- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : محقق نمبر تین
- 2024/12/14
- 0 رائ
آزادی رائے کا لفظ انسانوں کے کانوں میں پڑنے والا اب تک کا سب سے لطیف اور پرجوش لفظ ہے۔ یہ لفظ انسانوں کے اندر ایک نئی زندگی کا احساس جگا دیتا ہے۔ آزادی رائے کا تصور انسانوں کو قید و بند کی زنجیریں توڑنے اور ایک آزاد معاشرے کی تعمیر کے لئے پرجوش کرتا ہے۔ ایک آزاد انسان ہی اپنی صلاحیتوں کو نکھار کر معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ آزادی رائے کی خاطر انسانوں نے ہر دور میں قربانیاں دی ہیں اور اس کی اہمیت کو کبھی فراموش نہیں کیا۔
آزادی رائے اور شیعہ و سنی عقیدہ انتخاب رہبر
آج اہل سنت معاشرے کے بعض اہل قلم شیعہ نظریہ یعنی امامت کے انتصابی ہونے کے موضوع پر تنقید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کا نصبی ہونا آج کے سماجی نظریات اور آزادی رائے کی روح سے کسی بھی طرح سازگار نہیں ہے۔
جواب: شاید جو سب سے اہم اور دلچسپ منطق امام کے انتخابی ہونے کے سلسلے میں پیش کی جا سکتی ہے اور جسے آج کے انسانی معاشرے کے خیالات سے قریب قرار دیا جا سکتا ہے، اس طرز استدلال کا تفصیلی جواب اس پر منحصر ہے کہ اس بحث کے تین اساسی نکتے پوری طرح واضح ہوں:
۱۔ منصب امامت کا نصبی یا منصوبی ہونا در واقع حقیقی آزادی رائے ہے اور ”آمریت“ و جبر سے بالکل جدا ہے۔
۲۔ مغرب کی جمہوری حکومتیں جو اقلیت پر اکثریت کی حکومت کی اساس پر استوار ہیں۔ وہ ان غیر عادلانہ سیاسی نظاموں میں سے ہیں جنہیں آج کے انسانوں نے مجبوراً قبول کیا ہے۔
۳۔ اگر یہ فرض کر لیں کہ حاکم کے انتخاب کے لئے یہی روش صحیح و درست ہے تو کیا صدر اسلام میں خلفاء کے انتخاب میں اس روش پر عمل ہوا ہے؟
ان تین نکتوں خاص طور سے دوسرے اور تیسرے نکتے پر مفصل بحث کی ضرورت ہے کہ ہم اختصار کے ساتھ ان میں سے ہر ایک پر روشنی ڈالتے ہیں۔
(الف)۔ امام کا منصوب کیا جانا آزادی رائے یا آمریت کے خلاف نہیں
آمریت ایک ایسی حکومت ہے جس میں ایک شخص یا گروہ بے پناہ طاقت کے ساتھ حکمرانی کرتا ہے۔ تاریخ میں آمریتی حکومتیں مختلف شکلوں میں موجود رہی ہیں، جیسے کہ زمیندار، سردار یا مطلق العنان بادشاہ۔ اس طرح کی حکومتوں میں جبر، تشدد اور ناانصافی عام ہوتی ہے۔ آمریت کی ایک بڑی شکل یہ ہے کہ ایک شخص بغاوت یا فوجی طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیتا ہے اور پھر اپنی مرضی سے قوانین بنا کر لوگوں پر حکومت کرتا ہے۔ اس طرح کی حکومتوں میں عوام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور انہیں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کے سلسلے میں شیعوں کا نظریہ اس طرح کی حکومتوں سے میلوں کا فاصلہ رکھتا ہے۔ امام کے منصوبی ہونے سے شیعوں کا مقصد یہ ہے کہ امام خدا کی جانب سے، جو سب کا خالق ہونے کے اعتبار سے تمام انسانوں پر اولیت اور حاکمیت کا حق رکھتا ہے، ایک سب سے زیادہ شائستہ فرد کی حیثیت سے جو ہر طرح کی جسمی و روحی آلودگی، برائی اور لغزش سے پاک ہے اور صرف اللہ کے حکم پر عمل کرتا ہے، پیغمبر اکرم (ص) کے بعد مسلمانوں کا رہبر و پیشوا معین کیا جائے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایسا شخص اپنے منصب پر فائز ہونے کے بعد ہر طرح کی خود سری سے دور ہو گا اور صرف پیغمبر اکرم (ص) کے لائے ہوئے قوانین کی بنیاد پر انسانی معاشرے کو چلائے گا۔
چونکہ خداوند عالم خالق ہونے کی بنا پر فطری طور سے سب پر حکومت کا حق رکھتا ہے اور تمام قوموں نے اس کے قوانین کو جان و دل سے تسلیم کیا ہے لہذا امام بھی ان ہی قوانین کی بنیاد پر حاکم ہوا ہے اور معصوم ہونے کی بنا پر ہر طرح کے عمدی سہوی ظلم و ستم سے محفوظ ہے، ایسی حکومت معقول ترین حکومت ہے۔
اس طرح کی حکومت میں اقلیت و اکثریت (یعنی اکثریت کی آمریت) کا تصور ہی نہیں ہے۔ اس میں صرف خدا کی رضا اور مخلوق کی مصلحت ہی پیش نظر ہوتی ہے (کوئی شخصی مرضی نہیں تھوپی جاتی اور نہ ان افراد کی خوشی مد نظر ہوتی ہے جنہوں نے اسے حاکم بنایا ہے)۔
یہ الہی و آسمانی حکومت جس میں کسی بھی طرح کی خود سری اور خود خواہی نہیں ہے بھلا اس کا ان ظالم و ڈکٹیٹر شپ حکومتوں سے کیا تقابل۔ یہ دونوں طرز حکومت ایک دوسرے سے اس قدر فاصلہ رکھتی ہیں کہ ان میں کسی بھی مشترک پہلو کا تصور کیا ہی نہیں جا سکتا۔
(ب)۔ آزادی رائے اور جمہوری حکومتوں کی دو اہم کمزوریاں
آج کی جمہوری حکومتوں کی کمزوریاں ایک دو نہیں ہیں کہ یہاں ان پر تفصیل سے بحث کی جائے لیکن ہم یہاں نمونے کے طور پر ان ہیں سے دو اہم کمزوریوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
۱۔ آزادی رائے اور جمہوری حکومت کہ پہلی کمزوری
اس طریقہ حکومت میں جو حاکم کسی پارٹی یا عوام کی ہاتھوں منتخب ہوتا ہے وہ ان کی رضامندی و خوشنودی حاصل کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ ان کی ہدایت و رہبری کی فکر میں نہیں رہتا۔ کسی پارٹی یا گروہ کے سیاستدان کے لئے یہ اہم نہیں ہے کہ وہ حق کا ساتھ دے، اہم یہ ہے عوام کی حمایت سے اسے ہاتھ نہ دھونا پڑے۔
اس کام میں کبھی اس کے لئے لازم و ضروری ہو جاتا ہے کہ اپنے ذاتی اعتقادات اور حقائق سے بھی آنکھیں بند کر لے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا اظہار و اقرار دنیا کے ان عظیم سیاست دانوں نے بھی کیا جو عرصہ تک پوری دنیا کی سیاست سے کھیلتے رہے ہیں امریکہ کا ایک گزشتہ صدر جان۔ایف کنیڈی اپنی کتاب میں لکھتا ہے:
کبھی سینیٹر مجبور ہوتا ہے کہ کسی اہم موضوع کے سلسلے میں عام جلسہ میں فوراً ہی اپنی رائے اور نظریے کا اظہار کرے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ وہ بھی غور و فکر کرنے کے لئے وقت چاہتا ہے تاکہ چند جملوں میں یا مختصر اصلاح کے ذریعے شبہ و اختلاف کو بہ قدر امکان دور کرے، لیکن نہ اسے غور کرنے کا موقع ملتا ہے نہ وہ خود کو لوگوں سے چھپا سکتا ہے اور نہ ہی اپنی رائے کے اظہار سے گریز کرسکتا ہے۔
بالکل ایسا لگتا ہے جیسے تمام موکل جنہوں نے اسے سینٹر بنایا ہے اس کی طرف آنکھیں گاڑے ہوئے اس بات کے منتظر ہیں کہ اس شخص کے رائے، جس سے اس کی سیاست کا مستقبل وابستہ ہے، کیا ہو گی۔
ان تمام باتوں کے علاوہ اس بات کی فکر کہ سینٹر کی مراعات اس سے سلب نہ کرلی جائے اور کہیں وہ اس چرب و نرم مشغلے سے محروم نہ کردیا جائے بڑے سے بڑے سیاستدان کی نیندیں حرام کئے رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض سینٹر اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوئے بغیر آسان اور کم خطرہ راہ اختیار کرتے ہیں۔ یعنی جب بھی ان کے ضمیر اور ان کے فیصلوں کے درمیان تصادم ہوتا ہے تو اپنی خود ساختہ منطق کے ذریعے ضمیر کو مطمئن کردیتے ہیں اور خود کو اپنے ووٹروں کے خیالات سے ہم آہنگ کردیتے ہیں ایسے لوگوں کو ڈرپوک نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں رفتہ رفتہ عام لوگوں کے رجحان و خیالات کی پیروی کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔
اور اپنی بھلائی اسی میں دیکھتے ہیں کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئیں۔ لیکن ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ضمیر کو کچل ڈالتے ہیں اور اپنے عمل کی توجیہ یوں کرتے ہیں۔ لوگوں میں نفوذ کرنے کے لئے پوری سچائی کے ساتھ اپنے ضمیر کی آواز سے کانوں کو بند کر لیتے ہیں۔ ”فرینک کینٹ“ کے بقول سیاست کو خلافِ اخلاق مشغلہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ”سیاست اخلاقی مشغلہ نہیں ہے“[1]۔
سیاسی رائٹر ”فرنیک کنیٹ“ لکھتا ہے کہ ”زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا مسئلہ بہت ہی اہم اور سنجیدہ ہے۔ اس کے حصول کی راہ میں بلا وجہ کے مسائل مثلاً، اخلاق یا حق و باطل پر کوئی توجہ نہیں کرنا چاہئے“۔
اس سلسلے میں ”مارک اشکال“ نے اپنے ایک ساتھی کو ۱۹۲۰ کے امریکہ کے انتخابات میں بہترین نصیحت کی اور وہ یہ کہ ”تم عوام کو فریب دینا نہیں چاہتے۔ یعنی تم نمائندہ بننے کی راہ میں اپنے ضمیر کو کچل نہیں رہے ہو، بلکہ تم یہ بات سیکھو کہ ایک سیاسی آدمی کے لئے ایسے حالات پیش آتے ہیں جن میں وہ اپنے ضمیر سے چشم پوشی کرنے پر مجبور ہے“[2]۔
ممکن ہے یہ خیال کیا جائے کہ ووٹروں کی رضامندی کا لحاظ اسی وقت لازم ہے جب حکومت کی مدت چند سال میں محدود ہو، لیکن چونکہ امام کی رہبری دائمی ہے اور دائمی حاکم کی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ آج بھی بعض ملکوں میں عملی طور پر رائج ہے لہذا ضروری نہیں کہ خلافت کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد امام و خلیفہ عوام کی رضامندی و خوشنودی حاصل کرنے کی فکر میں ہو۔
تو جواب یہ ہے کہ یہ خیال بہت ہی خام اور بے جا ہے کیوںکہ، خود اس دائمی حاکمیت میں بھی عام انتخاب کرنے والوں کے خیالات و رجحان کو نادیدہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ بے توجہی کی صورت میں حاکم کو انقلاب، شورش اور بغاوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عمر نے اپنی موت کے بعد خلیفہ کے انتخاب کے لئے جو چھ نفری کمیٹی بنائی تھی اس میں ”عبد الرحمٰن بن عوف“ نے، جس کا جھکاؤ کمیٹی کے دو گروہوں کے درمیان فیصلہ کن تھا، حضرت علی (ع) سے کہا:
میں آپ کی بیعت کرتا ہوں لیکن اسی شرط پر کہ آپ اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت اور شیخین کی سیرت پر عمل کریں گے، حضرت علی (ع) نے فرمایا: میں صرف خدا کی کتاب، رسول کی سنت اور اپنی عقل و فکر کی بنیاد پر عمل کروں گا۔ اس موقع پر عبد الرحمٰن بن عوف نے عثمان سے بھی اسی جملہ کا اقرار لیا اور عثمان نے عبدالرحمن کی شرط پر اپنی وفاداری کا اعلان کیا اور خلیفہ منتخب ہو گئے (اور بعد میں سب نے دیکھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے بنی امیہ کو لوگوں پر مسلط کردیا)۔
مختصر یہ کہ اکثر لوگوں کا انتخاب کرنے والے ایسی شرطیں رکھتے ہیں جس کا ماننا ایک با ایمان اور با ضمیر شخص کے لئے بڑا ہی سخت اور ناگوار ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حق شناس ان افراد شرطوں کو تسلیم نہیں کرتے لہذا منتخب بھی نہیں ہوتے اور ان کی جگہ غیر صالح افراد ہر طرح کی شرط قبول کر لیتے ہیں اور منتخب ہو جاتے ہیں۔
۲۔ آزادی رائے اور جمہوری حکومت کہ دوسری کمزوری
مغرب کی جمہوری حکومتوں پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس جمہوریت کی بازگشت آزادی رائے کے خلاف اور ایک طرح کا ظلم، آمریت اور اکثریت کا اقلیت پر جبر و ظلم ہے۔ کیونکہ اگر یہ فرض بھی کریں کہ انتخابات بالکل صحیح اور کسی چال بازی کے بغیر انجام پائے ہیں اس کے باوجود اکثریت جو صرف ایک ووٹ سے جیتی ہے اس اقلیت پر حکومت کرے گی جو صرف ایک ووٹ سے نہیں جیتی۔
جبکہ ممکن ہے کہ بہت سے موارد میں حق اقلیت کے ساتھ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے صرف ایک ووٹ کے ذریعے ایک ملک اور قوم کے منافع و مصلحتیں ضائع ہو جائیں! اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ۴۹ پر ۵۱ افراد کی حکومت ایک طرح کی ظالمانہ حکومت ہے جسے انسان نے مجبوری کی بنا پر اور اس سے بہتر طریقہ نہ ہونے کی صورت میں یا کسی اور راہ کی طرف توجہ دیئے بغیر، جس کی طرف اسلام نے رہنمائی کی ہے، اپنایا ہے۔
لیکن خدا کی جانب سے پیغمبر اسلام (ص) کے جانشین کے انتخاب میں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے ان تمام نا انصافیوں کا سد باب کردیا گیا ہے۔ امام کو وہ منتخب کرتا ہے جس کے حق حاکمیت پر سب راسخ ایمان رکھتے ہیں اور امام ان قوانین کے مطابق حکومت کرتا ہے جسے تمام لوگ قبول کرتے۔ یہاں پر اقلیت و اکثریت کا مسئلہ ہی پیش نہیں آتا۔
ان سب باتوں کے علاوہ جمہوری نظاموں میں اکثریت کی خواہشات اور آرزوئیں قانون کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور ان کے ارادے قطعی فیصلوں اور محکم حکم کی صورت میں تمام لوگوں پر لاد دئیے جاتے ہیں، لیکن اسلامی قوانین کی روح، جس میں ہمیشہ انسانی معاشرے کی مصلحتوں کو ہی شریعت کا رنگ ملتا ہے، ایسے پست نظریہ کی تائید نہیں کرسکتی۔
قرآن مجید جس نے ہمیشہ لوگوں کے افکار و خیالات کو خطا و غلطی سے آلودہ بتایا ہے اور اکثریت کے بارہ میں فرماتا ہے ’’وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ‘‘ اور ’’لَّا يَشْعُرُونَ‘‘ پھر وہ دین کے سب سے اہم موضوع یعنی امت کی امامت یا قیادت کے انتخاب کے سلسلے میں معاشرے کی اکثریت کے رجحان کو کیسے مؤثر و نافذ سمجھ سکتا ہے؟ کیا قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا: ’’وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ‘‘[3]۔
یعنی بعض اوقات تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو جب کہ وہ تمھارے لئے مفید و نفع بخش ہوتی ہے اور بعض اوقات کسی چیز کو تم پسند کرتے ہو جب کہ وہ تمھارے لئے مضر و نقصان دہ ہے۔
یہ وہ قانون ہے جو معاشرے کی اکثریت کی نفسانی خواہشات کو صراحت کے ساتھ خطا شمار کرتا اور فرماتا ہے اکثر لوگوں کے خواہشات ایسی چیز کا تقاضا کرتے ہیں جو خطرناک اور نقصان دہ ہوتی ہے اور کبھی ایسی چیز سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں جو سو فی صد ی ان کے لئے مفید ہوتی ہے۔ اس روشنی میں امام کے انتخاب یا تعین کو جو پیغمبر اسلام (ص) کے بعد سب سے اعلی دینی منصب ہے، نا قابل اعتبار اکثریت کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔
(ج)۔ آزادی رائے اور صدر اسلام میں خلیفہ کا انتخاب
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک معاشرتی واقعہ بعض حالات و شرائط کے تحت وجود میں آتا ہے۔ بعد میں آنے والے اس واقعہ کو وجود میں لانے والوں کے فیصلوں کی بنیاد اپنے حدس و گمان پر رکھتے ہیں اور اس واقعہ کے لئے بے جہت خوش بینی کی بنا پر ایسے اخلاقی، فکری اور سماجی اسباب و علل تراشتے ہیں کہ واقعہ کو وجود میں لانے والوں کی روح کو ان کی بھی خبر نہیں ہوتی۔
اتفاق سے خلفا کی حکومت کے لئے جمہوری نوعیت اور عوام پر عوام کی حکومت یا اقلیت پر اکثریت کی حکومت کی توجیہ اس کا روشن و واضح مصداق ہے۔ در اصل صدر اسلام کے خلفاء کے انتخاب میں جو چیز وجود میں نہیں آئی وہ عوام کے ذریعے خلفاء کا انتخاب تھا۔ کیوں کہ نہ اہل سنت کے محقق علماء خلیفہ کے انتخاب میں اس اصل کے معتقد ہیں اور نہ خلفاء کا انتخاب اس طریقہ سے انجام پایا۔۔
اس سلسلے میں بعض قدیم علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں: قاضی ایجی اپنی مشہور کتاب شرح مواقف میں لکہتے ہیں: امام کے انتخاب کے لئے کسی فرد کے خلافت پر اجماع یا امت کے اتفاق کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اصحاب پیغمبر (ص) میں سے ایک یا دو شخص کی بیعت یا پیمان سے ہی اس شخص کی خلافت قانونی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اصحاب پیغمبر (ص) نے دینی امور میں کمال ایمان کی وجہ سے صرف ابوبکر کی رائے کو کافی سمجھا جنہوں نے عمر کو اپنے بعد خلافت کے لئے معین کیا اور نہ صرف تمام مسلمانوں کے اتفاق رائے کو شرط نہیں جانا بلکہ خود مدینہ میں رہنے والے صحابہ کے اتفاق رائے کو بھی ضروری نہیں سمجھا۔[4]
”احکام السلطانیہ“ کے مؤلف لکھتے ہیں: بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں خلیفہ کا انتخاب اسلامی شہروں میں رہنے والی بزرگ اسلامی شخصیتوں کی تصویب سے انجام پاتا ہے، جبکہ ابوبکر سقیفہ بنی ساعدہ میں صرف پانچ افراد کی رائے سے خلیفہ ہوئے، عمر، ابو عبیدہ، اسید بن حضیر، بشر بن سعد اور سالم مولیٰ ابو حذیفہ۔[5]
اسلامی خلافت کی تاریخ گواہ ہے کہ عمر کی خلافت صرف ابوبکر کی تعین کے ذریعے قانونی ہو گئی اور عمر نے بھی خلافت کے لئے کسی شخص کے انتخاب کا اختیار چھ نفری کمیٹی کے حوالے کردیا اور بقیہ تمام مسلمانوں کو انتخاب ہونے اور انتخاب کرنے سے محروم کردیا۔
قاضی باقلانی لکھتے ہیں: ابوبکر کا انتخاب عمر کی کوشش اور دوسرے چار افراد کے ذریعے انجام پایا؟۔[6] حضرت امیر المومنین علی (ع) کی شہادت کے بعد خلافت بنی امیہ اور بنی عباس کے خاندانوں میں موروثی سلطنت کی شکل اختیار کر گئی، جس کی کہانی بہت ہی دردناک ہے اور یہاں اس کے بیان کی گنجائش بھی نہیں ہے۔
نتیجہ
امامت اور خلافت جیسے دینی منصب اور مغربی جمہوریت کے نظام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ انہیں ایک دوسرے پر منطبق نہیں کیا جا سکتا۔ اگر تاریخی واقعات کو موجودہ تناظر سے ہٹ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ، خلفاء کا انتخاب، ایک مخصوص طریقے سے ہوا تھا، نہ کہ عوامی آزادی رائے کے حق کو استعمال کر کے ہوا۔ جو کہ در حقیقت، روشن فکری اور آزادی رائے جیسے بنیادی انسانی حقوق کا سلب کرنا اور آمریت ہے۔ نہ کہ شیعہ عقیدہ امامت آزادی رائے کے خلاف اور آمرانہ ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ کندی، سیمائے شجاعان، ص۳۳-۳۴۔
[2]۔ کندی، سیمائے شجاعان، ص۳۴۔
[3]۔ سورہ بقرہ، آیت ۲۱۶۔
[4]۔ عضد الدین ایجی، شرح المواقف، ج۳، ص۲۶۵۔
[5]۔ ماوردی، الاحکام السلطانيہ، ص۴۔
[6]۔ باقلانی، التمھید، ص۱۷۸۔
فہرست منابع
۱۔ قرآن مجید۔
۲۔ باقلانی، محمد بن طیب، التمھید، بیروت، المکتبة الشرقیة، ۱۹۵۷م۔
۳۔ عضد الدین ایجی، عبد الرحمٰن بن احمد، شرح المواقف، قم، الشريف الرضي، ۱۳۲۵ھ ش۔
۴۔ کندی، جان فیتزجرالد، سیمائے شجاعان، تہران، شرکت سہامی کتابہای جیبی، ۱۳۴۲ھ ق۔
۵۔ ماوردی، علی بن محمد، الاحکام السلطانيہ و الولایات الدینیہ، بیروت، مکتبہ دار ابن قطیبہ، ۱۴۰۹ھ ش۔
مضمون کا مآخذ
سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، آٹھویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ھ ش۔