- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/12/09
- 0 رائ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت سے پہلے یہودیوں کی مذہبی محفلوں میں آپ کی علامتوں کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا یہاں تک کہ یہودی علماء تورات کی آیتوں کی بنیاد پر آنحضرت کے بارے میں پیشین گوئیاں کرتے تھے اور بڑے ہی اعتماد کے ساتھ اس طرح کے پیغمبر کے آنے کے بارے میں باتیں کیا کرتے تھے۔
اور یہ تمام علامتیں اور نشانیاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی اور آپ کے کاموں سے مطابقت کر گئیں یہودیوں کے بزرگ مذہبی افراد اس فکر میں رہتے تھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدد کر کے انھیں اپنی طرف کھینچ لیں اور نتیجہ میں ان کے اطراف کی مذہبی قدرت کو حاصل کر لیں لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی تو بڑی تیزی سے اسلام پھیلا اور یہودیوں کی طاقت سے زیادہ پیغمبر کو قدرت و طاقت حاصل ہوئی اور اسلام کے منتقل ہونے کی وجہ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی بھی صورت میں اس بات پر راضی نہیں تھے کہ یہودیوں کے پرچم تلے اپنی زندگی گزاریں یہی بات یہودیوں کی محفلوں میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت کا سبب بنی۔
یہودیوں نے طرح طرح سے اسلام کو نقصان پہنچانا چاہا جیسا کہ سورہٴ بقرہ اور سورہ ٴ نساء کی آیتوں میں ان کا اسلام سے بغض و عناد بیان ہوا ہے مثلاً ان کے کاموں میں سے ایک کام یہ تھا کہ وہ ”اوس“ و”خزرج“ کے درمیان ۱۲۰ سالہ پرانے اختلاف(۱)[1] کو پھر سے ابھاریں اور مسلمانوں کی متحد صفوں کو انتشار کا شکار بنائیں لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کی ہوشیاری نے ان کے اس عزم و ارادہ کو خاک میں ملا دیا اور اسی طرح ان کی بہت سی دوسری سازشوں کو بھی پورا نہیں ہونے دیا۔
ایک راستہ جس کے ذریعہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اسلام کو مغلوب کرنا چاہتے تھے وہ مناظرہ یا آزادانہ بحث[2] بھی تھا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی اس پیش کش کو ہنسی خوشی قبول کر لیا وہ آئے اور پیغمبر سے مجادلہ اور پیچیدہ سوال کر کے انھیں لا جواب بنا دینا چاہتے تھے لیکن اس آزاد بحث سے خود انھیں ہی نقصان اٹھا نا پڑا، اور لوگوں کو پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے علمی مقام اور غیبی اطلاعات کی آگاہی حاصل ہوئی جس کی وجہ سے بعض یہودی اور بت پرست اسلام کے گرویدہ ہوگئے۔
لیکن وہ لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بحث سے قانع ہونے کے باوجود بڑی دلیری کے ساتھ کہنے لگے کہ ہم تمہاری باتوں کو نہیں سمجھ رہے ہیں: ” قُلُوبُنَا غُلْفٌ“[3] ہمارے دلوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔
یہودیوں کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مناظرے اور مجادلے بہت ہیں جن کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بڑی ہی ہمت کے ساتھ انجام دیا اور ان کی قضاوت و فیصلے نے پوری دنیا کو دعوت فکر دی۔
بطور نمونہ ان میں سے صرف دو یہ مناظرے ملاحظہ فرمائیں:
پہلا نمونہ
جب عبد اللہ بن سلام ایمان لے آیا:
یہودیوں کے بزرگ علماء میں سے ایک مشہور و معروف عالم دین جس کا نام ”عبد اللہ بن سلام“ اور یہودی قبیلہٴ بنی قینقاع سے تعلق رکھتا تھا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے پہلے سال ایک روز عبد اللہ بن سلام[4] آپ کی نشست میں حاضر ہوا اور دیکھا کہ آپ اپنے موعظہ میں اس طرح کی چیزیں بیان کر رہے ہیں۔
”اے لوگو! آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرو اوران تک کھانا پہنچاوٴ، اپنے رشتہ داروں سے مل جل کر رہو، آدھی رات کو جب ساری دنیا سو جایا کرے تو اٹھ کر نماز شب پڑھو اور خداوند متعال سے راز و نیاز کرو تاکہ سلامتی کے ساتھ خداوند متعال کی بہشت میں داخل ہو سکو“۔
عبد اللہ نے دیکھا کہ آپ کی باتیں اچھی ہیں جس کہ وجہ سے وہ اس نشست کا گرویدہ ہو گیا اور اس نے اس میں شرکت کا ارادہ کر لیا[5] ایک روز عبد اللہ نے مذہب یہود کے چالیس بزرگ علماء کے ساتھ مل کر یہ طے کیا کہ ہم پیغمبر کے پاس جا کر ان کی نبوت کے بارے میں بحث کریں اور انھیں زیر کریں۔
اس ارادے سے جب وہ لوگ آپ کے پاس آئے تو آپ نے عبد اللہ بن سلام کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”میں بحث کے لئے تیار ہوں“۔
یہودیوں نے موافقت کی اور بحث و مناظرہ شروع ہوا، تمام یہودی پیغمبر پر پیچیدہ سوالوں کی بوچھار کررہے تھے، آپ ایک ایک کرکے ان جواب کا دیتے، یہاں تک کہ ایک روز عبد اللہ بن سلام پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں تنہا حاضر ہوا اور کہنے لگا“۔ میرے پاس تین سوال ہیں جن کا جواب پیغمبر کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا، کیا اجازت ہے کہ میں انھیں بیان کروں؟ “
عبد اللہ نے سوال کیا: ”مجھے بتایئے کہ قیامت کی پہلی علامت کیا ہے؟ جنت کی خاص غذا کیا ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ بیٹا کبھی باپ کے اور کبھی ماں کے مشابہ ہوتا ہے؟“
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”ابھی جبرئیل تمہارے جوابات خدا کی طرف سے لارہے ہیں اور میں تمہیں بتاوٴں گا“۔
جیسے ہی جبرئیل کا نام درمیان میں آیا عبد اللہ نے کہا: ”جبرئیل تو یہودیوں کا دشمن ہے کیونکہ اس نے متعدد مقامات پر ہم سے دشمنی کی ہے بخت نصر جبرئیل کی فوج کی وجہ سے ہم پر غالب ہوا اور شہر بیت المقدس میں آگ لگا دی ۔۔۔۔ وغیرہ“۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے جواب میں سورہٴ بقرہ کی ۹۷ویں آیت کی تلاوت فرمائی جس کا مطلب یہ ہے:
”جبرئیل جنھیں تم اپنا دشمن سمجھتے ہو وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتے اور انھوں نے قرآن کو خدا کے اذن سے قلب پیغمبر پر نازل کیا ہے وہ قرآن جو ان کتابوں سے مطابقت رکھتا ہے جن میں رسول خدا کی نشانیوں کا تذکرہ ہے، وہ ان کی تصدیق کرنے والا ہے، فرشتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں اگر کوئی ان میں سے کسی ایک سے دشمنی رکھتا ہے تو گویا وہ تمام فرشتوں، پیغمبروں اور خدا کا دشمن ہے کیونکہ فرشتے اور پیغمبر سب کے سب خدا کے فرمانبردار ہوتے ہیں۔[6]
اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبد اللہ کے جواب میں فرمایا:
”قیامت کی پہلی علامت دھوئیں سے بھری ہوئی آگ ہے جو لوگوں کو مشرق ومغرب کی طرف لے جائے گی اور جنت کی خاص غذا مچھلی کا جگر اور اس کا اضافی ٹکڑا ہے جو نہایت ہی اچھی اور لذیذ ترین غذا ہے، اور تیسرے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: ”انعقاد نطفہ کے وقت عورت یا مرد کے نطفہ میں جس کا نطفہ غلبہ پا جاتا ہے بچہ اسی کی شبیہ ہوتا ہے، اگر عورت کا نطفہ مرد کے نطفہ پر غالب آگیا تو بچہ ماں کی طرح ہو گا اور اگر مرد کا نطفہ عورت کے نطفہ پر غالب آگیا تو بچہ باپ کی طرح ہوگا“۔
عبد اللہ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان جوابوں کی تطبیق جب تورات اور انبیاء سابق کی خبروں سے کی تو یہ تمام جوابات صحیح ثابت ہوئے، جس کے نتیجہ میں اس نے فوراً اسلام قبول کر لیا اور اپنی زبان پر کلمہ شہادتین جاری کیا۔
اس وقت عبد اللہ بن سلام نے پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم سے عرض کیا: ”میں یہودیوں میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا ہوں اور بہت ہی پڑھے لکھے شخص کا بیٹا ہوں اگر انھیں میرے اسلام قبول کرنے کی خبر ہو گئی تو وہ مجھ کو جھٹلائیں گے، لہٰذا ابھی آپ میرے ایمان کو پنہاں رکھئے تاکہ آپ یہ معلوم کر سکیں کہ یہودی میرے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں“۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس فرصت کو غنیمت جان کر کہ عبد اللہ کا اسلام لانا مجادلہ اور آزاد بحث کے لئے خود ایک طرح کی دلیل بن سکتا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن سلام کو وہیں قریب میں پردے کی آڑ میں بٹھا دیا یہودیوں سے گفتگو کے دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”میں پیغمبر ہوں خدا کو حاضر ناظر جانو اور ہوا و ہوس کو ترک کرکے اسلام قبول کر لو“۔
جواب میں کہا گیا: ”دین اسلام کے صحیح ہونے کے بارے میں ہم بالکل بے اطلاع ہیں“۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: ”تمہارے درمیان عبد اللہ بن سلام کیسا شخص ہے ؟“
گروہ یہود: ”وہ ہمارا رہبر اور ہمارے رہبر کا بیٹا ہے وہ ہمارے درمیان ایک بہت ہی پڑھا لکھا شخص ہے“۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: ”وہ اگر مسلمان ہو جائے تو کیا تم لوگ اس بات پر تیار ہو کہ اس کا اتباع کرو؟“
گروہ یہود: ”وہ ہر گز مسلمان نہیں ہوگا“۔
رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے عبد اللہ کو آواز دی، عبد اللہ بن سلام پردے سے باہر لوگوں کے سامنے حاضر ہو کر کہنے لگا: ”اشھد ان لا الہ الااللہ وان محمد رسول الله“۔
اے گروہ یہود! خدا سے ڈرو اور اس کے پیغمبری پر ایمان لاو ٴجب تم جانتے ہو کہ وہ پیغمبر خدا ہے تو تم کیوں ایمان نہیں لاتے؟“
یہودیوں نے ابھی کچھ ہی دیر پہلے اس کی تعریف کی تھی مگر اب وہ اسے بد ترین شخص اور ذلیل آدمی کا بیٹا بتانے لگے۔
آپ کا یہ طرز استدلال نہایت عمدہ تھا جس کی وجہ سے وہ اپنا منہ چھپانے لگے لیکن در حقیقت وہ شکست کھا چکے تھے، عبد اللہ کے لئے اگر چہ اسلام اس زمانہ میں بہت دشوار ثابت ہوا لیکن وہ حقیقتاً اسلام لایا تھا، اسی لئے آنحضرت نے اس کا نام عبد اللہ رکھا تھا[7] اس کا ایمان قبول کرنا بعد میں اور دوسرے ایمان لانے والوں کے لئے ہی موٴثر ثابت ہوا، ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک یہودی دانشور جس کا نام ”مخَیرِق“ تھا وہ بھی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایمان لے آیا۔[8]
………………
حواله جات
[1] مدینے کے دوبڑے قبیلے جو اسلام کے بعد متحد ہوئے اور جنھیں انصار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
[2] آزاد بحث اگر چہ ایک اسلامی موضوع ہے جس کے ذریعہ حق آشکار ہوتا ہے لیکن یہودیوں نے چاہا کہ اس بحث کی آڑ میں اسلام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شخصیت کو مجروح کریں لیکن وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔
[3] سوره بقره آیت 88.
[4] عبد اللہ کانام ”حُصین “تھا، یہودی اس کا بڑا احترام کرتے تھے، اسلام لانے کے بعد آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم نے اس کا نام عبد اللہ رکھا دیا تھا۔
[5] اس سے پتہ چلتا ہے کہ عبد اللہ ضدی، سرکش، خود خواہ اور نفسانی خواہشات کا اسیر نہیں تھا بلکہ حق پسند و حق طلب تھا اسی وجہ سے وہ یقینی سعادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، حق طلبی کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان آزاد فکر اور ہر طرح کے تعصب سے دور ہو۔
[6] بعض مفسروں نے ان آیتوں کی شان نزول کے بارے میں کہا ہے کہ یہ عبد اللہ بن صوریا کے بارے میں نازل ہوئی ہیں لیکن اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ عبد اللہ بن سلام نے اس طرح کی بحث نہ کی ہوگی۔
[7] جیسا کہ ہم نے عرض کیا اس کا نام حُصین تھا۔
[8] ناسخ التواریخ ج۱، ص ۳۹، سیرة ابن ہشام ج۱، ص۵۱۶ اور احتجاج طبرسی ج۱۔