث الشیعۃ، ج12، ص266)
(04) “دخلت عائشۃ علی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) وھو یقبل فاطمۃ، فقالت لہ:اتحبھا یا رسول اللہ فقال (ص): ای واللہ، لو تعلمین حبی لھا لازددتِ لھا حباً”
حضرتِ عائشہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو دیکھا کہ آپؐ فاطمہؑ کا بوسہ لے رہے تھے تو حضرت عائشہ نے عرض کی یا رسول اللہؐ کیا آپؐ فاطمہؑ سے محبت کرتے ہیں تو آپؐ نے فرمایا اللہ کی قسم میں فاطمہؑ سے محبت کرتا ہوں اور اگر تم میری فاطمہؑ سے محبت کو جان لیتی تو تمہاری ان کیلئے محبت میں اضافہ ہوجاتا۔(دلائل الامامۃ، ص147)
(05) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
“واما ابنتی فاطمۃ،فانھا سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الآخرین،وھی بضعۃ منی وھی نور عینی،وھی ثمرۃ فؤادی،وھی روحی التی بین جنبی،وھی الحوراء الانسیۃ، متیٰ قامت فی محرابھا بین یدی ربھا جل جلالہ زھر نورھا لملائکۃ السماء کما یزھر نور الکواکب لاھل الارض، ویقول اللہ عز وجل لملائکتہ: یا ملائکتی انظروا الی امتی فاطمۃ سیدۃ امائی، قائمۃ بین یدی ترتعد فرائصھا من خیفتی وقد اقبلت بقلبھا علی عبادتی،اشھدکم انی قد آمنت شیعتھا من النار۔۔۔”
“میری بیٹی فاطمہؑ عالمین میں موجود اولین و آخرین تمام عورتوں کی سردار ہے اور فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہے،میری آنکھوں کا نور ہے، میرے دل کا پھل ہے، میری وہ روح ہے جو میرے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہےاور فاطمہؑ انسانی شکل میں حور ہےجو جب بھی اپنے رب کے سامنے محرابِ عبادت میں کھڑی ہوتی ہے تو اس کا نور آسمان کے ملائکہ کیلئے ایسے ہی چمکتا ہے جیسے زمین والوں کیلئے آسمان کے تارے چمکتے ہیں اور اس وقت اللہ اپنے ملائکہ سے فرماتا ہے کہ اے میرے ملائکہ میری اس کنیز کی طرف دیکھو جو میری ساری کنیزوں کی سردار ہے جو میرے سامنے کھڑی ہے اور میرے خوف سے جس کا جسم کانپ رہا ہےاور اس کی ساری توجہ میری عبادت کی طرف ہے(اے میرے ملائکہ) میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی اس کنیز کے شیعوں کو جہنم سے امان عطا کر دی ہے۔”(امالی شیخ صدوق،ص175،بحار الانوار،جلد43، ص172)
(06) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
“یا فاطمۃ: ان اللہ یرضی لرضاک ویغضب لغضبک”
بے شک اللہ آپ کے راضی ہونے سے راضی اور آپ کے غضب ناک ہونے سےغضب ناک ہوتا ہے۔ (احتجاج طبرسی، ج:2 /ص: ۳۵۴، المستدرک، 3 / 167، الرقم: 4730)
(07) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لعلی: ھل تدری لم سمیت فاطمۃ؟ قال علی! لم سمیت فاطمۃ یا رسول اللہ؟ قال: لانھا فطمت ھی وشیعتھا من النار”
“رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؑ سے فرمایا: یا علیؑ کیا آپ کو معلوم ہے کہ فاطمہؑ کا نام فاطمؑہ کیوں رکھا گیا؟ مولائے کائناتؑ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہؑ کا نام فاطمؑہ کیوں رکھا گیا؟ تو رسولِ خداؐ نے فرمایا: کہ کیونکہ فاطمہؑ اور ان کے شیعوں کو جہنم سے دور رکھا گیا ہے” (بحار الانوار،جلد 43، ص15)
(08) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
“إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ نَادَى مُنَادٍ يَا مَعْشَرَ الْخَلَائِقِ غُضُّوا أَبْصَارَكُمْ وَ نَكِّسُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى تَمُرَّ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ فَتَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُكْسَى وَ تَسْتَقْبِلُهَا مِنَ الْفِرْدَوْسِ اثْنَا عَشَرَ أَلْفَ حَوْرَاءَ وَ خَمْسُونَ أَلْفَ مَلَكٍ عَلَى نَجَائِبَ مِنَ الْيَاقُوتِ أَجْنِحَتُهَا وَ أَزِمَّتُهَا اللُّؤْلُؤُ الرَّطْبُ رُكُبُهَا مِنْ زَبَرْجَدٍ عَلَيْهَا رَحْلٌ مِنَ الدُّرِّ عَلَى كُلِّ رَحْلٍ نُمْرُقَةٌ مِنْ سُنْدُسٍ حَتَّى يَجُوزُوا بِهَا الصِّرَاطَ وَ يَأْتُوا بِهَا الْفِرْدَوْسَ فَيَتَبَاشَرُ بِمَجِيئِهَا أَهْلُ الْجِنَانِ فَتَجْلِسُ عَلَى كُرْسِيٍّ مِنْ نُورٍ وَ يَجْلِسُونَ حَوْلَهَا وَ هِيَ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ الَّتِي سَقْفُهَا عَرْشُ الرَّحْمَنِ وَ فِيهَا قَصْرَانِ قَصْرٌ أَبْيَضُ وَ قَصْرٌ أَصْفَرُ مِنْ لُؤْلُؤَةٍ عَلَى عِرْقٍ وَاحِدٍ فِي الْقَصْرِ الْأَبْيَضِ سَبْعُونَ أَلْفَ دَارٍ مَسَاكِنُ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ فِي الْقَصْرِ الْأَصْفَرِ سَبْعُونَ أَلْفَ دَارٍ مَسَاكِنُ إِبْرَاهِيمَ وَ آلِ إِبْرَاهِيمَ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكاً لَهَا لَمْ يَبْعَثْ لِأَحَدٍ قَبْلَهَا وَ لَا يَبْعَثُ لِأَحَدٍ بَعْدَهَا فَيَقُولُ إِنَّ رَبَّكِ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامُ وَ يَقُولُ سَلِينِي فَتَقُولُ هُوَ السَّلَامُ وَ مِنْهُ السَّلَامُ قَدْ أَتَمَّ عَلَيَّ نِعْمَتَهُ وَ هَنَّأَنِي كَرَامَتَهُ وَ أَبَاحَنِي جَنَّتَهُ وَ فَضَّلَنِي عَلَى سَائِرِ خَلْقِهِ أَسْأَلُهُ وُلْدِي وَ ذُرِّيَّتِي وَ مَنْ وَدَّهُمْ بَعْدِي وَ حَفِظَهُمْ فِيَّ فَيُوحِي اللَّهُ إِلَى ذَلِكَ الْمَلِكِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَزُولَ مِنْ مَكَانِهِ أَخْبِرْهَا أَنِّي قَدْ شَفَّعْتُهَا فِي وُلْدِهَا وَ ذُرِّيَّتِهَا وَ مَنْ وَدَّهُمْ فِيهَا وَ حَفِظَهُمْ بَعْدَهَا فَتَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الْحُزْنَ وَ أَقَرَّ عَيْنِي فَيُقِرُّ اللَّهُ بِذَلِكَ عَيْنَ مُحَمَّد”
“جب قیامت کا دن ہوگا تو منادی ندا دے گا اے اہل محشر! اپنی نظریں جھکا لو اور اپنے سروں کو نیچے کر لو حتیٰ کہ فاطمہؑ بنت محمدؐ گزر جائیں، سیدہؑ پہلی وہ ہستی ہوں گی جن کا یہ استقبال ہوگا کہ بارہ ہزار حورانِ جنت اور پچاس ہزار فرشتے ان کے ارد گرد ہوں گےجو سارے یاقوت سے بنی ہوئی سواریوں پر ہوں گے، جن کے پر اور لگامیں نرم اور لؤلؤ کے ہوں گے، جن کی رکابیں زبرجد کی ہوں گی، جن کی زین نرم و چمکدار ہوگی اور ہر زین پر ریشم کے کپڑے ہونگے (حور و ملک ساتھ ہونگے) یہاں تک کہ سیدہؑ پل صراط سے گزریں گی اور جنت میں داخل ہونگی، بی بیؑ کے آنے سے اہل جنت خوش ہونگے، (اس وقت) سیدہؑ نور کی کرسی پر بیٹھیں گی اور وہ (حوران وملک) ان کے گرد بیٹھ جائیں گے، یہی جنت الفردوس ہوگی کہ جس کا چھت رحمان کا عرش ہوگا اور اس میں دو قصر ہوں گے ایک سفید قصر اور ایک زرد قصرجو لؤلؤ سے بنے ہوئے ہوں گے ایک ہی بنیاد پہ کھڑے ہوں گے، سفید قصر میں ستر ہزار گھر ہوں گے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و آل محمد علیھم السلام کے رہنے کے لیے ہوں گے اور زرد قصر میں ستر ہزار گھر ہونگے جو ابراہیؑم و آل ابراہیمؑ کے رہنے کے لیے ہونگے
پھر خداوند متعال جناب سیدہؑ کے لیے ایک فرشتہ مبعوث فرمائے گا جسے اس سے پہلے اوربعد میں کسی کے لیے مبعوث نہ کیا ہوگا جو کہے گا (اے بی بیؑ) آپؑ کا رب آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپؑ جو چاہیں اس سے سوال کیجیے چنانچہ بی بیؑ کہیں گی خدا خود سلام ہے اور اسی سے سلامتی ملتی ہے بتحقیق اللہ نے مجھ پہ اپنی نعمت کو تمام کیا، اپنی کریمی سے مجھے مسرور فرمایا، اپنی جنت کو مجھ پہ مباح فرمایا اور مجھے اپنی تمام مخلوقات پہ فضیلت دی، میں اللہ سے اپنی اولاد و ذریت اور جو ان سے میرے بعد محبت کرتے اور میری وجہ سے ان کے حقوق کی حفاظت کرتے ان کے لیے دستِ سوال دراز کرتی ہوں پس خداوندِ متعال اس فرشتہ کہ جو اپنی جگہ سے حرکت نہ کیے ہوگا کی طرف وحی فرمائے گا کہ میری کنیزؑ کو بتلا دو کہ میں نے انہیں ان کی اولاد و ذریت اور جو اِن کی وجہ سے اُن سے محبت اور ان کے حقوق کی رعایت کرتے رہے کے لیے انہیں حق شفاعت عطا کیا ہے پس بی بیؑ کہیں گی حمد ہے اس اللہ کے لیے جس نے میرے غم و حزن کو برطرف کیا اور میری آنکھوں کو ٹھنڈا کیا جس سے رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملی۔” (دلائل الامامۃ، ص153)
(09) عن علي أن النبي سئل ما البتول؟ فانا سمعناك يا رسول الله تقول: “إن مريم بتول وفاطمة بتول، فقال البتول: التي لم ترحمرة قط أي لم تحض فان الحيض مكروه في بنات الانبياء۔”
حضرت علیؑ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت رسول اکرمؐ سے دریافت کیا گیا کہ بتول کے کیا معنی ہے؟ اس لیے کہ یا رسول اللّٰہ! ہم نے آپؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت مریم ؑبتول تھیں اور حضرت فاطمؑہ بھی بتول ہیں۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا: بتول وہ عورت ہے جس کو اللّٰہ تعالٰی نجاستِ حیض سے پاک رکھتا ہے۔ اس لیے کہ بنات انبیاء ؑ کے لیے حیض مکروہ او ر ناپسندیدہ ہے۔(بحار الأنوارجلد: 43 ص:15)
(10) بالاسانيد الثلاثة عن الرضا، عن آبائه: قال: قال رسول الله إني سميت ابنتي فاطمة لان الله عزوجل فطمها وفطم من أحبها من النار..
حضرت امام رضا ؑ نے اپنے آبائے کرام سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول خدا ؐ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمؑہ اس لیے رکھا ہے کہ اللّٰہ نے اس کو اور اس کے دوستوں کو جہنم سے بالکل جدا رکھا ہے۔(بحار الأنوارجلد: 43 ص:12)
(11) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: “فاطمۃ بھجۃ قلبی،وابناھا ثمرۃ فؤادی، وبعلھا نور بصری، والائمۃ من ولدھا امناء ربی وحبلہ الممدود بینہ وبین خلقہ، من اعتصم بہ نجا، ومن تخلف عنہ ھویٰ”
“فاطمہؑ میرے دل کا سکون ہے، ان کے بچے میرے دل کی ٹھنڈک ہیں، ان کے شوہر میری آنکھوں کا نور ہیں،اور ان کی نسل سے معصوم ائمہؑ اللہ کے امین اور اس کے اور مخلوق کے درمیان اس کی سیدھی رسی ہیں جس رسی کا سہارا لینے والے نجات پائیں گے اور روگردانی کرنے والے ہلاک ہوجائیں گے” (ارشاد القلوب الی الصواب، جلد 2، ص 423)
(12) عن الرضا قال: قال النبي(ص) “لما عرج بي إلى السماء أخذ بيدي جبرئيل فأدخلني الجنة فناولي من رطبها فأكلته فتحول ذلك نطفة في صلبي فلما هبطت إلى الارض واقعت خديجة فحملت بفاطمة ففاطمة حوراء إنسية فكلما اشتقت إلى رائحة الجنة شممت رائحة ابنتي فاطمة.”
امالی شیخ صدوق میں ہے کہ ہروی نے حضرت امام رضا ؑ سے روایت کی ہے کہ حضرت نبی اکرمؐ نے بیان فرمایا کہ جب (شب معراج) مجھے آسمان پر لے جایا گیا تو جبرائیلؑ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور مجھے جنت میں لے گئے پھر وہاں کے چند رطب مجھے دیے۔ میں نے اسے کھایا تو اس نے میرے صلب میں مخصوص جوہرِ حیات کی شکل اختیار کرلی۔ جب میں زمین پر واپس آیا تو اسی مخصوص جوہرِ حیات سے حضرت خدیجہؑ کے رحم میں حضرت فاطمہ ؑ کا حمل قرار پایا۔فاطمہؑ انسیہ حوراء ہے۔ جب میں جنت کی خوشبوں سونگھنا چاہتا ہوں تو اپنی بیٹی فاطمہ ؑ کی خوشبو سونگھ لیتا ہوں۔ (الاحتجاج – الشيخ الطبرسي – ج ٢ – الصفحة ١٩١، بحار الأنوارجلد: 43 ص: 4)
(13) عن أبي عبدالله، عن آبائه: قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” خلق نور فاطمة قبل أن يخلق الارض والسماء فقال بعض الناس: يا نبي الله فليست هي إنسية؟ فقال: فاطمة حوراء إنسية قالوا: يا نبي الله وكيف هي حوراء إنسية؟ قال: خلقها الله عزوجل من نوره قبل أن يخلق آدم إذ كانت الارواح فلما خلق الله عزوجل آدم عرضت على آدم. قيل يا نبي الله وأين كانت فاطمة؟ قال: كانت في حقة تحت ساق العرش، قالوا: يا نبي الله فما كان طعامها؟ قال: التسبيح والتقديس والتهليل والتحميد، فلما خلق الله عزوجل آدم وأخرجني من صلبه وأحب الله عزوجل أن يخرجها من صلبي جعلها تفاحة في الجنة وأتاني بها جبرئيل فقال لي: السلام عليك ورحمة الله و بركاته يامحمد! قلت: وعليك السلام ورحمة الله حبيبي جبرئيل، فقال: يا محمد إن ربك يقرئك السلام قلت: منه السلام وإليه يعود السلام قال: يا محمد إن هذه تفاحة أهداها الله عزوجل إليك من الجنة. فأخذتها وضممتها إلى صدري، قال: يا محمد يقول الله جل جلاله كلها ففلقتها فرأيت نورا ساطعا وفزعت منه فقال: يا محمد مالك لا تأكل كلها ولا تخف فان ذلك النور للمنصورة في السماء وهي في الارض فاطمة قلت: حبيبي جبرئيل ولم سميت في السماء المنصورة وفي الارض فاطمة؟ قال: سميت في الارض فاطمة لانها فطمت شيعتها من النار وفطم أعداؤها عن حبها وهي في السماء المنصورة وذلك قول الله عزوجل « ويومئذ يفرح المؤمنون بنصر الله ينصر من يشاء يعني نصر فاطمة لمحبيها. (بحار الأنوارجلد: 43 ص:5)
سدیر صیرفی نے حضرت ابو عبداللّٰہ ؑ سے اور انہوں نے اپنے آباو اجداد سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول خداؐ نے ارشاد فرمایا: میری بیٹی کا نور زمین اور آسمان کی خلقت سے پہلے خلق ہوا۔کسی نے آپ ؐ سے عرض کیا:یا رسول اللّٰہ ؐ اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر جناب فاطمہ ؑ انسانی مخلوق نہیں ہیں ؟آپؐ نے ارشاد فرمایا:فاطمؑہ ایک حور، بشکل انسانی ہے۔اس نے پھر عرض کیا:یہ حورانسانی شکل میں کیسے؟ فرمایا:عالم ارواح میں انسانی خلقت سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نور سے نورِ فاطمؑہ کو پیدا کیاوہ ایک عرصے تک زیرِ ساقِ عرش ایک قبہء نور میں رہا۔عرض کیا: یانبیؐ ! وہاں پر جناب فاطمہ ؑ کی غذا کیا تھی؟آپؐ نے فرمایا: تسبیح وتقدیس،تہلیل وتمحیدِ پروردگارِ عالم۔مگر جب اللّٰہ نے حضرت آدم ؑ کو پیدا کیااور ان کے صلب سے مجھے پیدا کیااور چاہا کہ میرے صلب سے فاطمؑہ کو پیدا کرے تو اس کے نور کو جنت میں سیب کی شکل میں بنا دیا۔وہ سیب جبرائیلؑ لے کر آئے اور بولے!السلام علیک ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ میں نے کہا:میرے دوست جبرائیل وعلیک السلام ورحمۃ اللّٰہ انھوں نے کہا اے محمدؐ! اللّٰہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے۔میں نے کہا سلام اسی سے ہے اور اسی کی طرف بازگشت ہے۔جبرائیلؑ نے کہا،اے محمدؐ ! یہ ایک سیب ہے جو جنت سے اللّٰہ کے لئے بطور تحفہ بھیجا ہے۔میں نے وہ سیب لے کر اپنے سینے سے لگایا۔جبرائیل نے کہا بہتر،پھر میں اسے کھانے لگا تو میں نے دیکھا کہ اس میں سے ایک نور ساطع ہوا۔میں نے ذرا سا توقف کیا۔جبرائیل نے کہا،اے محمدؐ! آپ اس کو تناول فرمانے میں توقف نہ کریں کیونکہ یہ نور اس (عصمت مآب) کا ہے جس کا نام آسمان پر منصور ہ ہےاور زمین پر فاطمہ ؑ ہے۔ میں نے کہا، اے میرے دوست جبرائیل! اس کانام آسمان پر منصورہ اور زمین پرفاطمہؑ کیوں ہے؟ جبرائیلؑ نے کہا، اس کا نام زمین پر فاطمہ ؑ اس لیے ہے کہ یہ اپنے شیعوں کو جہنم سے چھڑائے گی اور اپنے دشمنوں کو اپنی محبت سے جدا رکھے گی اور آسمان پر اس کا نام منصورہ اس لیے ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔و یومئذ یفرح المؤمنون بنصراللّٰہ ینصر من یّشآء (اس دن مؤمنین اللّٰہ کی نصرت سے خوش ہوجائینگے اور وہ جس کی چاہے گا نصرت کرے گا) اس کا مطلب یہ ہے کہ (اللّٰہ کی نصرت سے مراد فاطمہؑ ہے) فاطمہ ؑ اپنے دوستوں،محبوں، اور شیعوں کو اپنی نصرت سے خوش کریں گی۔
(14) قال رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: “الا ان فاطمۃ بابھا بابی وبیتھا بیتی، فمن ھتکہ فقد ھتک حجاب اللہ”
“اے لوگو! خبردار فاطمہؑ کا دروازہ میرا دروازہ ہے اور فاطمہؑ کا گھر میرا گھر ہے جس نے بھی اس گھر کی بے حرمتی کی اس نے اللہ کے حجاب کی توہین کی۔” (بحار الانوار،جلد22، ص477)
(15) قال رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
“تحشر ابنتی فاطمۃ علیہ السلام یوم القیامۃ ومعھا ثیاب مصبوغۃ بالدماء تتعلق بقائمۃ من قوائم العرش تقول یا احکم الحاکمین احکم بینی وبین قاتل ولدی قال رسول اللہ “ص” ویحکم لابنتی فاطمۃ ورب الکعبۃ”
“قیامت کے دن میری بیٹی فاطمہؑ جب میدان محشر میں آئیں گی تو ان کے پاس ایک خون سے بھرا ہوا لباس ہوگا، فاطمہؑ عرش کے ستونوں میں سے ایک ستون کا سہارا لیں گی اور اپنے رب کے حضور عرض کریں گی: اے بہترین فیصلہ کرنے والے میرے اور میرے بیٹے کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ربِ کعبہ کی قسم اس وقت اللہ میری بیٹی فاطمہؑ کے حق میں فیصلہ فرمائے گا” (عیون اخبار الرضاؑ، جلد 2، باب30، ص12)
(16) قال رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
“إِذَا اِشْتَقْتُ إِلَى رَائِحَةِ اَلْجَنَّةِ شَمِمْتُ رَائِحَةَ اِبْنَتِي فَاطِمَةَ”
فاطمہؑ انسانی شکل میں حور ہیں جب بھی میں بہشت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو اپنی بیٹی فاطمہ زہرؑا کا بوسہ لے لیتا ہوں۔(بحار الأنوار, جلد۴۴, ص۲۴۰)
(17) “فَاطِمَةُ حَوْرَاءُ إِنْسِيَّةٌ”
“فاطمہ زہراؑ انسانی شکل میں جنت کی حور ہیں۔” (بحار الأنوار, جلد۴۴ , ص۲۴۰ )
(18) قال رسول اللّه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “إذا كانَ يَوْمُ القيامَةِ نادي مُنادٍ: يا أَهْلَ الجَمْعِ غُضُّوا أَبْصارَكُمْ حَتي تَمُرَّ فاطِمَةالزھرا سلام اللہ علیھا”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: روز قیامت ایک منادی نداء دے گا کہ: اے اہل قیامت اپنی آنکھوں کو بند کر لو،کیونکہ اب یہاں سے سیدہ فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا کاگزر ہونے والا ہے۔(كنز العمّال ج 13 ص 91 و93/ منتخب كنز العمّال بهامش المسند ج 5 ص 96،/ الصواعق المحرقة ص 190 أسد الغابة ج 5 ص 523/ تذكرة الخواص ص 279، ذخائر العقبي ص 48/ مناقب الإمام علي لابن المغازلي ص 356/ نور الأبصار ص 51 و 52،ينابيع المودّة ج 2 باب 56 ص 136)
(19) قال رسول اللّه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَسْبُك مِنْ نساءِ العالَميَن اربع: مرْيمَ وَآسيَة وَخَديجَة وَفاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا
“رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: تمام جہانوں میں فقط چار عورتیں بہترین ہیں، مریم، آسیہ، خدیجہ اور فاطمہ (سلام اللہ علیھن)۔” (مستدرك الصحيحين ج 3 باب مناقب فاطِمَة ص 171،سير أعلام النبلاء ج 2 ص 126،البداية والنهاية ج 2 ص 59،مناقب الإمام علي لابن المغازلي ص 363)
(20) قال رسول اللّه (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يا عَلِي (علیہ السلام) هذا جبريلُ (علیہ السلام) يُخْبِرنِي أَنَّ اللّه (عزوجل) زَوَّجَك فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: “اے علی علیہ السلام ابھی مجھے جبرائیل علیہ السلام نے خبر دی ہے کہ خداوند تعالٰی نے سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شادی تم سے کر دی ہے۔” (مناقب الإمام علي من الرياض النضرة: ص 141)
(21) قال رسول اللّه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
”ما رَضِيْتُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتّي رَضِيَتْ فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی بھی کسی سے راضی نہیں ہوا، مگر یہ کہ سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا اس سے راضی ہو جائے۔ (مناقب الإمام علي لابن المغازلي: ص 342)
(22) قال رسول اللّه صلى الله علیہ وآلہ وسلم يا عَلِيّ (علیہ السلام)إِنَّ اللّهَ عزوجل أَمَرَنِي أَنْ أُزَوِّجَكَ فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: اے علی (علیہ السلام) خداوند تعالٰی مجھے حکم دیا ہے کہ میں سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شادی تم سے کر دوں۔ (الصواعق المحرقة باب 11 ص 142 ذخائر العقبي ص 30 و 31 تذكرة الخواص ص 276 مناقب الإمام علي من الرياض النضرة ص141، نور الأبصار ص53)
(23) قال رسول اللّه صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم إِنّ اللّهَ زَوَّجَ عَليّاً (علیہ السلام)مِنْ فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: خداوند عالم نے علی (علیہ السلام)کی شادی سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا سے کی ہے۔ (الصواعق المحرقة ص 173)
(24) قال رسول اللّه صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم أَحَبُّ أَهْلِي إِليَّ فاطِمَة۔سلام اللہ علیھا
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: میرے اہل بیت علیھم السلام میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب، فاطمہ سلام اللہ علیھا ہے۔ (الجامع الصغير ج 1 ح 203 ص 37 الصواعق المحرقة ص 191 ينابيع المودّة ج 2 باب 59 ص 479. كنز العمّال ج 13 ص93)
(25) قال رسول اللّه صلى الله علیہ سيّدَةُ نِساءِ أَهْلِ الجَنَّةِ فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: جنت کی تمام عورتوں کی سرور و سردار سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا ہیں۔ (كنز العمّال ج13 ص94، صحيح البخاري، كتاب الفضائل، باب مناقب فاطمة، البداية والنهاية ج 2 ص61)
(26) قال رسول اللّه صلى الله علیہ وآلہ وسلم “أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الجَنَّةَ: عَليٌّ وَفاطِمَة”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: جنت میں سب سے پہلے علی علیہ السلام اور سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا داخل ہوں گے۔ (نور الأبصار ص 52/ شبيه به آن در كنز العمّال ج 13 ص 95)
(27) قال رسول اللّه(صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم): أُنْزِلَتْ آيَةُ التطْهِيرِ فِيْ خَمْسَةٍ فِيَّ، وَفِيْ عَليٍّ وَحَسَنٍ وَحُسَيْنٍ وَفاطِمَة۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: آیت تطہیر پنجتن پاک علیھم السلام (میرے، علی، حسن، حسین اور فاطمہ) سلام اللہ علیھم کی شان میں نازل ہوئی ہے۔(اسعاف الراغبين ص 116، صحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابة)