اسلام میں قیادت ایک بنیادی اصول ہے جو دینی و معاشرتی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ شیعہ عقیدے کے مطابق امام کا انتخاب اللہ اور رسولِ اکرم (ص) کی جانب سے ہوتا ہے، کیونکہ یہ ایک الٰہی منصب ہے، جبکہ اہلِ سنت اسے امت کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ امام اللہ کا منتخب کردہ ہوتا ہے، اسی لئے امام مہدی (عج) آج بھی موجود ہیں، اگرچہ غیبت میں ہیں۔ جب دنیا عدل و انصاف کے لئے تیار ہوگی، وہ اللہ کے حکم سے ظہور فرمائیں گے اور عدل الٰہی کو نافذ کریں گے۔
امام کا انتخاب، امام کی شرائط کے مطابق
اسلام میں قیادت اور رہبری ایک بنیادی اور نہایت اہم مسئلہ ہے۔ سنی اور شیعہ مکاتبِ فکر دونوں اسلامی معاشرے میں رہبر کی ضرورت پر متفق ہیں۔ شیعہ نقطۂ نظر کے مطابق، امام کا انتخاب خدا اور رسول (ص) کی طرف سے ہوتا ہے، جبکہ اہلِ سنت کا عقیدہ ہے کہ خلیفہ کا انتخاب لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ تاہم، قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ (ص) سے ثابت ہوتا ہے کہ امام کا انتخاب براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، کیونکہ یہ ایک الٰہی منصب ہے، جسے کسی بھی انسان کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔
حاکمیت میں وحدت اور امام کا انتخاب
اسلامی نظریۂ حکومت میں سب سے اہم اصول یہ ہے کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل حکمران اللہ ہے اور اس نے اپنی حکومت کا اختیار اپنے منتخب نبیوں اور ان کے بعد ان کے برحق جانشینوں یعنی اماموں کو عطا فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: "قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ إِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ"[1]
کہہ دیجیے: اے اللہ! (اے) مملکتِ (ہستی) کے مالک! تو جسے چاہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہے حکومت چھین لیتا ہے، تو جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے، بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یہ آیتِ مبارکہ واضح کرتی ہے کہ اقتدار اور حکومت دینا اور لینا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی لئے امام کا انتخاب بھی اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے، تاکہ عدل و انصاف پر مبنی قیادت معاشرے کو میسر آئے۔
نبی (ص) اور خلیفہ کا انتخاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ص) کو مومنین پر خود ان سے زیادہ حق تصرف دیا ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے: "اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ إِلَّاۤ اَنْ تَفْعَلُوْۤا إِلٰى اَوْلِیَآئِكُمْ مَعْرُوْفًا كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا"[2]
نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں اور کتاب اللہ کی رو سے رشتے دار آپس میں مومنین اور مہاجرین سے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتاب میں لکھا ہوا ہے۔
یہ آیتِ مبارکہ اس امر کو ثابت کرتی ہے کہ نبی اکرم (ص) کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ان کے بعد بھی امام کا انتخاب اللہ ہی کی طرف سے ہوگا۔
قرآنی دلائل برائے امام کا انتخاب
قرآن میں متعدد مقامات پر واضح طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی اپنے منتخب بندوں کو خلافت، امامت اور رہبری کے منصب پر فائز کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (ع) کی خلافت کے بارے میں فرمایا: "وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً"[3]
"اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔”
اسی طرح حضرت ابراہیم (ع) کے بارے میں ارشاد ہوا: "وَ إِذِ ابْتَلٰۤى إِبْرٰهِیْمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِیْنَ"[4]
اور جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے انہیں پورا کر دکھایا، ارشاد ہوا: میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔
یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ امام کا انتخاب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کے لئے ظالم نااہل ہوتے ہیں۔ پس، یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امام کا انتخاب خدا کی طرف سے ایک منصبِ الٰہی ہے اور اس میں کسی انسان کی رائے یا اختیار شامل نہیں ہو سکتا۔
مندرجہ بالا اور دیگر آیات میں امام کا انتخاب خدا کے اوصاف میں سے ایک گِنا گیا ہے۔ کہیں بھی یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ خلیفہ کا انتخاب لوگوں کے ہاتھ میں دیا گیا ہے، کیونکہ خداوند عالم بہتر جانتا ہے کہ انسانوں کے لئے کیا صحیح ہے اور کون دینِ الہی کو نافذ کرنے کی شرائط پر پورا اترتا ہے۔ ان شرائط میں معصوم ہونا، علم لدنی رکھنا، اور افضل ہونا شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اوصاف کسی کے باطن میں موجود ہوتے ہیں، اور صرف وہی ذات جو تمام حقیقتوں کا عالم ہو، انہیں پہچان سکتی ہے۔
عقل و نقل دونوں اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خلیفہ کا انتخاب صرف خدا کا کام ہے۔ اگر خلافت کے تعین کو عام لوگوں پر چھوڑ دیا جاتا تو ممکن تھا کہ وہ ظاہری معیاروں کی بنیاد پر فیصلہ کرتے اور دھوکہ کھا جاتے۔ امامت – جو کہ زمین پر خدا کی خلافت ہے – کا مقصد خدا اور اس کے دین کی حاکمیت قائم کرنا ہے۔ اس لئے امامت ایک الہی امر ہے اور لوگوں پر فرض ہے کہ وہ خدا کے چنے ہوئے امام کی اطاعت کریں۔
یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ خلیفہ کا انتخاب کسی موروثی طریقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ مخصوص شرائط کی تکمیل کے تحت ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) کے خاندان کو خدا نے آیۂ تطہیر اور آیۂ مباہلہ کی روشنی میں باطنی طہارت اور عصمت عطا کی ہے، جس کی بنا پر وہ خلافت کے اہل ہیں۔ یوں امام کا انتخاب پیغمبر (ص) کے اہل بیت میں کیا گیا، مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر فرد اس منصب کے لائق ہو، بلکہ جو ان شرائط پر پورا اترے، وہی امام ہوگا۔
اسی طرح، پچھلے انبیاء کے خاندانوں میں بھی خلافت اور وصی موجود رہے ہیں، اور یہ خدا کی سنت رہی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "إِنَّ اللَّهَ ٱصْطَفَىٰٓ ءَادَمَ وَنُوحاً وَءَالَ إِبْرَٰهِيمَ وَءَالَ عِمْرَٰنَ عَلَى ٱلْعَٰلَمِينَ"[5]
بے شک اللہ نے آدم، نوح، آلِ ابراہیم اور آلِ عمران کو تمام جہان والوں پر برگزیدہ کیا۔
اسی طرح فرمایا: "ذُرِّيَّةًۢ بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ"[6]
یہ ایک ہی نسل سے ہیں اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مزید ارشاد فرمایا: "وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَٰقَ وَيَعْقُوبَ كُلًّا هَدَيْنَا وَنُوحاً هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوۥدَ وَسُلَيْمَٰنَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَٰرُونَ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِى ٱلْمُحْسِنِينَ"[7]
اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عطا کئے، سب کی رہنمائی بھی کی اور اس سے قبل ہم نے نوح کی رہنمائی کی تھی اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی (ہدایت دی) اور نیک لوگوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں۔
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ خلیفہ کا انتخاب کسی دنیاوی وراثتی نظام کی بنیاد پر نہیں بلکہ خدا کے منتخب کردہ، معصوم اور افضل افراد میں سے کیا جاتا ہے۔ لہذا، امت پر لازم ہے کہ وہ خدا کے مقرر کردہ امام کی پیروی کرے اور خود سے امام کا انتخاب کرنے کی کوشش نہ کرے، کیونکہ یہ الہی منصب ہے اور اس میں عام انسانوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔
رسول اکرم (ص) نے بھی فرمایا: "الْأَئِمَّةُ مِنْ بَعْدِي اثْنَا عَشَرَ، كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ”
میرے بعد بارہ امام ہوں گے، جو سب کے سب قریش سے ہوں گے۔
یہ حدیث بھی اس حقیقت کو مزید مستحکم کرتی ہے کہ امام کا انتخاب الہی ارادہ ہے اور اسے کسی بھی سیاسی یا عوامی فیصلے سے جدا رکھا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ خلیفہ کا انتخاب خدا کی جانب سے ہوتا ہے اور یہ امر اس کی قطعی سنت میں شامل ہے، جس کی دلیل قرآن و حدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ پس، امت پر لازم ہے کہ وہ ان الہی ہدایات کو قبول کرے اور خدا کے مقرر کردہ امام کی اطاعت کرے تاکہ دینِ الہی کی حقیقی حاکمیت زمین پر قائم ہو سکے۔
امام کا انتخاب کی اہمیت متعدد احادیث اور قرآنی آیات سے بھی واضح ہے، جیسے کہ حدیث ثقلین، حدیث سفینہ، حدیث یوم الانذار، حدیث منزلت اور حدیث اثنا عشر، جیسے: "إِنَّ خُلَفَائِي اثْنَا عَشَرَةً كُلُّهُمْ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ يَا قُرَيْشٍ”
اسی طرح، خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں میں اتفاق و یگانگی قائم کرنے کا وسیلہ ہے، اور خدا نے اس قانون کو بھی واضح کیا ہے: "وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ"[8]
"اور کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر ان کے پاس کوئی اختیار باقی رہے۔”
یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ خلیفہ کا انتخاب خدا کا کام ہے، نہ کہ لوگوں کا۔ اگر امام کا انتخاب لوگوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو اس کے نتیجے میں فاسق اور ظالم حکمران اقتدار حاصل کر سکتے ہیں، اور امت مسلمہ میں تفرقہ اور فساد پیدا ہو سکتا ہے۔
تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جب لوگوں نے اپنی مرضی سے خلیفہ منتخب کئے تو اسلامی معاشرے میں اختلافات پیدا ہوئے۔ عمر اور عثمان کے قتل، حضرت علی (ع) کی شہادت اور واقعہ کربلا جیسے المناک واقعات اسی غلط انتخاب کے نتائج تھے۔ خلیفہ کا انتخاب خدا کی طرف سے ہونا ہی امت کی بقا اور استحکام کی ضمانت ہے۔
اسی اصول کے تحت، نبی اکرم (ص) نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی امام علی (ع) کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا، جیسا کہ حدیث غدیر میں واضح ہے: "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ”
جس کا میں مولا ہوں، علی (ع) بھی اس کے مولا ہیں۔ اے اللہ! جو علی (ع) سے محبت کرے، تو اس سے محبت کر، اور جو علی (ع) سے دشمنی کرے، تو اس سے دشمنی کر۔
اسی طرح، حدیث منزلت میں بھی امام علی (ع) کی فضیلت اور ان کی خلافت کو بیان کیا گیا: "أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي”
"اے علی! تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”
یہ سب دلائل امام کا انتخاب کے خدائی اصول کو ثابت کرتے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خلافت صرف قریش میں محدود ہو سکتی ہے تو پھر اہل سنت اس پر اعتراض کیوں نہیں کرتے؟ جبکہ شیعہ صرف اس بات کے قائل ہیں کہ امام کا انتخاب نبی اکرم (ص) کے خاندان سے ہونا چاہئے، کیونکہ یہی خدا کی طرف سے مقرر کردہ نظام ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: "إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا"[9]
بے شک اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ تم سے ہر قسم کی ناپاکی دور کر دے، اے اہل بیت! اور تمہیں خوب پاکیزہ بنا دے۔
یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ خلیفہ کا انتخاب اہل بیت (ع) میں سے ہی ہونا چاہئے، کیونکہ وہی وہ پاکیزہ ہستیاں ہیں جو اللہ کے منتخب کردہ ہیں۔
اگر لوگ اپنے طور پر خلیفہ کا انتخاب کریں تو اس سے قبیلہ پرستی، قوم پرستی اور ذاتی مفادات کو فوقیت ملے گی، جیسا کہ تاریخ اسلام میں بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومتوں میں دیکھنے کو ملا۔ بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومتیں محض طاقت اور سیاست کی بنیاد پر قائم ہوئیں، جبکہ امام کا انتخاب ایک الہٰی امر ہے جو کسی دنیاوی سیاست سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔
شیعہ عقیدہ یہ ہے کہ خلیفہ کا انتخاب خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور یہ پچھلے انبیاء کی سنت پر مبنی ہے۔ حضرت موسیٰ (ع) نے حضرت ہارون (ع) کو اپنا جانشین بنایا، حضرت سلیمان (ع) حضرت داؤد (ع) کے وارث ہوئے، اور اسی طرح امام کا انتخاب بھی خدا کی طرف سے مقرر کردہ ایک نظام ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔
نتیجتاً، امام کا انتخاب صرف اللہ کے حکم اور نبی اکرم (ص) کی وصیت کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، نہ کہ عوامی انتخابات یا قبیلہ پرستی کی بنیاد پر۔ یہی نظریہ عقل، نقل اور تاریخی حقائق کے مطابق درست ہے، اور مسلمانوں کے اتحاد اور دین اسلام کی بقا کے لئے ضروری ہے۔
امام کا انتخاب روز قیامت تک، خدا ہی کرے گا؟
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خداوندِ عالم نے خلیفہ کا انتخاب خود کیا ہے، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ انتخاب ۲۶۰ ہجری کے بعد کیوں آگے نہ بڑھا؟ امام حسن عسکری (ع) کی شہادت کے بعد ان کا کوئی جانشین ظاہری طور پر کیوں معین نہ ہوا؟ جبکہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو قیامت تک کے لئے آیا ہے اور انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے، تو پھر امام کا انتخاب کیوں رکا اور امت کو بغیر راہنما کے کیسے چھوڑ دیا گیا؟
امام کا انتخاب اور اس کے فلسفہ کا تسلسل
اصولاً نبی اور امام کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی حجت کو لوگوں پر تمام کریں، یعنی اپنی شناخت کو واضح کریں تاکہ انسانوں کو ہدایت کی راہ دکھا سکیں۔ اب یہ لوگوں کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ خلیفہ کا انتخاب کو تسلیم کریں، ان کی اطاعت کریں اور اپنے کمال تک پہنچیں۔ اگر لوگ ان حجتوں کی مخالفت کریں، تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امام کا انتخاب یا اس کا فلسفہ غلط تھا۔ بلکہ یہ لوگوں کی کوتاہی اور سرکشی ہے کہ وہ اس الہی نظام کو قبول نہیں کرتے۔
اللہ تعالیٰ پر یہ لازم ہے کہ وہ زمین پر اپنی حجت کو بھیجے تاکہ وہ معاشرے کو عدل و انصاف کی دعوت دیں اور انسانوں کی تعلیم و تربیت کریں۔ اللہ نے ان حجتوں کو انبیاء اور ائمہ (ع) کی صورت میں مبعوث فرمایا، لیکن ان کے بھیجے جانے کا مقصد تبھی مکمل ہوسکتا ہے جب معاشرہ ان کی رہبری کو قبول کرے اور انہیں اختیار دے۔ جب ظالم حکمرانوں نے ائمہ (ع) کو قتل کردیا، تو اس سے امام کا انتخاب کا فلسفہ ختم نہیں ہوتا، بلکہ اس کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ زمین پر حجت ہمیشہ رہے، اگرچہ وہ عام لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو۔
امام مہدی (عج) اور امام کا انتخاب کا تسلسل
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ"[10]
اور بے شک ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ امام کا انتخاب کے تحت اللہ کی حجت زمین پر ہمیشہ موجود رہے گی، اگرچہ وہ نظروں سے اوجھل ہو۔ امام کی غیبت دراصل معاشرے کے رویے کا نتیجہ ہے۔ جب تک لوگ امام کا انتخاب کے تقاضوں پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے اور طاغوتی قوتوں کی غلامی سے آزاد نہیں ہوں گے، اس وقت تک امام ظہور نہیں فرمائیں گے۔ مگر اس دوران بھی وہ اس نظامِ ہستی کی معنوی رہبری فرما رہے ہیں۔
۲۶۰ ہجری سے امت کی رہبری ختم نہیں ہوئی، بلکہ امام کا انتخاب کے تحت یہ منصب امام زمانہ (عج) کے سپرد کیا گیا جو زندہ ہیں، مگر نظروں سے غائب ہیں۔ جب دنیا اللہ کے قانون کو قبول کرنے کے قابل ہو جائے گی، تو وہ ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
امام کا انتخاب اور واسطۂ فیض الہی
حجتِ خدا کی موجودگی اس زمین پر ضروری ہے کیونکہ وہ فیضِ الٰہی کے واسطہ ہیں۔ اگر زمین پر حجتِ خدا نہ ہو، تو زمین پر اللہ کے فیوض و برکات نہیں پہنچ سکتے۔ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: "لَوْلَا الْحُجَّةُ لَسَاخَتِ الْأَرْضُ بِأَهْلِهَا”
اگر زمین پر حجتِ خدا نہ ہو، تو زمین اپنے باشندوں سمیت دھنس جائے۔
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ خلیفہ کا انتخاب محض ایک مذہبی تصور نہیں، بلکہ زمین کی بقا کا ضامن بھی ہے۔ امام کے وجود کے ذریعے ہی مادی اور معنوی فیوض و برکات زمین پر نازل ہوتے ہیں۔
امام کا انتخاب اور حفاظتِ قرآن
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ"[11]
بے شک ہم نے ہی ذکر (قرآن) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
قرآن کریم کی حفاظت کا ایک اہم ذریعہ امام کا انتخاب ہے۔ امام ہی وہ ہستی ہیں جو اس کتاب کی حفاظت کرتے ہیں تاکہ اس میں کوئی تحریف نہ ہونے پائے۔ چونکہ قرآن قیامت تک انسانوں کی ہدایت کے لئے ہے، اس لئے امام کا انتخاب کا تسلسل بھی ضروری ہے تاکہ اس کی حقیقی تعلیمات کو محفوظ رکھا جا سکے۔
امام کا انتخاب اور ہدایتِ بشر
امام کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہی سے نکال کر سیدھے راستے پر لائیں، ان کی تعلیم و تربیت کریں اور دین کو عملی طور پر نافذ کریں۔ اگرچہ ظالم حکمرانوں کے جبر اور معاشرے کی بے رخی کی وجہ سے وہ سیاسی قیادت بظاہر انجام نہیں دے پا رہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دیگر ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔ وہ اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ معاشرے کی رہنمائی کر رہے ہیں۔
خاتمہ
اسلامی قیادت صرف فقہی یا تاریخی بحث نہیں، بلکہ امت کی ہدایت اور بقا کا ضامن ہے۔ امام کا انتخاب ایک الٰہی منصب ہے، جو ہر دور میں اللہ کے برگزیدہ نمائندوں کے ذریعے انجام پایا۔ امام مہدی (عج) اسی سلسلے کی کڑی ہیں، جو غیبت میں رہ کر امت کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ جب دنیا الٰہی عدل کے لئے تیار ہوگی، وہ ظہور فرمائیں گے اور ظلم کا خاتمہ کریں گے۔ تب تک، فقہا بطور نائبِ امام اسلامی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں، یوں یہ کا سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک برقرار رہے گا تاکہ دین اسلام محفوظ رہے۔
حوالہ جات
[1]۔ سورہ آل عمران، آیت۲۶۔
[2]۔ سورہ الاحزاب، آیت۶۔
[3]۔ سورہ البقرہ، آیت۳۰۔
[4]۔ سورہ البقرہ، آیت۱۲۴۔
[5]۔ سورہ سورہ آل عمران، آیت۳۳۔
[6]۔ سورہ آل عمران، آیت۳۴۔
[7]۔ سورہ الأنعام، آیت۸۴۔
[8]۔ سورہ الأحزاب، آیت۳۶۔
[9]۔ سورہ الأحزاب، آیت۳۳۔
[10]۔ سورہ الأنبیاء، آیت۱۰۵۔
[11]۔ سورہ الحجر، آیت۹۔
مضمون کا مأخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
داداشی، شعبان، امامت پراُٹھائے جانے والے شبہات کے جوابات، ترجمہ شعبہ علمی و تحقیقی ادارہ امید (نسخہ اردو توسط شبکہ الامامین الحسنین)۔