نظریہ امامت کے مطابق نبی اکرم (ص) نے خلافت علوی (ع) کو واضح طور پر متعین فرمایا، لیکن تاریخی حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بعض صحابہ نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اگر خلافت علوی (ع) اتنی نمایاں اور غیر مبہم تھی، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امت نے اسے کیسے فراموش کردیا؟
اس شبہے کا تجزیہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن، حدیث اور تاریخ کی روشنی میں ان واقعات کا جائزہ لیا جائے جو خلافت علوی (ع) کے حق میں تھے لیکن بعض افراد کی مداخلت کی وجہ سے پس پردہ چلے گئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ نبی اکرم (ص) کی زندگی میں بھی ان کے بعض احکامات کو نظرانداز کیا گیا، لہٰذا خلافت علوی (ع) سے انحراف کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
خلافت علوی (ع) پر ایک اہم اعتراض
شیعہ عقیدہ کے مطابق، نبی اکرم (ص) نے اپنی حیات طیبہ میں ہی حضرت علی (ع) کو امام معصوم کے عنوان سے خلافت اور وصایت کے لئے منتخب فرما دیا تھا۔ اگر تاریخ میں ایسا واقعہ رونما ہوا تھا تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پوری امت کس طرح اس حقیقت کو فراموش کر سکتی ہے؟
یہ سوال درحقیقت ایک فکری مغالطہ پر مبنی ہے۔ سوال یوں ہونا چاہئے کہ کیسے ممکن ہے کہ نبی اکرم (ص) کے اصحاب جو دیانت دار، متقی اور پیغمبر (ص) کے مطیع تھے، انہوں نے خلافت علوی (ع) کے اعلان سے انکار کردیا؟ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ عادل تھے اور ان میں سے کسی کی بھی پیروی کی جا سکتی ہے۔ اس لئے وہ مانتے ہیں کہ نبی اکرم (ص) نے خلافت علوی (ع) کا کوئی اعلان نہیں فرمایا اور نہ ہی خلافت کا انکار ممکن تھا۔ لیکن تاریخی شواہد اور قرآنی آیات اس نظریے کی نفی کرتے ہیں۔
قرآن کی روشنی میں حقیقت
قرآن مجید میں ایسے متعدد مقامات ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ صحابہ میں ہر فرد عادل نہیں تھا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ”[1]
اور تمہارے گرد و پیش کے بدوؤں میں اور اہل مدینہ میں ایسے منافقین ہیں جو منافقت میں ماہر ہو چکے ہیں، تم انہیں نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں۔ ہم انہیں دو بار عذاب دیں گے، پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
یہ آیت اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ منافقین مدینہ میں موجود تھے اور سب صحابہ برابر نہیں تھے۔ خلافت علوی (ع) کی مخالفت کرنے والوں میں ایسے افراد بھی شامل تھے جو قرآن کی رو سے نفاق میں مبتلا تھے۔
تاریخی شواہد
اہل سنت کے ہاں صحابی کی تعریف یہ ہے کہ جس نے مسلمان ہونے کے بعد نبی اکرم (ص) کو ایک لمحے کے لئے بھی دیکھا ہو، وہ صحابی کہلائے گا۔ اس تعریف کے مطابق کئی منافقین اور بعد میں مرتد ہونے والے افراد بھی صحابہ کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں۔
جیسے کہ: طلیع اسدی اور مسیلمہ کذاب، جو بعد میں نبوت کے جھوٹے دعویدار بن گئے۔ عبداللہ بن ابی سرح، اشعث بن قیس اور شث بن ربعی، جن کے کردار پر تاریخ میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔[2] خلافت علوی (ع) کے مخالفین میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو زکوٰۃ دینے سے انکاری ہو گئے اور جاہلیت کی طرف پلٹ گئے۔
حدیث اور خلافت علوی (ع)
نبی اکرم (ص) نے فرمایا:
”إِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ فَمَنْ وَرَدَهُ شَرِبَ وَمَنْ شَرِبَ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا يَرِدُ عَلَيَّ نَاسٌ أَعْرِفُهُمْ وَيَعْرِفُونِي ثُمَّ يُحَالُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ”[3]
میں تم سے پہلے حوض کوثر پر پہنچوں گا، جو اس سے پئے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ میرے پاس کچھ لوگ آئیں گے، میں انہیں پہچانوں گا اور وہ مجھے پہچانیں گے، پھر انہیں مجھ سے دور کردیا جائے گا۔
یہ حدیث اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کچھ افراد بعد میں نبی اکرم (ص) کی تعلیمات سے منحرف ہو گئے، تو کیا خلافت علوی (ع) کا انکار کرنے والے ان میں شامل نہیں ہو سکتے؟
حدیث ثقلین اور خلافت علوی (ع)
نبی اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا:
”إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ، كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي، مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا أَبَدًا، وَلَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ”[4]
میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت (ع)، جب تک تم ان دونوں کو تھامے رکھو گے، کبھی گمراہ نہ ہوگے، اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچیں گے۔
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ دینِ اسلام کی بقا کے لئے قرآن اور اہل بیت (ع) کی پیروی لازم ہے، اور خلافت علوی (ع) اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اس تمام تر بحث سے واضح ہوتا ہے کہ: قرآن کی روشنی میں تمام صحابہ عادل نہیں تھے۔ بعض صحابہ نے دینِ اسلام کے بنیادی احکامات سے انحراف کیا، تو خلافت علوی (ع) سے انحراف کیسے ناممکن ہو سکتا ہے؟ حدیث ثقلین خلافت علوی (ع) کی حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔
تاریخ میں ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے ابتدا میں نبی اکرم (ص) کا ساتھ دیا، مگر بعد میں خلافت علوی (ع) کی مخالفت کی۔
اگر خلافت علوی (ع) کو پس پشت ڈال دیا گیا تو اس میں کچھ مخصوص افراد کی سیاست اور مفادات شامل تھے، نہ کہ امت کی مجموعی یادداشت کا قصور۔
یہی وجہ ہے کہ خلافت علوی (ع) کو دبانے کی سازش کی گئی، اور امت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن قرآنی آیات، احادیث اور تاریخی شواہد اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ص) نے خلافت علوی (ع) کو ہی اپنی حقیقی جانشینی قرار دیا تھا۔
درج ذیل حدیث نہایت غور طلب ہے: ” أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ، إِلَّا مَنْ أَحَبَّكَ حَفَّ بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَمَنْ أَبْغَضَكَ أَمَاتَهُ اللَّهُ مِيتَةَ الْجَاهِلِيَّةِ”
کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت حاصل ہو جو ہارون کو موسیٰ سے تھی؟ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ جو تم سے محبت کرے گا وہ امن اور ایمان میں رہے گا، اور جو تم سے بغض رکھے گا اللہ اسے جاہلیت کی موت مارے گا۔
یہ حدیثِ منزلت، خلافت علوی (ع) کے برحق ہونے کی واضح دلیل ہے۔ اسی طرح، حدیثِ مواخات، حدیثِ سد الابواب، اور حدیثِ نام گزاری حسن و حسین (ع) میں بھی امیرالمؤمنین علی (ع) کی فضیلت و خلافت علوی (ع) کی تصدیق ملتی ہے۔ نبی کریم (ص) نے امام حسن و حسین (ع) کے نام، حضرت ہارون (ع) کے فرزندان شَبَر اور شُبَیر کے مطابق رکھے۔
قرآن کریم سورۂ اعراف میں سامری کے فتنے کا ذکر کرتا ہے:
” قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ"[5]
(ہارون نے کہا) اے میرے ماں جائے! بےشک ان لوگوں نے مجھے کمزور پایا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کر دیتے، پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور مجھے ظالم قوم میں شامل نہ کر۔
یہی آیت حضرت علی (ع) نے قبر نبی (ص) کے قریب اُس وقت تلاوت کی، جب انہیں جبراً خلیفہ وقت کے سامنے بیعت کے لئے لے جایا جا رہا تھا۔ یہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ خلافت علوی (ع) کو ابتدا ہی سے دبانے کی کوشش کی گئی۔
یہ کوئی بعید از قیاس امر نہیں، تاریخ میں ایسے واقعات پہلے بھی رونما ہو چکے ہیں۔ حضرت موسیٰ (ع) کے ہزاروں اصحاب نے، بے شمار معجزات دیکھنے کے باوجود، سامری کی رہبری میں گوسالہ پرستی شروع کردی۔ پھر اگر کچھ صحابہ نے رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد خلافت علوی (ع) سے روگردانی کی تو تعجب کیسا؟
مخالفتوں کی چند مثالیں
١۔ اسامہ بن زید کی فوج میں شامل ہونے سے انکار
نبی کریم (ص) نے ابو بکر، عمر، عثمان، سعد بن عبادہ اور دیگر صحابہ کو حکم دیا کہ وہ اسامہ کی فوج میں شامل ہوں، مگر بعض صحابہ نے اس کی مخالفت کی، جن میں عمر و ابو بکر پیش پیش تھے۔ رسول اللہ (ص) نے اس مخالفت پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور ان پر لعنت بھیجی۔[6]
٢۔ نبی کریم (ص) کو وصیت لکھنے سے روکنا
یہ حادثہ "رزِیَۃُ یوم الخمیس” (جمعرات کی مصیبت) کے نام سے معروف ہے۔ بخاری و مسلم میں مذکور ہے کہ رسول اللہ (ص) نے قلم و کاغذ طلب فرمایا تاکہ ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد امت گمراہ نہ ہو، مگر عمر نے کہا: "إِنَّ الرَّجُلَ لَيَهْجُرُ"[7]
یہ شخص (نعوذباللہ) ہذیان کہہ رہا ہے۔
خود عمر نے ابن عباس سے کہا تھا: میں نے جان بوجھ کر نبی (ص) کو وصیت لکھنے سے روکا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ علی (ع) کی خلافت لکھیں گے۔ یہ واقعہ خلافت علوی (ع) کے ساتھ دشمنی کا بین ثبوت ہے۔
٣۔ نبی (ص) کی اجازت کے بغیر نماز پڑھانا
جب رسول اللہ (ص) شدید بیمار تھے، تو آپ (ص) نے فرمایا کہ میرے بھائی علی (ع) نماز پڑھائیں۔ لیکن عائشہ نے اپنے والد ابو بکر کو نماز کے لئے کھڑا کردیا۔ جب نبی (ص) کو معلوم ہوا تو خود مسجد تشریف لے گئے اور ابوبکر کو ہٹانے کا اشارہ کیا، پھر خود بیٹھ کر نماز پڑھائی[8] اور بعد ازاں دوبارہ خلافت علوی (ع) کا اعلان کیا۔
٤۔ صلح حدیبیہ کے وقت نافرمانی
جب صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا تو عمر نے مخالفت کی اور کہا: مجھے رسول اللہ (ص) کی نبوت میں شک ہوگیا تھا! اگر میرے ساتھی ہوتے تو میں لڑائی کرتا۔ جب نبی (ص) نے احرام کھولنے کا حکم دیا تو اکثر صحابہ نے نہ مانا۔ یہ رسول اللہ (ص) کی کھلی مخالفت تھی۔[9]
٥۔ روزہ افطار کرنے سے انکار
فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم (ص) نے روزہ افطار کیا اور سب کو افطار کا حکم دیا، مگر بعض صحابہ نے مخالفت کی، جس پر نبی (ص) نے فرمایا: "أُولَٰئِكَ العُصَاةُ” (یہ سب نافرمان ہیں)۔
بعد از وفات رسول (ص)
سید شرف الدین نے اپنی کتاب "النص والاجتہاد” میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد درج ذیل اقدامات خلافِ شرع کئے گئے:
١۔ احادیث نقل کرنے اور سکھانے پر پابندی لگانا۔
٢۔ حضرت فاطمہ (ع) کو فدک سے محروم کرنا اور آیتِ ارث کی مخالفت۔
٣۔ عترت اہل بیت (ع) کو خمس نہ دینا۔
٤۔ مؤلفۃ القلوب (نو مسلموں) کا حق زکوٰۃ ختم کرنا۔
٥۔ متعہ النساء اور حج تمتع کو حرام قرار دینا۔
٦۔ اذان و اقامت سے "حَیَّ عَلَیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ” کو نکالنا۔
٧۔ "الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ” کا اضافہ کرنا۔
٨۔ بدعتی نماز تراویح کا رواج دینا۔
یہ تمام اقدامات خلافت علوی (ع) کے حق میں واضح سازشیں تھیں۔ حق کے متلاشی ان واقعات سے سبق لے سکتے ہیں کہ خلافت علوی (ع) کو دبانے کے لئے کس قدر جبر و فریب کا سہارا لیا گیا۔ لیکن اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ حق کو غالب کرے گا، چاہے باطل کتنا ہی چراغ گل کرے۔
اگر اصحاب کی طرف سے پیغمبرِ اسلام (ص) کی مخالفت، چاہے آپ (ص) کی حیاتِ مبارکہ میں ہو یا بعد از وصال، ایک عام امر تھا تو پھر خلافت علوی (ع) کا انکار کیوں ناممکن سمجھا جائے؟ اس حقیقت کو نظام معتزلی، جو اہل سنت اور فرقہ معتزلہ کے ایک جید عالم تھے، نے بھی قبول کیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ص) نے حضرت علی (ع) کو اپنی خلافت و ولایت کے لئے نامزد کیا تھا، لیکن جناب ابوبکر اور عمر نے اس کی مخالفت کر کے خلافت پر قبضہ کر لیا۔ اس نظریے کی دیگر اہل سنت علماء نے بھی تائید کی ہے۔
اہل سنت کے مشہور متعصب عالم ذہبی نے نجرانی سے نقل کیا ہے کہ عمر نے "غدیر خم” کے موقع پر امام علی (ع) کی بیعت کر لی تھی، مگر نبی اکرم (ص) کی وفات کے بعد اپنی خواہشات اور حکومت کی محبت میں اس بیعت کو توڑ دیا۔
امام علی (ع) نے خلافت کے دوران ایک روز مسجدِ کوفہ میں لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: جو غدیر خم کے موقع پر موجود تھا اور میری وصایت و ولایت کے اعلان کو سنا تھا، وہ کھڑا ہو کر گواہی دے۔ اس موقع پر کئی صحابہ، جن میں ابو ایوب انصاری بھی شامل تھے، گواہی کے لئے کھڑے ہو گئے۔ لیکن کچھ افراد، جن میں انس بن مالک اور براء بن عازب شامل تھے، اپنی گواہی کو چھپانے لگے۔
اہل سنت کی روایات اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ بعض صحابہ شہادتوں کو چھپانے کے عادی تھے۔ جب یہ ایک عام روش تھی تو خلافت علوی (ع) کا انکار بعید کیوں سمجھا جائے؟
نبی اکرم (ص) کی ایک مشہور حدیث ہے جسے اہل سنت نے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے: "لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَن كَانَ قَبْلَكُمْ، شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَتَبِعْتُمُوهُمْ"[10]
تم اپنے سے پہلے امتوں کے طریقوں کی بالکل پیروی کرو گے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوں گے تو تم بھی ان کی پیروی کرو گے۔
قرآنِ کریم بھی اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے: "إِنَّ ٱلَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلْكِتَٰبِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُو۟لَٰٓئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِى بُطُونِهِمْ إِلَّا ٱلنَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ ٱللَّهُ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ"[11]
جو لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے تھوڑی قیمت لیتے ہیں، وہ درحقیقت اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں، قیامت کے دن اللہ ان سے بات نہیں کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
جب حضرت موسیٰ (ع) کے 80 ہزار پیروکار حضرت ہارون (ع) کی وصایت کو جھٹلا سکتے ہیں تو نبی اکرم (ص) کے وصال کے بعد خلافت علوی (ع) کے انکار کو ناممکن کیوں سمجھا جائے؟ نبی اکرم (ص) نے حضرت علی (ع) کو جناب ہارون (ع) سے تشبیہ دی، کیا یہ بلا سبب تھا؟
"أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَىٰ إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي"۔ تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لئے تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اہل سنت کی روایات کے مطابق نبی اکرم (ص) نے کم از کم چھ ماہ اور بعض روایات کے مطابق دو سال تک روزانہ صبح نماز کے وقت حضرت علی (ع) و حضرت زہراء (ع) کے دروازے پر جا کر فرمایا: "السلام علیکم یا أَهلَ البیتِ، الصَّلاةُ۔”[12]
پھر کیوں نبی اکرم (ص) کی رحلت کے بعد اسی گھر کی بے حرمتی کی گئی؟ کیوں کسی صحابی نے اس ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی؟
اسی طرح وضو، نماز اور اذان جیسے واضح امور میں بھی نبی اکرم (ص) کی وفات کے بعد اختلاف پیدا ہوگیا۔ کیا صحابہ نے نبی اکرم (ص) کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا؟ پھر کیوں ان میں طریقے بدل دیے گئے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ خلافت علوی (ع) کو بھی خواص نے اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا ہو؟
ابن ابی الحدید معتزلی نقل کرتے ہیں کہ ان کے استاد نے ان سے کہا: اگر نبی اکرم (ص) کا بیٹا زندہ رہتا اور وہ اسے اپنا وصی نامزد کرتے، تب بھی وہی لوگ جو منافقت کے باعث اسلام میں داخل ہوئے تھے اور نبی اکرم (ص) کے سامنے مجبوراً جھکے تھے، اس کے ساتھ امام علی (ع) سے بھی بدتر سلوک کرتے۔ کیونکہ عربوں نے رسول خدا (ص) سے انتقام لینے کے لئے خلافت علوی (ع) کو نشانہ بنایا۔
پس خلافت علوی (ع) کا انکار ہرگز ناممکن نہ تھا۔ جیسے دیگر واضح احکام میں نبی اکرم (ص) کی مخالفت کی گئی جن میں سے بعض مثالیں پیش کی گئیں، اسی طرح خلافت علوی (ع) کی حقیقت کا علم ہوتے ہوئے اس حق کو بھی حق دار سے چھین لیا گیا اور صحابہ کرام نہ فقط خاموش رہے بلکہ ایک لحاظ شریک جرم بھی تھے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حسد، کینہ اور قبائلی تعصب نے خلافت علوی (ع) کو پس پشت ڈالنے میں کافی اہم کردار ادا کیا۔ جب اتنی بڑی تبدیلیاں دین میں ممکن ہوئیں تو خلافت علوی (ع) کے انکار پر تعجب کیوں؟
خاتمہ
تاریخی شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ص) کی خلافت علوی (ع) کے بارے میں واضح تصریحات کے باوجود بعض افراد نے جان بوجھ کر اس حقیقت کو دبانے کی کوشش کی۔ قرآن کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام صحابہ یکساں عادل نہیں تھے، اور بعض نے دین میں تحریف کی کوشش کی۔ خلافت علوی (ع) سے انکار اسی منصوبہ بندی کا حصہ تھا، جس کے تحت نبی اکرم (ص) کے بعد ایک نیا رخ متعین کیا گیا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ پوری امت نے خلافت علوی (ع) کو بھلا دیا، درحقیقت ایک غیر معقول بات ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس اہم امر کو شعوری طور پر چھپایا گیا تاکہ خلافت علوی (ع) کی جگہ کسی اور نظام کو رائج کیا جا سکے۔
حوالہ جات
[1]۔ سورہ التوبۃ، آیت۱۰۱۔
[2]۔ رجوع کریں: طبری، تاریخ الطبری، ج3، ص146؛ ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج۱، ص۲۳۔
[3]۔ بخاری، صحیح بخاری، ج۱، ص۱۲۰۔
[4]۔ احمد بن حنبل، مسند ابن حنبل، حدیث۱۹۷۷۴۔
[5]۔ سورہ الاعراف، آیت۱۵۰۔
[6]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۱۵۹۔
[7]۔ شهرستانی، الملل و النحل، ص۲۳؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۱۰۹۔
[8]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۲، ص۴۰۔
[9]۔ احمد بن حنبل، مسند ابن حنبل، ج4، ص۳۲۸۔
[10]۔ احمد بن حنبل، . مسند احمد ابن حنبل، ج۲، ص۳۲۸۔
[11]۔ سورہ البقرہ، آیت۱۷۴۔
[12]۔ سیوطی، الدر المنثور، ج۵، ص۱۹۹۔
منابع و مآخذ
۱۔ قرآن مجید۔
۲۔ ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ہبت اللہ، شرح نہج البلاغہ، قاہرہ، دار احیاء الکتب العربیہ، ۱۹۵۹ء۔
۳۔ ابن اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، بیروت، دار الأضواء، ۱۹۹۱ء۔
۳۔ احمد بن حنبل، ابوعبدالله، المسند، قاهره، مؤسسه قرطبه، ۱۴۱۴ق۔
۴۔ بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، دار ابن کثیر، ۱۹۸۷ء۔
۵۔ سیوطی، جلالالدین عبد الرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، بیروت، دار الفکر، ۱۴۲۱ق۔
۶۔ شهرستانی، محمد بن عبد الکریم، الملل و النحل، بیروت، دار المعرفة، ۱۹۹۳ء۔
۷۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری (تاریخ الأمم والملوک)، بیروت، دار التراث، ۱۳۸۷ق۔
مضمون کا مأخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
داداشی، شعبان، امامت پراُٹھائے جانے والے شبہات کے جوابات، ترجمہ شعبہ علمی و تحقیقی ادارہ امید (نسخہ اردو توسط شبکہ الامامین الحسنین)۔