حضرت فاطمہ زہرا (ع) کے کردار کی بنیادی خصوصیات

حضرت فاطمہ زہرا (ع) کے کردار کی بنیادی خصوصیات

کپی کردن لینک

حضرت فاطمہ زہرا (ع) اُن عظیم ہستیوں میں شمار کی جاتی ہیں جن کی زندگی اسلامی تعلیمات کی عکاسی کرتی ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (ع)  کا کردار نہ صرف اسلامی تاریخ میں منفرد مقام رکھتا ہے بلکہ آپ (ع) کی صفات اور اعمال آج بھی پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔ یہاں پر آپ (ع) کے کردار کی بنیادی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔

حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی ولادت اور بچپنہ

20 جمادى الثانى بروز جمعہ، بعثت پيغمبر اکرم (ص) كے پانچويں سال خانہ وحى ميں حضرت رسول اكرم (ص) كى دختر گرامى حضرت فاطمہ زہرا (ع) نے ولادت پائي۔[1] آپ كى والدہ ماجدہ جناب خديجہ بنت خويلد تھيں۔

جناب خديجہ قريش كے ايك شريف و نجيب خاندان ميں پيدا اور زيور تربيت سے آراستہ ہوئيں۔ ان كے خاندان كے تمام افراد حليم و انديشمند اور خانہ كعبہ كے محافظ تھے۔ جب يمن كے بادشاہ ”تبّع” نے حجر الأسود كو مسجد الحرام سے نكال كر يمن لے جانے كا ارادہ كيا توجناب خديجہ كے والد خويلد دفاع كے لئے اٹھ كھڑے ہوئے آپ كى جنگ اور فداكاريوں كے نتيجہ ميں ”تبّع” اپنے ارادہ كو عملى جامہ نہ پہنا سكا۔[2]

جناب خديجہ كے چچا ”ورقة” بھى مكہ كے ايك دانش مند اور علم دوست شخص تھے۔ تاريخ كے مطابق جناب خديجہ پر ان كا بڑا اثر تھا۔

حضرت فاطمہ زہرا (ع) والد گرامی كے ساتھ

حضرت فاطمہ زہرا (ع) كى ولادت سے پيغمبر اکرم (ص) و حضرت خديجہ كا گھر اور بھى زيادہ مہر و محبت كا مركز بن گيا جس زمانہ ميں پيغمبر اكرم (ص) مكہ ميں بڑے رنج و الم ميں مبتلا تھے، اس زمانہ ميں پيغمبر اكرم (ص) كى بيٹى، نسيم آرام بخش كى طرح ماں باپ كى تھكان كو صبح و شام اپنى محبت سے دور كرتى تھيں اور رسول اكرم (ص) كى پر مشقت زندگى كے رنج و غم كے دنوں ميں تسكين بخش تھيں۔

حضرت فاطمہ زہرا (ع) كا بچپن، صدر اسلام كے بحرانى اور بہت ہى خطرناك حالات ميں گذرا جبكہ رسول اکرم (ص) سخت مشكلات اور خطرناك حوادث سے دوچار تھے۔ آپ (ص) تن تنہا كفر و بت پرستى سے مقابلہ كرنا چاہتے تھے۔ چند سال تك آپ پوشيدہ طور پر تبليغ كرتے رہے جب خدا كے حكم سے آپ (ص) نے كھلم كھلا دعوت اسلام كا آغاز كيا تو دشمنوں كى اذيّت اور ايذا رسانى نے بھى شدت اختيار كر لي۔

جب كفار نے يہ ديكھا كہ اذيت و آزار سے اسلام كى بڑھتى ہوئي ترقى كو نہيں روكا جاسكتا تو انہوں نے ايك رائے ہو كر پيغمبراكرم (ص) كو قتل كر ڈالنے كا منصوبہ بنايا۔

حضرت رسول خدا (ص) كى جان كے تحفظ كے لئے جناب ابوطالب نے بنى ہاشم كے ايك گروہ كے ساتھ ”شعب ابى طالب” نامى درّہ ميں آنحضرت (ص) كو منتقل كر ديا۔ مسلمانوں نے تين سال تك اس تپتے ہوئے درّہ ميں نہايت تنگى، تكليف اور بھوك كے عالم ميں زندگى گذارى اور اسى مختصر غذا پر گذارہ كرتے رہے جو پوشيدہ طور پر وہاں بھيجى جاتى تھى۔

حضرت فاطمہ زہرا (ع) تقريباً دو سال تك كفار قريش كے اقتصادى بائيكاٹ ميں اپنے پدر عاليقدر كے ساتھ رہيں اور تين سال تك ماں باپ اور دوسرے مسلمانوں كے ساتھ بھوك اور سخت ترين حالات سے گذريں۔

10 بعثت ميں ”شعب” سے نجات كے تھوڑے دنوں بعد آپ اس ماں كى شفقتوں سے محروم ہوگئيں جنھيں دس سال كى مجاہدت كے رنج و غم خصوصاً اقتصادى ناكہ بندى كى دشواريوں نے رنجور كر ديا تھا۔[3]

ماں كا اٹھ جانا ہر چند كہ حضرت فاطمہ زہرا (ع) كے لئے رنج آور اور مصيبت كا باعث تھا اور آپ كى حساس روح كو اس مصيبت نے افسردہ كر ديا تھا ليكن اس كے بعد آپ كو پيغمبر اكرم (ص) كے دامن تربيت ميں رہنے كا زيادہ موقع ملا۔

10 بعثت ميں جناب ابوطالب اور جناب خديجہ كى وفات نے روح پيغمبر اکرم (ص) پر ايسا اثر كيا كہ آپ (ص) نے اس سال كا نام ”عام الحزن”[4] (غم و اندوہ كا سال) ركھا۔ پيغمبر اکرم (ص) كے ان دونوں بڑے حاميوں كے اٹھ جانے سے دشمن كى اذيت اور آزار رسانى ميں شدت پيدا ہوگئي، كبھى لوگ پتھر مارتے كبھى آپ (ص) كے روئے مبارك پر مٹى ڈال ديتے، كبھى ناسزا كلمات كہتے اكثر اوقات آپ (ص) نہايت خستگى كے عالم ميں گھر كے اندر داخل ہوتے۔

ليكن يہ حضرت فاطمہ زہرا (ع) تھيں جو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے آپ (ص) كے سر اور چہرہ اقدس سے گرد جھاڑتيں، نہايت ہى پيار و محبت سے پيش آتيں اور پيغمبر اكرم (ص) كے لئے آرام اور حوصلہ كا باعث بنتيں، حضرت فاطمہ زہرا (ع) لوگوں كے غصہ اور بے مہرى كى جگہ اپنے باپ سے مہر و محبت سے اس طرح پيش آتى تھيں كہ آپ (ص) كے والد گرامى نے آپ كو ”أُم أَبيہا” كا لقب ديا۔

ہجرت كے كچھ دنوں بعد آٹھ سال كى عمر ميں حضرت على (ع) كے ساتھ مكہ سے مدينہ تشريف لائيں وہاں بھى باپ كے ساتھ رہيں۔ پيغمبر اكرم (ص) كى زندگى كے مشكلات ميں حضرت فاطمہ زہرا (ع) برابر شريك رہيں، جنگ احد ميں جنگ كے خاتمہ كے بعد جناب حضرت فاطمہ زہرا (ع) مدينہ سے پيغمبر اکرم (ص) كے خيمہ گاہ كى طرف دوڑتى ہوئي پہنچيں اور باپ كے خون آلود چہرہ كو دھويا اور آنحضرت (ص) كے زخموں كا مداوا كرنے لگيں۔[5]

حضرت فاطمہ زہرا (ع)، اسلام اور قرآن كے ساتھ ساتھ پروان چڑھيں۔ آپ نے وحى و نبوت كى فضا ميں پرورش پائي۔ آپ كى زندگى پيغمبر اکرم (ص) كى زندگى سے جدا نہيں ہوئي يہاں تك كہ شادى كے بعد بچوں كے ساتھ بھى آپ (ع) كا گھر پيغمبر (ص) كے گھر سے متصل تھا اور پيغمبر اکرم (ص) كى ہر جگہ سے زيادہ حضرت فاطمہ زہرا (ع) كے گھر رفت و آمد تھي۔ ہر صبح مسجد جانے سے پہلے آپ (ص) حضرت فاطمہ زہرا (ع) كے ديدار كو تشريف لے جاتے تھے۔[6]

پيغمبر اکرم (ص) كے خدمتگار ”ثومان” بيان كرتے ہيں كہ جب پيغمبر اکرم (ص) سفر پر جانا چاہتے تو آپ (ص) سب سے آخر ميں حضرت فاطمہ زہرا (ع) سے وداع ہوتے تھے اور جب سفر سے واپس آتے تھے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ زہرا (ع) كے پاس جاتے تھے۔[7]

آخر كار پيغمبر اكرم (ص) كى زندگى كے آخرى لمحات ميں بھى حضرت فاطمہ زہرا (ع) ان كى سرہانے پر موجود گريہ فرما رہى تھيں، پيغمبر اکرم (ص) ان كو يہ كہہ كر دلاسہ دے رہے تھے كہ وہ ہر ايك سے پہلے اپنے باپ سے ملاقات كريں گي۔[8]

حضرت فاطمہ زہرا (ع) كى شادي

3 ھجری ميں پيغمبر اكرم (ص) نے اميرالمؤمنين حضرت على (ع) سے حضرت فاطمہ زہرا (ع) كى شادى كر دي۔[9] حقيقت تو يہ ہے كہ يہ خوشگوار رشتہ انہيں كے لائق تھا۔ اس لئے كہ معصومين (ع) كى تصريح كے مطابق حضرت على (ع) كے علاوہ كوئي بھى حضرت فاطمہ زہرا (ع) كا كفو اور ہمسر نہيں ہوسكتا تھا۔

اس شادى كى خصوصيتوں ميں سے يہ بات بھى ہے جو ان دونوں بزرگ ہستيوں كى بلند منزلت كا ثبوت ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) نے قريش كے صاحب نام افراد، بڑى شخصيتوں اور ثروت مندوں كى خواستگارى كو قبول نہيں كيا آپ (ص) فرماتے تھے كہ حضرت فاطمہ زہرا (ع) كى شادى كا مسئلہ حكم خدا سے متعلق ہے۔[10]

رسول خدا (ص) نے حضرت فاطمہ زہرا (ع) كو حضرت على (ع) كے لئے روكے ركھا تھا اور آپ خدا كى طرف سے مامور تھے كہ نور كو نور سے ملا ديں۔[11]

اسى وجہ سے جب حضرت على (ع) نے رشتہ مانگا تو پيغمبر اكرم (ص) نے قبول فرمايا اور كہا: ”تمہارے آنے سے پہلے فرشتہ الہى نے مجھے حكم خدا پہنچايا ہے كہ حضرت فاطمہ زہرا (ع) كى شادى على (ع) سے كردو”[12]

رسول اكرم (ص) نے حضرت فاطمہ زہرا (ع) كى رضايت لينے كے بعد حضرت على (ع) سے پوچھا كہ شادى كرنے كے لئے تمہارے پاس كيا ہے؟ آپ (ع) نے عرض كيا: ”ايك زرہ (جنگ کا فولادی لباس) ايك تلوار اور پانى لانے كے لئے ايك شتر كے علاوہ ميرے پاس اور كچھ نہيں ہے۔” حضرت على (ع) نے پيغمبر اکرم (ص) كے حكم كے مطابق زرہ بيچ دى اور اس كى قيمت سے، جو تقريباً پانچ سو درہم تھي، جہيز كا معمولى سامان خريدا گيا، ضيافت بھى ہوئي اور مسلمانوں كو كھانا بھى كھلايا گيا۔ مسرت و شادمانى اور دعائے پيغمبر (ص) كے ساتھ حضرت فاطمہ زہرا (ع) كو حضرت على (ع) كے گھر لے جايا گيا۔[13]

حضرت فاطمہ زہرا (ع) حضرت على (ع) كے گھر ميں

حضرت فاطمہ زہرا (ع) باپ كے گھر سے شوہر كے گھر اور مركز نبوّت سے مركز ولايت ميں منتقل ہوگئيں اور اس نئے مركز ميں حضرت فاطمہ زہرا (ع) كے كاندھوں پر فرائض كا گراں بار آگيا۔

حضرت فاطمہ زہرا (ع) چاہتى تھيں كہ اس مركز ميں ايسى زندگى گذاريں كہ جو ايك مسلمان عورت كے لئے مكمل نمونہ بن جائے تا كہ آئندہ زمانہ ميں سارى دنيا كى عورتيں آپ (ع) كے وجود اور آپ (ع) كى روش ميں حقيقت و نورانيت اسلام ديكھ ليں۔

گھر كے محاذ ميں جناب حضرت فاطمہ زہرا (ع) كے كردار كے تمام پہلوؤں كو پيش كرنے كے لئے ايك مفصل كتاب كى ضرورت ہے ليكن اختصار كے پيش نظر يہاں چند چيزوں كى طرف اشارہ كيا جاتا ہے:

الف۔ حضرت فاطمہ زہرا (ع) اور گھر كا انتظام

حضرت فاطمہ زہرا (ع) اگر چہ بڑے باپ اور عظيم پيغمبر (ص) كى نور چشم تھيں اور كائنات ميں ان سے بڑى شريف زادى كا وجود نہيں تھا ليكن ان باتوں كے باوجود آپ گھر ميں كام كرتى تھيں اور گھر كے دشوار كاموں سے بھى انكار نہيں كرتى تھيں۔

گھر كے اندر حضرت فاطمہ زہرا (ع) اتنى زحمت اٹھاتى تھيں كہ حضرت على (ع) بھى ان سے ہمدردى كا اظہار كرتے اور ان كى تعريف كرتے ہوئے نظر آتے ہيں۔ اس سلسلہ ميں حضرت على (ع) نے اپنے ايك صحابى سے فرمايا: كہ تم چاہتے ہو كہ ميں اپنى اور حضرت فاطمہ زہرا (ع) كى حالت تم كو بتاؤں؟

حضرت فاطمہ زہرا (ع) گھر كے لئے اتنا پانى بھر كر لاتى تھيں كہ آپ (ع) كے جسم پر مشك كا نشان پڑجاتا تھا اور اسى قدر چكياں چلاتى تھيں كہ ہاتھ ميں چھالے پڑجاتے تھے گھر كو صاف ستھرا ركھنے، روٹى اور كھانا پكانے ميں اتنى زحمت برداشت كرتى تھيں كہ آپ (ع) كا لباس گرد آلود ہو جاتا تھا۔[14]

جناب حضرت فاطمہ زہرا (ع) نے گھر كو، حضرت على (ع) اور اپنے بچوں كے لئے مركز آسائش بنا ديا تھا اس حد تك كہ جب حضرت على (ع) پر رنج و غم، دشواريوں اور بے سر و سامانيوں كا حملہ ہوتا تھا تو آپ (ع) گھر آجاتے اور تھوڑى دير تك جناب حضرت فاطمہ زہرا (ع) سے گفتگو كرتے تو آپ (ع) كے دل كو اطمينان محسوس ہونے لگتا۔

حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں كہ حضرت على (ع) گھر كى ضرورت كے لئے لكڑى اور پانى مہيا كرتے گھر ميں جھاڑو ديتے اور حضرت فاطمہ زہرا (ع) چكى پيستيں اور آٹا گوندھ كر روٹى پكاتى تھيں۔[15]

ب۔ حضرت فاطمہ زہرا (ع) اور شوہر كى خدمت

جناب حضرت فاطمہ زہرا (ع) وہ بى بى ہيں جنہوں نے غريب ليكن انتہائي با فضيلت انسان كے ساتھ عقد فرمايا۔ انہوں نے ابتدا ہى سے اسلام اور اپنے شوہر كے حساس حالات كو محسوس كرليا تھا۔ وہ جانتى تھيں كہ اگر حضرت على (ع) كى تلوار نہ ہوتى تو اسلام كو اتنى پيش قدمى حاصل نہ ہوتى اور يہ بھى جانتى تھيں كہ اسلام كا بہادر سپہ سالار اس صورت ميں ميدان جنگ ميں كامياب ہوسكتا ہے جب گھر كے داخلى حالات كے اعتبار سے اس كى فكر آزاد اور وہ بيوى كى مہر و محبت اور تشويق سے مالا مال ہو۔

جب حضرت على (ع) ميدان جنگ سے تھك كر واپس آتے تھے تو ان كو مكمل طور پر بيوى كى مہربانياں اور محبتيں ملتى تھيں۔ حضرت فاطمہ زہرا (ع) ان كے جسم كے زخموں كى مرحم پٹى كرتيں، اور ان كے خون آلود لباس كو دھوتى تھيں۔ چنانچہ جب حضرت على (ع) جنگ احد سے واپس لوٹے تو انہوں نے اپنى تلوار حضرت فاطمہ زہرا (ع) كو دى اور فرمايا اس كا خون دھو ڈالو۔[16]

حضرت فاطمہ زہرا (ع) زندگى كى مشقتوں ميں حضرت على (ع) كى ہم فكر اور ان كى شانہ بشانہ تھيں۔ حضرت فاطمہ زہرا (ع) ان كے كاموں ميں ان كى مدد كرتيں، ان كى تعريف اور تشويق فرماتيں، ان كى فداكارى اور شجاعت كى ستائش كرتيں اور ان كى كوششوں اور زحمتوں كے سلسلہ ميں بڑى فرض شناس تھيں۔ پورى زندگى ميں كوئي موقعہ بھى ايسا نہيں آيا كہ جس ميں آپ (ع) نے اپنے شوہر سے دل توڑنے والى كوئي بات كہى ہو يا ان كے دل كو رنج پہنچايا ہو۔ بلكہ ہميشہ آپ (ع) اپنى بے لاگ محبت و عنايت سے ان كى دكھى روح اور تھكے ماندہ جسم كو تسكين ديتى رہى ہيں حضرت على (ع) اس سلسلہ ميں فرماتے ہيں:

”جب ميں گھر آتا تھا اور ميرى نظر حضرت فاطمہ زہرا (ع) پر پڑتى تو ميرا تمام غم و غصہ ختم ہو جاتا تھا۔”[17]

جب آنحضرت (ص) نے حضرت على (ع) سے سوال كيا تھا كہ آپ نے”حضرت فاطمہ زہرا (ع) كو كيسا پايا؟” تو آپ (ع) نے جواب ميں فرمايا تھا كہ ”حضرت فاطمہ زہرا (ع) اطاعت خداوند عالم ميں ميرى بہترين مددگار ہيں۔”[18]

ج۔ حضرت فاطمہ زہرا (ع) اور تربيت اولاد

حضرت فاطمہ زہرا (ع) كے فرائض ميں سے ايك اہم فريضہ، بچوں كى پرورش اور ان كى تربيت تھى۔ آپ كو خداوند عالم نے پانچ اولاديں عطا كى تھيں، حضرت حسن (ع)، حضرت حسين (ع)، حضرت زينب (ع)، حضرت ام كلثوم (ع) اور پانچويں فرزند جن كا نام محسن تھا، وہ سقط ہوگئے تھے۔ آپ كے تمام بچے با اخلاص اور خدا كے مطيع تھے۔ حضرت فاطمہ زہرا (ع) نے ايسى اولاد كى پرورش كى كہ جو سب كے سب اسلام كے محافظ اور دين كى اعلى اقدار كے نگہبان تھے۔ كہ جنھوں نے اس راستہ ميں اپنى جان دينے كى حد تك مقاومت كا مظاہرہ كيا۔ ايك نے صلح كے ذريعہ اور دوسرے نے اپنے خونين انقلاب سے نہال اسلام كى آبيارى كى اور دين اسلام كو بچاليا۔[19]

ان كى بيٹيوں نے بھى خاص كر واقعہ كربلا ميں اپنے بھائيوں كى آواز اور حضرت امام حسين (ع) كے پيغام كو كوفہ، شام اور تمام راستوں ميں دوسروں تك پہنچايا۔

نتیجہ

حضرت فاطمہ زہرا (ع) کا کردار ایک جامع مثال ہے جو نہ صرف خواتین کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے درسِ عمل فراہم کرتا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (ع) کا کردار ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ایک بیٹی، بیوی اور ماں ہونے کے ناطے ہمارا کردار کیسا ہونا چاہئے۔ ان کے اصول اور اقدار ہمیں ترغیب دیتے ہیں کہ ہم اپنے خاندانی اور سماجی فرائض کو خوش اسلوبی سے نبھائیں اور اپنی زندگی میں محبت، خلوص اور سچائی کو اپنی بنیاد بنائیں۔

 

حوالہ جات

[1] ۔ ابن شهر آشوب، المَناقِب، ج۳، ص۳۵۷؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۴۳، ص۶؛ طبری صغیر، دلائل الامامة، ص۱۰؛ کلینی، اصول كافى، ج1، باب مولد فاطمة الزهراء، ح۳۔

[2] ۔ السهيلي، الروضة الانف، ج۱، ص۲۱۳؛ امينى، بانوى نمونہ اسلام، ص۱۸۔

[3] ۔ ابن شهر آشوب، المَناقِب، ج۱، ص۱۷۴۔

[4] ۔ ابن شهر آشوب، المَناقِب، ج۱، ص۱۷۴۔

[5] ۔ مجلسی، بحارالانوار، ج۲۰، ص۸۸؛ عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج۴، ص۳۲۴۔

[6] ۔ اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج۱، ص۴۵۷۔

[7] ۔ اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج۱، ص۴۵۷۔

[8] ۔ طوسی، الأمالي، ج۲، ص۱۴۔

[9] ۔ جناب معصومہ كى شادى كى تاريخ ميں اختلاف ہے سيد ابن طاؤس نے مرحوم شيخ مفيد كى كتاب حدائق الرياض ميں اقبال كے مطابق ازدواج كى تاريخ ۲۱ محرم ۳ ھ نقل كى ہے۔ ليكن مصباح ميں اول ذى الحجہ مانتے ہيں۔ امالى ميں آيا ہے: فاطمہ كى شادى عثمان كى بيوى رقيہ كى وفات كے سولہ دن بعد اور جنگ بدر سے واپسى پر ہوئي۔ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۹۷-۹۳۔

[10] ۔”امرہا الى ربہا” اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج۱، ص۳۵۳۔؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۔

[11] ۔ طبری صغیر، دلائل الامامة، ص۱۹۔

[12] ۔ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۲۷۔

[13] ۔ اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج۱، ص۳۶۰-۳۶۹؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۳۳-۱۲۷۔

[14] ۔ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۸۲۔

[15] ۔ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۵۱۔ منقول از كافى ”كانَ اَميْرُ الْمُؤمنيْنَ  عليه السلام يَحْتَطبُ وَ يَسْقيْ وَ يَكنُسُ وَ كانَتْ فاطمَةُ  عليه‌السلام تَطْحَن و تَعْجنُ و تَخْبزُ”

[16] ۔ ابن هشام، السيرة النبوية، ج۴، ص۳۲۴؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۲، ص۸۸۔

[17] ۔ اخطب خوارزم، المناقب، ص۲۵۶۔

[18] ۔ مجلسی، بحار الانوار، ج۴۳، ص۱۱۱۔ ”… نعم العون على طاعة اللہ۔”

[19] ۔ يہ حصہ كتاب ”بانوى نمونہ اسلام” مصنفہ ابراہيم امينى سے اقتباس ہوا ہے۔

 

فہرست منابع

۱: ابن شهرآشوب، مَناقِبُ آلِ أبی طالب، نجف اشرف، المکتبة الحیدریة، ۱۳۷۶ھ ق۔

۲: ابن هشام، عبد الملك بن هشام، السيرة النبوية لابن هشام،القاہرة، شركة الطباعة الفنية المتحدة، ۱۴۱۰ ھ.ق۔

۳: اخطب خوارزم، موفق بن احمد، المناقب للخوارزمي، نجف اشرف، المطبعة الحيدرية، ۱۴۸۸ ھ ق -۱۹۶۵ م۔

۴: اربلی، علی بن عیسی، کَشْفُ الغُمَّة فی مَعْرِفَةِ الأئمّة، دارالاضواء، بیروت، ۱۴۰۳ھ ق۔

۵: امینی، ابراہیم، بانوی نمونہ اسلام، قم، شفق، ۱۳۹۴ ھ ش۔

۶: السهيلي، عبد الرحمن، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية، بیروت، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۱۲ ھ ق -۱۹۹۲ م۔

۷: طبری صغیر، محمد بن جریر، دلائل الامامة، قم، مؤسسه بعثت، ۱۴۱۳ ھ ق۔

۸: طوسی، محمد بن حسن، الأمالي، قم، دار الثقافة، ۱۴۱۴ ھ ق۔

۹: عاملی، سید جعفر مرتضی؛ الصحیح من سیرة النبی الاعظم، قم، دارالحدیث، ۱۴۲۶ ھ.ق۔

۱۰: کلينی، محمد ابن يعقوب، الکافي، تهران، دارالكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ ه‍ ق۔

۱۱: مجلسی، محمد باقر، بِحارُالاَنوار الجامِعَةُ لِدُرَرِ أخبارِ الأئمةِ الأطهار، تہران، دار الکتب الاسلامیة، ۱۳۱۵ ھ.ق۔

 

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

مركز تحقيقات اسلامي، تاريخ اسلام جلد۴ (حضرت فاطمہ (س) اور ائمہ معصومين عليهم ‌السلام كى حيات طيبہ)، مترجم: معارف اسلام پبلشرز، نور مطاف، ۱۴۲۸ ھ ق؛ ص ۴۱ الی ۴۷۔

 

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے