عصر رسالت میں تشیع کا آغاز اسلامی تاریخ کے تناظر میں

عصر رسالت میں تشیع کا آغاز اسلامی تاریخ کے تناظر میں

2025-01-21

7 بازدید

اس وقت مسلمانوں میں بہت سارے مذاہب پائے جاتے ہیں اور ہر مذہب کا پیروکار اپنے مذہب کو حقیقی اسلام اور باقی مذاہب کو باطل سمجھتا ہے۔ مذہب حقہ تشیع کو باطل قرار دینے کے لئے بہت سارے الزامات لگائے جاتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ تشیع کا آغاز رحلت آنحضرت ﷺ کے بعد ہوا اور اس آغاز کو مختلف زمانوں اور شخصیات سے جوڑتے ہیں۔ جب کہ اہل تشیع اور اہل سنت کی کتابوں سے ثابت ہے کہ مذہب تشیع کا آغاز زمانہ پیغمبرﷺ سے ہوا کیونکہ خود پیامبر اسلامﷺ سے تشیع کی حقانیت اور آخرت میں کامیابی کے بارے میں آحادیث موجود ہیں۔

مذہب تشیع کا آغاز کب ہوا اس بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جنہیں اجمالی طور پر دو طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

محققین کا پہلا طبقہ

بعض محققین کہتے ہیں کہ مذہب تشیع کا آغاز آنحضرتﷺ کی رحلت کے بعد ہوا البتہ یہ محققین خود چند گروہ میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔

الف: تشیع کا آغاز سقیفہ کے دن ہوا: اس گروہ کا کہنا ہے کہ تشیع کا آغازسقیفہ کے دن ہوا جب بزرگ صحابہ کی ایک جماعت نے کہا: حضرت علی (ع) امامت و خلافت کے لیے اولویت رکھتے ہیں۔[1]

ب: عبداللہ بن سبا نے تشیع کا آغاز کیا: اس گروہ کا کہنا ہے کہ تشیع کا آغاز خلافت عثمان کے آخری زمانے میں عبد اللہ بن سبا کے نظریات سے ہوا۔[2]

ج: تشیع کا آغاز قتل عثمان کے بعد ہوا: ایک گروہ قائل ہے کہ تشیع کا آغاز اس دن ہوا جس دن حضرت عثمان قتل ہوئے۔ چنانچہ ابن ندیم رقم طراز ہیں ان لوگوں کو شیعہ کہا جانے لگا جنہوں نے طلحہ و زبیر کے مقابلے میں حضرت علی (ع) کی پیروی کی، بلکہ خود حضرت علی (ع) بھی ان کو اپنا شیعہ کہا کرتے تھے۔[3]

د: تشیع کا آغاز روز حکمیت اور شھادت (ع) کے درمیان ہوا: ایک گروہ کا نظریہ ہے کہ تشیع کا آغاز حکمیت سے لے کر حضرت علی (ع) کی شھادت تک وجود میں آیا۔[4]

ھ: واقعہ کربلا کے بعد تشیع کا آغاز ہوا: محققین کا ایک گروہ قائل ہے کہ تشیع کا آغاز واقعہ کربلا اور امام حسین (ع) کی شھادت سے مربوط ہے۔[5]

محققین کا دوسرا طبقہ

یہ طبقہ قائل ہے کہ تشیع کا آغاز زمانہ رسول اکرم ﷺ سے ہی ہوا تھا اور تمام شیعہ علما بھی اسی نظریے کے قائل ہیں۔[6] کیونکہ حضرت رسول اکرم ﷺ کی بہت ساری احادیث میں لفظ شیعہ حضرت علی (ع) کے چاہنے والوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔

سیوطی جو کہ اہل تسنن کے مشھور مفسرین میں سے ہے، سورہ بینۃ کی سات نمبر آیت کی تفسیر میں پیغمبر اسلام ﷺ سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ ’’اولئک ھم خیر البریۃ‘‘ سے مراد حضرت علی (ع) اور ان کے شیعہ ہیں اور وہ قیامت کے دن کامیاب ہوں گے۔[7]

ایک اور حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: تم قیامت میں سب سے زیادہ مجھ سے نزدیک ہو گے اور (تمہارے) شیعہ نور کے ممبر پر ہوں گے۔[8]

حضرت ختمی مرتبت ﷺ کے ساتھ ساتھ خود حضرت علی (ع) بھی اپنے ماننے والوں کو اپنا شیعہ کہہ کر پکارتے تھے، مثلا جب طلحہ اور زبیر کے ہاتھوں بصرہ میں رہنے والے شیعوں کی ایک جماعت کی شھادت کی خبر سنی تو حضرت (ع) نے ان قاتلوں کے حق میں نفرین کرتے ہوئے فرمایا: خدایا! انہوں نے میرے شیعوں کو قتل کر دیا تو بھی انہیں قتل کر۔[9]

شیعوں کے دوسرے نام

حضرت علی (ع) جب خلافت ظاہری پر فائز ہوئے تو تشیع اردگرد کے علاقوں میں پھیلی تو شیعہ نام کے علاوے آہستہ آہستہ دوسرے عناوین جیسے علوی، امامی، حسینی، اثنا عشری، خاصہ، جعفری، ترابی اور رافضی وغیرہ اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں کے لئے استعمال ہونے لگے۔ یہ سارے نام مختلف مناسبتوں کی وجہ سے تشیع کے بارے میں مشہور ہوئے بلکہ بعض نام تو مخالفین نے شیعہ کی سرزنش اور تحقیر کرنے کے لیے رکھے تھے۔

1. ترابی

چنانچہ معاویہ کے زمانے میں بنی امیہ اور اہل شام حضرت علی (ع) کو کنیت کی وجہ سے ابو تراب اور شیعہ کو ترابی کہتے تھے۔

معاویہ نے صفین اور حکمیت کے بعد جب عبد اللہ بن خزرمی کو بصرہ بھیجنا چاہا تو تمام قبیلوں کے بارے میں اس نے بہت تاکید کی لیکن قبیلہ ربیعہ کے بارے میں کہا کہ: ربیعہ کو چھوڑ دیں کیونکہ اس کے تمام افراد ترابی ہیں۔[10] مسعودی کے بقول ابو مخنف کے پاس ایک کتاب تھی جس کا نام ’’ اخبار الترابیین‘‘ تھا، مسعودی اس کتاب سے نقل کرتا ہے کہ اس میں (عین الورد کے حوادث) کا تذکرہ ہے۔[11]

2. رافضی

رافضی بھی ایک نام شیعہ کا مخالفین کی طرف سے رکھا گیا اور جب چاہتے کہ کسی پر دین چھوڑ نے کا بہتان لگائیں تو اسے رافضی کہہ کر پکارتے تھے۔ اہل سنت کے امام شافعی کہتے ہیں: ’’ان کان رفضا حب آل محمد فلیشھد الثقلان انی رافضی‘‘ یعنی اگر آل محمد علیہم السلام کی دوستی رفض ہے تو جن و انس گواہ رہیں کہ میں بھی رافضی ہوں۔[12]

آقای شہرستانی فرماتے ہیں: جس وقت اہل کوفہ نے زید بن علی (ع) سے سنا کہ وہ شیخین پر تبرا نہیں کرتے اور افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی امامت کو جائز سمجھتے ہیں تو ان کو چھوڑ دیا اور اسی وجہ سے رافضی کہلانے لگے، کیونکہ رفض کے معنی چھوڑنے کے ہیں۔[13]

3. علوی

علوی نام کے بارے میں سید محسن امیں لکھتے ہیں: قتل عثمان کے بعد جب معاویہ حضرت علی (ع) کے ساتھ بر سر پیکار ہوا اور خون عثمان کے بدلے کا جھوٹا نعرہ لگایا تو اس کے پیروکاروں کو عثمانی کہا جانے لگا کیونکہ وہ عثمان کو دوست رکھتے تھے اور حضرت علی (ع) سے نفرت کرتے تھے اسی طرح حضرت علی (ع) کے پیروکاروں کو شیعہ کے ساتھ ساتھ علوی بھی کہا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ بنو عباس کے زمانے سے پہلے تک چلتا رہا لیکن ان کے زمانے میں یہ نام ختم ہو گئے اور فقط شیعہ اور سنی استعمال ہونے لگا۔[14]

4. امامی

شیعوں کا دوسرا نام امامی تھا جو زیدیوں کے مقابلے میں بولا جاتا تھا۔ چنانچہ ابن خلدون لکتھا ہے: بعض شیعہ اس بات کے قائل ہین کہ روایات صریح دلالت کرتی ہیں امامت صرف حضرت علی (ع) کی ذات میں منحصر ہے اور یہ امامت ان کے بعد ان کی اولاد میں منتقل ہو جائے گی، یہ لوگ امامیہ ہیں اور شیخین سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت علی (ع) کو مقدم نہیں کیا او ان کی بیعت نہیں کی، یہ لوگ ابو بکر اور عمر کی خلافت کو قبول نہیں کرتے ہیں۔

اور بعض شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنی جگہ کسی کو معین نہیں کیا بلکہ امام کے اوصاف بیان کر دیے جو صرف اور صرف حضرت علی (ع) پر منطبق ہوتے ہیں اور یہ لوگوں کی کوتاہی تھی کہ انھوں نے اپنے حقیقی امام کو نہیں پہچانا، وہ لوگ شیخین کو برا نہیں کہتے ہیں وہ فرقہ زیدیہ میں سے ہیں۔[15]

5. حسینی

خاندان نبوت کے ماننے والوں کا ایک نام حسینی بھی ہے جو شھادت امام مظلوم کے بعد ان کے قصاص کے لیے جو نعرہ لگایا گیا (جو کہ ابھی بھی لگایا جاتا ہے) اس نعرہ کی وجہ سے شیعہ کو حسینی کہا جانے لگا۔ ابن حزم اندلسی رقم طراز ہیں کہ: رافضیوں مین کچھ حسینی ہیں کہ جو ابراہیم بن مالک اشتر کے اصحاب میں سے ہیں کہ جو کوفہ کی گلیوں میں گھومتے پھرتے تھے اور ’’یا لثارات الحسین‘‘ کا نعرہ لگاتے تھے ان کو حسینی کہا جاتا تھا۔[16]

6. قطیعہ

شیعہ کے ناموں میں ایک نام قطیعہ بھی تھا جو امام موسی کاظم (ع) کی شھادت کے بعد واقفیہ کے مقابلے میں شیعوں کے لئے بولا جاتا تھا یعنی ان کوگوں نے امام کاظم (ع) کی شھادت کا قاطعیت کے ساتھ یقین کر لیا تھا اور امام رضا (ع) اور ان کے بعد اماموں کی امامت کے قائل ہو گئے تھے جب کہ واقفیہ امام موسی کاظم (ع) کی شھادت کے قائل نہ تھے۔[17]

7. جعفری

آج کے زمانے میں تشیع کا مشہور نام جعفریہ اہل تسنن کے چار مذاہب کے مقابلے میں ہوتا ہے کیونکہ تشیع کی فقہ امام جعفر صادق (ع) کے توسط سے زیادہ شیعوں تک پہنچی ہے اور زیادہ تر روایتیں بھی امام صادق (ع) سے نقل ہوئی ہیں۔ لیکن سید حمیری کے شعر سے یہ معلوم ہوتا ہے تشیع کا نام ’’جعفری‘‘ نہ صرف فقہی لحاظ سے بلکہ اصولی لحاظ سے بھی تمام فرقوں کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے۔

سید حمیری فرماتے ہیں ’’تجعفرت باسم اللہ واللہ اکبر‘‘ یعنی میں خدا کے نام سے جعفری ہو گیا ہوں اور خدا وند متعال بزرگ ہے۔[18] سید حمیری کا مقصد جعفری ہونے سے مذھب حقہ تشیع کے راستے پر چلنا ہے کہ جو کیسانیہ کے مقابلے میں ذکر ہوا ہے۔

 

نتیجہ

تشیع کا آغاز کب ہوا اس بارے میں بہت سارے نظریات پائے جاتے ہیں جیسا کہ سقیفہ کے دن، خلافت عثمان کے دوران، عبداللہ بن سبا کے واسطے سے، روز حکمیت سے شہادت علی (ع) کے دوران، واقعہ کربلا کے بعد وغیرہ لیکن تشیع و اہل تسنن کے کتابوں سے ثابت ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی بہت ساری احادیث تشیع کی حقانیت اور آخرت میں کامیابی پر موجود ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے تشیع کا آغاز زمانہ پیغمبر اسلام ﷺ سے ہے نہ کہ بعد از رحلت آنحضرتﷺ۔ اس کے پتہ چلا کہ شیعہ کے مختلف نام مختلف زمانوں اور مختلف وجوہات کی وجہ سے رکھے گئے ہیں جن میں سے علوی، ترابی، امامی، قاطیعہ اور جعفریہ قابل ذکر ہیں۔

 

حوالہ جات

[1]۔ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص124۔

[2]۔ اللیثی، جہاد الشیعۃ، ص25۔

[3]۔ ابن ندیم، الفہرست، ص249۔

[4]۔ بغدادی، الفرق بین الفرق، ص134۔

[5]۔ اللیثی، جہاد الشیعۃ، ص35۔

[6]۔ محرمی، دفاع از حقانیت شیعہ، ص48۔

[7]۔ سیوطی، الدر المنثور، ج2، ص379۔

[8]۔ خوارزمی، المناقب، ص158۔

[9]۔ مفید، الارشاد، ص228۔

[10]۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص423۔

[11]۔ مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص15۔

[12]۔ ہیثمی، الصوعق المحرقۃ، ص123۔

[13]۔ شہرستانی، ملل و نحل، ج1، ص139۔

[14]۔ امین، اعیان الشیعۃ، ص19۔

[15]۔ ابن خلدون، مقدمہ، ص197۔

[16]۔ اندلسی، العقد الفرید،ج2، ص234۔

[17]۔ شہرستانی، ملل و نحل، ج1، ص150۔

[18]۔ مسعودی، مروج الذھب، ج3، ص92۔

منابع

1. ابن ندیم، محمد بن اسحاق، الفہرست، بیروت، دار المعرفۃ، 1396ق۔

2. امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1403ق۔

3. اندلسی، احمد بن محمد، العقد الفرید، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1409ق۔

4. بغدادی، عبد القادر، الفرق بین الفرق، قاہرۃ، طبع قاہرۃ، 1397ق۔

5. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، اول، 1397ق۔

6. سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی تفسیر الماثور، قم، منشورات آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1404ق۔

7. شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، ملل و نحل، قم، منشورات الشریف الرضی، 1424ق۔

8. محرمی، غلام حسن، دفاع از حقانیت شیعۃ، قم، مومنین، 1378ش۔

9. ہیثمی، ملکی، الصواعق المحرقۃ فی الرد علی اھل البدع و الزندقۃ، قاہرۃ، مکتبۃ القاہرۃ، 1384ق۔

10. اللیثی، مختار، جہاد الشیعۃ، بیروت، دار الجیل، 1396ق۔

11. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، قم، المؤتمر العالمي لألفيۃ الشيخ المفيد، 1413 ‌‎ق۔

12. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، بیروت، دار الفکر، 1415ق۔

 

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

محرمی، غلام حسن، تاریخ تشیع (ابتدا سے غیبت صغری تک)، قم، مجمع جہانی اہل بیت (ع)، اول، 2020م

صفحہ 51 سے 69 تک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے