شیعہ صحابی اور حضرت علی (ع) کے ساتھ ان کا گہرا تعلق

شیعہ صحابی اور حضرت علی (ع) کے ساتھ ان کا گہرا تعلق

کپی کردن لینک

اصحاب پیغمبر اسلام (ص) میں سے کچھ ایسے بزرگ ہستیاں تھیں جو حضرت علی (ع) کی ولایت اور امامت کے قائل تھے۔ یہ اصحاب پیغمبر (ص)، جنہیں شیعۂ علی (ع) کے نام سے جانا جاتا تھا، رسول اللہ (ص) کے زمانے ہی سے حضرت علی (ع) کی افضلیت اور ان کی قیادت پر یقین رکھتے تھے۔ یہ شیعہ صحابی، رسول اللہ (ص) کے قریبی و ساتھی تھے اور نیز حضرت علی (ع) کے ساتھ گہری عقیدت اور محبت رکھتے تھے۔

شیعہ صحابی

جس نے سب سے پہلے پیروان امام علی (ع) کو شیعہ کہا وہ حضرت محمد مصطفی (ص) کی ذات گرامی تھی۔ رسول اکرم (ص) کے زمانہ میں آپ (ص) کے کچھ اصحاب، شیعیان علی (ع) کے نام سے مشہور تھے۔ محمد کرد علی خطط الشام میں لکھتا ہے:

اصحاب پیغمبر اسلام (ص) میں سے چند بزرگ، دوستداران علی (ع) کے نام سے معروف تھے؛ جیسے سلمان فارسی جو کہتے ہیں: ہم نے رسول خدا (ص) کے ہاتھوں پر بیعت کی تاکہ مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کریں اور علی (ع) کے دوستوں اور ان کی اقتدا کرنے والوں میں سے رہیں۔

ابوسعید خدری کہتے ہیں: ہم کو پانچ چیزوں کا حکم ہوا؛ لوگوں نے چار پر عمل کیا اور ایک کو چھوڑ دیا۔ پوچھا گیا وہ چار چیزیں کون سی ہیں؟ انہوں نے کہا: نماز، زکوٰة، روزۂ ماہ رمضان اور حج۔ پھر پوچھا گیا کہ وہ کیا ہے جس کو لوگوں نے ترک کردیا؟ تو انہوں نے کہا: وہ علی بن ابیطالب (ع) کی ولایت ہے۔ لوگوں نے کہا: کیا یہ بھی انہیں چار چیزوں کی طرح واجب ہے؟ کہا: ہاں، یہ بھی اسی طرح واجب ہے۔

ابوذر غفاری، عمار یاسر، حذیفۃ بن یمان، خزیمۃ بن ثابت ذوالشہادتین، ابو ایوب انصاری، خالد بن سعید قیس بن سعد وغیرہ شیعۂ علی (ع) کے عنوان سے جانے جاتے تھے۔[1]

افضیلیت امام علی (ع) کے قائلین

ابن ابی الحدید کا پہلے دور کے شیعوں کے بارے میں کہنا ہے: علی (ع) کی افضلیت کا قول پرانا قول ہے، اصحاب پیغمبر (ص) اور تابعین میں سے اکثر اس کے قائل تھے؛ جیسے: عمار، مقداد، ابوذر، سلمان، جابر، ابی بن کعب، حذیفہ، بریدہ، ابو ایوب، سہل بن حنیف، عثمان بن حنیف ابولہیثم بن تیھان، خزیمۃ بن ثابت، ابو الطفیل عامر بن واثلہ، عباس بن عبد المطلب اور تمام بنی ہاشم اور بنی مطلب، شروع میں زبیر بھی حضرت علی (ع) کے مقدم ہونے کے قائل تھے۔

بنی امیہ میں سے بھی کچھ افراد جیسے خالد بن سعید اور اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز بھی حضرت علی (ع) کی افضلیت کے قائل تھے۔[2]

بنی ہاشم كے مشہور شیعہ صحابی

سید علی خان شیرازی نے الدرجات الرفیعۃ فی طبقات الشیعۃ میں ایک حصہ شیعہ صحابیوں سے مخصوص کیا ہے، سب سے پہلے بنی ہاشم کا ذکر کیا ہے اس کے بعد تمام شیعہ صحابیوں کو پیش کیا ہے، پہلا حصہ جو بنی ہاشم سے مربوط شیعہ اصحاب پیغمبر (ص) سے ہے اس طرح ذکر کیا ہے:

  • ابوطالب
  • عباس بن عبدالمطلب
  • عبداللہ بن عباس
  • فضل بن عباس
  • عبیداللہ بن عباس
  • عبدالرحمن بن عباس
  • تمام بن عباس
  • عقیل بن ابی طالب
  • ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب
  • نوفل بن حارث بن عبدالمطلب
  • عبداللہ بن زبیر بن عبد المطلب
  • عبداللہ بن جعفر
  • عون بن جعفر
  • محمدبن جعفر
  • ربیعۃ بن حارث بن عبدالمطلب
  • طفیل بن حارث بن عبدالمطلب
  • مغیرہ بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب
  • عباس بن عتبۃ بن ابی لھب
  • عبدالمطلب بن ربیعۃ بن حارث بن عبدالمطلب
  • جعفر بن ابی سفیان بن حارث بن عبدالمطلب۔[3]

غیر بنی ہاشم كے مشہور شیعہ صحابی

سید علی خان نے دوسرے باب میں شیعیان بنی ہاشم کے علاوہ شیعہ صحابی کا اس طرح تذکرہ کیا ہے:

  • عمر بن ابی سلمہ
  • سلمان فارسی
  • مقداد بن اسود
  • ابوذر غفاری
  • عماربن یاسر
  • حذیفہ بن یمان
  • خزیمہ بن ثابت
  • ابو ایوب انصاری
  • ابوالہیثم مالک بن تیہان
  • ابی ابن کعب
  • سعد بن عبادہ
  • قیس بن سعد
  • سعد بن سعد بن عبادہ
  • ابو قتادہ انصاری
  • عدی بن حاتم عبادہ بن صامت
  • بلال بن رباح
  • ابوالحمرا
  • ابو رافع
  • ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص
  • عثمان بن حنیف
  • سہل بن حنیف
  • حکیم بن جبلہ العدوی
  • خالد بن سعید بن عاص
  • ولید بن جابربن طلیم الطائی
  • سعد بن مالک بن سنان
  • براء بن مالک انصاری
  • بُرَیدَة ابن حصیب اسلمی
  • کعب بن عمرو انصاری
  • رفاعہ بن رافع انصاری
  • مالک بن ربیعہ ساعدی
  • عقبہ بن عمربن ثعالبہ انصاری
  • ہند بن ابی ہالہ تمیمی
  • جعدہ بن ہبیرہ
  • ابو عمرہ انصاری
  • مسعود بن اوس
  • نضلہ بن عبید
  • ابو برزہ اسلمی
  • مرداس بن مالک اسلمی
  • مسور بن شدا دفہری
  • عبداللہ بن بدیل الخزاعی
  • حجر بن عدی کندی
  • عمر وبن الحمق خزاعی
  • اسامہ بن زید
  • ابو لیلیٰ انصاری
  • زید بن ارقم
  • براء بن عازب اوسی۔[4]

شیعہ صحابی کی تعداد مختلف کتب میں

مؤلف رجال البرقی، نے بھی شیعیان اور محبان علی (ع) جو اصحاب پیغمبر (ص) سے تھے، انہیں اپنی کتاب کے ایک حصہ میں اس طرح ذکرکیا ہے:

سلمان، مقداد، ابوذر، عمار، اور ان چار افراد کے بعد ابولیلیٰ، شبیر، ابو عمرة انصاری ابو سنان انصاری، اور ان چار افراد کے بعد جابر بن عبداللہ انصاری، ابو سعید انصاری جن کا نام سعد بن مالک خزرجی تھا، ابو ایوب انصاری خزرجی، ابی بن کعب انصاری ابوبرزہ اسلمی خزاعی جن کا نام نضلہ بن عبید اللہ تھا، زید بن ارقم انصاری بریدہ بن حصیب اسلمی، عبدالرحمن بن قیس جن کا لقب سفینہ راکب اسد تھا۔

عبداللہ بن سلام، عباس بن عبد المطلب، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن جعفر، مغیرہ بن نوفل بن حارث بن عبد المطلب، حذیفة الیمان جو انصار میں شمار کئے جاتے تھے، اسامہ بن زید، انس بن مالک ابو الحمراء، براء بن عازب انصاری اور عرفہ ازدی۔[5]

بعض شیعہ علماء رجال عقیدہ رکھتے ہیں کہ شیعہ صحابہ کی تعداد اس سے زیادہ تھی جیسا کہ شیخ مفید نے وہ تمام اصحاب پیغمبر (ص) جنہوں نے مدینہ میں حضرت کے ہاتھوں پر بیعت کی خصوصاً وہ اصحاب پیغمبر (ص) جو جنگوں میں حضرت کے ساتھ تھے انہیں شیعیان و معتقدین امامت حضرت علی (ع) میں سے جانا ہے جنگ جمل میں اصحاب پیغمبر (ص) میں سے پندرہ سو افراد حاضر تھے۔[6]

رجال کشی میں آیا ہے: شروع کے اصحاب جو حق کی طرف آئے اور حضرت علی (ع) کی امامت کے قائل ہوئے وہ یہ ہیں: ابو الہیثم بن تیہان، ابو ایوب، خزیمہ بن ثابت، جابر بن عبد اللہ، زید بن ارقم، ابو سعید، سہل بن حنیف، برا ء بن مالک، عثمان بن حنیف، عبادہ بن صامت، ان کے بعد قیس بن سعد، عدی بن حاتم، عمرو بن حمق، عمران بن حصین، بریدہ اسلمی، اور بہت سے دوسرے جن کو’ ‘بشر کثیرة’‘ سے تعبیر کیا ہے۔[7]

مرحوم میر داماد تعلیقہ رجال کشی میں بشر کثیر کی وضاحت و شرح میں کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے بہت سے بزرگان اور تابعین کے 54 افراد ہیں۔[8]

حضرت علی (ع) سے شیعہ صحابیوں کا تعلق

سید علی خان شیرازی نے کہا ہے کہ اصحاب پیغمبر (ص) کی بیشتر تعداد امیر المومنین (ع) کی امامت کی طرف واپس آگئی تھی کہ جس کا شمار کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اور اخبار نقل کرنے والوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اکثر صحابہ جنگوں میں حضرت علی (ع) کے ساتھ تھے۔[9]

محمد بن ابی بکر نے معاویہ کو خط لکھا کہ جس میں حضرت علی (ع) کی حقانیت کی طرف اشارہ اس بات سے کیا ہے کہ اکثر اصحاب پیغمبر (ص) حضرت علی (ع) کے ارد گرد جمع ہیں۔[10]

محمد بن ابی حذیفہ جو حضرت علی (ع) کے وفادار ساتھی تھے اور معاویہ کے ماموں کے بیٹے تھے، حضرت امام علی (ع) سے دوستی کی بنا پر مدتوں معاویہ کے زندان میں بسر کی اور آخر کار وہیں دنیا سے رخصت ہوگئے، معاویہ سے مخاطب ہو کر کہا:

جس روز سے میں تجھ کو پہچانتا ہوں چاہے وہ جاہلیت کا دور ہو یا اسلام کا تجھ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اسلام نام کی کوئی چیز تیرے اندر نہیں پائی جاتی، اس کی علامت یہ ہے کہ تو مجھے علی (ع) سے محبت کی بنا پر ملامت کرتا ہے حالانکہ تمام زاہد و عابد، مہاجر و انصار علی (ع) کے ساتھ ہیں اور تیرے ساتھ آزاد کردہ غلام اور منافقین ہیں۔[11]

البتہ جو لوگ امیر المومنین (ع) کی فوج میں تھے ان سب کا شمار آپ کے شیعوں میں نہیں ہوتا تھا لیکن چونکہ آپ قانونی خلیفہ تھے اس لئے آپ کا ساتھ دیتے تھے۔

اگرچہ یہ بات تمام لوگوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے سوائے ان صحابیوں کے جو علی (ع) کے ساتھ تھے اس لئے کہ وہ اصحاب پیغمبر (ص) جو حضرت امیر (ع) کے ساتھ تھے کہ جن سے وہ اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لئے مدد لیتے تھے ان کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے۔

جیسا کہ سلیم ابن قیس نقل کرتا ہے: امیر المومنین (ع) صفین میں منبر پر تشریف لے گئے اور مہاجر و انصار کے سبھی افراد جو لشکر میں تھے منبر کے نیچے جمع ہوگئے۔ حضرت نے اللہ کی حمد و ثناء کی اور اس کے بعد فرمایا: اے لوگو! میرے فضائل و مناقب بے شمار ہیں میں صرف اس پر اکتفا کرتا ہوں کہ جب رسول خدا (ص) سے اس آیت کے بارے میں ”السابقون السابقون اولئک المقربون” پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

خدا نے اس آیت کو انبیاء و اوصیاء کی شان میں نازل کیا ہے اور میں تمام انبیاء و پیغمبروں سے افضل ہوں اور میرا وصی علی ابن ابی طالب (ع) تمام اوصیاء سے افضل ہے اس موقع پر بدر کے ستّر اصحاب پیغمبر (ص) جن میں اکثر انصار تھے کھڑے ہو گئے اور گواہی دی کہ رسول (ص) خدا سے ہم نے ایساہی سنا ہے۔[12]

 

خاتمہ

اصحاب پیغمبر اسلام (ص) میں سے بہت سے افراد حضرت علی (ع) کی ولایت اور امامت کے حامی تھے۔ یہ اصحاب، جنہیں شیعۂ علی (ع) کہا جاتا تھا، ہمیشہ حق کی حمایت کی اور حضرت علی (ع) کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیا۔ شیعہ صحابیوں کی تعداد اور ان کی عقیدت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علی (ع) کی امامت کا معاملہ صرف ایک گروہ کا نہیں بلکہ بہت سے اصحاب پیغمبر (ص) کا مشترکہ عقیدہ تھا۔

حوالہ جات
[1]۔ محمد کرد، خطط الشام، ج٦، ص٢٤٥۔
[2]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج٢٠، ص٢٢١-٢٢٢۔
[3]۔ خان شیرازی، الدرجات الرفیعة فی طبقات الشیعة، ص١٤١۔١٩٥۔
[4]۔ خان شیرازی، الدرجات الرفیعة فی طبقات الشیعة، ص١٩٧-٤٥٥۔
[5]۔ خالد برقی، رجال البرقی، ص٢٩-٣١۔
[6]۔ شیخ مفید، الجمل، ص١٠٩۔١١٠۔
[7]۔ شیخ طوسی، اختیار معرفة الرجال (رجال کشی)، ج١، ص١٨١۔١٨٨۔
[8]۔ شیخ طوسی، اختیار معرفة الرجال (رجال کشی)، ج١، ص١٨٨۔
[9]۔ امین، اعیان الشیعہ، ج٢، ص٢٤۔
[10]۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج٢، ص٣٩٥۔
[11]۔ شیخ طوسی، اختیار معرفة الرجال، ص٢٧٨۔
[12]۔ هلالی، اسرار آل محمد (ع)، ترجمہ اسماعیل انصارى زنجانى خوئينى، ص١٨٦؛ طبرسی، الاحتجاج، ج١ ص٤٧٢۔

 

كتابیات

  • ابن ابی الحدید، ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغۃ، بیروت لبنان، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۰ق۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت لبنان، دارالتعارف للمطبوعات، ۱۳۹۲ق۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت لبنان، منشورات مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۴ق۔
  • خالد برقی، احمد بن محمد، رجال البرقی، بیروت لبنان، مؤسسۃ قیوم، ۱۴۰۵ق۔
  • خان شیرازی، سید علی ، الدرجات الرفیعۃ فی طبقات الشیعة، بیروت لبنان، مؤسسة الوفا، ۱۴۰۲ق۔
  • شیخ طوسی، ابی جعفر، اختیار معرفة الرجال (رجال کشی)، قم ایران، مؤسسۃ آل البیت التراث، ۱۴۰۴ق۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الجمل، قم ایران، مکتب الاعلام الاسلامی، مرکز النشر، ۱۴۱۰ق۔
  • طبرسی، ابی منصور احمد ابن علی ابن ابی طالب، الاحتجاج، قم ایران، انتشارات اسوہ، ۱۴۰۳ق۔
  • علی، محمد کرد، خطط الشام، دمشق سوریۃ، مکتبة النوری، ۱۴۰۳ق۔
  • هلالی، سلیم بن قیس، اسرار آل محمد (ع)، ترجمہ اسماعیل انصاری زنجانی خوئینی، قم ایران، الهادی، ۱۴۰۰ق۔

 

مضمون کا مأخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
محرّمی، غلام حسن، تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک، ترجمہ سید نسیم رضا آصف، قم، مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ١٤٢٩ھ۔ ٢٠٠٨ء۔ (نسخہ اردو توسط شبکہ الامامین الحسنین)۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے