خطبہ شقشقیہ کی مختصر وضاحت؛ تاریخ اور اسناد کے زاویے سے

خطبہ شقشقیہ کی مختصر وضاحت؛ تاریخ اور اسناد کے زاویے سے

2025-01-04

8 بازدید

خطبہ شقشقیہ، نہج البلاغہ کے انتہائی معروف خطبات میں سے ایک ہے، جس میں حضرت علی (ع) نے اپنی جانشین رسول ہونے اور حالات کے حوالے سے انتہائی فصاحت و بلاغت سے حقائق کو بیان فرمایا ہے۔ اس خطبے میں آپ نے خلافت پر قبضہ جمانے والوں کے طرزِ عمل اور طریقہ کا، اقتدار کی حقیقت اور اپنی مظلومیت کو بیان کیا ہے اور بہت سارے نام نہاد اصحاب کے چہرے سے پردہ اٹھایا ہے۔

خطبہ شقشقیہ پر ایک نظر

خطبہ شقشقیہ[1] نہج البلاغہ کے اہم ترین خطبوں میں شمار ہوتا ہے، اس کا موضوع رسول اکرم (ص) کے بعد خلافت ہے اور اس سے متعلق اہم مسائل ہیں۔ خطبہ شقشقیہ میں خلفائے ثلاثہ اور حضرت علی (ع) کے زمانے سے متعلق تاریخ اسلام کا مکمل جائزہ پیش کیا گیا ہے، صاحبان علم و دانش کے لئے انتہائی دلچسپ اور گہرے مطالب، تجزیے اور تبصرے ہیں، جو مطالعے کے لائق ہیں۔

خطبہ شقشقیہ کا نام

خطبہ شقشقیہ کے نام کا انتخاب، اس خطبے کے آخری جملے سے کیا گیا ہے، ابھی خطبہ شقشقیہ مکمل نہیں ہوا تھا، گفتگو جاری تھی لیکن کسی نے امام (ع) سے سوال کیا، امام (ع) نے اپنی بات کو ترک کر دیا اور سائل کے سوال کا جواب دیا، جب جواب دے چکے تو ابن عباس نے خلیفہ اور وقت کے امام (ع) سے خطبے کو دوبارہ وہیں سے شروع کرنے کی درخواست کی، جہاں سے اُس کا سلسلہ ٹوٹا تھا، امام مظلوم نے (انسانی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے) فرمایا:

تِلْكَ شِقْشِقَةٌ هَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ – اردو زبان میں اس بات کو یوں کہتے ہیں ’’دل میں ایک آگ کا شعلہ بھڑکا اور پھر ٹھنڈا ہو گیا‘‘۔ سائل کے سوال نے جہاں امام (ع) کی توجہ ہٹائی، وہاں کیفیت اور احساس میں بھی تبدیلی آگئی۔

خطبہ شقشقیہ کا زمانہ

خطبہ شقشقیہ کے زمانے کے بارے میں نہج البلاغہ کی شرح کرنے والوں کے درمیان بحث و گفتگو ہے، بعض محققین جیسے محقق خوئی کی رائے ہے کہ خطبہ شقشقیہ کے موضوعات، اس کی اسناد اور اس کے راویوں کو پرکھنے سے اندازہ ہوتا ہے خطبہ شقشقیہ امیر المؤمنین (ع) کی اس جہان فانی کی زندگی کے آخری دنوں کی بات ہے، یعنی جب جنگ جمل، صفین، اور نہروان جو گروہ ناکثین، قاسطین اور مارقین سے لڑی گئیں[2] کا ماجرا انجام پا چکا تھا۔

خطبہ شقشقیہ کا مقام

نہج البلاغہ کی شرح لکھنے والوں نے، خطبہ شقشقیہ کی جگہ کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ امام المتقین (ع) کا خطبہ شقشقیہ مسجد کوفہ کی یادگار ہے۔

ابن عباس کی رائے یہ ہے کہ خطبہ شقشقیہ ’’رحبہ‘‘[3] میں تاریخ کا حصہ بنا ہے، یہ بات ہے اُس وقت کی کہ جب مسئلہ خلافت پر بات چھڑی اور امام علی (ع) کے قلب مبارک پر ایک بجلی سی کوند گئی اور آپ نے اپنے مخصوص انداز اور ظلم و زیادتی کے خلاف عدالت پسندانہ مزاج کے مطابق آسمان شرک والحاد کو ڈھا دینے والی شعلہ بیانی کا معجزانہ لب و لہجہ اختیار فرمایا اور پھر آپ کی لسان مبارک سے کلام جاودانہ سرچشمہ دانائی اور بینائی و بصیرت بن کے جاری ہوا جو خطبہ شقشقیہ کے نام سے نہج البلاغہ کی زینت ہے۔

خطبہ شقشقیہ کی سند

خطبہ شقشقیہ کی سند کے بارے میں بھی اختلافات موجود ہیں، بعض محققین کی رائے کے مطابق خطبہ شقشقیہ متواتر خطبوں (جو کثرت سے بیان کیے گئے ہوں) میں شمار کیا جاتا ہے، جبکہ بعض نے اس بات سے ہی انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ خطبہ شقشقیہ امام علی (ع) کا ہے ہی نہیں اور امام (ع) نے کبھی خلافت کے بارے میں کوئی شکایت نہیں کی، بلکہ یہ تو سید رضی نے خود سے ہی ایسا خطبہ بنا لیا ہے۔[4]

مشہور و معروف شارح نہج البلاغہ علامہ ابن میثم بحرانی کہتے ہیں، یہ دونوں دعوے غلط اور افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں؛ اس خطبے کی سند حد تواتر تک نہیں پہنچتی۔ اور دوسری طرف یہ دعوی کہ خطبہ شقشقیہ سید رضی کا بنایا ہوا ہے، یہ بھی حقیقت پر مبتنی نہیں ہے، حق یہ ہے کہ خطبہ شقشقیہ امام علی (ع) ہی کا خطبہ ہے۔

خطبہ شقشقیہ کی سند میں جو شکوک و شبہات گھڑے جارہے ہیں، وہ اس وجہ سے نہیں کہ اس میں کوئی ضعف اور فتور ہے یا نہج البلاغہ کے تمام دوسرے خطبات سے مختلف اور متضاد ہے، بلکہ اس کے برعکس اس خطبہ کی ایسی متعدد اسناد موجود ہیں کہ ایسی اسناد نہج البلاغہ کے بعض دوسرے خطبوں کی نہیں ملتیں۔ اس خطبہ کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والا واحد سبب یہ ہے کہ خطبہ شقشقیہ اور اس کے مندرجات بعض لوگوں کی ذہنیت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ خطبہ شقشقیہ کی اسناد میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

خطبہ شقشقیہ کی اسناد کی تفصیلات

۱۔ ابن جوزی لکھتے ہیں: یہ خطبہ امام (ع) نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں اس وقت دیا، جب آپ منبر پر رونق افروز تھے اور اس نے اٹھ کر یہ سوال کیا: مَا الَّذِي أَبْطَا بِكَ إِلَى الْآن[5] کسی سبب سے خلافت آپ کو ابھی تک نہیں ملی تھی؟

یہ بات خود اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ ابن جوزی کے پاس خطبہ شقشقیہ کسی اور وسیلے سے پہنچا تھا دوسرے یہ کہ اس شخص کا سوال نہج البلاغہ میں نہیں ہے۔ اس طرح یہ حتمی ہے کہ ابن جوزی نے یہ خطبہ کسی دوسرے ذریعے سے حاصل کیا ہے۔

۲- مشہور شارح نہج البلاغہ ابن میثم بحرانی کہتے ہیں، خطبہ شقشقیہ مجھے دو کتابوں میں ملا ہے جن کی تاریخ تألیف سید رضی کی پیدائش سے پہلے کی ہے، ان میں سے ایک کتاب "الانصاف‘‘ ہے، جسے کعبی کے شاگرد ’’ابو جعفر ابن قبہ‘‘ نے جو معتزلہ فرقے کی مشہور شخصیت تھے، تحریر کیا ہے اور ان کی وفات سید رضی کی ولادت سے پہلے ہوئی تھی۔

۳۔ دوسری کتاب جس میں مجھے خطبہ شقشقیہ ملا ہے، وہ ’’ابو الحسن علی بن محمد بن فرات“ ہے، جو ’’المقتدر باللہ‘‘ کے وزیر تھے، ان کا انتقال بھی سید رضی سے تقریبا ساٹھ ۶۰ سال پہلے ہوا تھا۔[6]

۴۔ ابن ابی الحدید مزید کہتے ہیں میرے استاد "واسطی‘‘ سن ۶۰۳ ھ میں اپنے استاد ’’ابن خشاب‘‘ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے میرے اس سوال کے جواب میں کہ آیا خطبہ شقشقیہ واقعی جناب امیر المؤمنین (ع) کا ہے؟ فرمایا:

میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ مجھے اس خطبے کے کلام علی (ع) ہونے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا اس بات کا کہ تم مصدق ابن شبیب واسطی ہو۔

میں نے بات جاری رکھی اور کہا: بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ سید رضی کا اپنا کلام ہے۔ انہوں نے جواب میں کہا سید رضی یا غیر سید رضی کہاں اور یہ بیان و اسلوب کہاں! ہم نے سید رضی کی تحریریں دیکھی ہیں اور ان کی نثرنگاری کے فن، طریقے اور روش کو اچھی طرح پہچانتے ہیں، جس کی خطبہ شقشقیہ سے کوئی شباہت نہیں۔ پھر مزید کہا میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نے یہ خطبہ ایسی کتابوں میں دیکھا ہے، جو سید رضی کے پیدا ہونے سے دو سو سال پہلے لکھی گئی تھیں۔

میں نے یہ خطبہ ایسے علما اور اہل ادب کی تحریروں میں دیکھا ہے جنہیں میں اچھی طرح جانتا ہوں اور بتا سکتا ہوں کہ کون سی تحریر کسی عالم کی لکھی ہوتی ہے اور یہ سب سید رضی کے والد کے پیدا ہونے سے بھی پہلے کی ہیں۔

اس کے بعد ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

میں نے خود خطبہ شقشقیہ استاد ’’ابوالقاسم بلخی‘‘ کی تحریر میں دیکھا ہے جو معتزلہ کے بزرگ علما میں سے تھے اور ’’المقتدر باللہ‘‘ کے ہم عصر تھے، جو سید رضی کی ولادت سے بہت پہلے انتقال کر چکے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے شاگرد ابن قبہ (جو متکلمین امامیہ میں سے تھے) کی کتاب ’’الانصاف‘‘ میں بھی دیکھا ہے یہ بھی سید رضی کے پیدا ہونے سے پہلے کے ہیں۔[7]

مرحوم علامہ امینی نے اپنی مشہور کتاب الغدیر میں اس خطبے کو نقل کرنے کے بعد ۲۸ کتابوں سے اس کا حوالہ دیا ہے۔[8]

خطبہ شقشقیہ کے مضامین

جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ یہ خطبہ ان تمام مسئلوں اور مشکلات پر مبنی ہے جو بعد رسالت مآب (ص) مسئلہ خلافت پر پیش آئیں۔ نیز ان مشکلات کا بھی بیان ہے جو پچھلے خلفاء کے دور میں پیش آئیں۔

بہت مختصر لیکن وسیع معنی اور مفہوم رکھنے والے جملوں کے ذریعے آپ نے ان کی تشریح کی ہے اور صراحت کے ساتھ اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ بعد رسول (ص) آپ ہی اس مقام کے لئے خلافت کے سب سے زیادہ حقدار تھے اور شدید رنج کا اظہار کرتے ہیں کہ کسی طرح خلافت اپنے اصل محور سے ہٹ گئی۔ خطبے کے اختتام پر لوگوں کی خود سے بیعت کی تفصیل بیان فرماتے ہیں اور ان مقاصد کا ذکر فرماتے ہیں جن کی بنا پر آپ نے خلافت قبول کی۔

خطبہ شقشقیہ کی خصوصیات

بالآخر ہم اس نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ خطبہ شقشقیہ نہج البلاغہ کے تمام خطبوں کے درمیان بے مثال خطبہ ہے۔ یہ بات اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ امام علی (ع) نے اس محلے کو خاص شرائط میں بیان فرمایا ہے تا کہ پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کے متعلق حقائق کو فراموش نہ کیا جا سکے اور تاریخ میں یہ چیزیں محفوظ رہیں۔ اس خطبے میں امام علی (ع) نے معمول سے زیادہ صراحت اور کھل کر بات کی ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے، چونکہ حقائق کو مختلف مصلحتوں کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور تعصب کے گرد و غبار میں گم نہیں ہونا چاہئے۔

خطبہ شقشقیہ کی وضاحت

امام علی (ع) نے مذکورہ خطبے میں درج ذیل چیزوں کے بارے میں وضاحت فرمائی ہے:

(1)۔ خلافت و حکومت کے لئے اپنی قابلیت اور اہلیت کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے، یہ وہی حقیقت ہے جس پر تقریباً تمام اسلامی اور غیر اسلامی دانشوروں اور محققین کا اتفاق ہے، یہاں تک کہ امیر شام جو امام علی (ع) کے بدترین دشمنوں میں سے تھا اور وہ اس بات کا اعتراف کرتا تھا۔[9]

(۲)۔ امام علی (ع) کی مظلومیت کا ذکر اس خطبے میں ہے۔ ان تمام مناقب و قابلیت کے باوجود آپ کا حق نہیں دیا گیا۔

(۳)۔ حضرت علی (ع) کا کلام واضح طور پر یہ اعلان کر رہا ہے کہ گزشتہ تمام خلفا کا انتخاب کسی دلیل، منبع اور مدرک کی بنیاد پر نہیں تھا، اس کے علاوہ ان کے انتخاب میں کئی معیار کارفرما تھے۔ پہلے مرحلے میں زور زبر دستی، دوسرے مرحلے میں ایک شخص کا انتخاب، تیسرے مرحلے میں چھے افراد کی شوری (کونسل) کے انتخاب کو معیار بنایا گیا۔

(۴)۔ گزشتہ خلفا کے دور میں لوگوں کا پیغمبر اکرم (ص) کی حقیقی تعلیمات سے دور ہونا اور زمانہ گزرنے کے ساتھ بحرانوں میں شدت آنا یہاں تک کہ مولا علی (ع) کی خلافت کے دور تک ایسی کٹھن صورت حال پیدا ہوگئی تھی کہ لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات کی طرف پلٹانا مشکل ہو گیا، اسی لئے یہ مقصد کامل طور پر حاصل نہ ہو سکا۔

(۵)۔ حضرت علی (ع) کی خلافت کے دور میں جو حالات پیدا کئے گئے اور جنگیں شروع ہو سکیں، ان تمام واقعات کی بنیاد دنیا پرستی، مال و مقام اور اقتدار کے ساتھ لگاؤ تھا، جو کہ کچھ افراد کے لئے فطرت ثانوی کے طور پر مضبوط ہو چکا تھا۔ خصوصاً خلیفہ سوم کی خلافت کے زمانے میں یہ مسئلہ ایک نئی شکل اختیار کر چکا تھا۔

(۶)۔ فطری اور طبیعی شکل میں مکمل بیعت صرف حضرت علی (ع) کی بیعت کی شکل میں نظر آئی لیکن منافقین کے ابھارنے کی وجہ سے اور معاشرے کے کچھ با اثر افراد کے مولا علی (ع) کی عدالت برداشت نہ کرنے کی بنا پر بعد میں بیعت توڑنے اور عہد شکنی کا سلسلہ شروع ہوا اور آپ کی مخالفت شروع کی گئی۔

(۷)۔ حضرت علی (ع) کا دنیا کے اقتدار اور خلافت ظاہری کے ساتھ کسی بھی طریقے سے لگاؤ نہیں تھا۔ کسی بھی وقت حکومت اور اقتدار کو ہدف کی نظر سے نہیں دیکھا، بلکہ ظالمین کے ظلم کو روکنے اور مظلومین کی حمایت کرنے، ظالموں کے ہاتھ مظلوموں کے گریبان سے الگ کرنے اور معاشرے میں نظم و ضبط و عدالت برقرار رکھنے کا وسیلہ سمجھتے تھے۔

(۸)۔ خلیفہ سوم کے دور میں جو بغاوتیں شروع ہوئیں اور بالآخر ان کے قتل تک جا پہنچیں، حضرت علی (ع) کی نظر میں فطری اور طبیعی تھیں، جو ان کے رفتار و کردار اور ان کے طرفداروں (بنی امیہ) کے کرتوتوں کا نتیجہ تھیں، کیونکہ بنی امیہ کے لوگ اہم اسلامی شہروں پر حاکم اور گورنر بن کر مسلط ہو گئے تھے، بیت المال ان کے اختیار میں آگیا بیت المال مسلمین سے اپنے لوگوں کو عجیب و غریب انداز میں عطا کرنا شروع کیا، لوگ ان کے طور طریقوں سے باخبر ہو گئے اور بغاوت کے بیچ دور دراز کے علاقوں میں کاشت کئے گئے، جیسا کہ مصر، بصرہ، کوفے میں بغاوت شروع ہو گئی۔

(۹)۔ حضرت علی (ع) کی خلافت کے دوران شروع ہونے والی تین جنگیں ان پر مسلط کردہ تھیں۔ ان میں سے کسی بھی جنگ کا آغاز حضرت علی (ع) کی طرف سے نہیں ہوا بلکہ وہ تمام جنگیں موقع پرست، اقتدار کے دلدادہ یا جاہل اور بے بصیرت افراد کی طرف سے شروع ہوئیں۔

(۱۰)۔ تنزیه صحابه (تمام صحابہ کو عادل اور پاک قرار دینے والی داستان) ایسی چیز ہے جو تاریخ کے حقائق میں سے کسی بھی واقعے کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ اس پر عقیدہ رکھنا تناقص اور کھلے تضاد کا باعث ہے، کیونکہ جنگ جمل کی آگ بھڑکانے والے (بڑے اصحاب) میں سے دو تھے اور جنگ صفین کو شعلہ ور کرنے والے بھی صحابہ تھے اور جنگ نہروان کے لشکر میں بھی کچھ صحابہ تھے۔

ان سب نے اپنے زمانے کے امام کے خلاف بغاوت کی، جنہیں تمام مسلمانوں نے حتی کہ انہی بغاوت کرنے والوں نے بیعت کر کے انتخاب کیا تھا اور انہوں نے اسلامی معاشرے میں شگاف ڈالا اور بغاوت و ظلم و زیادتی کے راستے پر چل پڑے۔ کس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی (ع) بھی راہ راست پر تھے اور طلحہ و زبیر اور امیر شام جیسے افراد بھی صراط مستقیم پر تھے؟!

ایسے موقعوں پر اجتہادی غلطی جیسی تأویلات کا سہارا لینا بالکل غیر منطقی اور غلط ہے۔ اگر ان جیسے قصداً انجام دئے گئے کاموں کے لئے اجتہاد کی تأویل ہوسکتی ہے تو پھر ہر گناہ کبیرہ کے لئے یہ دلیل پیش کی جاسکتی ہے۔

 

خاتمہ

خطبہ شقشقیہ میں حضرت علی (ع) نے واضح الفاظ میں اُن عوامل پر روشنی ڈالی جو خلافت اور حکومت کے امور کو متأثر کرتے ہیں۔ یہ خطبہ مظلومیت کی داستان کے ساتھ ساتھ ظلم کے مقابلے میں ثابت قدمی اور حق کی پاسداری کا عزم بھی بیان کرتا ہے۔ خطبہ شقشقیہ ہمیں عدل و انصاف اور حق کے لئے قربانی کے جذبے کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے، اور امام علی (ع) کی رہنمائی کو آج کے دور میں سمجھنے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔

 

حوالہ جات

[1]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ سوم۔

[2]۔ خوئی، منہاج البراعۃ (شرح نہج البلاغۃ)، ج۳، ص۳۲۔

[3]۔ رجب کے معنی وسیع جگہ کے ہیں ان کے نزدیک کوفے کے محلات میں سے کسی ایک کا نام ہے، بعض کے نزدیک کوفہ سے آٹھ فرسخ دور ایک آبادی کا نام ہے۔ (مجمع البحرین کو ملاحظہ فرمائیں)۔

[4]۔ ابن میثم، شرح نہج البلاغۃ، ج۱، ص۴۵۱۔

[5]۔ ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص۱۲۴۔

[6]۔ ابن میثم، شرح نہج البلاغۃ، ج۱، ۲۵۲۔

[7]۔ شرح ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۱، ص۲۰۵۔

[8]۔ امینی، الغدیر، ج۷، ص۸۲۔

[9]۔ یہ مطلب اس مشہور خط میں ذکر ہوا ہے جس کو امیر شام نے محمد ابن ابی بکر کے جواب میں مصر ارسال کیا تھا۔ اس خط کا ذکر بہت کی اسلامی کتابوں من جملہ مروج الذہب میں آیا ہے، امیر شام واضح طور پر یہ اعلان کرتا ہے کہ میں اور تمہارا باپ (خلیفہ اول) امام علی (ع) کی فضیلت اور ان کے اہل ہونے کے قائل ہیں اور ان کے حق کو اپنے اوپر لازم مانتے ہیں۔ لیکن جب پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت ہوگئی، سب سے پہلے ان کی مخالت کرنے والے اور ان کا حق غصب کرنے والوں میں تمہارا باپ اور اس کا رفیق (خلیفہ دوم) تھے؛ مسعودی، مروج الذهب، ج۳، ص۱۴؛

یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں واضح طور پر کہا ہے، و کَانَ الْمُهَاجِرُونَ وَالَّانُصَارُ لَا يَشْكُونَ في عَلِيّ – مہاجر و انصار علی کی افضلیت اور قابلیت کے بارے میں کسی قسم کے شک سے دوچار نہیں تھے۔ (یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۱۲۴)۔

 

منابع و مآخذ

۱۔ ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن هبۃ الله، شرح نہج البلاغۃ، بغداد عراق، دار الکتاب العربي، ۱۴۲۸ھ ۔ ۲۰۰۷ء۔

۲۔ ابن جوزی‌، یوسف‌ بن‌ قزاوغلی‌، تذکرة الخواص، قم ایران، الشریف الرضی، ۱۴۱۸ھ۔

۳۔ ابن میثم، میثم بن علی، شرح نہج البلاغۃ (ابن میثم)، تہران ایران، دفتر نشر الکتاب، ۱۴۰۴ھ۔

۴۔ امینی، عبدالحسین،اَلْغَدیر فِی الْکِتابِ وَ السُّنّة وَ الْاَدَب، تہران ایران، کتابخانه بزرگ اسلامی، ۱۳۶۸ش۔

۵۔ خوئي، حبيب الله بن محمد، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ (خوئی)، تہران ایران، مکتبة الاسلامية، ۱۴۰۰ھ۔

۶۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم ایران۔، هجرت، ۱۴۱۴ھ۔

۷۔ طریحی، فخرالدین بن محمد، مَجمعُ الْبَحْرَیْن و مَطلَعُ النَّیِّرَیْن، بیروت لبنان، دار و مکتبة الهلال، ۱۹۸۵ش۔

۸۔ مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، قم ایران، مؤسسة دار الهجرة، ۱۴۰۹ھ۔

۹۔ یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، نجف عراق، الحیدریة، ۱۳۶۴ھ۔

 

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):

مکارم شیرازی، ناصراور دیگر علماء اور دانشور، کلام امیر المؤمنین علی علیہ السلام (نہج البلاغہ کی جدید، جامع شرح اور تفسیر)، ترجمہ سید شہنشاہ حسین نقوی (زیر نگرانی)، لاہور، مصباح القرآن ٹرسٹ، ۲۰۱۶ء، ج۱، ص۲۷۱ تا ص۲۷۶۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے