- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
حدیث سلسلۃ الذہب کی روشنی میں امامت و ولایت کی اہمیت
پیغمبراکرم اور اهل بیت , منتخب احــادیث , حضرت امـام رضـا(ع)- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : فیاض حسین
- 2024/05/31
- 0 رائ
حدیث سلسلۃ الذہب امام رضاؑ کی زبان سے نکلی ہوئی وہ حدیث ہے جس کو آپ نے نیشاپور میں جمع غفیر کے درمیان ارشاد فرمائی یہ حدیث سلسلۃ الذہب متن کے اعتبار سے بہت مختصر حدیث ہے لیکن معنی و مفہوم کے اعتبار سے اپنے اندر معرفت کا ایک دریا سمویا ہوا ہے یہ مختصر سی حدیث ایک طرف توحید تو دوسری طرف ولایت اور امامت کی حقیقت اور ان کے درمیان رابطے کو بیان کرتی ہے لہٰذا اس اعتبار سے یہ حدیث سلسلۃ الذہب انتہائی اہمیت کے حامل ہے۔
حدیث سلسلۃ الذہب کیا ہے؟
حدیث سلسلۃ الذہب وہ حدیث ہے کہ جس کو امام رضاؑ نے اپنے اس سفر میں ارشاد فرمائی تھی جو مامون کی طرف سے ایک اجباری سفر تھا راویوں کی کثرت نیشاپور میں موجود تھی اور جب وہ اس بات سے آگاہ ہوئے کہ آپ کا گزر نیشاپور کی طرف سے ہو رہا ہے تو راویوں کے ہجوم نے آپ کی سواری کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور آپ سے یہ درخواست کی کہ ہم نے بہت دن سے خاندان اہل بیت کی زبان سے کوئی مبارک حدیث نہیں سنی ہے لہذا آپ نے ان کے اصرار پر اس حدیث سلسلۃ الذہب کو بیان فرمایا کہ جس کے اندر توحید اور ولایت اہل بیت کی اہمیت کو بیان کیا یہی وہ حدیث سلسلۃ الذہب ہے جس میں تمام کے تمام راوی امام معصوم ہیں جس کا سلسلہ سند پیغمبر اسلام بلکہ خداوند عالم تک پہنچتا ہے اسی وجہ سے اس کو حدیث سلسلۃ الذہب یعنی (سونے کی زنجیر) کہا جاتا ہے۔[1]
حدیث سلسلۃ الذہب سند اور متن کے لحاظ سے
حدیث سلسلۃ الذہب کو سب سے پہلے شیخ صدوق نے اسحاق بن راہویہ سے اس طرح سے نقل کیا ہے: “لَمّا وافی أبُو الحَسَنِ الرِّضا علیه السلام بِنَیسابورَ و أرادَ أن یخرُجَ مِنها إلَی المَأمونِ اجتَمَعَ إلَیهِ أصحابُ الحَدیثِ، فَقالوا لَهُ: یابنَ رَسولِ اللّهِ، تَرحَلُ عَنّا و لا تُحَدِّثُنابِحَدیثٍ فَنَستَفیدَهُ مِنک؟”۔
جب امام رضاؑ نیشاپور سے گزر کر مامون کی طرف جانا چاہتے تھے تو محدثین آپ کے اطراف جمع ہوئے اور عرض کیا اے فرزند رسول ہمارے درمیان سے آپ ہو کر جا رہے ہیں بغیر اس کے کہ آپ نے کوئی حدیث ارشاد فرمائی ہو کہ جس سے ہم مستفید ہوتے؟[2]
آپ نے محدثین کے اصرار پر اپنے سر مبارک کو محمل سے باہر نکالا اور فرمایا: “سَمِعتُ أبی موسَی بنَ جَعفَرٍ یقولُ: سَمِعتُ أبی جَعفَرَ ابنَ مُحَمَّدٍ یقولُ: سَمِعتُ أبی مُحَمَّدَ بنَ عَلِی یقولُ: سَمِعتُ أبی عَلِی بنَ الحُسَینِ یقولُ: سَمِعتُ أبِی الحُسَینَ بنَ عَلِی بنِ أبی طالِبٍ یقولُ: سَمِعتُ أبی أمیرَ المُؤمِنینَ عَلِی بنَ أبی طالِبٍ یقولُ: سَمِعتُ رَسولَ اللّهِ(ص) یقولُ: سَمِعتُ جَبرَئیلَ یقولُ: سَمِعتُ اللّهَ جَلَّ جَلالُهُ یقولُ:لاالهَ الَّا اللَّهُ حِصْنى ، فَمَنْ دَخَلَ حِصْنى امِنَ مِنْ عَذابى”۔
میں نے اپنے والد موسیٰ بن جعفر سے انہوں نے اپنے والد جعفر بن محمد سے انہوں نے اپنے والد محمد بن علی سے انہوں نے اپنے والد علی بن حسین سے انھوں نے اپنے والد امیر المومنین علی ابن ابی طالب سے انہوں نے رسول خدا سے اور انہوں نے جبرائیل سے انہوں نے خداوند عالم سے سنا کہ ارشاد ہوا: “لا الہ الا اللہ حصني فمن دخل حصني امن من عذابي“۔
لا الہ الا اللہ ایک محکم قلعہ ہے جو اس قلعے میں داخل ہو گیا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہو گیا امام اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد آگے بڑھتے ہیں لیکن پھر سے اپنے سر مبارک کو محمل سے باہر نکالتے ہیں اور فرماتے ہیں” بِشُرُوطِها وَ انَا مِنْ شُرُوطِها”[3]
کہ اس کلمہ توحید کے کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرطوں میں سے ایک شرط ہوں۔
حدیث سلسلۃ الذہب شیعہ اور سنی مصادر میں
حدیث سلسلۃ الذہب کو جن شیعہ محدثین نے نقل کیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
1۔ شیخ طبرسی نے کتاب الاحتجاج میں
2۔ شیخ نوری نے مستدرک الوسائل میں
3۔ شیخ صدوق نے
الف) کتاب التوحید
ب) عیون اخبار الرضا
ج) من لا یحضرہ الفقیہ میں نقل کیا ہے۔
اہل سنت محدثین
1۔یحیی بن حسین شجری جرجانی نے الاعمال الخمیسیہ میں
2۔ابو طاہر احمد بن محمد سلفی اصبہانی نے معجم السفر میں
3۔عبدالکریم بن محمد رافعی قزوینی نے التدوین فی اخبار قزوین میں
4۔محمد بن مکرم بن منصور مصری نے مختصر تاریخ دمشق میں
5۔ابو عباس احمد بن محمد بن علی بن حجر نے الصواعق المحرقہ میں
6۔عبدالرؤف مناوی نے کتاب فیض القدیر میں نقل کیا ہے۔[4]
بغیر کسی شک و شبہ کے اس بات کو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ حدیث سلسلۃ الذہب فریقین کے مصادر میں متواتر نقل ہوئی ہے البتہ اہل سنت کے مصادر میں “بشروطھا” کے قید کو ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
حدیث سلسلۃ الذہب میں توحید کی حقیقت
حدیث سلسلۃ الذہب کو پڑھنے کے بعد ہر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام نے کیوں کلمہ توحید کو ایک محکم قلعے کے طور پر بیان فرمایا ہے؟
آج ہم ایک ایسے زمانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں پر زندگی کا معنی اور مطلب کچھ بھی نہیں رہ گیا ہے ہر انسان مشکلات میں گرفتار ہے ہر انسان سختیوں میں مبتلا ہے نوجوانوں کے اندر ایک نا امیدی گھر کر چکی ہے کوئی رزق کی تنگی تو کوئی روزگار کی تلاش میں بھٹک رہا ہے ایسے عالم میں جب ہر طرف زندگی کا ایک خوفناک اور وحشت ناک چہرہ انسان کے سامنے گھوم رہا ہو ضرورت ہے ایک ایسے پناہ گاہ کی معرفی کی جائے کہ جو انسان کو امید دلائے جو انسان کی زندگی میں سکون لا سکے جو زندگی کی حقیقت کو بیان کر سکے امام نے انہی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کلمہ توحید کی حقیقت کو بیان فرمایا کہ ماحول اور زمانہ کیسا بھی ہو لیکن ہر وقت کلمہ توحید انسان کے لیے ایک محکم قلعے کی حیثیت رکھتا ہے کہ اگر کوئی انسان اس محکم قلعے پر اعتماد کر لے تو انسان زندگی کے ہر موڑ پر کامیاب نظر آتا ہے جیسا کہ خدا وند عالم قرآن مجید میں اس بات کی تائید میں ارشاد فرماتا ہے: “وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ” جو خدا پر بھروسہ رکھتا ہے تو وہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔[5]
لہذا توحید اصول دین میں سے صرف ایک اصل نہیں ہے بلکہ اسلام کے اصول اور فروع کی اصل اور بنیاد ہے۔[6]
امام رضاؑ نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حدیث سلسلۃ الذہب ارشاد فرمائی کہ لا الہ الا اللہ ایک محکم قلعہ ہے اور جو اس قلعے میں داخل ہو جاتا ہے وہ عذاب سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ پیغمبر اسلام نے آغاز اسلام کی دعوت میں کلمہ توحید کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: “قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا”[7]
حدیث سلسلۃ الذہب اور امامت و ولایت کی اہمیت
حدیث سلسلۃ الزہب کے انتہا میں امام نے امامت کو شرط توحید کے عنوان سے بیان فرمایا ہے ” بشروطھا و انا من شروطھا”
امام کی اس نورانی بیان سے بالکل واضح ہے کہ امامت اور ولایت اہل بیت ہی توحید کی بقا کی ضامن اور اسلام کی اصل و بنیاد ہے۔[8]
یا دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ امام کے امامت و ولایت اہل بیت کو کلمہ توحید کے ضمن میں بیان فرمانے کی وجہ یہ ہے اس لیے کہ توحید کی مختلف شاخیں ہیں جن میں مہم ترین شاخ ولایت و امامت اہل بیت ہے اس لیے کہ یہی وہ ولایت ہے جس کے سائے میں انسان صراط مستقیم اور توحید کی طرف گامزن ہوتا ہے۔[9]
حدیث سلسلۃ الذہب کی روشنی میں امامت و ولایت اہلبیت کو سمجھنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خلافت اور امامت کا مسئلہ پیغمبر خدا کے بعد صرف ایک دینی اور اسلامی مسئلہ نہیں ہے کہ جس کے اندر کسی انسان کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ جسے چاہے پیغمبر کے بعد اپنا رہنما منتخب کر لے بلکہ یہ امامت و ولایت ایک وظیفہ الہی ہے کہ جس کو خداوند متعال اپنے رسول کے ذریعے ابلاغ کرتا ہے اس لیے کہ امام اسی خط نبوت کو آگے بڑھاتا ہے اور وہ تمام احکام اسلامی جو نبوت کے ذریعے آگے بڑھتے ہیں وہی امامت کے ذریعے بھی آگے بڑھتے ہیں اسی لیے رسول کو راستہ دکھانے اور امام کو منزل تک پہونچانے والا کہا جاتا ہے۔[10]
امامت اور ولایت کی معرفت تقوی، صداقت، معرفت توحید اور طہارت پر مبنی ہے اس لیے کہ خداوند عالم نے تمام معصومین کو نجاستوں سے دور رکھا ہے اور ان پر آیت تطہیر کا سایہ کیا ہے اس لیے کہ امام توحید کا ایک مہم رکن اور صراط مستقیم کا حقیقی رہنما ہوتا ہے۔[11]
امام رضاؑ نے امامت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ایک دوسری حدیث میں بڑے خوبصورت انداز میں ارشاد فرمایا: “انِّ الِأمامَةَ زَمامُ الدّينِ وَ نَظامُ المُسْلِمينَ وَ صَلاحُ الدُّنيا وَ عَزِّ المؤمنينَ، انَّ الِأمامَةِ اسُّ الاسْلام النّامى و فَرعُهُ السّامى، بِالِأمامِ تَمامُ الصَّلاة وَالزَّكات وَالصَّيامَ و الْحجّ وَالْجَهاد وَ تَوْفيرُ الفيْئ وَ الصَّدَقات و إِمضاءُ الْحُدود وَالاحْكام، وَ مَنْعُ الثُّغُور و الأطْراف، الِامامُ يَحِلُّ حَلالَ اللَّه، وَ يَحْرُمُ حَرامَ اللَّه، وَ يُقيمُ حُدُودَاللَّه، وَ يَذُبُّ عَنْ دينِ اللَّه، وَ يَدْعوا إَلى سَبيلِ ربَّه بِالحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَالحُجَّةِ الْبالِغَةِ “[12]
بے شک امامت دین کی باگ ڈور اور مسلمین کے لیے ایک نظام ہے دنیا کے لیے خیر مومنین کے لیے عزت ہے امامت اسلام کی اصل و اساس ہے امام کے ذریعے نماز، زکوۃ، روزہ، حج، جہاد پائے تکمیل کو پہنچتے ہیں بیت المال کے اموال میں ضرورت مندوں کے درمیان انفاق سے کثرت پیدا ہوتی ہے حدود اور احکام کے نفوذ اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت امام کے وجود سے آسان ہوتی ہے امام خدا کے حلال کردہ کو حلال، خدا کے حرام کردہ کو حرام، حدود الہی کا اجرا اور خدا کے دین سے دفاع کرتا ہے اور پروردگار عالم کی طرف بہترین نصیحت اور محکم دلیل کے ذریعے لوگوں کو دعوت دیتا ہے۔
لہذا اگر کوئی اپنے آپ کو موحد کہتا ہے لیکن اس کے عمل سے شرک کی بو آتی ہو پیغمبر کے دستور کو پیروں تلے روندتا ہو غیر خدا پہ تکیہ کرتا ہو ولایت و امامت الہی کا انکار کرتا ہو تو ایسا شخص خود کو اپنی خام خیالی میں موحد سمجھتا ہوگا لیکن حقیقت میں ایسا شخص مشرک ہے۔[13]
حدیث سلسلۃ الذہب میں امامت و ولایت کی اہمیت کو پیغمبر اسلام کی اس حدیث سے تائید ملتی ہے کہ جس میں آپ نے فرمایا: “انَّ اللَّهَ خَلَقَ الانْبِياءَ مِنْ شَجَرٍ شَتّى وَ خَلَقَنى وَ عَليّاً مِنْ شَجَرَةٍ واحِدةٍ فَانَا اصْلُها وَ عَلَىٌّ عليه السلام فَرْعُها، وَ فاطِمةُ لِقاهُها وَالْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ ثِمارَها، وَاشياعُنا اوْراقُها، فَمَنْ تَعَلَّقَ بِغُصْنٍ مِنْ اغْصائِها نَجا، وَ مَنْ زاغَ هَوى، وَلَوْ انَّ عابِداً عَبَدَاللَّهَ الْفَ عامٍ، ثُمَّ الْفَ عامٍ، ثُمَّ الْفَ عامٍ، ثُمَّ لَمْ يُدْرِكْ مَحَبَّتَنا اكَبَّهُ اللَّهُ عَلى مِنْخَرَيْهِ فى النّار”[14] خداوند عالم نے نبیوں کو متعدد درختوں سے پیدا کیا اور مجھ کو اور علی کو ایک درخت سے پیدا کیا میں درخت کی جڑ اور علی اس کے شاخ ہیں حسن اور حسین اس کے پھل ہیں اور ہمارے شیعہ اس درخت کے پتے ہیں پس جو بھی اس درخت کی شاخوں سے جڑا رہتا ہے وہ نجات یافتہ ہے اور ہر وہ کہ جو اس درخت سے منحرف ہو جاتا ہے وہ نابود ہو جاتا ہے اگرچہ کوئی عبادت گزار ایک ہزار سال تک اللہ کی عبادت کرے پھر ایک ہزار سال اس کی عبادت کرے پھر اس کے بعد ایک ہزار سال اس کی عبادت کرے لیکن ہماری محبت اس کے دل میں نہ ہو تو خداوند عالم اس کو جہنم میں ڈال دے گا۔
نتیجہ
حدیث سلسلۃ الذہب امام رضاؑ کی زبان سے جاری ہوئی وہ حدیث ہے جس کو آپ نے نیشاپور میں محدثین کے اصرار پر ارشاد فرمائی تھی جس کو محدثین شیعہ اور اہل سنت نے متواتر نقل فرمائی ہے شیعہ محدثین اس کو “حدیث سلسلۃ الذہب” اور سنی “مسلسل بالاشراف” کہتے ہیں۔ اس حدیث کا سلسلہ معصومین، پیمبر اسلام سے ہوتا ہوا خداوند عالم تک پہونچتا ہے امام رضاؑ نے اس حدیث سلسلۃ الذہب میں کلمہ توحید کو ایک محکم قلعہ بتایا ہے اور ولایت و امامت اہل بیت کے توحید سے رابطے کو بیان فرمایا ہے اور خود کی معرفت کو اس توحیدی رابطے کے لئے شرط قرار دیا ہے۔
حوالہ جات
[1] ۔ حامدی، کلیات مفاتیح نوین، ص465
[2] ۔ حامدی، کلیات مفاتیح نوین، ص465
[3] ۔ صدوق، عیون اخبار رضا، ج2، ص135
[4] ۔ گوہری، جایگاہ امامت و ولایت در حدیث سلسلۃ الذہب، ص37
[5] ۔ طلاق، 3
[6] ۔ شیرازی، تفسیر نمونہ، ج12، ص576
[7] ۔ شیرازی، تفسیر نمونہ، ج12، ص577
[8] ۔ شیرازی، تفسیر نمونہ، ج20، ص271
[9] ۔ شیرازی، تفسیر نمونہ، ج21، ص45
[10] ۔ شیرازی، تفسیر نمونہ، ج1، ص441
[11] ۔ حامدی، کلیات مفاتیح نوین، ص206
[12] ۔ کلینی، اصول کافی، ج1، ص200
[13] ۔ شیرازی، تفسیر نمونہ، ج5، ص188
[14] ۔ شیرازی، پیام قرآن، ج9، ص387، حسکانی، شواہد التنزیل، ج1، ص428، ح588
منابع و مآخذ
1۔قرآن مجید
2۔حامدی، محمد رضا، کلیات مفاتیح نوین، امام علی بن ابی طالب: قم، 1387
3۔کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، دارالحدیث: قم، 1397
4۔شیرازی، ناصر مکارم، تفسیر نمونہ، دارالکتب الاسلامیۃ: تہران، 1374
5۔ شیرازی، ناصر مکارم، پیام قرآن، امام علی بن ابی طالب: قم، 1386
6۔حسکانی، حاکم، شواہد التنزیل، مجمع جہانی اہل بیت (ع): قم، 1375
7۔ گوہری، ہادی رستگار مقدم، جایگاہ امامت و ولایت در حدیث سلسلۃ الذہب، فرهنگ رضوی، سال دوم، تابستان 1393، شماره 6
8۔صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، عیون اخبار الرضا، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات: بیروت 1404
مضمون کا مآخذ
گوہری، ہادی رستگار مقدم، جایگاہ امامت و ولایت در حدیث سلسلۃ الذہب، فرهنگ رضوی، سال دوم، تابستان 1393، شماره 6