- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
جناب بزنطی کون ہے؟ آپ کا مرتبہ و مقام ائمہ (ع) کی نگاہ میں
پیغمبراکرم اور اهل بیت , حضرت امــام جــــواد(ع)- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/05/28
- 0 رائ
ائمہ معصومین (ع) کے اصحاب کی ثقافتی اور سماجی زندگی کی بررسی و تحقیق نے حالیہ دہائیوں میں مورخین کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ اکثر جدید مقالات نے احمد بن محمد بن عمرو بن ابی نصر بزنطی کو امام کاظم (ع) اور امام رضا(ع) اور امام جواد (ع) کے اصحاب میں سے شمار کیا جاتا ہے لیکن امام کاظم (ع) اور امام رضا (ع) اور امام جواد (ع) کے کی نگاہ میں ان کا مقام و مرتبہ کیا تھا اس پر قابل ذکر روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔ اس مقالہ میں ہم، سب سے پہلے احمد بن محمد بن عمرو بن ابی نصر بزنطی کی سوانح عمری کا مختصر سا تعارف پیش کریں گے اور ان کا مرتبہ و مقام ائمہ معصومین (ع) خصوصاً امام کاظم (ع) اور امام رضا (ع) اور امام جواد (ع) کی نگاہ میں کیا تھا اس کو بیان کریں گے۔
احمد بن ابی نصر بزنطی کا مختصر تعارف
آپ کا پورا نام ابو جعفر احمد بن محمد بن عمرو بن ابی نصر بزنطی ہے۔[1] بزنطی کا شمار شہر کوفہ کے فقہاء امامیہ میں ہوتا ہے اور آپ کا شمار، ائمہ معصومین (ع)، امام موسی کاظم (ع)، امام علی رضا (ع) اور امام جواد (ع) کے اصحاب میں ہوتا ہے۔[2] اور اسی طرح، بزنطی کا شمار، امام موسی کاظم(ع)، امام علی رضا(ع) اور امام جواد (ع) کے معتبر راویوں میں ہوتا ہے۔ اور آپ اصحاب اجماع میں سے ہیں۔ بزنطی کی وفات 221 ھ میں ہوئی۔[3]
احمد بن ابی نصر کا لقب “بزنطی” ہے۔ بزنطی کو “بزنطی” اس لئے کہا گیا ہےکیونکہ “بزنط” ایک طرح کا لباس ہوتا تھا اور بزنطی، لباس کی خرید و فروخت کا کام کیا کرتے تھے اسی وجہ سے احمد بن ابی نصر “بزنطی” کے لقب سے معروف ہو گئے۔[4]
بزنطی اور ان کے خاندان کو شیعہ مذہبی اور احادیث نقل کرنے والوں میں ان کے عظیم جد، ابو نصر کا نام شہرت رکھتا ہے۔ اور ایک روایت کی بنا پر بزنطی امام علی رضا (ع) سے چار سال بڑے تھے[5] کیونکہ نجاشی، بزنطی کی وفات کو ۲۲۱ ھ بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بزنطی، حسن بن علی بن فضال کے آٹھ مہینہ کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے[6] اور نجاشی نے ابن فضال کی تاریخ وفات ۲۲۴ بتائی ہے۔[7] اس بنا پر بزنطی کی عمر ۶۹ تا ۷۳ سال ہوتی تھی۔
امام موسی کاظم (ع) کی امامت کے دور میں آپ شہر کوفہ میں اپنے مشایخ راویوں سے حدیث سنتے تھے۔ اس وقت آپ نے کوفی راوی عبدالکریم بن عمرو خشمی سے اور امام موسی کاظم (ع) کے اصحاب سے بہت سی روایتیں کو حاصل کی۔ لیکن انہوں نے خود امام موسی کاظم (ع) سے کوئی روایت نقل کی یا نہیں کی اس سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس روایت کی ابتدا یوں ہے: امام موسی کاظم (ع) سے سوال کیا گیا….[8] اسی طرح اور انہیں الفاظ کے ساتھ یہی روایت بزنطی نے امام علی رضا (ع) سے نقل کی ہے، جس کے سلسلہ میں یہ کہا گیا بزنطی نے اس مرتبہ وہی پہلی روایت امام رضا (ع) سے سنی، اور امام رضا (ع) نے بزنطی سے فرمایا:کہ ابو ابراہیم نےامام کاظم (ع) سے سوال کیا[9]… ایسا محسوس ہوتا ہے کہ احمد بن ابی بزنطی نے جو روایت امام کاظم (ع) سے حاصل کیا تھا حقیقت میں وہ و ہی روایت ہے جس کو انہوں نے امام رضا (ع) سے سنا تھا۔
امام علی رضا (ع) کی امامت کے آغاز سے ہی بزنطی اور امام علی رضا (ع) میں رابطہ بر قرار کیا اور ان کی علمی زندگی کا سنہرا دور شروع ہوا، بزنطی نے، امام علی رضا (ع) کے دیدار اور ملاقات کے لئے مختلف شہروں کا سفر بھی طے کیا۔[10]
کشی نے بزنطی کو امام موسی کاظم (ع) اور امام علی رضا (ع) کے اصحاب میں سے، چھ اہم فقہاء میں سے ایک اہم فقیہ قرار دیا ہے جو اصحاب اجماع کے تیسرے طبقے میں سے ہیں۔[11]شیخ طوسیؒ کے مطابق بزنطی، صرف ثقہ روایوں سے روایت نقل کرتے ہیں، اس لیے ان کی روایات، مستند روایات میں شمار ہوتی ہیں۔
ابن ندیم نے ان کے آثار کو اس طرح بیان کیا ہے:کتاب الجامع، کتاب المسائل، شیخ طوسیؒ نے بھی ان کے آثار میں دو کتابوں کا نام اور اضافہ کیا ہے۔[12] اور کتاب المسائل کی جگہ پر”کتاب النوادر” کا تذکرہ کیا ہے اور کچھ کتابیں، ان کے گذرنے کے بعد شیعہ مؤلفین کے پاس موجود تھیں، حمیری نے کتاب “قرب الاسناد” میں ان کی ایک کتاب کو ضبط وتحریر کیا ہے۔[13] اور محقق حلیؒ نے بھی ان کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔
شیعہ احادیث کے منابع میں بزنطی سے بہت سی روایتیں موجود ہیں۔ مرحوم خوئیؒ نے ان کی روایتوں کی تعداد 788 بتائی ہے، جب کہ دیگر منابع کے مطابق مختلف ناموں سے درج ہونے والی روایات کی تعداد 1050کے قریب ہے۔ ان میں سے زیادہ تر روایات فقہی مسائل سے مربوط ہیں اور کچھ باقی فقہی، تاریخی اور اخلاقی روایات سے مربوط ہیں ۔
امام رضا (ع) سے بزنطی کا رابطہ
شواہد و قرائن کے مطابق بزنطی کا امام علی رضا (ع) سے پہلا رابطہ وہ خط ہے جس میں بزنطی نے امام علی رضا (ع) کی امامت کے بارے میں اپنے شکوک و شبہات کو دفعہ کرنے کے لیے لکھا تھا۔ عام طور پر منابع میں بزنطی کا ذکر ایک ایسے شخص کے طور پر ہوتا ہے جو پہلے واقفی تھے اور امام رضا (ع) سے تعلق قائم کرنے اور ان سے کچھ خوبیاں اور اخلاق امام علی رضا(ع) دیکھنے کے بعد انہوں نے واقفی مذھب چھوڑ دیا۔[14] لیکن اس روایت کی صحت کا دارومدار بزنطی کی واقفی ہونےکا اظہار نہیں کرتی۔ پہلا منابع جس میں یہ روایت ملتی ہے وہ قرب الاسناد حمیری کی کتاب ہے، جس میں بزنطی کی کتابوں میں سے ایک اہم حصہ نقل کیا گیا ہے۔[15] احمد بن ابی نصر بزنطی فرماتے ہیں کہ مجھے امام علی رضا (ع)کی امامت کے بارے میں شک تھا، اس لیے میں نے امام رضا (ع) کو خط لکھا کہ میں کوفہ کا رہنے والا ہوں اور میں اور میرا خاندان آپ کی اطاعت کرتے ہیں اور میں، آپ سے ملنے کا مشتاق ہوں تاکہ آپ سے ملاقات کروں اور اپنے دین کے بارے میں اور وہ لوگ میرے خلاف اور مجھ سے آپ کے بارے میں جو باتیں دریافت کرتے ہیں۔ ان باتوں کی آپ سے معلومات حاصل کروں “اور وہ لوگ خیال کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ آپ کے والد امام موسی کاظم (ع) زندہ ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ دنیا سے نہیں گزرے۔[16]خط کا یہ حصہ احمد بن ابی نصر بزطنی کے شک کو، امام علی رضا (ع) کی امامت کے سلسلہ میں اظہار نہیں کرتا ہے۔ اس بنا پر احمد ابی نصر بزنطی کو واقفی مذھب نہیں کہا جاسکتا ہے۔
بزنطی کے جواب میں امام علی رضا (ع) نے انہیں ایک خط لکھا اور ان تمام باتوں کا جواب دیا [17]جو انہوں نے امام علی رضا (ع) کو خط میں لکھا تھا۔ اور جس کے بعد بزنطی کے امام علی رضا (ع) کی امامت سے مطمئن ہوگئے تھے۔ اور اس کے بعد بزنطی نے امامت امام علی رضا (ع) کا دفاع کیا اور بعض محققین معاصر نے بزنطی کو امام موسی کاظم (ع) کی شھادت اور امامت امام علی رضا (ع) کے یقین رکھنے میں موثر ترین فرد جانا ہے۔[18] احمد بن ابی نصر بزنطی نے امام رضا (ع) کے خط لکھنے اور اس کے جواب حاصل کر لینے کے بعد ان کے ساتھ اپنے رابطہ کو گہرا کیا اور مختلف مقامات پر عام طور سے مدینہ میں امام علی رضا (ع) کی خدمت میں رہے۔ ان کی روایتوں کے مطابق، انہوں نے امام علی رضا(ع) سے “صریا” نامی جگہ پر (جو کہ مدینہ کے ان گاؤں میں سے ایک گاؤں ہے جس کی بنیاد امام موسی کاظم (ع) نے رکھی تھی) امام علی رضا (ع) سے وہاں ملاقات کی۔اور ان سے کسب فیض کیا۔
اور آپ نے مدینہ کے علاوہ مکہ اور قادسیہ میں بھی امام علی رضا(ع) ملاقات کی۔ بزنطی سے ایک ملاقات میں امام رضا (ع) ان سے کہا کہ وہ آج کی رات ان کے گھر پر گزارے، اور اس دن بزنطی نے امام رضا(ع) سے کافی دیر گفتگو کی۔[19] بزنطی نے امام رضا(ع) سے سننے والی روایات کو ایک کتاب میں جمع کیا۔[20]
اور اسی طرح روایت میں ملتا ہے کہ بزنطی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں مدینہ گیا تو رات کے شروع میں امام علی رضا (ع) کا خادم میری رہائش گاہ پر آیا اور کہا: امام علی رضا (ع) نے یہ سواری بھیجی ہے اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ بزنطی کو امام علی رضا (ع)کے مہمان ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ رات کے آخری حصہ میں امام علی رضا (ع) نے بزنطی سے فرمایا: کہ مجھے نہیں لگتا کہ تم اس وقت مدینہ واپس جاسکتے ہو، آج کی رات ہمارے ساتھ رہو اور صبح کو خدا کا نام لیکر مدینہ کی طرف سفر کرو۔ پھر امام علی رضا (ع) نے اپنی کنیز کو بلایا اور اس سے کہا: ان کے لیے میرا بستر بچھا دو اور میری چادر جس چادر کو میں اوڑھ کر سوتا ہوں ان پر ڈال دو اور میرا تکیہ ان کے سر کے نیچے رکھ دو۔
احمد بن ابی نصر بزنطی، جو امام علی رضا (ع) کے لطف و کرم اور احسانات کو دیکھ کر حیران تھے۔اور اپنے آپ پر فخر محسوس کرتے ہوئے اپنے آپ سے کہتے ہیں کہ میرے مقام و مرتبہ تک کون پہنچ سکتا ہے ؟ خداوند عالم نے مجھے وہ مقام دیا ہے جو میرے کسی ساتھی کو نہیں ملا۔
امام علی رضا (ع)نے میرے لئے سواری بھیجی، انہوں نے اپنا بستر بچھایا اور اپنی چادر اور تکیہ میرے لئے لگوایا میرے ساتھیوں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جسے یہ شرف ملا ہو۔ میں بیٹھا اپنے دل میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ میرے امام (ع)نے اچانک مجھ سے کہا:
اے احمد! جب امیر المومنین علی بن ابی طالب (ع) صعصعہ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے تو ان کو متوجہ کیا کہ میری ملاقات تمہارے فخر ومباہات کا سبب نہ بنے بلکہ تم کو چاہئے کہ تم تواضع اور انکساری سے کام لو تا کہ خدا تمہارے درجات کو بلند کرے۔[21]
امام جواد (ع) سے بزنطی کا رابطہ
بزنطی کا امام رضا (ع) سے گہرا رابطہ تھا بزنطی ہر جگہ امام جواد (ع) کے دیدار کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور آپ سے ملاقات کرتے تھے، اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بھی واضح اور آشکار ہوجاتا ہے کہ امام علی رضا (ع) کے دور امامت میں بزنطی کا رابطہ امام جواد (ع) سے بھی عمیق تھا، بزنطی کا پہلی ملاقات امام جواد (ع) سے ان کے بچپن میں ہوئی اور یہ رابطہ جو امام جواد (ع) اور بزنطی کے درمیان قائم ہوا ہے وہ مدینہ میں اور امام علی رضا(ع) کے ایران ہجرت کرنے سے پہلے ہوا۔
روایت میں منقول ہے کہ احمد بن ابی نصر بزنطی ایک دفعہ امام جواد (ع) سے ملاقات کے لیے گئے اس وقت حضرت امام جواد (ع) کی کمسنی کا زمانہ تھا اور امام رضا (ع) اپنے فرزند امام جواد (ع)کو بولنا سیکھا رہے تھے۔[22] اور دوسری روایت میں آیا ہے کہ بزنطی اور ان کے کچھ مشایخ وھاں پر موجود تھے اور انہوں نے امام علی رضا (ع) سے آپ کے جانشین کے سلسلہ میں سوال کیا تو انہوں نے امام جواد (ع) کی طرف ا شارہ کیا۔ اسی روایت کے سلسلہ میں بزنطی بتاتے ہیں کہ بعد میں امام جواد (ع) کی امامت کے دو ر میں نے امام جواد (ع) سے ملاقات کی اوران کے بچپنے کے زمانہ کو یاد کیا۔[23] ۲۰۰ھمیں جب امام رضا (ع) نے، ایران کی طرف ہجرت کی اس کے بعد بھی بزنطی کا مدینہ میں امام جواد (ع) کی خدمت آنا جانا تھا۔
بزنطی کا رابطہ امام جواد (ع) کے ساتھ ان کی امامت کے دور (203-220 ہجری) جاری رہا۔ چونکہ بزنطی کوفہ میں رہتے تھے، اس بنیاد پر کبھی امام جواد (ع) سے ان کا رابطہ خطوط کی شکل میں قرار پاتا تھا[24] اور کبھی احمد بن ابی نصر بزطنی، امام جواد (ع) کے ذریعے سے روایتیں نقل کرتے تھے۔[25] البتہ وہ خود بھی امام جواد(ع) سے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے، ان ملاقاتوں میں سے ایک اہم ترین ملاقات سن ۲۱۰ قمری میں حج کے دوران انجام پائی ۔
بزنطی کہتے ہیں سن ۲۱۰ ھجری میں امام جواد (ع)کے ہمراہ حج کو انجام دینے کی سعادت حاصل ہوئی [26] امام جواد (ع) سے حج کے مسائل کے بارے میں بزنطی کے پاس متعدد روایات موجود ہیں، ان میں سے بعض روایات کے سلسلہ میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ وہ روایات سن ۲۱۰ ہجری میں جو بزنطی نے امام جواد (ع) کے ہمراہ انجام دیا تھا اسی سے مربوط ہیں۔[27] لیکن بعض روایات میں اس کے وقت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔[28] اور اسی طریقہ سے بزنطی نے فقہی روایات کو مستقیماً! امام جواد (ع) سے نقل کیا ہے ۔[29]امام جواد (ع) کے ساتھ، بزنطی کا گہرا رابطہ، دوسری روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے جنہیں بزنطی نے براہ راست امام جواد (ع) سے نقل کی ہیں۔ یہ روایات مختلف ابواب میں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک روایت میں، بزنطی نے امام جواد (ع) سے امام رضا (ع) کے “رضا” کی شہرت کے سلسلہ میں سوال کیا اور عرض کیا کہ کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ لقب مامون نے امام رضا (ع)کو دیا ہے؟ تو امام جواد (ع)نے اس بات کو رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: کہ یہ لقب “رضا” خداوند عالم کی طرف سے عطا ہوا ہے۔[30]
نتیجہ
احمد بن ابی نصر بزنطی کے سلسلہ میں بعض نادان افراد کا خیال ہے کہ وہ واقفی مذھب تھے جبکہ وہ ایک زاھد و متقی اور عظیم محدث تھے۔ بزنطی نے امام رضا(ع) کی امامت کے خلاف جن لوگوں نے تحریک چلائی تھی بزنطی نے اس کا دفاع کیا، اور امام علی رضا(ع) کی امامت کے وقت ہی سے، بزنطی نے جانشین امام علی رضا (ع) یعنی امام جواد (ع) کی امامت کے معترف تھے اور آپ کی امامت کو لوگوں تک پہونچایا۔ احمد بن ابی نصر بزنطی، امام رضا (ع) اور امام جواد (ع) کے اصحاب میں خصوصی مقام کے حامل تھے۔
حوالہ جات
[1] طوسی، فہرست کتب الشیعہ و اصولھم، ص۵۰
[2] نجاشی، رجال نجاشی، ص۷۵
[3] طوسی، رجال ، ص۳۳۲
[4] امین، أعيان الشيعة، ج۳، ص۱۴۰
[5] راوندی، الخرائج والجرائح، ج۱، ص۳۶۵
[6] نجاشی، رجال نجاشی، ص ۷۵
[7] حوالہ گذاشتہ، ص۳۶
[8] طوسی، تھذیب الاحکام، ج۷، ص۳۶۴
[9] حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج۲۱، ص۲۷۲
[10] حمیری، قرب الاسناد، ص۳۴۷ و ۳۷۷؛ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ص۵۸۳-۵۸۴
[11] طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ص ۵۵۶
[12] طوسی، فہرست، ص۵۰
[13] نجاشی، رجال نجاشی، ص۷۵
[14] طوسی، الغیبۃ، ص۷۱
[15] حمیری، قرب الاسناد، ص۳۴۷
[16] حوالہ گذاشتہ، ص۳۴۸-۳۵۲
[17] حمیری، قرب الاسناد، ص۳۴۸-۳۵۲
[18] پاکتچی، بزنطی، دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۱۲،ص۹۶؛ نوبختی، فرق الشیعۃ، ص۷۹
[19] طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ص۵۸۷-588
[20] حمیری، قرب الاسناد، ص۳۷۶
[21]ابن بابویہ ،اخبار الرضا، ج2، ص19
[22] مسعودی، اثبات الوصیۃ، ص۲۶۳
[23] ابن بابویہ، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۸
[24] کلینی، الکافی، ج۱،ص۵۴۵
[25] طوسی، تھذیب الاحکام، ج۵، ص۴۲۶
[26] کلینی، الکافی، ج۴، ص۲۹۲
[27] کلینی، الکافی ،ج۴، ص۲۹۲
[28] حوالہ گذشتہ، ج۴، ص۲۹۲
[29] طوسی، تہذیب الاحکام،ج۱۰، ص۱۷۰
[30] ابن بابویہ، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۱۳
منابع
1. ابن بابویہ، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، مترجم،محمد صالح روغنی قزوینی، کتاب جمکران وابستہ بہ مسجد مقدس جمکران، سال اشاعت سوم، ۱۳۹۳۔
2. امین، حسن، أعيان الشيعة، مصحح: حسن امین، طبع ونشر،۱۳۶۷۔
3. پاکتچی، احمد، بزنطی، دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تھران، مرکز دائرۃ بزرگ اسلامی، ۱۳۸۳۔
4. حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، تصحیح: موسسہ آل البیت، قم، موسسہ آل البیت، ۱۴۱۳۔
5. حمیری، عبد اللہ بن جعفر، قرب الاسناد، تصحیح: موسسہ آل البیت، قم، ۱۴۱۳۔
6. طوسی، محمد بن حسن، فہرست کتب الشیعہ و اصولھم، تصحیح: عبد العزیز طباطبائی، قم، کتابخانہ محقق طباطبائی،۱۴۲۰۔
7. طوسی، محمد بن حسن، اختیارمعرفۃ رجال، مصحح:طوسی، موسسہ نشر دانشگاہ مشھد، ۱۴۰۹۔
8. طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، تصحیح، عباد اللہ تھرانی، علی احمد ناصح، قم، جامعہ المدرسین، حوزہ، ۱۴۱۱۔
9. طوسی، محمد بن حسن، تھذیب الاحکام، تصحیح، حسن الموسوی خرسان، تھران، دار الکتب السلامیہ ، سال اشاعت چہارم، ۱۴۰۷۔
10. قطب الدین راوندی، سعید بن هبةالله، الخرائج والجرائح، قم، موسسہ الامام المھدی، ۱۴۰۹۔
11. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، مترجم، حسین استادولی، دار الثقلین، سال اشاعت چھارم، ۱۳۹۳
12. مسعودی،اثبات الوصیۃ، تصحیح، عباد اللہ تھرانی، وعلی احمد ناصح، قم، جامعہ مدرسین حوزہ، ۱۴۱۱۔
13. نجاشی، رجال نجاشی، قم، جامعہ مدرسین حوزہ، سال اشاعت سوم، ۱۳۷۳۔
14. نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعۃ، دارالاضواء بیروت، ۱۴۰۴۔
مضمون کا مآخذ
فروشانی صفری، نعمت اللہ، ذاکری، محمد تقی، پژوھشی در جایگاہ کلامی بزنطی و منزلت وی نزد امام رضا (ع) و امام جواد (ع)، فصلنامہ علمی پژوھشی تاریخ اسلام، سال ھفدھم، شمارہ اول، بھار ۱۳۹۵، شمارہ مسلسل ۶۵۔