عالم برزخ

عالم برزخ قرآن اور احادیث معصومین (ع) کی روشنی میں

کپی کردن لینک

دنیاوی زندگی کے اختتام اور قیامت کے عظیم دن کے آغاز کے درمیان ایک مخصوص مرحلہ آتا ہے جسے عالم برزخ کہا جاتا ہے۔ عالم برزخ ایک ایسا پردہ ہے جو انسان کی جسمانی موت اور آخرت کی حیات کے درمیان حائل ہوتا ہے، مگر اس میں روح اپنی شعوری زندگی کے ایک نئے اور گہرے تجربے سے گزرتی ہے۔ قرآن اور احادیث واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ موت کوئی خاتمہ نہیں، بلکہ ایک ایسی دنیا میں داخلہ ہے جو زیادہ حقیقی ہے۔ اور وہ دنیا عالم برزخ ہے۔

قرآن کی رو سے عالم برزخ کا مفہوم

اگر دو چیزوں کے درمیان کوئی چیز حائل ہو جائے، تو اسے برزخ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے موت اور قیامت کے درمیان کی زندگی کو عالم برزخ سے تعبیر کیا ہے۔

’’حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ‘‘[1]

(یہ غفلت میں پڑے ہیں) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آلے گی تو وہ کہے گا: میرے رب! مجھے واپس دنیا میں بھیج دے، جس دنیا کو چھوڑ کر آیا ہوں شاید اس میں عمل صالح بجا لاؤں، ہرگز نہیں، یہ تو وہ جملہ ہے جسے وہ کہہ دے گا اور ان کے پیچھے اٹھائے جانے کے دن تک ایک برزخ حائل ہے۔

قرآن کریم میں یہی ایک آیت ہے، جس میں موت اور قیامت کے درمیانی فاصلے کو برزخ سے تعبیر کیا گیا ہے، اسی آیت سے استفادہ کرتے ہوئے علماء اسلام نے دنیا اور قیامت کبریٰ کے درمیانی عالم کا نام برزخ رکھا ہے۔ اس آیت میں موت کے بعد زندگی کے دوام کا ذکر بس اتنا ہی ہے کہ کچھ انسان مرنے کے بعد اظہار پشیمانی کرتے ہوئے درخواست کریں گے کہ ایک دفعہ دنیا میں پھر لوٹائے جائیں، لیکن انکار کر دیا جائے گا۔

یہ آیت صراحتاً بتا رہی ہے کہ موت کے بعد انسان کی ایک خاص قسم کی زندگی ہوتی ہے، جس میں رہتے ہوئے وہ واپسی کی خواہش کرتا ہے، لیکن اسے رد کر دیا جاتا ہے۔

زندگی کے حوالے سے آیات کی اقسام

قرآن کریم میں ایسی آیتیں زیادہ ہیں، جو دلالت کرتی ہیں کہ موت اور قیامت کے درمیانی فاصلے میں انسان ایک خاص قسم کی زندگی رکھتا ہے، جس میں اس کے محسوس کرنے کی قوت میں شدت آجاتی ہے، وہ گفت و شنید کرتا ہے، اسے لذت، رنج، سرور اور غم بھی ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اسے ایسی زندگی نصیب ہوتی ہے، جس میں سعادت کی آمیزش ہوتی ہے، قرآن کریم میں مجموعی طور پر تقریباً ۱۵ آیتیں ایسی ہیں، جو زندگی کی کسی نہ کسی صورت کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انسان قیامت اور موت کے درمیانی عرصے میں ایک مکمل زندگی رکھتا ہے۔ ان آیتوں کی کئی اقسام ہیں:

پہلی قسم

وہ آیات جن میں صالح اور نیک انسانوں یا بدکار اور فاسد انسانوں کی اللہ کے فرشتوں سے بات چیت کا ذکر ہے، جو مرنے کے فوراً بعد ہوگی، اس قسم کی آیات کی تعداد کافی ہے۔

دوسری قسم

ایسی آیات جو مندرجہ بالا مفہوم کے علاوہ کہتی ہیں کہ فرشتے نیک اور صالح انسانوں سے اس گفتگو کے بعد کہیں گے کہ اس کے بعد الٰہی نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ یعنی انہیں قیامت کبریٰ کی آمد تک منتظر نہیں رکھا جاتا، ذیل کی دو آیات اسی مطلب پر مشتمل ہیں:

’’الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ‘‘[2]

جن کی روحیں فرشتے پاکیزہ حالت میں قبض کرتے ہیں (اور انہیں) کہتے ہیں: تم پر سلام ہو! اپنے (نیک) اعمال کی جزا میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔

’’قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ‘‘[3]

اس سے کہہ دیا گیا: جنت میں داخل ہو جاؤ، اس نے کہا: کاش! میری قوم کو اس بات کا علم ہو جاتا، کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا ہے۔

اس سے پہلے کی آیات میں ایک مومن کا، اپنی قوم کے ساتھ گفتگو کا ذکر ہے۔ جس میں وہ لوگوں کو شہر ’’انطاکیہ‘‘ میں ان انبیاء کا کہہ رہا ہے، جو عوام الناس کو غیر خدا کی عبادت سے منع کرتے اور خدا کی مخلصانہ عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے، اس کے بعد یہ مومن اپنے ایمان و اعتقاد کا اظہار کر کے کہہ رہا ہے کہ میری بات سنو اور میرے راستے پر عمل کرو۔

ان آیات میں ارشاد ہوتا ہے کہ لوگوں نے اس کی بات کو نہ سنا، حتیٰ کہ وہ اگلے جہان میں چلا گیا۔ اگلے جہان میں اپنے بارے میں مغفرت و کرامات الٰہی کے مشاہدے کے بعد اس نے آرزو کی کہ ’’اے کاش! میری قوم جو اس وقت دار دنیا میں ہے، میری یہاں کی سعادت مند کیفیت کا مشاہدہ کر سکتی۔‘‘

واضح رہے کہ یہ تمام حالات قیامت کبریٰ سے قبل کے ہیں کیونکہ قیامت کبریٰ میں اولین و آخرین سب جمع ہوں گے اور روئے زمین پر کوئی بھی باقی نہیں ہوگا۔ ضمناً اس نکتہ کو سمجھ لیں کہ مرنے کے بعد نیک اور سعادت مند لوگوں کےلئے بہشتیں مہیا ہیں نہ ایک بہشت، یعنی مختلف اقسام کی بہشتیں۔

عالم آخرت میں بہشت کے مدارج قرب الٰہی کے مدارج و مراتب کے لحاظ سے مختلف ہوں گے، جیسا کہ اہل بیت اطہار (ع) کی احادیث و روایات سے استفادہ ہوتا ہے۔ ان بہشتوں میں سے بعض عالم برزخ سے مربوط ہیں نہ کہ عالم قیامت سے، اس لئے اوپر والی دو آیات میں بہشت کے ذکر سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ عالم قیامت سے مربوط ہیں۔

تیسری قسم

تیسری قسم ان آیات کی ہے، جن میں فرشتوں کی انسانوں کے ساتھ گفتگو کا کوئی ذکر نہیں بلکہ سعادت مند اور نیک انسانوں یا بے سعادت اور بدکار انسانوں کی زندگی کا ذکر ہے، پہلی قسم کےلئے موت کے فوراً بعد نعمات الٰہی اور دوسری صنف کےلئے عذاب و رنج ہوگا۔ ذیل کی دو آیتیں اسی قسم سے متعلق ہیں:

’’وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ، فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ‘‘[4]

اور جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں قطعاً انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔ اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ انہیں دیا ہے اس پر وہ خوش ہیں اور جو لوگ ابھی ان کے پیچھے ان سے نہیں جا ملے ان کے بارے میں بھی خوش ہیں کہ انہیں (قیامت کے روز) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔

’’وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَاب‘‘[5]

پس اللہ نے اس (مومن) کو ان کی بری چالوں سے بچایا اور آل فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا۔ وہ لوگ صبح و شام آتش جہنم کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور جس دن قیامت برپا ہو گی (تو حکم ہوگا) آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو۔

اس آیت میں آل فرعون کےلئے دو قسم کے عذاب کا ذکر ہے۔ ایک قیامت سے پہلے جس کو ’’سُوءُ الْعَذَاب‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ ہر روز دو بار آگ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، بغیر اس کے کہ اس میں ڈال دئیے جائیں۔ دوسرا بعد از قیامت جس کو ’’أَشَدَّ الْعَذَاب‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حکم ہوگا انہیں جہنم میں داخل کیا جائے۔ پہلے عذاب کے بارے میں صبح و شام کا تذکرہ ہے، دوسرے عذاب میں نہیں۔

روایات میں عالم برزخ کا تذکرہ

جیسا کہ مندرجہ بالا آیت کی توضیح اور تفسیر میں امیرالمومنین (ع) کا فرمان ہے کہ: پہلا عذاب چونکہ عالم برزخ سے مربوط ہے، اسی لئے صبح و شام کا ذکر ہے کیونکہ عالم برزخ میں عالم دنیا کی طرح صبح و شام، ہفتہ، ماہ اور سال ہیں۔ اس کے برعکس دوسرا عذاب عالم قیامت سے متعلق ہے اور وہاں صبح و شام اور ہفتہ وغیرہ کا وجود نہیں۔

رسول اکرم ﷺ، امیرالمومنین علی (ع) اور باقی آئمہ اطہار (ع) کی احادیث و روایات میں عالم برزخ کا ذکر ہے، نیز اہل ایمان و اہل معصیت کی حیات کا بھی بہت تذکرہ ہے، جنگ بدر میں جب مسلمانوں کو فتح ہوئی اور سرداران قریش کو ہلاکت کے بعد ایک کنویں میں ڈال دیا گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا چہرہ اقدس کنویں میں کر کے فرمایا:

’’خدا نے ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا، اسے ہم نے سچا پایا، تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا گیا تھا، کیا وہ تم نے پا لیا؟‘‘ بعض اصحاب نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ مردوں سے باتیں کر رہے ہیں، کیا یہ آپ کی بات سمجھ رہے ہیں؟ فرمایا: ’’اس وقت یہ تم سے بھی زیادہ سنتے ہیں۔‘‘

اس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ جسم و جان کا رشتہ موت کی وجہ سے منقطع ہوجاتا ہے، لیکن روح جو سالہا سال تک جسم کے ساتھ متحد رہی اور وقت گزارا، کلی طور پر بدن سے اپنا تعلق منقطع نہیں کرتی۔

امام حسین (ع) روز عاشور نماز صبح با جماعت پڑھنے کے بعد اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک مختصر سے خطبہ میں ارشاد فرمایا: ’’تھوڑا سا صبر و استقامت سے کام لو، موت ایک پل کے سوا کچھ نہیں، جو آپ کو درد و رنج کے ساحل سے سعادت و خوش بختی اور وسیع جنتوں کے ساحل پر پہنچا دے گی۔‘‘

حدیث میں آیا ہے کہ لوگ سوئے ہوئے ہیں، جب مریں گے، تب بیدار ہو جائیں گے، مراد یہ ہے کہ موت کے بعد کی زندگی کا درجہ اور رتبہ دنیوی زندگی سے زیادہ کامل اور بلند ہے۔ جس طرح سے انسان نیند کی حالت میں احساس کے ایک ضعیف درجہ کا حامل ہوتا ہے، یعنی اس کی حالت نیم مردہ اور نیم زندہ ہوتی ہے۔

بیداری کے بعد اس کی حیات کامل ہوجاتی ہے، اسی طرح عالم دنیا میں عالم برزخ کی نسبت زندگی ضعیف تر اور زیادہ کمزور ہوتی ہے، جو عالم برزخ میں منتقل ہونے کے بعد کامل تر ہوجاتی ہے، یہاں پر دو نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:

الف: رہبران دین کی روایات و احادیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ عالم برزخ میں فقط ان مسائل کے متعلق سوال ہوگا، جن کا تعلق اعتقاد و ایمان سے ہے۔ باقی مسائل کا سوال قیامت کبریٰ میں ہو گا۔

ب: ثواب و اجر کی نیت سے مرحومین کے لواحقین کی طرف سے جو نیک کام کئے جاتے ہیں، وہ مردہ کےلئے آسانی، خیر اور سعادت کا باعث ہوں گے، مثلاً صدقات، خواہ صدقات جاریہ ہوں، جیسے ان اداروں کی تشکیل جن کا نفع خلق خدا کو حاصل ہو، یا صدقات غیر جاریہ جو ایسا عمل ہے کہ جلد ختم ہوجاتا ہے، یہ عمل اگر اس نیت سے ہو کہ اس کا اجر و ثواب، ماں، باپ، دوست، معلم و استاد یا کسی اور مردہ کو نصیب ہو، تو یہ مرنے والے کےلئے تحفہ شمار کیا جائے گا۔

اور اس کےلئے خوشی اور سرور کا باعث ہوگا۔ اسی طرح سے ان مرحومین کی نیابت میں دعا، طلب مغفرت، حج، طواف اور زیارات یہی فائدہ رکھتی ہیں، ممکن ہے اولاد نے والدین کو اپنی زندگی میں خدانخواستہ ناراض کیا ہو اور مرنے کے بعد اس طرح کے کام کر لے کہ والدین کی رضامندی کا مستحق ہو جائے، اسی طرح اس کے برعکس بھی ممکن ہے۔

خاتمہ

عالم برزخ محض ایک انتظار گاہ نہیں بلکہ اعمال کی جزا و سزا کا آغاز ہے۔ عالم برزخ میں نیک روحیں آرام پاتی ہیں اور بدکار روحیں سزا کا سامنا کرتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ عالم برزخ کی حقیقت کو سمجھ کر عملِ صالح کے ذریعے اپنی دائمی منزل کی تیاری کریں۔

حوالہ جات

[1]۔ مؤمنون: ۹۹-۱۰۰۔
[2]۔ نحل: ۳۲۔
[3]۔ یس: ۲۶-۲۷۔
[4]۔ آل عمران: ۱۶۹-۱۷۰۔
[5]۔ غافر: ۴۵-۴۶۔

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

مطہری، مرتضیٰ، ابدی زندگی اور اُخروی زندگی، ص۱۳-۱۶، لاہور، شہید مطہری فاؤنڈیشن، 2014م۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے