حضرت علی (ع) کی خاموشی کے اسباب خود آپ کی زبانی

حضرت علی (ع) کی خاموشی کے اسباب خود آپ کی زبانی

2024-04-14

8 بازدید

حضرت علی (ع) کی خاموشی ایک ایسا سؤال ہے، جو ذہن میں بار بار ابھرتا ہے، کہ آخر حضرت علی (ع) جو اتنے بڑے بہادر اور شجاع تھے، کیسے ان تمام مصائب پر خاموش رہے جو آپ پر اور آپ کی ہمسر جناب فاطمہ زہرا (ع) پر ڈھائے گئے؟ آخر ابوبکر کی حکومت کے خلاف آپ نے جنگ کیوں نہیں کی؟ اور ہمیشہ انتقام لینے سے گریز کیوں کرتے رہے؟ خود حضرت علی (ع) نے بعض اسباب کو بیان کیا ہے جن کی بناپر آپ کو اپنے حق سے صرف نظر کرنی پڑی۔ وہ اسباب یہ ہیں:

۱۔ فوجی توانائی کا نہ ہونا

حضرت علی (ع) کی خاموشی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ آپ کے پاس ظاہری طور پر کوئی لشکر نہیں تھا، جس کے ذریعہ آپ ابوبکر کے خلاف اعلان جنگ کرتے۔ چنانچہ آپ نے بہت سے مواقع پر اس چیز کی صراحت بھی کی ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:

الف- حضرت علی (ع) خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں: "وَ طَفِقْت‏ُ‏ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَةٍ عَمْيَاءَ يَشِيبُ فِيهَا الصَّغِيرُ وَ يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ وَ يَكْدَحُ فِيهَامُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّهُ‏ فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى هَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَيْنِ قَذًى وَ فِي الْحَلْقِ شَجًا أَرَى تُرَاثِي نَهْبا”[1]

میں نے خلافت کے آگے پردہ ڈال دیا اور اس سے پہلے تہی کرلی اور یہ سوچنا شروع کر دیا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کر دوں یا اسی بھیانک اندھیرے پر صبر کر لوں، جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف ہو جائے اور بچہ بوڑھا ہو جائے اور مومن محنت کرتے کرتے خدا کی بارگاہ تک پہنچ جائے۔ تو میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے، تو میں نے اس عالم میں صبر کر لیا کہ آنکھوں میں مصائب کی کھٹک تھی اور گلے میں رنج و غم کے پھندے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔

ب- حضرت علی (ع) کی خاموشی کا راز یہ بھی تھا کہ جس کو ایک مقام پر حضرت نے اس طرح بیان فرمایا: "فَنَظَرتُ فَإذا لَیسَ لِي مُعین إلاَّ إھلُ بَیتِيْ، فَضَنِنۡتُ بھم عَنِ المَوتِ وَ أَغْضَیتُ علی القَذَیٰ وَ شَرِبتُ علی الشَّجَا وَ صَبَرتُ علیٰ أخۡذِ الۡکَظَمِ وَ علیٰ أمَرَّ مِنْ طعم العَلۡقَمَ”[2]

میں نے دیکھا کہ سوائے میرے گھر والوں کے کوئی میرا مدد گار نہی ہے تو میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے گریز کیا اور اس حال میں چشم پوشی کی کہ آنکھوں میں خس و خاشاک تھا۔ میں نے غم و غصہ کے گھونٹ پئے اور گلو گرفتگی اور خنطل سے زیادہ تلخ حالات پر صبر کیا۔

حضرت علی (ع) کے ساتھ ان کے مختصر سے خاندان کے علاوہ کوئی دوسرا نہ تھا اس صورت میں اگر آپ ابوبکر کے خلاف جنگی کارروائی کرتے، تو آپ کا خاندان بہت سی مشکلات میں گرفتار ہوجاتا۔ اس کے علاوہ دوسری طرف امت رسول مصائب و آلام کا شکار ہو جاتی۔

ج- حق لینے کے لئے انصار اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کا ساتھ نہ دینا، چنانچہ حضرت فاطمہ زہرا (ع) ہر ایک کے گھر گئیں اور ان کو ابوبکر کے خلاف قیام کرنے اور اس منصب سے ہٹانے کی بات کہی، لیکن سب نے یہی جواب دیا: اے بنت رسول! اب ہم اس مرد کی بیعت کرچکے ہیں۔

جس پر جناب فاطمہ زہرا (ع) یہ کہہ کر ان کی بات رد کرتیں کہ: "أَ فَتدعون تراث رسول اللہ یَخْرُجُ مِنْ دَارہ إلی غیر دارہ” کیا تم اس بات کی اجازت دیتے ہو کہ رسول خدا (ص) کی میراث ان کے گھر سے نکل کر دوسرے کے گھر چلی جائے؟!

اس بات کو سنے کے بعد وہ یہ کہتے ہوئے عذر خواہی کرتے تھے کہ اگر آپ کے شوہر، ابوبکر سے پہلے ہمارے پاس آتے تو ہم ان کے پاس سے یہ حق جانے نہ دیتے۔

جس پر حضرت علی (ع) یہ جواب دیتے"أَ فَكُنْتُ أَدَعُ رَسُولَ اللَّهِ فِي بَيْتِهِ لَمْ أَدْفَنْهُ وَ أَخْرُجُ أُنَازِعُ‏ النَّاسَ‏ سُلْطَانَهُ”[3] کیا میں رسول خدا (ص) کے جنازہ کو بغیر دفن کے ان کے گھر میں چھوڑ کر لوگوں سے ان کی خلافت پر جھگڑا کرنے کے لئے نکل پڑتا!

جناب فاطمہ زہرا (ع) حضرت علی (ع) کی اس بات کی تائید یوں فرماتی ہیں: "مَا صَنَعَ أَبُو الحَسَنِ إلاّ مَا کَانَ یَنْبَغِيْ لَہ وَ صَنَعُوا مَا اللَّہُ حَسِیْبُھُم عَلَیْہِ”[4] ابوالحسن (ع) نے وہ کام انجام دیا جو ان کے لئے سزاوار تھا لیکن ان لوگوں نے خدا کی قسم وہ کام انجام دیا جو اصلاً سزاوار نہ تھا۔

جناب فاطمہ زہرا (ع) کی معاذ ابن جبل سے گفتگو

جناب فاطمہ زہرا (ع) نے آخر میں معاذ ابن جبل سے نصرت طلب کی اور اس سے کہا: "جِئۡتُکَ مُسۡتَنۡصِرَةَ و قد بَایعتَ رسولَ اللہ علی أنْ تَنصُرَہُ وذرِّیَتہُ و تَمنَعہ مما تَمْنَعُ مِنْہُ نَفَسَکَ ذُرّیتَک، و إنَّ أبابکرٍ قد غَصَبَنِيۡ فَدَکاً و أخرج وکِیلی منھا”

میں تم سے نصرت کا مطالبہ کرنے کے لئے آئی ہوں کیونکہ تم نے رسول خدا (ص) کی اس بات پر بیعت کی تھی کہ تم ان کی اور ان کی اولاد کی مدد کروگے اور جو چیز اپنے یا اپنے ا ہل و عیال کے لئے ناپسند کرو گے، اس کو رسول اور ان کے اہلبیت (ع) کے لئے بھی ناپسند کروگے۔ ابوبکر نے فدک کو غصب کر لیا ہے اور میرے وکیل کو نکال دیا ہے۔

معاذ نے کہا: کیا آپ کے ہمراہ میرے علاوہ اور بھی ہے؟

فاطمہ زہرا (ع) نے فرمایا: نہیں، کسی نے میری آواز پر لبیک نہیں کہا۔

معاذ نے کہا: پس میری مدد کا آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟

اس پر جناب فاطمہ زہرا (ع) غضبناک ہوئیں اور فرمایا: میں تجھ سے کلام نہ کروں گی، یہاں تک (محشر میں) رسول خدا (ص) سے ملوں۔

آپ اس کے یہاں سے رنجیدہ خاطر ہو کر نکلیں اس حال میں کے ان کا دل غم و حسرت سے بھرا ہوا تھا۔ اتنی دیر میں معاذ کا بیٹا آیا اور اس نے اپنے باپ سے پوچھا: رسول (ص) کی بیٹی کس لئے آئی تھیں؟

معاذ: مجھ سے ابوبکر کے خلاف مدد کا تقاضا کرنے آئی تھی۔

بیٹا: آپ نے ان کو کیا جواب دیا؟

معاذ: میں نے کہا صرف میری مدد سے کچھ نہ ہوگا۔

بیٹا: کیا آپ نے یاد گار رسول (ص) کی مدد کرنے سے انکار کردیا!

معاذ: ہاں

بیٹا: اس پر انہوں نے آپ سے کیا کہا؟

معاذ: میں تم سے کلام نہیں کروں گی، یہاں تک کہ رسول خدا (ص) سے ملاقات کروں۔

یہ سن کر معاذ کے بیٹے کا بھی دل ٹوٹ گیا اور اپنے باپ سے کہا: خدا کی قسم میں بھی آپ سے کلام نہ کروں گا، یہاں تک رسول خدا (ص) سے ملوں، کیونکہ آپ نے ان کی بیٹی کی آواز پر لبیک نہیں کہی۔[5]

۲۔ تحفظ اسلام

حضرت علی (ع) کی خاموشی کا سبب اسلام کی حفاظت کرنا تھا۔ اگر حضرت علی (ع) ابوبکر کے خلاف محاذ آرائی کرتے، تو خود پیکر اسلام پر ناقابل برداشت ضرب وارد ہوتی، کیونکہ منافقین خاص طور سے ان کا لیڈر ابوسفیان اور قریش کے وہ افراد جن کو اسلام سے نقصان پہنچا تھا، اس موقع کی تلاش میں تھے کہ اسلام کو مٹا کر پھر سے اپنی زندگی میں جاہلانہ رسم و رسومات کو زندہ کریں۔

اس وقت تک اکثر مسلمانوں کے دل میں اسلام داخل نہیں ہوا تھا۔ اس لئے کہ ایمان لانے والوں میں زیادہ تر تعداد جوانوں کی تھی، جن میں سے بعض کے نفوس میں روح جاہلیت ابھی باقی تھی۔ پس اگر جنگ ہوتی تو یہ لوگ اسلام کو چھوڑ کر پھر سے بت پرستی کی طرف پلٹ جاتے، جیسا کہ خود قریش نے رسول خدا (ص) کے بعد زمانہ جاہلیت کی طرف واپس پلٹنے کا قصد کر لیا تھا۔ میری نظر میں سب سے اہم یہی وجہ حضرت علی (ع) کی خاموشی کا سبب تھی۔ جس کی وجہ سے آپ نے اپنے حق سے چشم پوشی کا سبب بنی۔

۳۔ تحفظ وحدت مسلمین

حضرت علی (ع) کی خاموشی اور اپنے حق سے صرف نظر کرنے کا، ایک تیسرا سبب وحدت مسلمین کا تحفظ تھا، چونکہ آپ یہ چاہتے تھے کہ مسلمان مختلف فرقوں میں تقسیم نہ ہونے پائیں۔ اس لئے آپ نے سکوت اختیار کیا۔ حضرت علی (ع) نے اس بات کا اظہار اس وقت کیا کہ جب عمر بن خطاب کے بعد لوگ عثمان بن عفان کی بیعت کرنے لگے۔

چنانچہ آپ نے فرمایا: "لَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي‏ أَحَقُ‏ النَّاسِ‏ بِهَا مِنْ غَيْرِي وَ اللَّهِ لَأُسْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُورُ الْمُسْلِمِينَ وَ لَمْ يَكُنْ فِيهَا جَوْرٌ إِلَّا عَلَيَّ خَاصَّةً الْتِمَاساً لِأَجْرِ ذَلِكَ وَ فَضْلِهِ وَ زُهْداً فِيمَا تَنَافَسْتُمُوهُ مِنْ زُخْرُفِهِ وَ زِبْرِجِه‏"[6]

تمہیں معلوم ہے کہ میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خلافت کا حقدار ہوں اور خدا گواہ ہے کہ میں اس وقت تک حالات کا ساتھ دیتا رہوں گا، جب تک مسلمانوں کے مسائل ٹھیک رہیں اور ظلم صرف میری ذات تک محدود رہے، تاکہ میں اس کا اجرو ثواب حاصل کر سکوں اور اس زیب و زینت دنیا سے اپنی بے نیازی کا اظہار کر سکوں جس کے لئے تم سب مرے جا رہے ہو۔

حضرت علی (ع) کی خاموشی مسلمانوں کی وحدت و یکجہتی کی حفاظت کرنا تھی۔ لہذا آپ امت کے مقابلے میں خاموش رہے اور اپنے ان تمام رنج و مصائب پر پردہ ڈال دیا، جو آپ کے حق کے ضائع ہونے کی وجہ سے وجود میں آئے تھے۔

حضرت زہرا (ع) کا بدعا کرنا

ابو بکر اور عمر نے جناب فاطمہ زہرا (ع) کو راضی کرنے کی بڑی کوشش کی تاکہ اپنی حکومت کو جائز قرار دے سکیں، لیکن آپ نے فرمایا: میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتی ہوں کیا تم نے رسول خدا (ص) کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا: "فاطمہ کی رضا میری رضا ہے فاطمہ کی ناراضگی میری ناراضگی ہے۔ جس نے میری بیٹی فاطمہ کو دوست رکھا، اس نے مجھے دوست رکھا جس نے فاطمہ کو خشنود کیا اس نے مجھے خشنود کیا اور جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا؟

دونوں نے کہا: ہاں ہم نے رسول کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے۔

آپ نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور غمگین آواز میں یہ کہنا شروع کیا: "فَاِنِّي أُشْھِدُ اللہ وَ مَلائِکَتَہُ أَنَّکُما أسْخَطۡتُمَانِي و ما أَرۡضَیۡتُمانِيُ، و لَئن لَقِیتُ رَسُولَ اللہِ لأَشۡکُوَنّکُمَا إلَیْہ” میں خدا کو گواہ قرار دیتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھ کو ناراض کیا میں تم سے راضی نہیں ہوں اگر میں نے اپنے بابا سے ملاقات کی تو میں ضرور تم دونوں کی شکایت کروں گی۔

پھر آپ ابوبکر کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا: "وَ اللَّہِ لأدْعُونَّ عَلَیۡکَ فِي کُلِّ صَلاةٍ أُصَلِّیھَا” خدا کی قسم میں ہر نماز میں تیرے لئے بدعا کروں گی[7]

حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی آخری وصیت

جگر گوشہ رسول کو بیماریوں نے گھیر لیا اور چاروں طرف سے رنج و مصائب آپ پر حملہ آور ہو گئے جن کی وجہ سے آپ ہر روز لاغر و کمزور ہوتی گئیں۔ موت بڑی تیزی سے آپ کے استقبال کے لئے قدم بڑھانے لگی، جبکہ آپ ابھی عین جوانی کے عالم میں تھیں۔ جیسے ہی موت کے آثار نمودار ہوئے، تو آپ نے اپنے شوہر امام المتقین حضرت علی (ع) سے وصیت فرمائی جس میں اہم باتیں یہ تھیں:

١۔ رات کی تاریکی میں ان کے جسم اطہر کو دفن کریں اور جنہوں نے ان کے ساتھ ناانصافی کی اور ان کے حق کو غصب کر کے دل دکھایا ہے، ان میں سے کسی کو بھی تشیع جنازہ میں حاضر نہ ہونے دیں، کیونکہ وہ جناب فاطمہ (ع) کے قول کے مطابق ان کے اور ان کے باپ کے دشمن تھے۔

٢۔ ان کی قبر کے نشان کو مٹادیں، تاکہ وہ ان کی ناقابل شک و تاویل ناراضگی کی علامت رہے اور صدیاں ان پر آنسو بہاتی رہیں۔ اس کے بارے میں شریف مکہ کہتے ہیں:

قُل لنا أ َیُّھَا المُجَادِلُ في القولِ * عَنِ الغَاصِبِینِ إذْغصَبَاہا

أھُما تَعَمَّدَاھَا کما قُلتَ * بِظُلمٍ کَلّا وَ لا اھْتَضَمَاھا

فلِمَا ذا إذْ جُہِّزَتْ لِقَاءِ اللَّہِ * عِندَ المَمَاتِ لم یَحضُرَاھا

شَیَّعَتْ نَعْشَھا مَلائِکَةُ الرّحمٰنِ * رِفۡقاً بِھَا و مَا شَیَّعاھا

کان زُھداً في أَجرِھَا أَمْ عِنَاداً * لِأَبِیھَا النَّبيِّ لم یتْبَعاھا

أَمْ لأَنَّ البَتُولَ أَوْصَتْ بِأَن لا * یَشْھَدا دَفۡنَہَا فما شَھِداھا

أَم أبُوھَا أسَرَّذَاکَ إلیھَا * فَأطاعَتْ بِنتُ النَّبِيِّ أبَاھا

کیفَ ماشِئتَ قُل کَفَاکَ فَھۡذِي * فِرْیَة قَدْ بَلَغْتَ أَقْصَی مَدَاھا[8]

اے دو غاصبوں کے طرفدار اور دفاع کرنے والے ہمیں بتا کیا ان دونوں نے جان بوجھ کر بنت رسول (ع) پر ظلم نہ کیا؟ جیسا کہ تیرا ماننا ہے (کہ انھوں نے عمداً ظلم نہ کیا) جبکہ کیا۔ اگر تیری بات صحیح ہے، تو پھر بتلا جب ان کی تجہیز کا وقت آیا تو وہ دونوں کیوں حاضر نہ ہوئے۔

اور ان کی تشیع جنازہ میں فرشتگان خدا نے محبت و شفقت کی بنا پر شرکت کی، تو وہ دونوں شریک کیوں نہ ہوئے؟ کیا ان کی فضیلت سے منہ موڑنے کی وجہ سے انہوں نے ایسا کیا یا ان کے باپ رسول خدا (ص) سے دشمنی کی بنا پر شریک نہ ہوئے؟ یا اس لئے کہ حضرت فاطمہ زہرا (ع) نے وصیت فرمائی تھی کہ وہ دونوں میری تدفین میں شریک نہ ہو ں؟

وہ اسی لئے شریک نہ ہوئے یا ان کے بابا نے کہا تھا کہ ان دونوں کو اپنے جنازہ میں شریک نہ ہونے دینا اور ان سے ناراض رہنا جس کی بنا پر رسول کی بیٹی نے اپنے باپ کی اطاعت کی؟ چاہے جو کہہ تیرے لئے یہ بات کافی ہے کہ تیرا ان دونوں سے دفاع کرنا اور یہ کہنا کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا، یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ جو اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔

حضرت علی (ع) نے معصومہ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے سحر کے نزدیک ان کے جسم مطہر کو دفن کیا۔ جب دفن کر چکے، تو قبر کے کنارے کھڑے ہو کر اتنا گریہ کیا کہ قبر آپ کے اشکوں سے تر ہوگئی۔ آپ روتے جاتے اور اپنی درد ناک آواز میں یہ کلمات کہتے جاتے تھے:

"السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَنِّي وَ عَنِ ابْنَتِكَ النَّازِلَةِ فِي جِوَارِكَ وَ السَّرِيعَةِ اللَّحَاقِ بِكَ قَلَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَنْ صَفِيَّتِكَ صَبْرِي وَ رَقَّ عَنْهَا تَجَلُّدِي إِلَّا أَنَّ فِي التَّأَسِّي لِي بِعَظِيمِ فُرْقَتِكَ وَ فَادِحِ مُصِيبَتِكَ مَوْضِعَ تَعَزٍّ فَلَقَدْ وَسَّدْتُكَ فِي مَلْحُودَةِ قَبْرِكَ وَ فَاضَتْ بَيْنَ نَحْرِي وَ صَدْرِي نَفْسُكَ فَإِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون فَلَقَدِ اسْتُرْجِعَتِ‏ الْوَدِيعَةُ وَ أُخِذَتِ الرَّهِينَةُ أَمَّا حُزْنِي فَسَرْمَدٌ وَ أَمَّا لَيْلِي فَمُسَهَّدٌ إِلَى أَنْ يَخْتَارَ اللَّهُ لِي دَارَكَ الَّتِي أَنْتَ بِهَا مُقِيمٌ وَ سَتُنَبِّئُكَ ابْنَتُكَ بِتَضَافُرِ أُمَّتِكَ عَلَى هَضْمِهَا فَأَحْفِهَا السُّؤَالَ وَ اسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ هَذَا وَ لَمْ يَطُلِ الْعَهْدُ وَ لَمْ يَخْلُ مِنْكَ الذِّكْرُ وَ السَّلَامُ عَلَيْكُمَا سَلَامَ مُوَدِّعٍ لَا قَالٍ وَ لَا سَئِمٍ فَإِنْ أَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَلَالَةٍ وَ إِنْ أُقِمْ فَلَا عَنْ سُوءِ ظَنٍّ بِمَا وَعَدَ اللَّهُ الصَّابِرِينَ"[9]

سلام ہو آپ پر اے خدا کے رسول (ص) ! میری طرف سے اور آپ کی اس دختر کی طرف سے جو آپ کے جوار میں نازل ہو رہی ہے اور بہت جلدی آپ سے ملحق ہو رہی ہے۔ یا رسول اللہ (ص) میری قوت صبر آپ کی منتخب روز گار دختر کے بارے میں ختم ہوئی جا رہی ہے اور میری ہمت ساتھ چھوڑے  دے رہی ہے۔ صرف سہارا یہ ہے کہ میں نے آپ کے فراق کے عظیم صدمہ اور جانکاہ حادثہ پر صبر کرلیا ہے، تو اب بھی صبر کروں گا کہ میں نے ہی آپ کو قبر میں اتارا تھا اور میرے ہی سینہ پر سر رکھ کر آپ نے انتقال فرمایا تھا۔

بہر حال میں اللہ ہی کے لئے ہوں اور مجھے بھی اس کی بارگاہ میں واپس جانا ہے۔ آج امانت واپس چلی گئی اور جو چیز میری تحویل میں تھی وہ مجھ سے چھڑا لی گئی۔ اب میرا رنج و غم دائمی ہے اورمیرے راتیں نذر بیداری ہیں، جب تک مجھے بھی پروردگار اس گھر تک نہ پہنچا دے جہاں آپ کا قیام ہے۔ عنقریب آپ کی دختر نیک اختر ان حالات کی اطلاع دے گی کہ کس طرح آپ کی امت نے اس پر ظلم ڈھانے کے لئے اتفاق کرلیا تھا آپ اس سے مفصل سوال فرمائیں اور جملہ حالات دریافت کریں۔ افسوس کہ یہ سب اس وقت ہوا ہے جب آپ کا زمانہ گزرے دیر نہیں ہوئی ہے اور ابھی آپ کا تذکرہ باقی ہے۔

میرا سلام ہو آپ دونوں پر، اس شخص کا سلام جو رخصت کرنے والا ہے اور دل تنگ و ملول نہیں ہے۔ میں اگر اس قبر سے واپس چلا جائوں تو یہ کسی دل تنگی کا نتیجہ نہیں ہے اور اگر یہیں ٹھہر جائوں تو یہ اس وعدہ کی ہے اعتباری نہیں ہے، جو پروردگار نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے۔

ان کلمات سے امام کے گہرے رنج و غم کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے بنت رسول کی شہادت سے پہنچنے والے عظیم صدمہ کی شکایت کی اور کہا کہ فاطمہ زہرا (ع) کے غم میں میرا صبر کم ہو گیا ہے، جبکہ حضرت علی (ع) دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبت پر صبر کر لیا کرتے تھے۔

امام نے رسول خدا (ص) سے درخواست کی کہ آپ اپنی پارۂ جگر سے تمام ان چیزوں کے بارے میں تفصیل سے سوال کریں، جو آپ کی رحلت کے بعد واقع ہوئی ہیں۔ آپ کی امت نے کیسے کیسے ظلم آپ کی پیاری بیٹی پر کئے اور مجھ سے کیسے حق خلافت کو غصب کرلیا ہے۔

نتیجه

اس تحریر سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ تینوں خلافتیں ناحق اور غاصبانہ تھیں۔ اور حضرت علی (ع) کی خاموشی، ناصر و مددگار کے نہ ہونے، حفاظت اسلام اور مسلمانوں کو اختلاف سے بچانے کی وجہ سے تھی۔ اگر آپ ایسا نہ کرتے، تو آج اسلام کا نام و نشان تک باقی نہ رہتا۔ لہذا آپ نے ان اسباب کی وجہ سے تمام آلام و مصائب برداشت کئے۔

حوالہ جات

[1]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، ج۱، ص۳۱۔
[2]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، خ۲۶، ج۱، ص۶۸۔
[3] مجلسى، بحار الأنوار، ج‏28، ص355۔
[4]۔ ابن قتیبه، الامامۃ و السیاسۃ، ج۱، ص۱۲؛ مجلسى، بحار الانوار، ج۲۸، ص۳۵۲۔
[5]۔ مفید، الاختصاص، ص۱۸۴۔
[6]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ۷۴، ص۱۲۴۔
[7]۔ ابن‌قتیبه، الامامۃ و السیاسۃ، ج۱، ص۱۴؛ اعلمی حائری، تراجم أعلام النساء، ج۳، ص١٢١٤؛ عبد المقصود، الإمام علي ابن أبي طالب علیه السلام، ج۱، ص٢۱٨؛ امینی، الغدير، ج۷، ص٢٢٩؛ عاملی، اعیان الشیعہ، ج۱، ص٣١٨؛ موسوي هندي، افحام الاعداء و الخصوم، ص٨٧۔
[8]۔ عاملی، المجالس، ج۲، ص١٣٧؛ احمدی، علی، مواقف الشیعہ، ج۳، ص٢٨٧؛ عاملی، الانتصار (أهم مناظرات الشیعة فی شبکات الانترنت)، ج۶، ص٣٧٢۔
[9]۔ سید رضی، نہج البلاغۃ، خطبہ ۲۰۲، ج ۲، ص ۲۰۷۔۲۰۸۔

منابع

1. ابن‌قتیبه، عبدالله، الامامة و السیاسة، قم، انتشارات شریف رضی، ١٤١٣ھ۔
2. احمدی، علی، مواقف الشیعة، قم، مؤسسة النشر الإسلامي، ۱۴۲۲ھ۔
3. اعلمی حائری، محمد حسین، تراجم أعلام النساء، بیروت، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، ۱۴۰۷ھ /۱۹۸۷ء.
4. عاملی، محسن امین، أعیان الشیعة، محقق: امین، حسن، بيروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۳ھ۔
5. عاملی، محسن امین، المجالس السنية في مناقب و مصائب العترة النبوية، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۱۳ھ/۱۹۹۲ء۔
6. امینی، عبد الحسین، الغدير في الكتاب و السنة و الأدب، قم، مرکز الغدير للدراسات الإسلامية، ۱۴۱۶ھ۔
7. سید رضي، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، قم، مشهور، ۱۳۷۹ ش‏۔
8. عاملی، مہدی، الانتصار (أهم مناظرات الشیعة فی شبکات الانترنت)، بیروت، دار السیرة، ١٤٢٢ھ۔
9. عبدالمقصود، عبدالفتاح، الإمام علي ابن أبي طالب علیه السلام، بیروت، دار الصفوة، ۱۴۳۱ھ /۲۰۱۰ء.
10. مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار (ع)، بيروت‏، مؤسسة الوفاء، ۱۴۰۴ھ۔
11. مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، محقق: غفاری، علی اکبر، بيروت، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، ۱۴۳۰ھ /۲۰۰۹ء۔
12. موسوي هندي، ناصر حسين، افحام الاعداء و الخصوم بتكذيب ما افتروه علي سيدتنا ام كلثوم عليها سلام الملك الحي القيوم، محقق: اميني نجفي، محمد هادي، تهران، مكتبة نينوى الحديثة، بغیر تاریخ۔

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):

قرشی، باقر شریف، سقیفہ کانفرنس، مترجم: ذیشان حیدر عارفی، تصحیح: سيد محمد سعيد نقوی، نظر ثانی: سید مبارک حسنین زیدی، مجمع جہانی اہل بیت، ۱۴۴۲ھ۔ ق،۲۰۲۱ء۔ ص ۲۵۱- ۲۶۲

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے