اسیران کربلا کی واپسی اربعین اول یا دوسرا ہونے کا تجزیہ

اسیران کربلا کی واپسی اربعین اول یا دوسرا ہونے کا تجزیہ

کپی کردن لینک

بلاشبہ واقعۂ کربلا، تاریخ اسلام کا وہ سب سے زیادہ اثر انگیز اور دردناک واقعہ ہے جس سے اہل بیت اطہار(ع) کے چاہنے والوں کا دل خون رہتا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اسیران کربلا نے پہلے اربعین پے امام حسین (ع) کی قبر مبارک کی زیارت کی تھی یا نہیں؟ تو اس سلسلے دو نظریات پائے جاتے ہیں:

پہلا نظریہ

کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ قید کی صعوبتوں، کوفہ اور شام کے سخت سفر اور وہاں قید ہونے، تھکن اور اچھی سواریوں کے نہ ہونے کے پیش نظر اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ اہل حرم، امام حسین (ع) کے پہلے اربعین پے، آپ کی قبر مبارک پر پہنچنے، امام حسین (ع) کے سر مبارک کو تن مبارک کے پاس رکھنے اور وہاں عزاداری کرنے میں کامیاب ہوئے ہوں۔ لہذا لگتا یہ ہے کہ اہل حرم، امام حسین (ع) کے پہلے اربعین میں، قبر مبارک تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

علامہ مجلسی (متوفی ۱۱۱۰ ہجری قمری)، میرزا حسین نوری (متوفی 1320 ہجری قمری)، میرزا ابو الحسن شعرانی (متوفی 1352ہجری شمسی)، شیخ عباس قمی (متوفی 1359قمری)، شہید مرتضی مطہری، محمد ابراہیم آیتی اور ڈاکٹر جعفر شہیدی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کا یہ نظریہ ہے کہ اہل حرم پہلے اربعین میں کربلا نہیں پہنچے تھے۔ شیخ مفید، شیخ طوسی اور علامہ حلی کا خیال ہے کہ بیس صفر وہ دن ہے جب اسیران کربلا، شام سے مدینہ واپس گئے۔ در اصل یہ لوگ بھی کربلا میں پہلے اربعین کے وقت اہل حرم کی موجودگی کے نظریے کو تسلیم نہ کرنے والوں میں شامل ہیں کیونکہ ان لوگوں کا خیال ہے کہ نہ صرف یہ کہ اہل حرم بیس صفر کو کربلا میں نہیں تھے بلکہ وہ مدینہ پہنچ گئے تھے۔

دوسرا نظریہ

کچھ دوسروں کا خیال ہے کہ امام حسین (ع) کے اہل حرم، شام سے واپسی کے وقت کربلا گئے تھے اور جابر بن عبد اللہ انصاری اور عطیہ عوفی سے وہاں ان کی ملاقات ہوئی اور امام زین عابدین (ع) نے امام حسین (ع) کا سر مبارک، ان کے تن مبارک سے جوڑا تھا۔

ابو مخنف (متوفی 157 قمری)، سید مرتضی علم الہدی (متوفی436 قمری)، ابو ریحان بیرونی (متوفی 440 قمری)، شیخ طبرسی (متوفی 508 قمری)، سبط ابن جوزی (متوفی 654 قمری)، سید بن طاووس (متوفی668 قمری)، زکریا بن محمد قزوینی (متوفی 600- 682 قمری)، ابن نما حلی (متوفی ساتویں صدی کے اواخر میں)، ملا حسین واعظ کاشفی (متوفی 910 قمری)، ابن حجر مکی (متوفی 937 قمری)، خواند میر (متوفی942 قمری)، الشبراوی (متوفی 1172 قمری)، سید محسن امین عاملی، سید عبد الرزاق مقرم، فاضل قزوینی،[1] سید محمد علی قاضی طباطبائی، شیخ بہائی اور میرزا اشراقی معروف بہ ارباب ان لوگوں میں شامل ہیں جن کا مؤخر الذکر نظریہ ہے۔

ان لوگوں میں سے کچھ علماء و مورخین نے امام حسین (ع) کی قبر پر اہل حرم کی آمد کو واضح الفاظ میں لکھا ہے اور کچھ دیگر نے سر مبارک کو تن مبارک سے جوڑنے کو اہل حرم کی موجودگی کی دلیل قرار دیا ہے۔ ان دونوں نظریات کو سمجھنے کے لئے کچھ سوالات کے جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔

پہلا سوال اسیران کربلا کے بارے میں

اسیران کربلا، کب کربلا سے روانہ ہوئے؟ اس سوال کے جواب میں یہ کہنا چاہیے کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عاشور کے دن عمر بن سعد کے حکم سے خولی بن یزید اصبحی اور حمید بن مسلم ازدی، امام حسین (ع) کے سر مبارک کو کوفے لے گئے اور اہل حرم، اسیروں کی شکل میں گیارہ محرم کو کوفے کی طرف روانہ ہوئے۔

دوسرا سوال اسیران کربلا کے بارے میں

اہل حرم کب کوفہ پہنچے؟ اس سلسلے میں تاریخی کتب میں کسی ایک تاریخ کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ شیخ مفید نے فرمایا ہے کہ: جس دن سر مبارک کوفے لایا گیا اس کے دوسرے دن، اہل حرم کا کارواں بھی کوفے پہنچ گیا۔[2]

تیسرا سوال اسیران کربلا کے بارے میں

اسیران کربلا کوفے میں کتنے دن تک رہے؟ اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اہل حرم، پہلے اربعین میں امام حسین (ع) کی قبر پر نہیں جا پائے تھے اسیران کربلا کم سے کم، بیس دن تک کوفے میں قید رہے[3]کیونکہ عبیداللہ بن زیاد یزید کے خط کے منتظر تھے، صاحب طبقات الکبری واضح الفاظ میں لکھتے ہیں کہ اہل حرم کو چوبیس محرم سن اکسٹھ ہجری تک کوفہ میں رکھا گیا تھا۔[4]

لیکن پہلے ”چہلم“ میں ہی کربلا میں اہل حرم کی موجودگی کے نظریے کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے: پہلی بات تو یہ ہے کہ قدیم کتب میں یزید کے نام ابن زیاد کے خط اور اس سے اگلے قدم کے لیے حکم طلب کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ بعض کتب میں تو وضاحت کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ ابن زیاد نے ساری تفصیل لکھ کر خط سر مبارک کے ساتھ شام بھجوایا تھا۔[5]

چوتھا سوال اسیران کربلا کے بارے میں

اسیران کربلا کو کس راستے سے شام لے جایا گیا تھا؟ اس زمانے میں کوفے و شام کے درمیان سفر کے لیے استعمال ہونے والے راستوں اور قدیمی نقشوں پر غور کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کوفے اور شام کے درمیان اس زمانے میں تین راستے موجود تھے۔

پہلا راستہ: ”راہ سلطانی“ ہے۔ یہ راستہ، تکریت، موصل، لبا، کمیل، تل اعفر، نصیبین، حران، معرہ النعمان، شیزر، کفر طاب، حماہ، حمص اور عین الورد سے گزرتا ہے۔[6]

دوسرا راستہ: ”بادیہ الشام“ ہے جو در اصل کوفے سے شام تک جانے والا سیدھا راستہ ہے لیکن یہ پورا راستہ صحرائی ہے اور کہیں شہر یا قصبے کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔

تیسرا راستہ: ”راہ میانہ“ ہے جو کوفے اور شام کے درمیان عام طور پر استعمال کیا جانے والا راستہ تھا اور فرات ندی کے مغربی ساحل سے انبار، ہیت، قرقیسیا، رقہ اور صفین جیسے علاقوں سے ہو کر گزرتا تھا۔

جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اہل حرم نے پہلا اربعین، امام حسین (ع) کی قبر مبارک پر منایا ان کا کہنا ہے کہ اہل حرم کو اسی راستے سے شام لے جایا گیا تھا کیونکہ یہ راستہ، ”سلطانی راستے“ سے زیادہ قریب اور ”بادیہ الشام“ نامی راستے سے زیادہ محفوظ تھا۔[7]

پہلا چہلم کربلا میں منائے جانے کے نظریے کے حامل افراد کا کہنا ہے کہ اسیران اہل حرم نے کوفے سے شام تک کا راستہ، تقریبا دس دن میں طے کیا تھا[8] لیکن دوسرا نظریہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اسیران اہل حرم نے کوفہ و شام کے درمیان کا راستہ تقریبا بیس دن[9]، میں طے کیا تھا۔

پانچواں سوال اسیران کربلا کے بارے میں

اسیران کربلا کون سی تاریخ کو شام پہنچے؟ اس سوال کا جواب واضح کرنے کے لیے سب سے پہلے یہ واضح کرنا ہوگا کہ کیا اہل حرم کا کارواں، امام حسین (ع) کے سر مبارک کے ساتھ شام پہنچا تھا؟ یا پھر اسیران کربلا اور امام حسین (ع) کا سر مبارک الگ الگ وقتوں میں شام لایا گیا تھا؟

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ امام حسین (ع) کا سر مبارک اور اہل حرم کو اسیری کے عالم میں ایک ساتھ شام لایا گیا تھا یا پھر الگ الگ؟ تو اس سلسلے میں مختلف آراء ہیں۔

1۔ ابن حبان (متوفی 354 قمری) لکھتے ہیں: پھر عبید اللہ ابن زیاد نے حسین ابن علی (ع) کے سر کو اہل بیت رسول خدا (ص) کی قیدی خواتین اور بچوں کے ساتھ شام بھیجا۔[10]

۲۔ شیخ صدوق فرماتے ہیں: عبید اللہ نے اسیران کربلا اور امام حسین (ع) کے سر مبارک کو شام لے جانے کا حکم دیا۔[11]

۳۔ ابو حنیفہ، (متوفی 382 قمری) ابن اثیر اور سبط ابن جوزی کا بھی یہی خیال ہے کہ اسیروں کو امام حسین (ع) کے سر مبارک کے ساتھ شام لے جایا گیا تھا۔[12]

۴۔ سید ابن طاووس نے امام زین العابدین (ع) کے حوالے سے لکھا ہے: مجھے ایک اونٹ پر بٹھایا گیا تھا جو ایک طرح سے نہیں چلتا تھا جبکہ حسین (ع) کا سر نیزے پر تھا اور ہمارے خاندان کی عورتیں دبلے اونٹوں پر سوار تھیں اور چھوٹے بچے ہمارے پیچھے پیچھے تھے اور ہمارے چاروں طرف نیزے تھے۔[13]

۵۔  کچھ مؤرخین کا یہ بھی خیال ہے کہ امام حسین (ع) کے سر مبارک کو اسیران کربلا سے پہلے شام بھیجا گیا تھا۔ ابن اعثم اور خوارزمی نے اس رائے کا ذکر کیا ہے۔[14]

۶۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسیران کربلا، امام حسین (ع) کے سر مبارک کو شام بھیجے جانے کے کچھ دن بعد شام کے لیے روانہ ہوئے لیکن شام میں داخل ہوتے وقت ان لوگوں کے ساتھ ہو گئے جو سر مبارک کو لے کر جا رہے تھے۔ شیخ مفید، شیخ طبرسی اور علامہ مجلسی کا یہی خیال ہے۔

جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اہل حرم کے ساتھ ہی امام حسین (ع) کا سر شام گیا، ان کا یہ خیال ہے کہ اہل حرم پہلی صفر سن اکسٹھ ہجری کو شام پہنچے کیونکہ امام حسین (ع) کا سر اسی دن شام پہنچا تھا۔ یہ در اصل، پہلے چہلم میں اہل حرم کی کربلا میں موجودگی کا نظریہ رکھنے والوں کی رائے ہے۔

۷۔ ابوریحان بیرونی، شیخ کفعمی، قزوینی، شیخ مفید اور طبرسی کو بھی انہی لوگوں میں سمجھنا چاہیے کیونکہ ان لوگوں کا خیال ہے کہ حالانکہ امام حسین (ع) کے سر مبارک کو اہل حرم سے پہلے کوفے سے بھیجا گیا تھا لیکن شام میں داخلے کے وقت دونوں ساتھ ساتھ تھے۔

دوسری طرف ان لوگوں کا، جن کا یہ ماننا نہیں ہے کہ پہلے اربعین پے اہل حرم کربلا گئے تھے، یہ کہنا ہے کہ سولہ ربیع الاول یعنی عاشور کے 66 دن بعد اہل حرم کا کارواں شام پہنچا تھا۔[15]

چھٹا سوال اسیران کربلا کے بارے میں

اسیران کربلا کتنے دن تک شام میں رہے؟

1۔ ابن اعثم، شیخ مفید اور شیخ طوسی جیسے کچھ لوگوں نے کسی مدت کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ انھوں نے اہل حرم ”کچھ دنوں تک“ یا ”کچھ مدت تک[16] شام میں رہے جیسی عبارتوں سے اس سلسلے میں گفتگو کی ہے۔

2۔ محمد بن جریر طبری، (متوفی 310 قمری) خوارزمی، ابن عساکر، ابن کثیر اور سبط ابن جوزی جیسے لوگوں کا کہنا ہے کہ

اہل حرم نے تین دن تک شام میں عزاداری کی تھی۔

۳۔ عماد الدین طبری کا خیال ہے کہ اہل حرم نے شام میں سات دن تک عزاداری کی تھی۔[17]

۴۔ سید ابن طاووس کا یہ خیال ہے کہ امام حسین (ع) کے اہل حرم کو دمشق کی جیل میں ایک مہینے تک رکھا گیا۔[18]

۵۔ قاضی نعمان نے شام میں اہل حرم کی اقامت کی مدت ڈیڑھ مہینہ بتایا ہے۔[19]

۶۔ علامہ مجلسی کا خیال ہے کہ اہل حرم نے سات دن تک عزاداری کی تھی اور آٹھویں دن یزید نے انھیں بلوایا اور ان کی دلجوئی کے لئے اہل حرم کی مدینہ روانگی کی تیاری کا حکم دیا۔[20]

سید ابن طاووس نے کسی کا نام لیے بغیر ایک قول نقل کیا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ، اہل حرم نے شام میں چھے مہینے گزارے[21]، ہیں جبکہ شام میں اہل حرم کے قیام کی مدت اٹھارہ اور پینتالیس دن  بھی بتائی گئی ہے۔

جن لوگوں کی پہلے چہلم میں اسیران کربلا کی کربلا میں موجودگی کی رائے ہے، ان کا کہنا ہے کہ شام میں اہل حرم کی زیادہ سے زیادہ موجودگی دس دن تھی[22]، یکن جو لوگ یہ نہیں مانتے کہ اسیران کربلا پہلے ہی اربعین پے کربلا پہنچے تھے۔

ساتواں سوال اسیران کربلا کے بارے میں

اسیران کربلا کب شام سے روانہ ہوئے؟ چونکہ پہلا چہلم کربلا میں منائے جانے کے قائل لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ امام حسین (ع) کا سر مبارک اسیروں کے ساتھ ہی پہلی صفر کو شام لایا گیا تھا اور زیادہ سے زیادہ دس صفر تک اسے وہاں رکھا گیا تھا، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اہل حرم دس صفر تک شام سے روانہ ہوئے ہوں گے۔ اس صورت میں ان کے پاس کربلا پہنچنے کے لئے دس دن کا وقت تھا اور کربلا پہنچنے کے لیے اس زمانے میں یہ مدت کافی تھی۔ لیکن دوسرا نظریہ رکھنے والے چونکہ شام میں اہل حرم کے صرف دس دن کے قیام کو معقول اور قابل قبول نہیں سمجھتے اور اہل حرم کی شام آمد کو بھی پندرہ صفر کی تاریخ سے پہلے قبول نہیں کرتے اس لیے ان کی نظر میں بیس صفر سنہ اکسٹھ ہجری کو اہل حرم کی کربلا آمد ممکن نہیں ہے اور اسی لیے ان کا یہ کہنا ہے کہ اہل حرم، پہلے ہی اربعین پے کربلا میں موجود نہیں تھے۔

پہلا اربعین کربلا میں منائے جانے کے قائل علماء کا کہنا ہے کہ ایسے دیگر ثبوت بھی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اہل حرم، بیس صفر سنہ اکسٹھ ہجری میں ہی کربلا پہنچ گئے تھے۔ ان کی نظر میں ایک ثبوت، امام حسین (ع) کے سر کو دفن کیا جانا ہے۔

ویسے امام حسین (ع) کے سر مبارک کے دفن کرنے کی جگہ کے بارے میں بھی مختلف اقوال اور آراء ہیں:

1۔ شیخ صدوق (متوفی 381 قمری)، سید مرتضی (متوفی436 قمری)، فتال نیشاپوری (متوفی 508 قمری)، سید ابن طاووس (متوفی 664 قمری)، ابن نما حلی اور علامہ مجلسی کا یہ خیال ہے کہ امام حسین (ع) کا سر مبارک، امام زین العابدین (ع) نے ان کے جسم اطہر سے جوڑا تھا۔ ابو ریحان بیرونی(متوفی 440 قمری)، قرطبی (متوفی 671 قمری) اور مناوی (متوفی 1031 قمری) بھی امام حسین (ع) کے سر کو تن سے جوڑنے کی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔

2۔ ابن قولویہ قمی، کلینی، شیخ طوسی، اور ابن شہر آشوب کا یہ خیال ہے کہ امام حسین (ع) کا سر مبارک حضرت علی (ع) کی قبر کے پاس دفن کیا گیا ہے۔

3۔ کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ امام حسین (ع) کا سر مبارک، رقہ میں فرات کے کنارے یا جنت البقیع میں حضرت فاطمہ زہرا (س) کی قبر مبارک کے پاس یا پھر دمشق یا قاہرہ میں دفن کیا گیا تھا۔[23]

نتیجہ

اربعین امام حسین (ع) کے بارے میں دو نظریے موجود ہیں، ایک نظریہ یہ ہے کہ اسیران کربلا، امام حسین (ع) کے پہلے ہی اربعین پر شام سے رہائی کے بعد کربلا پہنچ گئے تھے، جب کہ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ جو اربعین اسیران کربلا نے شام سے رہائی کے بعد کربلا میں امام حسین (ع) کا کیا تھا وہ پہلا نہیں بلکہ دوسرا اربعین تھا، ان دونوں نظریات کے لیے ہم نے مختلف علماء کے نظریات کو پیش کیا، کچھ علماء نے پہلے چہلم کے نظریہ کو قبول کیا ہے اور کچھ نے دوسرے چہلم کے نظریہ کو قبول کیا ہے ۔

 

حوالہ جات

[1] ۔ امین، اعیان الشیعۃ، قسم الاول، جزء 4، مع الرکب الحسینی، ج5، ص186۔
[2] ۔ مفید، الارشاد، ج،2 ص114، طبرسی، اعلام الوری، ص246۔
[3] ۔ نوری، لؤلؤ و مرجان، ص152
[4] ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص485،
[5] ۔ نوری، لؤلؤ و مرجان، ص152۔
[6] ۔ شہیدی، زندگانی امام حسین (ع)، ص62۔
[7] ۔ امین، اعیان الشیعۃ، قسم الاول، جزء 4، مع الرکب الحسینی، ج5، ص186۔
[8] ۔ قاضی طباطبائی، تحقیق درباره اول اربعین حضرت سیدالشهدا (ع)، ص62
[9] ۔ نوری، چشم اندازی بہ تحریفات عاشورا (لؤلؤ و المرجان)، ص242
[10] ۔ ابن حبان، کتاب الثقات، ج2، ص312۔
[11] ۔ صدوق، الامالی، مجلس 31، ج3، ص230۔
[12] ۔ دینوری، الاخبار الطوال، ص260، ابن اثیر، الكامل فی التاریخ، ج2، ص578، ابن جوزی، تذکرة الخواص ص260۔263۔
[13] ۔ ابن طاووس، اللھوف، ص99۔
[14] ۔ مفید، الارشاد، ج2، ص118، طبرسی، اعلام الوری، ج1، ص473، مجلسی، بحار الانوار، ج47، ص130۔
[15] ۔ طبری، کامل بہائی، ج2، ص293۔
[16] ۔ مفید، الارشاد، ج2، ص122، طبرسی، اعلام الوری، ج1، ص475
[17] ۔ ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص262 ۔
[18] ۔ طبری، کامل البہایی، ج2، ص305 ۔
[19] ۔ قاضی نعمان، شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، ج3، ص269۔
[20] ۔ مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص196، مجلسی، جلاء العیون، ص409۔
[21] ۔ قاضی طباطبائی، تحقیق درباره اول اربعین حضرت سیدالشهدا (ع)، ص454۔
[22] ۔ قمی، نفس المہموم، ص463، ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ج8، ص 198-199۔
[23] ۔ ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص265-266، امین، اعیان الشیعۃ، ج1، ص627-626۔

 

کتابیات

1. ابن اثير، علي بن محمد، الکامل في التاريخ، بيروت دار صادر، 1399 ق
2. ابن جوزي، شمس الدین یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص من الامۃ بذار خصائص الائمۃ (ع)، نجف، منشورات المطبعۃ الحیدریۃ، ۱۳۸۳ ق۔
3. ابن حبان، محمد بن حبان، الثقات، بیروت، موسسۃ الکتب الثقافيۃ، 1393 ق.
4. ابن سعد واقدی، ابو عبداللہ محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، بغیر تاریخ کے۔
5. ابن طاووس، علی بن موسی، اللھوف فی قتلی الطفوف، قم، انوار الھدی، ۱۴۱۷ ق۔
6. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر بن کثیر دمشقی، البدایۃ و النھایۃ، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ ق۔
7. امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دار صادر، ۱۴۰۳ ق.
8. دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، دار کتب العلميۃ، بيروت 1421 ق.
9. شہیدی، سید جعفر، زندگانی امام حسین (ع)، قم، نشر و فرہنگ اسلامي، 1386 ش.
10. صدوق ابن بابویہ قمي، محمد بن علی، الامالی، قم، موسسۃ البعثۃ، ۱۴۱۷ ق۔
11. طبرسي، سليمان بن احمد لخمي، اعلام الوري با علام الهدي، تحقيق حمري عبدالمجيد سلفي، چاپ دوم، قاهره، مکتبة ابن تيمية، بغیر تاریخ کے۔
12. طبري، حسن بن علي، کامل بهائي، تهران، مرتضوي، 1383 ش.
13. قاضی (ابن حیون)، نعمان بن محمد، شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطهار، قم جامعۃ المدرسين، 1409ق۔
14. قاضی طباطبائی، محمد علي، تحقیق درباره اول اربعین حضرت سیدالشهدا (ع)، تھران، سازمان چاپ و ارشادات، 1383 ش۔
15. قمی، عباس، نفس المہموم، مترجم، سید صفدر حسین نجفی، جھنگ (پنجاب)، ولی العصر ٹرسٹ ۱۹۹۰ع۔
16. گروہ علمی، مع الركب الحسيني من المدينۃ إلی المدينۃ، قم، تحسين زمزم هدايت، 1426 ق۔
17. مجلسي، محمد باقر، بحار الانوار، بيروت، دار احياء التراث العربي، 1403 ق۔
18. مجلسي، محمد باقر، جلاء العیون، قم، اَجود، 1392 ش۔
19. نوري، مرزا حسين، لؤلؤ و مرجان، قم فرهاني، 1390 ش۔
10. مفيد، محمد بن نعمان، الارشاد في معرفۃ حجج الله علي العباد، قم، تحقيق موسسۃ آل البيت (ع)، 1413 ق۔

 

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
چہلم، علی دژاکام، ترجمہ قمر عباس، حسن عباس، اہل البیت (ع) عالمی اسمبلی، ۱۴۴۲ھ

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے